رؤف کلاسرانامورصحافی،کالم نگار،ٹی وی اینکر،مترجم اور کامیاب مصنف بھی ہیں۔انہوں نے صحافت کی دنیامیں قدم رکھا،توتحقیقی صحافت میں بڑانام اورمقام بنایا۔انہوں نے جن اسکینڈلزکاانکشاف کیا،سپریم کورٹ نے ان کانوٹس لیااورحکومتی ایوانوں میں بھی ان کی بازگشت سنائی دی۔کالم نگاری شروع کی توان کے کالم”آخرکیوں“نے دھوم مچادی۔تحقیقی صحافت اورانٹرویوزمیں نئی جہت کاآغازکیا۔تراجم شروع کیے تودنیاکے بہترین ادیبوں کے شاہکارانتہائی خوبصورتی سے اردومیں اس طرح منتقل کیے کہ باذوق قارئین ان کے تراجم کاانتظارکرتے ہیں۔جس کے لیے رؤف کلاسراکوپاکستان کے بہترین پبلشربک کارنرجہلم کاساتھ بھی میسرآگیا۔جن کی بہترین طباعت،کتابت اور پرنٹنگ نے رؤف کلاسرا کی کتابوں کوچارچاند لگادیے۔بک کارنرجہلم سے رؤف کلاسرا کاایک نیاروپ قارئین کے سامنے آیا۔جب انہوں نے ”گمنام گاؤں کاآخری مزار“جیسی منفرد اوردل میں اترنے والے سچے واقعات پرمبنی کتاب لکھی کتاب کادوسرا ایڈیشن پبلشر کو تین ماہ میں ہی شائع کرناپڑا۔سچے اوردل کوچھولینے والے واقعات پرمبنی ان کی دوسری کتاب”شاہ جمال کامجاور“حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔اس کتاب نے بھی مقبولیت کے ریکارڈقائم کیے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی کتب ایک اوراچھے پبلشردوست سے شائع ہوئی تھیں۔
رؤف کلاسرانے اپناسفرایک دوردرازبستی جیسل کلاسراکے ٹاٹ اسکول سے کیا۔لیہ کالج سے انگریزی لٹریچرمیں بیچلرڈگری حاصل کی۔بہاؤ الدین یونیورسٹی ملتان سے ایم اے انگریزی کی سندلی۔گولڈاسمتھ کالج،لندن سے پولیٹیکل کمیونیکیشن میں ماسٹرزکیا۔1993ء میں صحافتی سفر”دی فرنٹیئرپوسٹ“ ملتان سے اپرنٹس رپورٹرکے طور پرشروع کیا۔پاکستان کے بڑے اخبارات ڈان،دی نیوز،ایکسپریس ٹریبیون میں بطور رپورٹرپندرہ برس کام کرتے رہے۔اس دوران انہیں اے پی این ایس نے مسلسل تین سال بہترین رپورٹرکاایوارڈ دیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کے منظرعام پرلائے پانچ اسکینڈلزپرازخود نوٹس لیے اورذمے داروں کے خلاف کارروائی بھی کی۔پرنٹ کے بعد الیکٹرونک میڈیاکارُخ کیااورجیو،اے آروائی اورایکسپریس نیوزمیں کام کرتے رہے۔92نیوزچینل میں عامرمتین کے ساتھ پروگرام ”مقابل“شروع کیاجوبہت مقبول ہوا۔مختلف چینلزسے ہوتے اب ان کایہ پروگرام ”مدمقابل“ کے نام سے جی ٹی وی پرپیش کیاجارہاہے۔روزنامہ جنگ میں 2007ء سے کالم نگاری شروع کی۔2011ء سے ان کاکالم روزنامہ دنیامیں شائع ہورہاہے۔جرنلزم میں ان کے کریڈٹ پرسینکڑوں ایکسکلوسیوخبریں،اسکینڈلز اورسکوپ ہیں جوانہوں نے بریک کیے۔تخلیقی سفرمیں پانچ کتابوں کے مصنف اورتین کے مترجم ہیں۔
رؤف کلاسراکے کالم”آخرکیوں“کاانتخاب اسی نام سے شائع ہوکربے پناہ مقبول ہوچکاہے۔جس کے کئی ایڈیشنزشائع ہوئے۔مصنف کو اپنے مزیدکالموں کاانتخاب بھی شائع کرنے چاہیے،کیونکہ ان کے بیشترکالم مستقل اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔سیاست دانوں کے انٹرویو ایک منفردانداز میں ”ایک سیاست کئی کہانیاں“ کے نام سے شائع ہوکرمقبول ہوچکے ہیں۔جس کے دوسرے حصے کی اشاعت کاوعدہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔سیاست کے متعلق رؤف کلاسراکی اورایک اوربہترین کتاب”ایک قتل جونہ ہوسکا“ہے۔جس کی متعلقہ لوگوں نے آج تک تردید نہیں کی۔سچے اوردل گدازواقعات پرمبنی”گمنام گاؤں کاآخری مزار“ کے بعداب ”شاہ جمال کامجاور“ منصہ شہود پرآچکاہے۔ تراجم میں انہوں نے ماریوپوزوکے مشہورعالم ناول ”گاڈفادر“ کابہترین ترجمہ کیا۔پھرمشہورفرانسیسی ادیب بالزاک کی دوکتب”تاریک راہوں کے مسافر“ اور”سنہری آنکھوں والی لڑکی“ کے بھی تراجم کیے۔جن کے دوسرے ایڈیشن بھی شائع ہوئے۔محترمہ قیصرہ شفقت کی اطلاع کے مطابق رؤف کلاسرا”امیرخسرو“ پرکتاب لکھ رہے ہیں۔گویاتاریخ کی عظیم شخصیت پرمنفردکتاب منظرعام پرآنے والی ہے۔
”شاہ جمال کامجاور“ کاذیلی عنوان ”وہ تحریریں جوکبھی بوڑھی نہیں ہوتیں“ دیاگیاہے۔اوریہ بالکل درست ہے۔”پیش لفظ“ میں رؤف کلاسرالکھتے ہیں۔”مجھے خود نہیں پتہ میں اداس لوگوں کی کہانیاں اورقصے کیوں لکھتاہوں۔شایدمیرے اندرصدیوں پرانی نامعلوم اداس روح قیدہے جوکئی زمانوں کاسفرکرتے کرتے یہاں تک پہنچی ہے۔کسی پرانے جنم کی ایسی بھٹکتی روح قیدہے جوہردکھی انسان کودیکھ کربے چین ہوجاتی ہے اورمجھے مجبورکردیتی ہے کہ میں اس کے دکھوں اورغم کوکاغذ پرتاردوں۔مجھے یادہے جب اماں نے اپنی بہنوں کے ساتھ گاؤ ں سے شہرجاتاہوتاتھاتووہ اپنے بچوں سے مجھے کہہ کرجاتی تھیں کہ تم گھرکاخیال رکھنا۔انہیں پتہ تھاکہ میں گھرپرہی رہوں گا۔وہ شام کو واپس آتیں تومیں برآمدے میں اسی چارپائی پررسالے پڑھ رہاہوتااورمیرے ساتھ رکھے ٹیپ ریکارڈپرپرانے گانے چل رہے ہوتے۔ آپ کوپڑھنے کی عادت بچپن سے ہی پڑتی ہے۔بچوں کی کہانیاں اوررسالے ہی آپ کوریڈربناتے ہیں۔بچپن سے ہی ہم سب شاہ جمال درباراوروہاں موجودایک مجاورکودیکھتے دیکھتے بڑے ہوئے۔اس بستی کے قریب بزرگوں کے دوہی دربارتھے۔ایک شاہ جمال اور دوسرامالدے شہید کادربار۔دونوں کی الگ الگ کہانیاں،الگ الگ کرامات کے قصے۔ان بزرگوں کاسایہ دریائے سندھ اورتھل صحراکے درمیان واقع چھوٹے سے گاؤں کے مکینوں کے لیے بہت اہمیت کاحامل تھا۔اس گاؤں کے باسیوں کی خوشی اورغم ان بزرگوں کے دربار سے جڑے ہوئے تھے۔ان دونوں درباروں کے ساتھ کئی کہانیاں جُڑی ہوئی تھیں۔کئی دھاگے،کئی امیدیں،منتیں ترلے،ناکام عاشقوں کی محبتوں کے سلسلے بندھے ہوئے تھے۔شاہ جمال دربارکے اس مجاورکی یہ کہانی سچی ہے۔اس کہانی کامیں خود عینی شاہد ہوں۔یہ کہانی ہمیشہ سے میرے ذہن میں تھی۔اب برسوں بعدجب میں نے بزرگ شاہ جمال کے مجاورپرلکھنے کافیصلہ کیاتومیراخیال تھاوہ بہت بوڑھا یاپھر شایدوفات پاچکاہوگا۔لیکن پتہ چلاوہ بوڑھا مجاورابھی بھی اپنی کہانی سنانے کے لیے زندہ تھا۔میرااس مجاور سے برسوں بعد رابطہ ہوااورمیں نے اس کی زبانی پوری کہانی سنی۔ایک ایساکردارجسے بزرگ شاہ جمال نے اس کے خواب میں آکرخود اپنامجاورمقررکیاتھا۔برسوں تک سب ٹھیک چلتارہا لیکن پھرایک دن نئی ٹریجڈی نے جنم لیا،جب اس گاؤں میں مجاورکوہٹاکراس کی جگہ نیامجاورلانے کی سازش تیارکی گئی۔ گاؤں کے چندکرداروں کولگامجاور بہت طاقتورہوگیاتھا۔اس کی طاقت کوتوڑناضروری ہوگیاتھا۔دربارکی کمائی پرسب کی آنکھیں لگ گئی تھیں۔بزرگ شاہ جمال اوراس کے درمیان برسوں سے قائم تعلق کاامتحان شروع ہوچکاہے۔دونوں کابہت کچھ داؤپرلگ چکاتھا۔دریائے سندھ اورتھل صحراکے درمیان واقع ایک دور درازگاؤں میں برسوں پہلے جنم لینے والی اس غیرمعمولی کہانی کامرکزی کردارایک مجاورہے جس کے بزرگ شاہ جمال کے ساتھ روحانی تعلق اورمحبت کے امتحان کی یہ غیرمعمولی داستان آپ کے رونگٹے کھڑے کردے گی۔یہ کہانیاں لکھتے ہوئے میں خود دکھ اوردرد کی کیفیت کاشکارہوتارہاہوں۔مجھے بھارت کے دارالحکومت دلی کی وہ اداس اورسردشام نہیں بھولتی جب ہندوستان پارلیمنٹ کے لائبریرین سپراصاحب مجھے منت ترلے کرکے اپنے گھرلے گئے تھے کہ ان کی ماں پاکستان سے آئے کسی سرائیکی سے ملناچاہتی تھیں۔اس کی ماں کی عمراسی برس سے زائدتھی اوران کی زندگی کی آخری خواہش تھی کہ وہ پاکستان سے آئے کسی شخص کے ساتھ سرائیکی میں باتیں کریں اورجب وہ میرے ساتھ بیٹھی باتیں کررہی تھیں توسپراصاحب کی آنکھوں سے ایک لمحے بھی آنسونہ رکے۔مجھے اس لمحے احساس ہواتھاکہ وطن اوردھرتی کی محبت کیاچیزہوتی ہے۔وچھوڑاکس بلاکانام ہے۔اب بھی برسوں بعدمجھے محسوس ہوتاہے۔پاکستان سے ہجرت کرکے ہندوستان جانے والی اس بوڑھی ماں کی کہانی کاانجام آپ کورلادے گا۔اس طرح مجھے ڈیرہ غازی خان کے قصبے مرہٹہ میں اپنے رشتہ داروں کے ہاتھ ماری گئی دولڑکیوں نادرہ اورخورشیدکادکھ کبھی کبھاربہت بے چین کردیتاہے۔میں آج تک نہیں سمجھ سکاکہ کیسے کوئی باپ،بھائی یاماموں اپنی بچیوں کویوں قتل کرسکتے ہیں؟بھارت کے آنجہانی وزیراعظم راجیوگاندھی کی بیٹی پریانکاگاندھی نے جس طرح برسوں بعداپنے باپ کی قاتلہ خاتون نلینی سے بدلہ لیاتھاشاید وہ آپ کوبھی میری طرح حیرت کے سمندرمیں ڈبودے۔کیا کوئی بیٹی اپنے باپ کے قاتلوں سے یہ سلوک بھی کرسکتی ہے؟لندن کی حسینہ پٹیل اوربہاولپورکی دیہاتی لڑکی شازیہ مبشرکی داستان بھی آپ کوکئی دن تک ڈسٹرب رکھے گی کہ ایک ہی آسمان تلے رہنے والی دومظلوم خواتین کے ساتھ مختلف معاشروں نے کیاانصاف کیاتھا۔“
بک کارنرجہلم کے بہترین اوربے مثال حسن طباعت سے آراستہ تین سوساٹھ صفحات کی کتاب کی قیمت سات سوروپے موجودہ دورکے اعتبارسے کافی کم ہے۔کتاب میں چھپن لوگوں دل چھولینے والے داستانیں ہیں۔جنہیں ختم کرنے کے بعدبھی قاری اس کے سحرسے آزاد نہیں ہوتا۔
قیصرہ شفقت جن کی دلچسپ آپ بیتی ”قصہ چارنسلوں کا“ کاحال ہی میں بک کارنرجہلم سے شائع ہوئی ہے،انہوں نے رؤف کلاسراکے بارے میں تاثرات بڑے دل نشین اندازمیں بیان کیے ہیں۔”یہ لاؤف کلاسراکون ہیں؟یہ سوال میری فاطمہ نے آج سے کئی سال پہلے توتلی زبان میں پوچھا۔ہمارے گھرمیں یہ یہ نام میری وجہ سے (کہ میرے فیورٹ صحافی ومصنف ہیں)کافی مانوس نام ہے۔رؤف کلاسرا اورعامرمتین کاٹی وی شو”مقابل“ بھی میرافیورٹ پروگرام ہے۔اس دن سوچ رہی تھی کہ کلاسراصاحب کوکب سے پڑھناشروع کیا؟اس دن اخبارمیں سے کالم والاصفحہ میرے ہاتھ میں تھا۔میرے لیے صحافی کانام نیاتھا۔جب کالم پڑھاتوبہت اچھالگا۔وجہ ایک تواندازِ بیان، الفاظ کاچناؤوترتیب،حساس ملائم لہجہ وجذبہ۔بیان میں وہ تسلسل کہ قاری محوہوجائے اوروہ کالم توایک بہت ہی پیارے بندے اوران سے وابستہ جذبوں اورمحبتوں کاتلاطم بھی،ٹھہراؤبھی،دونوں احساسات مجھے اکٹھے نظرآئے۔جیسے کوئی روتے روتے اپنے عزیزکی عطاکردہ مہر با نیوں کی شفقت میں کھوجائے!جیسے بارش میں دھوپ امتزاج! اورمحترم کاطنزنہ صرف سیاسی،سماجی بدصورتیوں کی تصویربناکرلفظوں میں واضح کرتے ہیں۔بڑی بڑی کرپشن کی کہانیاں بریک کیں۔بہت تحقیق شدہ مستندوقابل بھروساذرائع پریقین رکھنے والے صحافی ہیں اوران کی کئی اسٹوریزکوسپریم کورٹ نے ٹیک اپ کیا۔ان دونوں صحافیوں پرمقدمات بھی ہوئے،پرسرخروٹھہرے۔چونکہ کلاسرا ادب کے بھی دلدادہ ہیں اورخوب پڑھتے ہیں۔بلکہ میں ذاتی طورپران کے مطالعے کی خوبی سے جیلس بھی ہوں۔کبھی کبھی ان کوپڑھ کرمجھے لگتاہے کہ کسی صوفی کوادب کاچسکاپڑگیاہو۔تیکھے نشتربھی چبھتے ہیں پرلگتاہے صحافت کو’رومی‘ مل گیا۔ابھی حال ہی میں سعدیہ قریشی نے انہیں صحافت و ادب کے’بالزاک‘کادرجہ دیا۔کسی کورومی اوربالزاک دونوں رنگوں کوملاکرکوئی رنگ نظرآیاتوشاید’میخائل شولوخوف‘کہہ دیں۔جوبھی مانولگتا ہے ہمارے حکمرانوں کے کانوں اورآنکھوں پرپردہ ساپڑاہے۔ابھی ابھی دونوں صحافی ’مقابل شو“کی پابندیاں کاٹ کرآئے ہیں۔یہ ”مقابل بپلک کے ساتھ“ بھی اورپہلے بھی بظاہرغیرمعروف مگراہم ترین مسائل اٹھاتاہے۔درختوں کے قتل عام سے لے کر،بے ترتیب دارالحکومت کی ہاؤسنگ سوسائیٹیز،اسلام آبادکی لٹی پٹی گرین بیلٹ،مولانا فضل الرحمٰن نیب کے ریڈارپر،توشہ خانہ کے قصے،ہاروں ونیکلسو ں کے قصے اورموجودہ چوریاں،ڈکیتیاں مجھے ان تمام موضوعات میں دلچسپی ہے کہ عام آدمی کے مسائل ہیں۔بڑے بڑے اسکینڈلزدونوں صحافیوں نے بریک کیے۔اورشریف،زرداریزاورچودھریزکواپنے پیچھے لگالیا۔اورجوغریب عوام کے417ارب روپے جی آئی ڈی سی اسکیڈل پربچائے۔مقدمہ جیتا،سزاشوپرپابندی کی صورت بھگتی۔پراربوں روپے ابھی بھی عوام پرخرچ نہ ہونے کاافسوس ہے۔آج کل مصنف کی شاعری میں دلچسپی یہ دیکھ کربلکہ پڑھ کرخوشی ہوئی کہ ’امیرخسرو‘ پرکتاب لکھ رہے ہیں۔سزاکوجزاکلاسراصاحب نے مسلسل کتابیں اوروی لاگزسے تقویت دی۔کلاسراصاحب کے ہتھے ’بک کارنر‘والے یا’بک کارنر‘ جہلم والے گگن شاہداورامرشاہدکے ہتھے مصنف چڑھ گیا۔یوں عوام کو’سزاکے دنوں‘ میں ”تاریک راہوں کے مسافر“،”سنہری آنکھوں والی لڑکی“ اور”گمنام گاؤں کاآخری مزار“ادبی ذوق کی تسکین کے لیے مل گئے۔شکریہ لاؤف کلاسرا۔!!“
”شاہ جمال کامجاور“کی پہلی کہانی اسی نام سے کتاب کی سب سے طویل تحریرہے۔جس کے موضوع کا مصنف نے پیش لفظ میں ذکرکردیا کہ ایسے ایک نابیناشخص کوصاحب ِ مزارنے خواب میں مجاوربننے کی ہدایت کی اورسازش کے ذریعے اسے ہٹانے کی کوششوں کوکس طرح ناکام بنایا۔یہ ایک چشم کشاتحریرہے۔لندن کی سترہ سالہ لڑکی کی کہانی بھی اشک آلودہے۔جسے والدین نے لندن میں پرورش کے بعد پاکستان کسی بھانجے بھتیجے سے شادی کے لیے بھیج دیا۔دادی نے اپنی خوبصورت پوتی کارشتہ ان پڑھ دیہاتی سے کرانے سے انکارکردیا۔ ایک دادی لندن کے رہائشی بیٹے سے زیادہ سمجھدارنکلی۔لندن لوٹنے پرماں باپ نے مبینہ طورپرتشددشروع کردیا۔پولیس نے اسے علیحدہ گھر لے دیا لیکن چنددنوں بعداس کی لاش دریاکنارے ملی۔قیاس آرائیوں کے مطابق اسے جنم دینے والوں نے ہی قتل کیاتھا۔لندن میں جتنے بھی غیرت کے نام پرقتل ہوتے ہیں وہ اکثرایشیائی لوگ ہی کرتے ہیں۔جبکہ پچھلے پانچ سال میں پاکستان میں تقریباً پانچ ہزارعورتیں قتل ہوچکی ہیں جن کے قاتل کوئی اورنہیں ان کے اپنے باپ،بھائی اورکزن تھے۔
”بلقیس بانوکی مہابھارت“بھی ایک دلدوزقصہ ہے۔بھارت کی ریاست گجرات کے ریلوے اسٹیشن پرایک ٹرین کوروک کرانسٹھ ہندؤں کو زندہ جلادیاگیا۔جس کے بعدگجرات میں بدترین ہندومسلم فسادات شروع ہوگئے،دوردرازقصبے کی ان پڑھ 21سالہ بلقیس بانوکے تیرہ قریبی رشتے داروں کوبھی زندہ جلادیاگیا۔جن میں اس کی تین سالہ بیٹی،ماں،بھائی اوربہنیں بھی شامل تھیں۔چودہ ہندؤں نے اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی بھی کی۔بلقیس بانونے لاشوں پرآنسوبہانے کے بجائے ان کی تدفین کے بعدسیدھی تھانے چلی گئی اورچودہ ہندؤں کے نام ایف آئی آر میں درج کرادیے۔سب نے اسے روکاکہ اس کی کون سنے گا۔وہی ہواوہ اپنی جنگ ہارگئی اوراسے جھوٹاقراردیاگیا، اس نے ہمت نہ ہاری۔گجرات کے کچھ ہندوسماجی کارکنوں نے دہلی کے ایک ہندووکیل کواس کامقدمہ لڑنے پرراضی کرلیااورساراقصہ انسانی حقوق کمیشن کے نوٹس میں لایاگیا۔دوسال بعدسپریم کورٹ نے کیس کی سماعت شروع کی اورسی بی آئی کوکیس دوبارہ اوپن کرنے کا حکم دیا۔مقدمہ گجرات سے مہاراشٹرمنتقل کردیاگیا۔کیونکہ وزیراعلیٰ مودی کی موجودگی میں غیرجانبدارتفتیش ممکن نہ تھی۔بھارتی میڈیااس کیس کی رپورٹنگ کرتارہا۔بہت جلدبلقیس پورے ہندوستان میں مسلمان عورتوں کے لیے بہادری کاسمبل بن کرابھری۔سپریم کورٹ نے گیارہ ملزمان کوعمرقیدکی سزادی،سات کوبری کردیا۔ایک پولیس افسرکوثبوت ختم کرنے کے جرم میں تین سال کے لیے جیل بھجوادیا۔یوں بلقیس بانونے چھ سال بعداپنی مہابھارت جیت لی۔عدالت کے فیصلے پراس نے کہاکہ یہ میری نہیں ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کی جیت ہے۔وہ اس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھے گی جب تک ان لوگوں کوسزانہیں ملتی جنھیں شک کافائدہ دے کررہاکردیاگیاہے۔“
کتاب میں شامل”مسلمان ہونے کی کہانی“ بھی چشم کشاہے۔یہ 1959ء میں پیداہونے والی مسزرڈلی کی داستان ہے،جسے بچپن ہی سے صحافی بننے کاشوق تھا۔اس کی پہلی شادی فلسطین کی تحریکِ آزادی کے ایک کرنل سے ہوئی۔دوسری شادی اس نے عراقی بزنس مین سے کی جو1999ء میں ختم ہوگئی۔امریکانے افغانستان پرحملے کافیصلہ کیاتواس نے اپنے اخبارکے لئے کابل جاکررپورٹنگ کافیصلہ کیااور طالبان حکومت سے ویزامانگاجواسے عورت ہونے کی وجہ سے نہیں دیاگیا۔وہ برقع پہن کرمسلمان عورت کے روپ میں کابل میں داخل ہو گئی لیکن زیادہ دن چھپ نہ سکی اورگرفتارکرلی گئی۔وہ گیارہ دن تک طالبان کی قیدمیں رہی۔اس دوران طالبان نے اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی جواس نے مستردکردی لیکن انھوں نے اس کے ساتھ سختی نہیں کی۔ایک دن سے قرآن کامطالعہ کرنے کے وعدے پررہائی دے دی گئی۔اس نے لندن جاکرطالبان کی قیدمیں گزرے دوہفتوں پرایک شاندارکتاب لکھی جوبہت بکی۔جب اسے قرآن کامطالعہ کرنے کا وعدہ یاد آیاتواس نے انگریزی ترجمے والاقرآن خریدااوراسے پڑھناشروع کردیا۔اسے یہ جان کربڑادھچکالگاکہ قرآن کے اسلام اور طالبان کے اسلام میں بڑافرق ہے،خصوصاً طالبان کاعورتوں کے حوالے سے قرآن پاک میں دی گئی ہدایات پرعمل حکم کے برعکس ہے ساتھ ہی اسے یہ بھی احساس ہواکہ دنیامیں اگرکسی مذہب نے عورت کودیے ہیں تووہ اسلام ہے۔2003ء میں دنیااس خبرسے حیران رہ گئی کہ طالبان کی قیدمیں رہنے والی گوری صحافی نے اسلام قبول کرلیا۔
ایک صحافی کی بھی کیازندگی ہے۔پوری زندگی مختلف شعبوں میں کرپشن اورگھپلوں کی نشاندہی کرنے والے رپورٹرکوکن مشکلات کاسامناکرنا پڑتاہے۔صحت کی بہترسہولتوں کے لیے لڑنے والاصحافی کس طرح اپنی باری آنے پراسی ہسپتال کے ایک وارڈ میں چپ چاپ لاوارثوں کی طرح مرگیا۔یہ قصہ”ایک صحافی کی موت“ میں حساس دلوں کوجھنجھوڑڈالتاہے۔یہ صرف عرفان ڈارکانہیں پوری صحافی برادری کاالمیہ ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹوکولوک فنکارپٹھانے خان بہت پسندتھے۔ایک رات انھوں نے غریب فنکارکوگورنرہاؤس لاہوربلوایا۔پٹھانے خان کافیاں گاتا رہااوربھٹوصاحب کی آنکھوں سے آنسوبہتے رہے۔اچانک بھٹونے کہاکہ خان مانگوکیامانگتے ہو۔پٹھانے خان نے کہا،”بھٹوسائیں! بس میری اس ماں دھرتی کی پارت ہووی۔“ رؤف کلاسرالکھتے ہیں۔میں نے پٹھانے خان سے پوچھاآپ نے بھٹوسے اپنے لیے کیوں نہیں مانگا؟ پٹھانے خان بڑا حیران ہوا۔اوربرہمی سے بولا۔سائیں کوٹ ادوکاایک غریب کمہاربھٹوجیسے بڑے آدمی سے دومربعے زمین مانگتااچھالگتاتھا۔پھرمیں نے اس سے جومانگناتھاوہ تومانگ ہی لیاتھا۔میں نے پوچھاآپ نے کیامانگاتھا؟ بولا،بھٹوسائیں سے میڈی دھرتی ماں دی پارت ہووی،یعنی میرے وطن کی عزت کاخیال رکھنا۔پھربھٹوکے آنسوؤں نے میری کافیوں کی قیمت تودیدی تھی۔
آپ کواس کتاب میں ایک ایسی کہانی بھی ملتی ہے جوایک پانچ سالہ بچی زیباکی ہے جواپنے باپ کی لاش کے سامنے کھڑی ہے۔اسے سمجھ نہیں آرہی کہ اس کاباپ صبح توٹھیک ٹھاک گھرسے نکلاتھا،اب وہ ایک سفیدکفن میں لپٹاکیوں چپ چاپ پڑاہواہے۔زیباکی ماں رونے کے علاوہ گھرکاسامان بھی پیک کررہی ہے کیونکہ اب اس نے اپنے خاوندکی لاش خیبرایجنسی کے ایک گاؤں تیراہ لے جانی تھی اوراس نے دوبارہ اس شہرنہیں لوٹناتھاجہاں وہ سات سال قبل اپنے خاوندکے ساتھ آئی تھی۔سب خواب یہیں ختم ہوگئے تھے۔بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے پانچ دفعی ایم این اے صلاح الدین چودھری کوڈھاکہ کی تاریک جیل میں دی گئی پھانسی کی داستان بھی”شاہ جمال کامجاور“میں شامل ہے جس کاواحدجرم پاکستان سے محبت تھی۔بنگلہ دیش کی حسینہ واجدنے پاکستان کے نام لیوالوگوں کوجس طرح جنگی جرائم کے نام پرپھانسیاں دیں اوران پرحکومتِ پاکستان کی خاموشی بھی ایک ایساجرم ہے جس کاداغ کبھی مٹ نہیں پائے گا۔پشاورکی پانچ بچوں کی ماں سلمٰی کی کہانی بھی قارئین کونہیں بھولے گی جسے مارنے کے لیے ایک دونہیں بلکہ پورے بارہ قاتل بھیجے گئے۔جرم وہی تھاکہ وہ کیوں اپنے بچوں کاپیٹ پالنے کے لیے پولیومہم میں شریک تھی جس سے اسے تین سوروپے روزانہ مل رہے تھے۔ایسی دلدوزچھپن کہانیاں اس کتاب میں شامل ہیں۔ جورؤف کلاسراکے قلم کی طاقت ہی نہیں ان کے حساس دل کی بھی ترجمان ہیں اوراحساس کی دولت سے مالامال ہرقاری ان کہانیوں کو کبھی فراموش نہ کرسکے گا۔شکریہ رؤف کلاسرا۔