سانحہ سیالکوٹ کی بات کرتی ہوں۔ سنو، کیا تمہیں یقین ہے کہ شعلوں کے گرد رقص کرتے اور تماشہ دیکھتے یہ سب انسان ہیں اور وہ بھی جیتے جاگتے؟
ہاں بالکل ۔۔۔یہ سانس لیتے ہیں نا۔۔۔
کیا سانس لینا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب زندہ ہیں؟
سنا اور پڑھا تو یہی ہے کہ جو سانس لیتا ہے وہی زندہ ہوتا ہے ورنہ مردہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
دنیا کی حسین ترین شاہی لائبریری جسے بنوانے والے تارکین وطن تھے
پانچ دسمبر: آج شاعر آخر الزماں حضرت جوش ملیح آبادی کا یوم ولادت ہے
اچھا ٹھیک۔۔۔۔مگر کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ سنی سنائی باتوں پر زیادہ یقین نہیں کرنا چاہیے۔۔۔اور رہی بات پڑھنے کی تو سائنس دانوں کو بھی اپنی اس تھیوری پر مزید تحقیق کرنا چاہیے۔۔۔۔کیونکہ ضروری تو نہیں جو سانس لے رہا ہو وہ زندہ بھی ہو اور سب سے بڑھ کر انسان بھی ہو۔ محض سانس لینا انسان ہونے کی ضمانت تو نہیں کیونکہ سانس تو جانور بھی لیتے ہیں۔
یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ اب کیا سائنس دوسرے مسائل چھوڑ کر اتنی بنیادی سی بات پر پھر سے نظرِ ثانی کرے؟ پھر سےتجربے کرے؟ کچھ عجیب نہیں لگ رہی یہ بات؟
عجیب تو ہے۔ مگر کیا سانحہ سیالکوٹ کے بعد تمہیں ایسا نہیں لگتا ہے کہ انسان کے انسان ہونے کے معاملے پر ابھی مزید عرق ریزی کی ضرورت ہے۔ انسان کے لبادے میں جو جانور کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ ان سے انسانیت کا سرٹیفکیٹ واپس لے کر انہیں جنگلوں میں بھیج دینا چاہیے۔۔۔۔مگر شاید یہ وہاں بھی نہیں رہ سکیں گے۔ اور وہاں سے بھی نکالے جائیں گے کیونکہ جنگل کا بھی اپنا ایک قانون ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ انسان بھی نہیں ہیں اور جانور بھی نہیں تو انسان کے لبادے میں آخر ہیں کون؟
یہ بات تحقیق طلب ہے نا؟