باجوہ صاحب جاتے جاتے تو کام کی باتیں کر گئے۔ پہلی تو یہ کہ انکے دور میں فوج نے سیاست چھوڑ دی۔ دوسری یہ کہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی
ایک زمانہ تھا پرانی بیبیاں شوہروں کا نام نہیں لیا کرتی تھیں۔ بس گھونگھٹ کاڑھ کر نیم لب مسکراہٹ کیساتھ انہیں، انکو، وہ، بس کام چل جاتا تھا۔ مائیں لڑکیوں کو سمجھایا کرتی تھیں،،، خبردار بٹیا، شوہر کا نام مت لیجیئو نکاح ٹوٹ جاوے گا۔ اگرچہ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ غلط بلکہ یوں کہیں کہ غلط العام تھا۔ آج شاید یہ بات مذاق لگے یا جہالت، مگر نکتہ یہ تھا کہ شوہر سے ادب احترام کا رشتہ قائم رہے، گھرانا پھلتا پھولتا رہے۔ یہی معاشرے کا حسن ہے،؎۔ جون ایلیا نہ ہوتے تو معاملات یوں بے نقاب نہ ہوتے ؎
آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں
تو بس جب نام لیا تو پھر نہ پوچھیں۔ آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہو گئے۔ آج جس دھڑلے سے تو تکار دھول دھپہ ہو رہا ہے اسی بھاؤ سے طلاق، علیحدگی، خلع، سنگل پیرنٹ جیسے لفظ جو پہلے کبھی کبھار سننے کو ملتے تھے اب جا بجا ٹوٹے گھرانے بکھرے پڑے ہیں۔ بیشک اسے جہالت کہیں یا قدامت، حقیقت یہ ہے کہ باریک سے معاشرتی پردے نے عزت، وقار، خاندان کا بھرم سنبھال رکھا تھا۔
پاکستان کے شہر، قصبے اور گاؤں کیسے ہیں، ان میں کیا دولت چھپی ہے؟
خلائی مخلوق، محکمہ زراعت، غیر ریاستی اداکار، لڑکی کے بھائی، فرشتے، بھائی لوگ، وڈی سرکار، اب تو یاد بھی نہیں جانے کتنے عرصے سے اسم ضمیر غائب کا بھرپور استعمال جاری تھا۔ سیاسی تقاریر، بیانات، ریکارڈ ان پراسرار اصطلاحات سے بھرے پڑے ہیں۔ ٹاک شوز میں جب بھی کوئی اینکر شرارتی مسکراہٹ کیساتھ پردا اٹھانے کیلئے سوال کرے کہ کون؟ تو ایک کھلکھلاتی مسکراہٹ کیساتھ جواب یہی ملتا ہے کہ آپ، ہم، سب جانتے ہیں، چھوڑیں۔ یہ استعارے، اشارے، کنایے جانے کب تک یوں ہی چلتے رہتے، یہ منافقانہ ہی سہی باریک پردہ جانے کب تک حجاب کا بھرم قائم رکھتا، مگر روایات کے باغی جون ایلیا کی طرح باجوہ ڈاکٹرائن نے اسم ضمیر غائب کو یکایک حاضر میں بدل ڈالا۔ اب تو بات تو کے عنواں سے کہیں آگے نکل کر دشنام کی سنگلاخ پہاڑی چوٹیوں پر سینگ لڑا رہی ہے۔
علامہ گوگل وارد ہوئے تو میں چینج آف کمانڈ کی تقریب دیکھ رہا تھا۔ علامہ نے آتے ہی گرما گرم چائے کی فرمائش کی۔ اتنے میں ایک دو تین، سارے چینل ادل بدل ڈالے مگر ہر نیوز چینل پر ایک ہی آواز اور ایک ہی فوٹیج، ایسے میں ملاکا اسٹک منتقل ہوتی نظر آئی۔ میں نے عرض کیا باجوہ صاحب کا دور کئی لحاظ سے خاصا مختلف اور تنازعات میں گھرا رہا۔ علامہ نے چائے کا گھونٹ لیکر ایک بڑی سی ہوووووں کیساتھ جواب دیا۔ کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے دوست۔ ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے یار! اصل معاملہ اس چھڑی کا ہے۔ حیرت سے پوچھا چھڑی، کیا مطلب؟ بڑی گھمبیر لہجے میں بولے جس طرح بوڑھے جادوگر ہوا کرتے تھے پرانی داستانوں میں، سلطنت بادشاہ کی مگر حکم جادوگر کا، حاکم خوفزدہ، رعایا سحر میں گرفتار، توڑ ناممکن، جادوگر کی جان سونے کے پنجرے میں قید طوطے میں ہوا کرتی تھی۔ بس یوں جانو یہ چھڑی ایسا ہی طوطا ہے، یہ نہ رہی تو جانو کچھ نہ رہا۔ اب آپ ہی فرمائیں، ادھر طلسماتی چھڑی گئی ادھر شہباز سرکار نے اعظم نذیر تارڑ کو ڈالا، ہائے ہائے ایسی طوطا چشمی، ایسی بے مروتی، قرب قیامت کی نشانی ہے بھائی۔ یہی کچھ راحیل شریف و کیانی کیساتھ بھی ہوا تھا۔
تقریب ختم ہوئی تو بولے چھ سالوں میں دو جماعتیں اور پانچ وزرا اعظم، اسکو برا نہیں ہے۔ میں نے کہا علامہ دو ہزار اٹھارہ تبدیلی کا سال تھا۔ تبدیلی آ چکی ہے۔ فرمایا تبدیلی کو بھی تو تبدیل کر دیا گیا ناں! تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی، جس بے التفاتی کا نشانہ بننے میں نواز شریف نے عشرے لگائے، کپتان نے ساڑھے تین سال میں سارے ٹارگٹ پورے کر ڈالے۔ بڑے مزے سے چائے کا کپ خالی کرتے ہوئے بولے، یار! ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کیا دوسرے ممالک میں بھی چینج آف کمانڈ کی تقریب اتنے طمطراق کیساتھ ہوتی ہے۔ کبھی کہیں نظر نہیں آئی۔ میں نے کہا یہاں ویسے کون سی بات منطق کے مطابق ہو رہی ہے، تو اس پر حیرت چہ معنی دارد۔ بولے خیر بات تو سچ ہے مگر بھیا! اپنے باجوہ صاحب جاتے جاتے تو کام کی باتیں کر گئے۔
پہلی تو یہ کہ انکے دور میں فوج نے سیاست چھوڑ دی۔ دوسری یہ کہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی۔ اس پر آپ کا تجزیہ درکار ہے۔ علامہ جو اپنے سوا کسی کو کسی کو چلنے نہیں دیتے۔ انکی جانب سے نازک موڑ پر تجزیے کی فرمائش پر حیرت جھیلتے ہوئے جواب دیا۔ سرکار فوج اور سیاست پر تجزیہ قومی سلامتی کے چھڑی معاف کیجئے گا، زمرے میں آتا ہے۔ ہاں! اگر سیاست چھوڑنے کا حالیہ اعتراف مان لیا جائے تو مشرقی پاکستان کو سیاسی غلطی ماننے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ راج سنگھاسن پر سینا پتی براجمان تھے۔ سیاسی اور غیر سیاسی تمام فیصلے سر شام شروع ہو جاتے تھے، یقین نہ آئے تو جنرل رانی سے پوچھ لیں۔ بہرحال ادارے مقدس ہیں۔ یکایک میری بات کاٹتے ہوئے بولے، یار دل کی بات بتائوں میں بھی اداروں کی بہت عزت کرتا ہوں۔ دل سے احترام مگر اچانک کہیں جسٹس منیر، مولوی مشتاق آڑے آ جاتے ہیں تو کہیں کسی موڑ پر یکایک ایوب، ضیا اور مشرف نمودار ہو جاتے ہیں، مگر پھر بھی میں دل سے عزت کرتا ہوں۔
علامہ کا تذبذب دیکھ کر میں نے کہا بھئی انسان کی فطری مجبوری ہے کہ حال اور مستقبل کے فیصلے ماضی کی روشنی میں کرتا ہے۔ بہرحال آگے بڑھنا چاہیئے۔ نئے فیصلے، نئی امیدیں، علامہ رخصت کیلئے مصافحہ کرتے ہوئے بولے، ہاں یہ خوب کہا نئے فیصلے اور نئی امیدیں، مگر یہ ضرور جان لیں کہ ن لیگ میں خداوند تعالی نے یہ صلاحیت کوٹ کوٹ کر عطا کی ہے کہ بہت غور و فکر، سوچ بچار اور مشاورت کیساتھ غلط فیصلہ کر سکے۔ دروازے پر آنکھ مارتے ہوئے بولے ؎
منشا غلط نہ تھا میرا مقصد نہ تھا غلط
سوچا گیا غلط مجھے سمجھا گیا غلط