بیتا دن بڑا بیزار کن رہا۔ میری بیٹی کی چودھویں سال گرہ گزری تھی۔ اور ہم نے ایک بھی درخت نہیں لگایا۔ میں بچوں سے یہی کہتا آیا، وہ اپنی سال گرہ کے دن کم از کم ایک پودا ضرور لگائیں۔ یوں وہ جتنے برس کے ہوں گے، اتنے درخت لگا چکے ہوں گے۔ ارادہ تھا کہ سال گرہ سے اگلے روز اسے سیر گاہ لے جاؤں گا، وہاں اس کے ہاتھ سے ننھا سا پودا لگوا کے سال گرہ کا جشن منایا جائے گا۔
اس روز جب پارک جانے کا پروگرام تھا، راول پنڈی اسلام آباد کے حالات مخدوش ہو گئے اور سارا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں میرا بچپن اور لڑک پن گزرا۔ اگر چہ بچپن اور لڑک پن کے دوستوں سے اب رابطہ نہیں رہا، لیکن پھر بھی یہی لگتا ہے، ہر گلی میں میرے خیر خواہ ہیں، میں ہر کوچے میں محفوظ ہوں۔ سو مجھے کون روک سکتا ہے، میں اپنا ارادہ پورا کر کے رہوں گا۔
سال گرہ کے اگلے روز سنیچر کے دن جب ہم درخت کا پودا لگانے گھر سے نکلنے والے تھے، کہ میرے ایک عزیز جو موجودہ حکومت کے ناقد ہیں، ان کی فون کال آ گئی، کہ گھر سے نہیں نکلے تو گھر میں رہو، نکل پڑے ہو تو گھر لوٹ جاو، کہ فاسق و فاجر حکومت نے ناروا آپریشن کر کے غیرت مسلماں کو للکارا ہے۔ میں نے ان کے لہجے میں خوشی کا عنصر محسوس کر کے اس مسرت کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا، ہو سکتا ہے اس طرح حکومت کا تختہ الٹ جائے اور اگلے الیکشن میں ایک صاف شفاف اور اسلام کا تحفظ کرنے والی حکومت کا قیام عمل میں آ جائے۔ ان کے تئیں بر سر اقتدار آنے والی شفاف صاف وہی سیاسی جماعت ہو گی جس کے وہ خود اندھا دھند اسپورٹر ہیں۔
جیسا کہ سبھی جانتے ہیں، کہ راول پنڈی اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر تحریک لبیک والوں نے ڈیرا لگایا ہوا ہے، اس سنیچر کی صبح حکومت نے آپریشن کر کے انھیں ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ دو ہفتوں سے زیادہ ہو گئے کہ مظاہرین وفاقی وزیر کے استعفے کا مطالبہ لیے بیٹھے ہیں۔ وہ نازک بات جو میرے ملک کا سربراہ نہیں سمجھتا، اسے ایک عام آدمی کیسے بیان کرتا ہے، ملاحظہ ہو۔
محلے کے سبزی والے نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، کہ حکومت کی ہٹ دھرمی دیکھیے، دھرنے والوں کی یہ معصوم سی خواہش پوری نہ کر کے دی، کہ وزیر سے استعفا لے لیں۔ یہ کیسی حکومت ہے جو اپنے شہریوں کی ننھی منی خواہشوں کا احترام نہیں کرتی۔ بیکری والے سے سال گرہ کا کیک لینے گیا تو بتانے لگا، حکومت سمجھتی ہے کہ وہ پر امن مظاہرین پر تشدد کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر لے گی، تو یہ اس کی بھول ہے۔ ختم نبوت کے مسئلے پر پاکستانی ایک ہیں۔
اپنے عزیز کی فون کال سننے کے بعد، پیاری بیٹی کو اطلاع دی کہ آج ہم پودا لگانے پارک میں نہیں جا سکتے، کیوں کہ شہر کے حالات ہنگامہ خیز ہیں۔ مشورہ دیا کہ درخت کے پودے کو گملے میں لگا دیتے ہیں۔ اسے بتایا کہ یہ جاپانی طریقہ ہے جسے ”بونسائی“ کہتے ہیں۔ درخت کے پودوں کو گملوں میں یوں اگایا جاتا ہے کہ دیکھنے میں بڑے درختوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی ان کا امیج بڑے درختوں جیسا ہوتا ہے۔ بیٹی نے احتجاج کیا کہ ہمیں قد آور درختوں کی ضرورت ہے، جو ہوا کی تازگی کا باعث ہوں۔ یہ بونے بونے سے پودے ہمارے کس کام کے؟ زچ آ کے میں یہ کہنے پہ مجبور ہوا، کہ ختم نبوت کے عقیدے کو خطرہ ہے، اور یہ بھی بتایا کہ ایمان والے اس خطرے کے سامنے بند باندھ رہے ہیں، لہاذا ہم گھر میں رہ کے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ جواب میں بیٹی نے ضد کی تو میں چلایا۔
”ہمیں اس وقت درختوں کی نہیں، تازہ ہوا کی نہیں، بل کہ اپنا ایمان بچانے کی فکر کرنا چاہیے“ ۔
یہ سب ہوا تو بیٹی کا موڈ آف ہو چکا تھا، مجھے شرمندگی محسوس ہوئی کہ بچی کے سامنے چیخنا نہیں چاہیے تھا۔ اس کا دل بڑھانے کو کہا، ابھی ایک آپشن ہے ؛ ہم پھپھو کے گھر سے ہو آئیں۔ آج کل کے بچے بہت سوال کرتے ہیں، پوچھنے لگی کہ جب شہر کے حالات اتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ ہم پارک نہیں جا سکتے تو پھپھو کے گھر کیسے جائیں گے؟ بتاتا چلوں کہ میری سکونت راول پنڈی کینٹ سی ایم ایچ کے قریب ہے، اور میری بہن بھی کینٹ میں رہتی ہے۔ سی ایم ایچ سے ایم ایچ کی طرف جائیے، وہاں سے رینج روڈ کو ہو لیں، وہیں میری بہن کا گھر ہے۔ بیٹی کو ملکی سیاست اور اقتدار کے طاقت ور ستونوں کا نقشہ بنا کے دکھایا۔ بیٹی ابھی کم سن ہے نقشہ کیا سمجھتی۔ بہ ہر حال اسے یقین دلایا، کہ اس علاقے میں آنے سے مظاہرین کے پر جلیں گے، اور پھر میری بیٹی نے دیکھا کہ میرا کہنا سچ ثابت ہوا۔
بہن بہت فکر مند تھی کہ اس ملک کا کیا ہو گا، یہاں تو آئے دن تماشا لگا رہتا ہے۔ میں نے اسے تسلی دیتے کہا، کہ ایک دن آئے گا، جب نونہالوں کو کھلی زمیں، آزاد فضا ملے گی، اور ہمیں ”بونسائی“ کے لیے نہیں سوچنا پڑے گا۔ بہن پریشان ہو گئی۔
”بونسائی؟ یہ کیا ہے“ ۔
میں اسے بتانے لگا، کہ گملوں میں نہال اگا کے ان کی جڑیں زمین میں گہری نہیں ہونے دی جاتیں، یوں بونے قد کے درخت بن جاتے ہیں۔ ہوتے تو یہ بونے ہیں، لیکن دیکھنے میں بڑے قد کے درخت جیسے لگتے ہیں۔ چوں کہ ان کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں، تو جب چاہو آسانی سے اکھیڑ دو۔ پھر میں نے کہا کہ المیہ یہ ہے، ہم لوگ ’بونسائی‘ کو قد آور شجر مان لیں۔ بہن میری یہ بات سن کر ناراض ہوئی کہ میں کیا بات کرتی ہوں، اور تم کیا جواب دیتے ہو! کہنے لگی دیکھو تو اسلام کے نام لیواوں کے ملک میں اسلام کو خطرہ لاحق ہے۔
میں نے اسے تسلی دی کہ وہ دن دور نہیں، جب یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو گی، تب غیر مسلم اقلیت کی جرات نہیں ہو گی کہ وہ ایمان والوں سے ٹکر لیں۔ بہن کا پارہ چڑھ گیا۔
”تو تو سدا کا بگڑا ہوا ہے، کبھی سیدھی بات نہ کریں“ ۔
پھر بہن مجھے سمجھانے لگی، کہ یہاں مسلمانوں ہی کی اکثریت ہے۔
”بونسائی دیکھنے میں تو درخت لگتے ہیں، لیکن بڑے درختوں کا متبادل نہیں ہوتے“ ۔
میں نے سوچے سمجھے بنا جواب دیا، تو میری بیٹی نے مجھے جھنجھوڑا۔
”ابو، پھپھو کچھ اور کہ رہی ہیں، آپ کچھ اور جواب دے رہے ہیں“ ۔
”میں بھی تو یہی کہ رہا ہوں، بیٹا۔ میں نام لیواوں کی بات نہیں کر رہا، مسلمانوں کی اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔ اگر یہاں مسلمان اکثریت میں ہوتے تو اسلام پل پل خطرے میں کیوں کر ہوتا؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرا انسان محفوظ رہے۔ کیا یہاں ایسا ہی ہے؟ یہ سب بونسائی ہیں“ ۔
بہنیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ میری صحت یابی کی دعا دیتے مجھے رخصت کیا۔
دن بھر کی افواہوں میں سے ایک افواہ یہ بھی سننے میں آئی، کہ فیض آباد کے اطراف میں جاری ہنگاموں کی وجہ سے ایک پولس والا شہید ہو گیا ہے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ اسے شہید کہنا کہاں تک درست ہے۔ ایک تو یہ کہ مارے جانے والا پولس سے ہے، پولس والا بھی کیا شہید ہوتا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ ایسی حکومت کا سپاہی جو اسلامی نظام پر سودے بازی کرنے چلی تھی، اس سپاہی کو شہید کیوں کہا جائے، میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں۔ خیر! یہ میرا مسئلہ نہیں، یہ تو خادم حسین رضوی سے پوچھا جانا چاہیے۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں، کیا جنت میں ثمر آور شجر ہوں گے، یا یہی بونسائی ہوں گے؟
میری بیٹی بونسائی اگانے کی حامی نہیں ہے۔ وہ قد آور درختوں کی تمنا کرتی ہے۔ میں بیٹی کو سمجھا رہا تھا کہ میرا دکھ یہ ہے، پاکستانی ہر بار ایسے سیاست دانوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں کیوں بھیج دیتے ہیں، جو مبینہ طور پر بے ایمان ہوتے ہیں، بد عنوان ہوتے ہیں، اور مبینہ طور پر اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ احوال یہ ہے کہ یہاں اب اسلام محفوظ ہے، نہ اسلام آباد۔ محفوظ ہے تو کینٹ کا وہ علاقہ جہاں میں رہتا ہوں اور تمھاری پھپھو۔ اسے یہ سب سمجھاتے میں یہ بھی سوچ رہا تھا، کہ کیا میرے بچوں کا مستقبل اب کینٹ ہی میں محفوظ ہے؟
میری چودہ سالہ بیٹی افسردہ ہے کہ اس کی سال گرہ بے رنگ و بے کیف گزری۔ کہنے لگی، ابو جی! آپ یہ سوچیے کہ ان پاکستانیوں کو کیسے سمجھایا جائے، جو ہمیشہ بونسائی کے پیچھے چل دیتے ہیں؟ انھیں کیسے ہوش دلایا جائے کہ یہ اسی مالی کو سلام کرتے ہیں جو بونسائی کو درخت بتا کر ان کے سامنے کھڑا کر دیتا ہے؟ آپ مجھ سے بڑے ہیں، سمجھ دار ہیں ؛ آپ ان بونسائیوں پر تو اعتراض کرتے ہیں، لیکن مالی کو مقدس سمجھتے ہیں، یہ کی بات ہوئی؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے!
میری بہن کہتی ہے تمھارے دماغ کے پیچ ڈھیلے ہو گئے ہیں، تم الٹی سیدھی باتیں کرتے ہو۔ اپنی بیٹی کی باتیں سن کے مجھے لگا، میرے ساتھ رہ رہ کے وہ بھی اپنا ذہنی توازن کھو رہی ہے۔ خدا اسے سلامت رکھے، یہی میرا مستقبل ہے۔ خدا ہم سب کے مستقبل کو بونسائیوں سے محفوظ رکھے، ہمارے بچوں کو تن آور درخت بنائے۔
(نومبر 2017 میں ایسے ہی ملکی حالات میں لکھی تحریر)