حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نك فرمایا ” سحری کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ھے ۔( متفق علیہ )
اسلام کی مقررکردہ عبادات اور دنیا کے دوسرے مذاہب کی عبادات میں ایک اصولی فرق ھے اور اس فرق کی وجہ سے ان کے فوائد میں فرق واقع ھوا ھے ۔ وہ اصولی فرق یہ ھے کہ دوسرے مزاہب میں عبادات کے پیچھے یہ تصور کارفرما ھے کہ آدمی کا اپنے بدن کو تکلیف میں مبتلا کرنا ، اس کی روحانی ترقی اور اللہ سے قرب کا ذریعہ بنتا ھے ۔ مثلا ان کے نزدیک بھوکا مرنا اللہ تعالی کو پسند ھے اور یہ آدمی کو اس کے قریب کرتا ھے اسی طرح وہ اپنے اس تصور کے مطابق متعدد ا یسے ھی دوسرے کام کرتے ہیں مثلا کوئی کسی کنویں کے اندر الٹا لٹک رہا ھے ,کوئی کہیں بھٹ کے اندر زندگی گزار رہا ھے ۔اور طرح طرح کے جانور اس کو کاٹ رہے ہیں ۔یہ اور ایسی ھی دوسری بہت سی اذیتیں تقرب خداوندی کے خواہش مند خود اپنے آپ کو پہنچاتے ہیں ۔گویا ان کے نذدیک آدمی کا اپنے جسم کو طرح طرح کی تکلیفیں دینا اللہ تعالی کو اس بات کا یقین دلانے کا ذریعہ ھے کہ یہ بندہ تیری محبت میں ایسا مبتلا ھے کو اپنے آپ کو مارے دے رہا ھے ۰۰۰۰لیکن اسلامی تصور عبادت کی رو سے یہ تصورات سراسر جہالت پر مبنی ھیں .
اسلامی عبادات کا مقصد ۔۔۔۔تربیت و تزکیہء نفس
—————————————–
اس کے برعکس اسلام کی عبادات حقیقت میں آدمی کی تربیت کے لئیے مقرر کی گئی ہیں ۔ اور اس تربیت کے ذریعے سے یہ آدمی کو اللہ کے قریب لے جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر یہی روزہ ھے ۔روزے میں اصل چیز یہ نہیں ھے کہ آپ نے اللہ کے لئیے اپنے آپ کو بھوکا پیاسا رکھا۔ اور آپ کی اس تکلیف سے معاذاللہ ، اللہ تعالی کو کوئی خوشی ھوئی بلکہ اصل چیز یہ ھے کہ آپ نے روزہ رکھ کر اللہ تعالی کے ایک حکم کی اطاعت کی اور اس کی فرمانبرداری کا عملی مظاہرہ کیا۔ چنانچہ جس وقت وہ کہتا ھے کہ بھوکے رھو تو اس وقت بھوکے رہئیے اور جس وقت وہ کہتا ھے کھاؤ تو اس وقت کھائیے۔ اسی تصور سے ھمارے روزوں میں اور دوسرے مذاہب والوں کے روزوں میں فرق واقع ھو جاتا ھے ۔ اور یہ فرق آغاز اور انجام دونوں جگہوں پر پایاجاتا ھے۔
* سحری کھانے میں کیا برکت ھے*
—————————————
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” سحری کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ھے ۔ ” سحری میں برکت یہ ھے کہ اس سے آپ کو اللہ کے حکم کی بجا آوری میں سہولت ھوتی ھے ۔ اس کاحکم یہ ھے کہ فجر کے وقت سے روزہ شروع کرو اور غروب آفتاب کے وقت ختم کرو ۔ اب جس وقت سے روزہ شروع ھوتا ھے اس سے پہلے اگر آپ اللہ کی دی ھوئی اجازت سے فائدہ اٹھا کر کھا پی لیتے ہیں تو وہ کھایا پیا دن بھر آپ کے کام آئے گا ۔ لیکن اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو لازمی طور پر آپ کو کمزوری لاحق ھو گی اب چونکہ یہ اللہ کا حکم ھے کہ روزے مہینہ بھر رکھے جایئں اور ھو سکتا ھے کہ اس طرح کسی آدمی کی طاقت اور ھمت یہ مدت پوری کرنے سے پہلے ھی جواب دے جائے ۔ اس لئے نتیجہ یہ ھوگا کہ وہ اللہ تعالی کے حکم بجا لانے کے قابل نہیں رھے گا۔ اسی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کھانے کی تاکید فرمائی ۔کہ جس وقت کھانے پینے کی تمھیں اجازت ھے اس وقت تم کھاؤ تاکہ جس وقت کھانے کی اجازت نہ ھوگی اس وقت تمھیں اللہ کا حکم بجا لانے کی طاقت حاصل رھے ۔