دوست کا فون آیا
سنو !مشورہ درکار ہے۔۔آج مجھے اپنی ایک عدت پوری کرنے والی دوست سے ملنے جانا ہے۔۔کیا تحفہ لے کر جاؤں۔۔
میری رگ شرارت پھڑکی اور میں نے کہا ۔۔۔
کوئی برینڈڈ جوڑا لے جاؤ۔۔ مٹھائ کا ڈبہ لے جاؤ۔۔۔یا پھر تہذیب بیکری کا کیک بھی چلے گا۔۔
کہنے لگی تم مذاق تو نہیں کر رہی ۔۔
میں نے کہا یہ کیسی رسمیں ہیں جنہیں تم پوجتی رہتی ہوئی سب مذاق ہی تو ہیں۔۔
نری پگلی ہو تم تو۔۔۔۔ ہمارے ہاں یہ رسم ہے ۔کہ عدت کے بعد کسی خاتون کو ملنے جائیں تو تحفہ لے کر جاتے ہیں ہم دوتین سہلیاں اکٹھی جا رہی ہیں سب تحفے لے کر جا رہی ہیں۔
“اور پھر ایک دوست سے ٹیلی فونک گفتگو نے تو بہت ہی متاثر کیا “۔۔
کہنے لگی ۔۔۔گردوپیش اموات کا سن سن کر بہت مایوسی ہونے لگی ہے۔۔الماری سے دوتین سوٹ سلوانے کے لیئے نکالے تھے ۔۔مگر اب دوبارہ رکھ دیئے ہیں ۔چھوڑو بھئی نہ جانے کب مر جائیں سب چیزیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔۔
میں نے کہا پیاری دوست وہ سب نئے سوٹ مجھے دے دو۔کہنے لگی تم کیا کرو گی۔۔۔
میں نے کہا میں سلوا کر پہنوں گی۔۔
تمہیں ذرا خوف نہیں آتا موت کی للکار سنائی نہیں دے رہی۔۔
سنائی دے رہی ہے تبھی تو جلدی میں ہوں۔۔مہلت سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔۔۔۔
نہ ہم مہلت دینے کے مجاز نہ مہلت لینے کے مختار
نہ ملکیت کا دعوی نہ ترک دنیا کی مجال۔۔۔
تم نیا سوٹ پہن کر جاؤ گی کہاں؟دوست نے سوال پوچھا۔
تمہارے سینے پر مونگ دلنے تمہارے ہاتھ کی چائے پینے تمہارے ہی گھر پہن کر آؤں گی۔۔
کچھ توقف کے بعد میں نے کہا۔۔۔۔۔
تو پھر آؤں لینے۔۔۔
نہ بھئی نہ۔۔۔۔اتنی محبت سے خریدے سوٹ تمہیں کیوں دوں۔۔یہی کام میں کیوں نہ کروں
کونسا؟
تمہارے سینے پر مونگ دلنے کا۔۔۔اور تمہارے ہاتھ کی چائے پینے کا
“ایک بار پھر فون اٹھایا تو ایک مضطرب سہیلی اکھڑے اکھڑے لہجے میں مخاطب تھی”
آج کا اخبار پڑھا
کیا ہوا؟
آسٹریلیا میں آسٹر از ینیکا ویکسین لگوانے سے ایک شخص کاخون منجمد ہو گیا اور اس کی موت واقعی ہو گئی۔۔
کیا تم ویکسینیشن لگوا رہی ہو۔۔
ہاں
بڑی ڈھیٹ واقعی ہوئی ہو۔
آگے کھڈا پیچھے کھائی۔۔۔ارے بھئی ڈر کر پیچھے بھاگنے کی سزا کھائ۔۔۔اور اگر ہمت کرکے چھلانگ لگانے کی کوشش کریں گے تو شاید کھڈا پھلانگ جائیں۔
تم کھڈے پھلانگتی پھر و۔۔۔میں تو نہیں لگوا رہی۔۔میرا خود کشی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔
“اب کی بار فون ذرا تاخیر سے اٹھایا” تو میری ایک دوست مجھے ڈانٹنے کے انداز میں مخاطب ہوئی
کتنی دیر سے بیل کر رہی ہوں فون کیوں نہیں اٹھاتی ۔۔۔
میں دوسرے فون پر بات کر رہی تھی۔۔
دوسرے فون کا نمبر بھی گھمایا تھا۔۔
ہاں مگر میں ۔۔۔تیسرے فون پر بات کر رہی تھی۔۔
کیا بات ہے تمہاری ۔۔۔۔خیر چھوڑو ۔۔۔۔دیکھو اسلام آباد کا موسم کتنا اچھا ہو گیا ہے۔اپریل کا مہینہ دوبارہ کمبل اور شال نکالنے پڑے۔۔
میں نے بھی جوابا کہا۔۔
بہت لطف آ رہا ہے میں صبح سحری کے فورا بعد گیٹ سے باہر چمبیلی کے پھول چننے گئی تو دھلی ہوئی سڑک پر دھیمی دھیمی روشنی۔۔گلی میں کوئ ذی روح نہ تھا۔ یہ آذان سے ذرا پہلے کا وقت تھا۔۔
میں تازہ خوشبودار ہوا میں لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے گرم شال میں لپٹی کلیاں چن رہی تھی ۔۔کہ چوکیدار مجھے دیکھ کر سیٹیاں بجانے لگا۔۔
واہ رے اس عمر میں بھی تمہیں دیکھ کر کوئ سیٹیاں بجاتا ہے۔۔۔
بڑی خوش قسمت ہو
ہاں بھئ !اس خوش قسمتی کے لیئے بڑی سی چادر کی بکل مار کر سحر خیزی بہت ضروری ہے۔۔
“اب کی بار فون ذرا دور سے تھا”
ایک دوست جو ڈاکٹر ہے۔۔
ذرا سنو مجھ پر کیا گزری !
رمضان سے ایک دن پہلے میں چار بجے ہسپتال سے گھر کے لیئے نکلی ۔۔مجھے معلوم نہ تھا کہ یا لبیک والوں کا جلوس ہے۔۔۔میرا گھر ہسپتال سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔۔میں نے کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ جلوس میں پھنس گئی۔۔میرے آگے جلوس تھا پیچھے گاڑیوں کی لمبی لائن۔۔۔۔جلوس والوں کے ہاتھ میں ڈنڈے بھی تھے اور اسلحہ بھی تھا۔۔اور وہ بڑی بے دردی سے گاڑیوں کے شیشے توڑ رہے تھے۔۔
میرے پاس کوئ راستہ نہیں تھا۔۔گاڑی بند کرکے بیٹھ گئی۔۔۔تمہیں تو معلوم ہی ہے میں گھٹنوں کے درد کی وجہ سے زیادہ پیدل نہیں چل سکتی۔۔
میرے بیٹے نے خبریں سن کر رابطہ کیا تو وہ اپنے گھر سے پیدل چل کر میرے پاس پہنچ گیا۔۔اور مجھے کہا کہ آپ پیدل گھر چلی جائیں میں گاڑی میں بیٹھ جاتا ہوں۔۔
کئی گھنٹے بیٹھ کر مجھے باتھ روم کی بھی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔۔مگر مجھے اپنے بچے کی حفاظت کا خیال اپنے سے بھی زیادہ تھا۔
اتنی دیر میں کچھ لڑکے ہلڑ بازی کرتے ہوئے ہمارے پاس آگئےقمیضیں اتار کر نعرے لگانے لگے ۔۔میں تو واقعی ڈر گئی۔۔میرے بچے نے مجھے کہا اماں تم جاؤ ۔۔۔میں گاڑی میں بیٹھتا ہوں یہ مجمع اتنی جلدی منتشر ہونے والا نہیں۔۔۔مرتی کیا نہ کرتی گاڑی سے اتری۔۔بے ہنگم جلوس کے درمیان سےاپنے گھٹنے اور پرس بچاتی انتہائ مشکل سے لنگڑا لنگڑا کر گھر کی طرف پیدل چلنے لگی۔۔
میں ہسپتال سے چاربجے نکلی تھی اور بارہ بجے پیدل چلتی ہوئ گھر پہنچی۔۔میرے پاؤں سوج گئے۔۔باتھ روم کی حاجت سے طبیعت خراب ہونے لگی۔گھر پہنچی تو طبیعت متلا رہی تھی۔۔
ان حالات میں مجھے معلوم ہوا آکسیجن کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے کئ مریض تڑپ تڑپ کر مر گئے۔۔
اور میرا بیٹا صبح چار بجے گھر پہنچا۔جس کے لیئے میں الگ پریشان تھی۔۔کیونکہ اس سے ٹیلی فونک رابطہ بھی فون کی چارجنگ نہ ہونے کے باعث ختم ہو گیا تھا۔۔کچھ نہ پوچھو کیا قیامت گزری۔۔۔اس ٹیلیفونک گفتگو میں اس پر گزری ہر تکلیف کو میں بھی اپنی جان پر محسوس کرتی رہی۔
بالآخر
ہم دونوں نے ہی “یا لبیک “کا نعرہ لگایا ۔۔اپنے بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کیا اور فون بند کر دیا۔۔