Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
پروفیسر فتح محمد ملک ممتاز نقاد دانشور اور اردو انگریزی قلم کار جناب فتح محمد ملک،پاکستانی ادب کے معمار اور ہماری تین نسلوں کے استاد ہیں۔عہد ساز تنقید نگار،ممتاز اور بے بدل دانش ور،پاکستانیت و اقبالیات کے عالمی سطح پر نمایاں سکالر پروفیسر فتح محمد ملک اسلام آباد اور پاکستان ،اردو کے دفاعی محاذ پر جس قوت اور تسلسل کے ساتھ جم کر کھڑے ہیں،یہ انہیں کا اعزاز ہے۔پروفیسر فتح محمد ملک 18جون 1934 ءکو ضلع اٹک کی تحصیل تلہ گنگ کے قصبے ٹہی میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے میٹرک گورنمنٹ سکول تلہ گنگ سے اور ایف۔اے گورنمنٹ کالج اٹک سے کیا۔ملک صاحب ایم۔اے اردو میں فرسٹ آنے پر پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل کے حقدارٹھہرائے گئے۔ملک صاحب ایم۔اے کرنے تک اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔
فتح محمد ملک کو ابتداءہی سے کتاب بینی سے رغبت ہوگئی تھی،میٹرک کے بعد جو پہلا ناول پڑھا وہ نسیم حجازی کا تھا۔پہلے پہل انہوں نے افسانے لکھے جو ماہنامہ ”ہمایوں“ لاہور اور ”مشرب “ کراچی کے سالنامے میں چھپے۔اگرچہ ان افسانوں کو بہت پسند کیا گیا۔فتح محمد چار دہائیوں سے زائد عرصے تک تعلیم سے وابستہ رہے۔ایم۔اے اردو کرنے کے چار ماہ بعد ہی لیکچرار ہوگئے۔اپنی محنت ،خلوص اور لگن سے آگے بڑھتے رہے اور ان پر نئی نئی راہیں کھلتی چلی گئیں۔آپ نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد ،ہائیڈل برگ یونیورسٹی،نیو یارک میں کولمبیا یونیورسٹی ،برلن میں ہیمولڈٹ یونیورسٹی و غیرہ اداروں میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔
فتح محمد ملک کو ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پروفیسر محمد عثمان جیسے فاضل اساتذہ سے فیضان علم کا موقع ملا تو ان کی شخصیت میں نکھار آتا گیا۔ان کی اہم تصانیف میں تحسین و تردید، فیض، شاعری اور سیاست،اندازِ نظر،تعصبات،احمد ندیم قاسمی : شاعر اور افسانہ نگار،اقبال فکروعمل،اقبال فراموشی،اپنی آگ کی تلاش،ندیم شناسی، احمد فراز کی شاعری،پاکستان کا روشن مستقبل،ہماری قومی شناخت کا خوف وغیرہ شامل ہیں۔فتح محمد ملک کا ایک کالم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میں کیوں لکھتا ہوں۔لکھتے ہیں کہ میں نے جب کچھ کہنا ہوتا ہے تو میں پہلے ادب پڑھتا ہوں،زندگی کو پڑھتا ہوں،زندگی کے مطالبات اور ادیب کی تخلیقات کو بیک وقت دیکھتا ہوں۔ان کی پہلی باقاعدہ تنقیدی کاوش ” اردوادب اور قومی زندگی “ ہے۔اس مضمون میں انہوں نے اپنی قومی زندگی کے مسائل اور مشکلات سے اپنے ادیب کی لا تعلقی کو سامنے لانے کی کوشش کی تھی۔
فتح محمد ملک ایک ممتاز نقاد ہیں۔انہوں نے شعرو ادب ،کلچر اور اقبالیات کے حوالے سے کافی کام کیا۔فتح محمد ملک نے تنقید کے شعبے میں مسلسل اور لائق تحسین کام کیا۔اور اپنے اہم فکری مقالات سے متعدد و تازہ مباحث کو تنقید کا حصہ بنایا اور نئے سوالات بھی اٹھائے۔انہیں ترقی پسند نقادوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ فتح محمد ملک ایک زمانے میں ممتاز ترقی پسند ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ہم نوا اور قریبی ساتھی تھے ۔تاہم نظریاتی اعتبار سے اُن کا رجحان کچھ اور نظر آتا ہے ۔ادب میں ان کا ایک اہم مقام تسلیم شدہ ہے۔فتح محمد کا شمار ان نقادوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد شعور کی آنکھ کھولی اور اس وقت تنقید کا آغاز کیا جب پاکستانی ادب اپنی شکل بنانے لگا تھا۔ان کے عہد سے قبل اردوادب کی بہت بڑی بڑی تحریکیں تھیں اور سامنے نئے ادب کے نئے نعرے تھے۔”آتش رفتہ کا سراغ“ اور ”کھوئے ہوﺅں کی جستجو“ فتح محمد ملک کے تنقیدی شعور کا ثبوت ہے۔
پہلے ”تعصبات “ اور پھر ” تحسین و تردید “ میں انہوں نے ہر جگہ نئے ادیبوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔قیام پاکستان کے دس بارہ برس بعد ہی ہمارے ادب میں جدیدیت کا طوفان اٹھا فتح محمد ملک نے زیادہ تر اسی کو موضوع بنایا ہے اور اسی طرح جدید رویوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا ہے جس میں انہیں قومی زندگی کے لیے طرح طرح کے خطرات چھپے دکھائی دئیے۔
”تعصبات“ ملک صاحب کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے ۔اس میں کل سترہ مضامین ہیں۔کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔اس حصے میں شامل مضامین آٹھ پہلے حصے میں شامل مضامین کے عنوانات یوں ہیں: ہماری قومی زندگی اور ادیب، تحریک آزادی میں ادیب کا حصہ،خیال کا خوف،اقبال کے خلاف ردعمل کیوں،نئی شاعری اور اور جدید شاعری ،شاعری اورناشاعری،غزل اور نئی غزل،افسانہ اور نیا افسانہ جبکہ دوسرے حصے کا نام ”غالب سے منیر نیازی تک“ ہے۔اس دوسرے حصے میں یہ نو مضامین شامل ہیں۔غالب کے بغیر،اقبال کے من و تو،ندیم کا آدم نو،فیض کی دو آوازیں،میراجی کی کتاب پریشان،ضیاءجالندھری کے خواب،مامتا کی شاعری اور منیر نیازی کا شہرا مکاں۔فتح محمد ملک نے ”تعصبات“ کے نام سے ایک بہت عمدہ کتاب پیش کی ہے جو انداز کی ندرت اور طرز بیان کی شگفتگی کے الخاص میں شمار ہونے کے لائق ہے۔
تنقیدی مضامین کا دوسرا مجموعہ ”اندازِ نظر“ کو موضوعات کے اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔کتاب کا پہلا حصہ”تہذیب و تخلیق “ ہے جس میں آٹھ مضامین کی تفصیل یوں ہے۔غالب اور ہمارا شعور قومیت،محمد حسین آزاد کا طرزِ احساس،تمیزدار بہو کی بدتمیزی،قدرت اللہ شہاب افسانہ نگاری سے خطابت تک،محمد علی جوہر کی غزل،مطالعہ رومی اور خلیفہ عبدالحکیم،غیر تخلیقی لمحے کا فیضان،جدید غزل میں باقی صدیقی کی آواز،مشرق اور مغرب کی ادبی رفاقت،دوسر حصے میں چار مضامین شامل ہیں۔کتاب کے تیسرے حصے ”بین السطور “ میں چھ مضامین شامل ہیں۔چوتھے حصے ”برسبیل تبصرہ“ والے چوتھے حصے میں آٹھ مضامین شامل ہیں۔
اردو تنقید کے گھر کے آنگن میں جو غالب و سرسید اور حالی کی سرزمین پر بنے ہیں”اندازِ نظر“ جیسی کتاب کا اضافہ قابل ذکر موضوع ہے ۔یہ کتاب فتح محمد ملک کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو ان کے پہلے مجموعہ کے آٹھ سال بعد شائع ہوا ہے اور ان موضوعات پر مشتمل ہے جو معروف و معتبر ادبی رسالوں اور قومی اخباروں میں شائع ہوتے رہے تھے۔فتح محمد ملک کا شمار بھی ان نقادوں میں ہونا چاہیے جن کی تحریریں علم و ادب اور فکرو نظر کی دنیا کو اسی طرح چونکاتی ہیں جس طرح ٹھہرتے خاموش پانی کی سطح پر ایک چھوٹا سا وزنی پتھر اٹھتی گرتی لہروں کا بھنور پیدا کردیتا ہے۔تعصبات اور انداز نظر کا مصنف علم و تنقید کی قلمرو میں ایسی شخصیت لے کر ابھرا ہے جس سے اختلاف کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اپنے ردعمل میں کسی حد انتہا پسن بھی ہے اس قسم کی غیر ادبی اور غیر علمی صورت حال لکھنے وال کی فکری صلاحیت اس کے نقطہ ہائے نظر کی افادیت اور گردوپیش پر اس کے اثرات کی دلیل بن جاتی ہے۔ملک صاحب اپنی کتاب کے دوسرے مجموعہ میں سرِ آغاز میں لکھتے ہیں” اپنے مضامین کا دوسرا مجموعہ مرتب کرتے وقت ،میں مسرور بھی ہوں اور ملول بھی۔رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی تحریروں کی کتابی صورت میں یکجائی کے امکان پر کیسے مسرت نہ ہوگی۔
“انداز نظر کے مضمون علمی و فکری اعتبار سے نہایت پروقار ہیں۔انہیں جڑواں شہر کی تقریب میں یک سینئر ادیب کی حیثیت سے اصرار کرکے بلایا جاتا ہے اور ان کی باتوں کو محبت اور توجہ سے سنا جاتا ہے۔اتنی ساری مصروفیات کے باوجود انہوں نے اپنا قلم رواں رکھا ہوا ہے۔تنقیدی مضامین لکھتے ہیں،اخبارات کو ہفتہ وار کالم بھیجتے ہیں،جن میں وہی نظریات واضح انداز میں اور کھلے کھلے بیان کرتے ہیں جو ان کے تنقیدی مضامین میں پائے جاتے ہیں۔انکی تنقید کا بنیادی مسئلہ ادب اور ثقافت کی نوعیت کی متعین کرتا رہا ہے اور دوسرے لفظوں میں ان کی تنقیدی فکر کو زیادہ سروکار اس بات سے ہے کہ پاکستانی قومیت کا تصور پاکستانی ادیبوں کی تخلیقات میں کیسے منعکس ہوتا ہے۔وہ ان چند نقادوں میں سے ہیں جواب بھی اس تصور کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں اور ایک مربوط اور ہم آہنگ انداز میں متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ملک صاحب وہ پہلے ادیب نہیں ہیں جنہوں نے پاکستانی ادب کے تصور پر بات کی ہو۔پروفیسر فتح محمد ملک اردو ادب میں ایک باکمال شخصیت ہیں اور ادب میں ان کی خدمات ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
پروفیسر فتح محمد ملک ممتاز نقاد دانشور اور اردو انگریزی قلم کار جناب فتح محمد ملک،پاکستانی ادب کے معمار اور ہماری تین نسلوں کے استاد ہیں۔عہد ساز تنقید نگار،ممتاز اور بے بدل دانش ور،پاکستانیت و اقبالیات کے عالمی سطح پر نمایاں سکالر پروفیسر فتح محمد ملک اسلام آباد اور پاکستان ،اردو کے دفاعی محاذ پر جس قوت اور تسلسل کے ساتھ جم کر کھڑے ہیں،یہ انہیں کا اعزاز ہے۔پروفیسر فتح محمد ملک 18جون 1934 ءکو ضلع اٹک کی تحصیل تلہ گنگ کے قصبے ٹہی میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے میٹرک گورنمنٹ سکول تلہ گنگ سے اور ایف۔اے گورنمنٹ کالج اٹک سے کیا۔ملک صاحب ایم۔اے اردو میں فرسٹ آنے پر پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل کے حقدارٹھہرائے گئے۔ملک صاحب ایم۔اے کرنے تک اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔
فتح محمد ملک کو ابتداءہی سے کتاب بینی سے رغبت ہوگئی تھی،میٹرک کے بعد جو پہلا ناول پڑھا وہ نسیم حجازی کا تھا۔پہلے پہل انہوں نے افسانے لکھے جو ماہنامہ ”ہمایوں“ لاہور اور ”مشرب “ کراچی کے سالنامے میں چھپے۔اگرچہ ان افسانوں کو بہت پسند کیا گیا۔فتح محمد چار دہائیوں سے زائد عرصے تک تعلیم سے وابستہ رہے۔ایم۔اے اردو کرنے کے چار ماہ بعد ہی لیکچرار ہوگئے۔اپنی محنت ،خلوص اور لگن سے آگے بڑھتے رہے اور ان پر نئی نئی راہیں کھلتی چلی گئیں۔آپ نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد ،ہائیڈل برگ یونیورسٹی،نیو یارک میں کولمبیا یونیورسٹی ،برلن میں ہیمولڈٹ یونیورسٹی و غیرہ اداروں میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔
فتح محمد ملک کو ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پروفیسر محمد عثمان جیسے فاضل اساتذہ سے فیضان علم کا موقع ملا تو ان کی شخصیت میں نکھار آتا گیا۔ان کی اہم تصانیف میں تحسین و تردید، فیض، شاعری اور سیاست،اندازِ نظر،تعصبات،احمد ندیم قاسمی : شاعر اور افسانہ نگار،اقبال فکروعمل،اقبال فراموشی،اپنی آگ کی تلاش،ندیم شناسی، احمد فراز کی شاعری،پاکستان کا روشن مستقبل،ہماری قومی شناخت کا خوف وغیرہ شامل ہیں۔فتح محمد ملک کا ایک کالم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میں کیوں لکھتا ہوں۔لکھتے ہیں کہ میں نے جب کچھ کہنا ہوتا ہے تو میں پہلے ادب پڑھتا ہوں،زندگی کو پڑھتا ہوں،زندگی کے مطالبات اور ادیب کی تخلیقات کو بیک وقت دیکھتا ہوں۔ان کی پہلی باقاعدہ تنقیدی کاوش ” اردوادب اور قومی زندگی “ ہے۔اس مضمون میں انہوں نے اپنی قومی زندگی کے مسائل اور مشکلات سے اپنے ادیب کی لا تعلقی کو سامنے لانے کی کوشش کی تھی۔
فتح محمد ملک ایک ممتاز نقاد ہیں۔انہوں نے شعرو ادب ،کلچر اور اقبالیات کے حوالے سے کافی کام کیا۔فتح محمد ملک نے تنقید کے شعبے میں مسلسل اور لائق تحسین کام کیا۔اور اپنے اہم فکری مقالات سے متعدد و تازہ مباحث کو تنقید کا حصہ بنایا اور نئے سوالات بھی اٹھائے۔انہیں ترقی پسند نقادوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ فتح محمد ملک ایک زمانے میں ممتاز ترقی پسند ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ہم نوا اور قریبی ساتھی تھے ۔تاہم نظریاتی اعتبار سے اُن کا رجحان کچھ اور نظر آتا ہے ۔ادب میں ان کا ایک اہم مقام تسلیم شدہ ہے۔فتح محمد کا شمار ان نقادوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد شعور کی آنکھ کھولی اور اس وقت تنقید کا آغاز کیا جب پاکستانی ادب اپنی شکل بنانے لگا تھا۔ان کے عہد سے قبل اردوادب کی بہت بڑی بڑی تحریکیں تھیں اور سامنے نئے ادب کے نئے نعرے تھے۔”آتش رفتہ کا سراغ“ اور ”کھوئے ہوﺅں کی جستجو“ فتح محمد ملک کے تنقیدی شعور کا ثبوت ہے۔
پہلے ”تعصبات “ اور پھر ” تحسین و تردید “ میں انہوں نے ہر جگہ نئے ادیبوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔قیام پاکستان کے دس بارہ برس بعد ہی ہمارے ادب میں جدیدیت کا طوفان اٹھا فتح محمد ملک نے زیادہ تر اسی کو موضوع بنایا ہے اور اسی طرح جدید رویوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا ہے جس میں انہیں قومی زندگی کے لیے طرح طرح کے خطرات چھپے دکھائی دئیے۔
”تعصبات“ ملک صاحب کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے ۔اس میں کل سترہ مضامین ہیں۔کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔اس حصے میں شامل مضامین آٹھ پہلے حصے میں شامل مضامین کے عنوانات یوں ہیں: ہماری قومی زندگی اور ادیب، تحریک آزادی میں ادیب کا حصہ،خیال کا خوف،اقبال کے خلاف ردعمل کیوں،نئی شاعری اور اور جدید شاعری ،شاعری اورناشاعری،غزل اور نئی غزل،افسانہ اور نیا افسانہ جبکہ دوسرے حصے کا نام ”غالب سے منیر نیازی تک“ ہے۔اس دوسرے حصے میں یہ نو مضامین شامل ہیں۔غالب کے بغیر،اقبال کے من و تو،ندیم کا آدم نو،فیض کی دو آوازیں،میراجی کی کتاب پریشان،ضیاءجالندھری کے خواب،مامتا کی شاعری اور منیر نیازی کا شہرا مکاں۔فتح محمد ملک نے ”تعصبات“ کے نام سے ایک بہت عمدہ کتاب پیش کی ہے جو انداز کی ندرت اور طرز بیان کی شگفتگی کے الخاص میں شمار ہونے کے لائق ہے۔
تنقیدی مضامین کا دوسرا مجموعہ ”اندازِ نظر“ کو موضوعات کے اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔کتاب کا پہلا حصہ”تہذیب و تخلیق “ ہے جس میں آٹھ مضامین کی تفصیل یوں ہے۔غالب اور ہمارا شعور قومیت،محمد حسین آزاد کا طرزِ احساس،تمیزدار بہو کی بدتمیزی،قدرت اللہ شہاب افسانہ نگاری سے خطابت تک،محمد علی جوہر کی غزل،مطالعہ رومی اور خلیفہ عبدالحکیم،غیر تخلیقی لمحے کا فیضان،جدید غزل میں باقی صدیقی کی آواز،مشرق اور مغرب کی ادبی رفاقت،دوسر حصے میں چار مضامین شامل ہیں۔کتاب کے تیسرے حصے ”بین السطور “ میں چھ مضامین شامل ہیں۔چوتھے حصے ”برسبیل تبصرہ“ والے چوتھے حصے میں آٹھ مضامین شامل ہیں۔
اردو تنقید کے گھر کے آنگن میں جو غالب و سرسید اور حالی کی سرزمین پر بنے ہیں”اندازِ نظر“ جیسی کتاب کا اضافہ قابل ذکر موضوع ہے ۔یہ کتاب فتح محمد ملک کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو ان کے پہلے مجموعہ کے آٹھ سال بعد شائع ہوا ہے اور ان موضوعات پر مشتمل ہے جو معروف و معتبر ادبی رسالوں اور قومی اخباروں میں شائع ہوتے رہے تھے۔فتح محمد ملک کا شمار بھی ان نقادوں میں ہونا چاہیے جن کی تحریریں علم و ادب اور فکرو نظر کی دنیا کو اسی طرح چونکاتی ہیں جس طرح ٹھہرتے خاموش پانی کی سطح پر ایک چھوٹا سا وزنی پتھر اٹھتی گرتی لہروں کا بھنور پیدا کردیتا ہے۔تعصبات اور انداز نظر کا مصنف علم و تنقید کی قلمرو میں ایسی شخصیت لے کر ابھرا ہے جس سے اختلاف کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اپنے ردعمل میں کسی حد انتہا پسن بھی ہے اس قسم کی غیر ادبی اور غیر علمی صورت حال لکھنے وال کی فکری صلاحیت اس کے نقطہ ہائے نظر کی افادیت اور گردوپیش پر اس کے اثرات کی دلیل بن جاتی ہے۔ملک صاحب اپنی کتاب کے دوسرے مجموعہ میں سرِ آغاز میں لکھتے ہیں” اپنے مضامین کا دوسرا مجموعہ مرتب کرتے وقت ،میں مسرور بھی ہوں اور ملول بھی۔رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی تحریروں کی کتابی صورت میں یکجائی کے امکان پر کیسے مسرت نہ ہوگی۔
“انداز نظر کے مضمون علمی و فکری اعتبار سے نہایت پروقار ہیں۔انہیں جڑواں شہر کی تقریب میں یک سینئر ادیب کی حیثیت سے اصرار کرکے بلایا جاتا ہے اور ان کی باتوں کو محبت اور توجہ سے سنا جاتا ہے۔اتنی ساری مصروفیات کے باوجود انہوں نے اپنا قلم رواں رکھا ہوا ہے۔تنقیدی مضامین لکھتے ہیں،اخبارات کو ہفتہ وار کالم بھیجتے ہیں،جن میں وہی نظریات واضح انداز میں اور کھلے کھلے بیان کرتے ہیں جو ان کے تنقیدی مضامین میں پائے جاتے ہیں۔انکی تنقید کا بنیادی مسئلہ ادب اور ثقافت کی نوعیت کی متعین کرتا رہا ہے اور دوسرے لفظوں میں ان کی تنقیدی فکر کو زیادہ سروکار اس بات سے ہے کہ پاکستانی قومیت کا تصور پاکستانی ادیبوں کی تخلیقات میں کیسے منعکس ہوتا ہے۔وہ ان چند نقادوں میں سے ہیں جواب بھی اس تصور کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں اور ایک مربوط اور ہم آہنگ انداز میں متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ملک صاحب وہ پہلے ادیب نہیں ہیں جنہوں نے پاکستانی ادب کے تصور پر بات کی ہو۔پروفیسر فتح محمد ملک اردو ادب میں ایک باکمال شخصیت ہیں اور ادب میں ان کی خدمات ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
پروفیسر فتح محمد ملک ممتاز نقاد دانشور اور اردو انگریزی قلم کار جناب فتح محمد ملک،پاکستانی ادب کے معمار اور ہماری تین نسلوں کے استاد ہیں۔عہد ساز تنقید نگار،ممتاز اور بے بدل دانش ور،پاکستانیت و اقبالیات کے عالمی سطح پر نمایاں سکالر پروفیسر فتح محمد ملک اسلام آباد اور پاکستان ،اردو کے دفاعی محاذ پر جس قوت اور تسلسل کے ساتھ جم کر کھڑے ہیں،یہ انہیں کا اعزاز ہے۔پروفیسر فتح محمد ملک 18جون 1934 ءکو ضلع اٹک کی تحصیل تلہ گنگ کے قصبے ٹہی میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے میٹرک گورنمنٹ سکول تلہ گنگ سے اور ایف۔اے گورنمنٹ کالج اٹک سے کیا۔ملک صاحب ایم۔اے اردو میں فرسٹ آنے پر پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل کے حقدارٹھہرائے گئے۔ملک صاحب ایم۔اے کرنے تک اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔
فتح محمد ملک کو ابتداءہی سے کتاب بینی سے رغبت ہوگئی تھی،میٹرک کے بعد جو پہلا ناول پڑھا وہ نسیم حجازی کا تھا۔پہلے پہل انہوں نے افسانے لکھے جو ماہنامہ ”ہمایوں“ لاہور اور ”مشرب “ کراچی کے سالنامے میں چھپے۔اگرچہ ان افسانوں کو بہت پسند کیا گیا۔فتح محمد چار دہائیوں سے زائد عرصے تک تعلیم سے وابستہ رہے۔ایم۔اے اردو کرنے کے چار ماہ بعد ہی لیکچرار ہوگئے۔اپنی محنت ،خلوص اور لگن سے آگے بڑھتے رہے اور ان پر نئی نئی راہیں کھلتی چلی گئیں۔آپ نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد ،ہائیڈل برگ یونیورسٹی،نیو یارک میں کولمبیا یونیورسٹی ،برلن میں ہیمولڈٹ یونیورسٹی و غیرہ اداروں میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔
فتح محمد ملک کو ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پروفیسر محمد عثمان جیسے فاضل اساتذہ سے فیضان علم کا موقع ملا تو ان کی شخصیت میں نکھار آتا گیا۔ان کی اہم تصانیف میں تحسین و تردید، فیض، شاعری اور سیاست،اندازِ نظر،تعصبات،احمد ندیم قاسمی : شاعر اور افسانہ نگار،اقبال فکروعمل،اقبال فراموشی،اپنی آگ کی تلاش،ندیم شناسی، احمد فراز کی شاعری،پاکستان کا روشن مستقبل،ہماری قومی شناخت کا خوف وغیرہ شامل ہیں۔فتح محمد ملک کا ایک کالم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میں کیوں لکھتا ہوں۔لکھتے ہیں کہ میں نے جب کچھ کہنا ہوتا ہے تو میں پہلے ادب پڑھتا ہوں،زندگی کو پڑھتا ہوں،زندگی کے مطالبات اور ادیب کی تخلیقات کو بیک وقت دیکھتا ہوں۔ان کی پہلی باقاعدہ تنقیدی کاوش ” اردوادب اور قومی زندگی “ ہے۔اس مضمون میں انہوں نے اپنی قومی زندگی کے مسائل اور مشکلات سے اپنے ادیب کی لا تعلقی کو سامنے لانے کی کوشش کی تھی۔
فتح محمد ملک ایک ممتاز نقاد ہیں۔انہوں نے شعرو ادب ،کلچر اور اقبالیات کے حوالے سے کافی کام کیا۔فتح محمد ملک نے تنقید کے شعبے میں مسلسل اور لائق تحسین کام کیا۔اور اپنے اہم فکری مقالات سے متعدد و تازہ مباحث کو تنقید کا حصہ بنایا اور نئے سوالات بھی اٹھائے۔انہیں ترقی پسند نقادوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ فتح محمد ملک ایک زمانے میں ممتاز ترقی پسند ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ہم نوا اور قریبی ساتھی تھے ۔تاہم نظریاتی اعتبار سے اُن کا رجحان کچھ اور نظر آتا ہے ۔ادب میں ان کا ایک اہم مقام تسلیم شدہ ہے۔فتح محمد کا شمار ان نقادوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد شعور کی آنکھ کھولی اور اس وقت تنقید کا آغاز کیا جب پاکستانی ادب اپنی شکل بنانے لگا تھا۔ان کے عہد سے قبل اردوادب کی بہت بڑی بڑی تحریکیں تھیں اور سامنے نئے ادب کے نئے نعرے تھے۔”آتش رفتہ کا سراغ“ اور ”کھوئے ہوﺅں کی جستجو“ فتح محمد ملک کے تنقیدی شعور کا ثبوت ہے۔
پہلے ”تعصبات “ اور پھر ” تحسین و تردید “ میں انہوں نے ہر جگہ نئے ادیبوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔قیام پاکستان کے دس بارہ برس بعد ہی ہمارے ادب میں جدیدیت کا طوفان اٹھا فتح محمد ملک نے زیادہ تر اسی کو موضوع بنایا ہے اور اسی طرح جدید رویوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا ہے جس میں انہیں قومی زندگی کے لیے طرح طرح کے خطرات چھپے دکھائی دئیے۔
”تعصبات“ ملک صاحب کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے ۔اس میں کل سترہ مضامین ہیں۔کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔اس حصے میں شامل مضامین آٹھ پہلے حصے میں شامل مضامین کے عنوانات یوں ہیں: ہماری قومی زندگی اور ادیب، تحریک آزادی میں ادیب کا حصہ،خیال کا خوف،اقبال کے خلاف ردعمل کیوں،نئی شاعری اور اور جدید شاعری ،شاعری اورناشاعری،غزل اور نئی غزل،افسانہ اور نیا افسانہ جبکہ دوسرے حصے کا نام ”غالب سے منیر نیازی تک“ ہے۔اس دوسرے حصے میں یہ نو مضامین شامل ہیں۔غالب کے بغیر،اقبال کے من و تو،ندیم کا آدم نو،فیض کی دو آوازیں،میراجی کی کتاب پریشان،ضیاءجالندھری کے خواب،مامتا کی شاعری اور منیر نیازی کا شہرا مکاں۔فتح محمد ملک نے ”تعصبات“ کے نام سے ایک بہت عمدہ کتاب پیش کی ہے جو انداز کی ندرت اور طرز بیان کی شگفتگی کے الخاص میں شمار ہونے کے لائق ہے۔
تنقیدی مضامین کا دوسرا مجموعہ ”اندازِ نظر“ کو موضوعات کے اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔کتاب کا پہلا حصہ”تہذیب و تخلیق “ ہے جس میں آٹھ مضامین کی تفصیل یوں ہے۔غالب اور ہمارا شعور قومیت،محمد حسین آزاد کا طرزِ احساس،تمیزدار بہو کی بدتمیزی،قدرت اللہ شہاب افسانہ نگاری سے خطابت تک،محمد علی جوہر کی غزل،مطالعہ رومی اور خلیفہ عبدالحکیم،غیر تخلیقی لمحے کا فیضان،جدید غزل میں باقی صدیقی کی آواز،مشرق اور مغرب کی ادبی رفاقت،دوسر حصے میں چار مضامین شامل ہیں۔کتاب کے تیسرے حصے ”بین السطور “ میں چھ مضامین شامل ہیں۔چوتھے حصے ”برسبیل تبصرہ“ والے چوتھے حصے میں آٹھ مضامین شامل ہیں۔
اردو تنقید کے گھر کے آنگن میں جو غالب و سرسید اور حالی کی سرزمین پر بنے ہیں”اندازِ نظر“ جیسی کتاب کا اضافہ قابل ذکر موضوع ہے ۔یہ کتاب فتح محمد ملک کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو ان کے پہلے مجموعہ کے آٹھ سال بعد شائع ہوا ہے اور ان موضوعات پر مشتمل ہے جو معروف و معتبر ادبی رسالوں اور قومی اخباروں میں شائع ہوتے رہے تھے۔فتح محمد ملک کا شمار بھی ان نقادوں میں ہونا چاہیے جن کی تحریریں علم و ادب اور فکرو نظر کی دنیا کو اسی طرح چونکاتی ہیں جس طرح ٹھہرتے خاموش پانی کی سطح پر ایک چھوٹا سا وزنی پتھر اٹھتی گرتی لہروں کا بھنور پیدا کردیتا ہے۔تعصبات اور انداز نظر کا مصنف علم و تنقید کی قلمرو میں ایسی شخصیت لے کر ابھرا ہے جس سے اختلاف کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اپنے ردعمل میں کسی حد انتہا پسن بھی ہے اس قسم کی غیر ادبی اور غیر علمی صورت حال لکھنے وال کی فکری صلاحیت اس کے نقطہ ہائے نظر کی افادیت اور گردوپیش پر اس کے اثرات کی دلیل بن جاتی ہے۔ملک صاحب اپنی کتاب کے دوسرے مجموعہ میں سرِ آغاز میں لکھتے ہیں” اپنے مضامین کا دوسرا مجموعہ مرتب کرتے وقت ،میں مسرور بھی ہوں اور ملول بھی۔رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی تحریروں کی کتابی صورت میں یکجائی کے امکان پر کیسے مسرت نہ ہوگی۔
“انداز نظر کے مضمون علمی و فکری اعتبار سے نہایت پروقار ہیں۔انہیں جڑواں شہر کی تقریب میں یک سینئر ادیب کی حیثیت سے اصرار کرکے بلایا جاتا ہے اور ان کی باتوں کو محبت اور توجہ سے سنا جاتا ہے۔اتنی ساری مصروفیات کے باوجود انہوں نے اپنا قلم رواں رکھا ہوا ہے۔تنقیدی مضامین لکھتے ہیں،اخبارات کو ہفتہ وار کالم بھیجتے ہیں،جن میں وہی نظریات واضح انداز میں اور کھلے کھلے بیان کرتے ہیں جو ان کے تنقیدی مضامین میں پائے جاتے ہیں۔انکی تنقید کا بنیادی مسئلہ ادب اور ثقافت کی نوعیت کی متعین کرتا رہا ہے اور دوسرے لفظوں میں ان کی تنقیدی فکر کو زیادہ سروکار اس بات سے ہے کہ پاکستانی قومیت کا تصور پاکستانی ادیبوں کی تخلیقات میں کیسے منعکس ہوتا ہے۔وہ ان چند نقادوں میں سے ہیں جواب بھی اس تصور کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں اور ایک مربوط اور ہم آہنگ انداز میں متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ملک صاحب وہ پہلے ادیب نہیں ہیں جنہوں نے پاکستانی ادب کے تصور پر بات کی ہو۔پروفیسر فتح محمد ملک اردو ادب میں ایک باکمال شخصیت ہیں اور ادب میں ان کی خدمات ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
پروفیسر فتح محمد ملک ممتاز نقاد دانشور اور اردو انگریزی قلم کار جناب فتح محمد ملک،پاکستانی ادب کے معمار اور ہماری تین نسلوں کے استاد ہیں۔عہد ساز تنقید نگار،ممتاز اور بے بدل دانش ور،پاکستانیت و اقبالیات کے عالمی سطح پر نمایاں سکالر پروفیسر فتح محمد ملک اسلام آباد اور پاکستان ،اردو کے دفاعی محاذ پر جس قوت اور تسلسل کے ساتھ جم کر کھڑے ہیں،یہ انہیں کا اعزاز ہے۔پروفیسر فتح محمد ملک 18جون 1934 ءکو ضلع اٹک کی تحصیل تلہ گنگ کے قصبے ٹہی میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے میٹرک گورنمنٹ سکول تلہ گنگ سے اور ایف۔اے گورنمنٹ کالج اٹک سے کیا۔ملک صاحب ایم۔اے اردو میں فرسٹ آنے پر پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل کے حقدارٹھہرائے گئے۔ملک صاحب ایم۔اے کرنے تک اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔
فتح محمد ملک کو ابتداءہی سے کتاب بینی سے رغبت ہوگئی تھی،میٹرک کے بعد جو پہلا ناول پڑھا وہ نسیم حجازی کا تھا۔پہلے پہل انہوں نے افسانے لکھے جو ماہنامہ ”ہمایوں“ لاہور اور ”مشرب “ کراچی کے سالنامے میں چھپے۔اگرچہ ان افسانوں کو بہت پسند کیا گیا۔فتح محمد چار دہائیوں سے زائد عرصے تک تعلیم سے وابستہ رہے۔ایم۔اے اردو کرنے کے چار ماہ بعد ہی لیکچرار ہوگئے۔اپنی محنت ،خلوص اور لگن سے آگے بڑھتے رہے اور ان پر نئی نئی راہیں کھلتی چلی گئیں۔آپ نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد ،ہائیڈل برگ یونیورسٹی،نیو یارک میں کولمبیا یونیورسٹی ،برلن میں ہیمولڈٹ یونیورسٹی و غیرہ اداروں میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔
فتح محمد ملک کو ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پروفیسر محمد عثمان جیسے فاضل اساتذہ سے فیضان علم کا موقع ملا تو ان کی شخصیت میں نکھار آتا گیا۔ان کی اہم تصانیف میں تحسین و تردید، فیض، شاعری اور سیاست،اندازِ نظر،تعصبات،احمد ندیم قاسمی : شاعر اور افسانہ نگار،اقبال فکروعمل،اقبال فراموشی،اپنی آگ کی تلاش،ندیم شناسی، احمد فراز کی شاعری،پاکستان کا روشن مستقبل،ہماری قومی شناخت کا خوف وغیرہ شامل ہیں۔فتح محمد ملک کا ایک کالم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میں کیوں لکھتا ہوں۔لکھتے ہیں کہ میں نے جب کچھ کہنا ہوتا ہے تو میں پہلے ادب پڑھتا ہوں،زندگی کو پڑھتا ہوں،زندگی کے مطالبات اور ادیب کی تخلیقات کو بیک وقت دیکھتا ہوں۔ان کی پہلی باقاعدہ تنقیدی کاوش ” اردوادب اور قومی زندگی “ ہے۔اس مضمون میں انہوں نے اپنی قومی زندگی کے مسائل اور مشکلات سے اپنے ادیب کی لا تعلقی کو سامنے لانے کی کوشش کی تھی۔
فتح محمد ملک ایک ممتاز نقاد ہیں۔انہوں نے شعرو ادب ،کلچر اور اقبالیات کے حوالے سے کافی کام کیا۔فتح محمد ملک نے تنقید کے شعبے میں مسلسل اور لائق تحسین کام کیا۔اور اپنے اہم فکری مقالات سے متعدد و تازہ مباحث کو تنقید کا حصہ بنایا اور نئے سوالات بھی اٹھائے۔انہیں ترقی پسند نقادوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ فتح محمد ملک ایک زمانے میں ممتاز ترقی پسند ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ہم نوا اور قریبی ساتھی تھے ۔تاہم نظریاتی اعتبار سے اُن کا رجحان کچھ اور نظر آتا ہے ۔ادب میں ان کا ایک اہم مقام تسلیم شدہ ہے۔فتح محمد کا شمار ان نقادوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد شعور کی آنکھ کھولی اور اس وقت تنقید کا آغاز کیا جب پاکستانی ادب اپنی شکل بنانے لگا تھا۔ان کے عہد سے قبل اردوادب کی بہت بڑی بڑی تحریکیں تھیں اور سامنے نئے ادب کے نئے نعرے تھے۔”آتش رفتہ کا سراغ“ اور ”کھوئے ہوﺅں کی جستجو“ فتح محمد ملک کے تنقیدی شعور کا ثبوت ہے۔
پہلے ”تعصبات “ اور پھر ” تحسین و تردید “ میں انہوں نے ہر جگہ نئے ادیبوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔قیام پاکستان کے دس بارہ برس بعد ہی ہمارے ادب میں جدیدیت کا طوفان اٹھا فتح محمد ملک نے زیادہ تر اسی کو موضوع بنایا ہے اور اسی طرح جدید رویوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا ہے جس میں انہیں قومی زندگی کے لیے طرح طرح کے خطرات چھپے دکھائی دئیے۔
”تعصبات“ ملک صاحب کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے ۔اس میں کل سترہ مضامین ہیں۔کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔اس حصے میں شامل مضامین آٹھ پہلے حصے میں شامل مضامین کے عنوانات یوں ہیں: ہماری قومی زندگی اور ادیب، تحریک آزادی میں ادیب کا حصہ،خیال کا خوف،اقبال کے خلاف ردعمل کیوں،نئی شاعری اور اور جدید شاعری ،شاعری اورناشاعری،غزل اور نئی غزل،افسانہ اور نیا افسانہ جبکہ دوسرے حصے کا نام ”غالب سے منیر نیازی تک“ ہے۔اس دوسرے حصے میں یہ نو مضامین شامل ہیں۔غالب کے بغیر،اقبال کے من و تو،ندیم کا آدم نو،فیض کی دو آوازیں،میراجی کی کتاب پریشان،ضیاءجالندھری کے خواب،مامتا کی شاعری اور منیر نیازی کا شہرا مکاں۔فتح محمد ملک نے ”تعصبات“ کے نام سے ایک بہت عمدہ کتاب پیش کی ہے جو انداز کی ندرت اور طرز بیان کی شگفتگی کے الخاص میں شمار ہونے کے لائق ہے۔
تنقیدی مضامین کا دوسرا مجموعہ ”اندازِ نظر“ کو موضوعات کے اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔کتاب کا پہلا حصہ”تہذیب و تخلیق “ ہے جس میں آٹھ مضامین کی تفصیل یوں ہے۔غالب اور ہمارا شعور قومیت،محمد حسین آزاد کا طرزِ احساس،تمیزدار بہو کی بدتمیزی،قدرت اللہ شہاب افسانہ نگاری سے خطابت تک،محمد علی جوہر کی غزل،مطالعہ رومی اور خلیفہ عبدالحکیم،غیر تخلیقی لمحے کا فیضان،جدید غزل میں باقی صدیقی کی آواز،مشرق اور مغرب کی ادبی رفاقت،دوسر حصے میں چار مضامین شامل ہیں۔کتاب کے تیسرے حصے ”بین السطور “ میں چھ مضامین شامل ہیں۔چوتھے حصے ”برسبیل تبصرہ“ والے چوتھے حصے میں آٹھ مضامین شامل ہیں۔
اردو تنقید کے گھر کے آنگن میں جو غالب و سرسید اور حالی کی سرزمین پر بنے ہیں”اندازِ نظر“ جیسی کتاب کا اضافہ قابل ذکر موضوع ہے ۔یہ کتاب فتح محمد ملک کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو ان کے پہلے مجموعہ کے آٹھ سال بعد شائع ہوا ہے اور ان موضوعات پر مشتمل ہے جو معروف و معتبر ادبی رسالوں اور قومی اخباروں میں شائع ہوتے رہے تھے۔فتح محمد ملک کا شمار بھی ان نقادوں میں ہونا چاہیے جن کی تحریریں علم و ادب اور فکرو نظر کی دنیا کو اسی طرح چونکاتی ہیں جس طرح ٹھہرتے خاموش پانی کی سطح پر ایک چھوٹا سا وزنی پتھر اٹھتی گرتی لہروں کا بھنور پیدا کردیتا ہے۔تعصبات اور انداز نظر کا مصنف علم و تنقید کی قلمرو میں ایسی شخصیت لے کر ابھرا ہے جس سے اختلاف کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اپنے ردعمل میں کسی حد انتہا پسن بھی ہے اس قسم کی غیر ادبی اور غیر علمی صورت حال لکھنے وال کی فکری صلاحیت اس کے نقطہ ہائے نظر کی افادیت اور گردوپیش پر اس کے اثرات کی دلیل بن جاتی ہے۔ملک صاحب اپنی کتاب کے دوسرے مجموعہ میں سرِ آغاز میں لکھتے ہیں” اپنے مضامین کا دوسرا مجموعہ مرتب کرتے وقت ،میں مسرور بھی ہوں اور ملول بھی۔رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی تحریروں کی کتابی صورت میں یکجائی کے امکان پر کیسے مسرت نہ ہوگی۔
“انداز نظر کے مضمون علمی و فکری اعتبار سے نہایت پروقار ہیں۔انہیں جڑواں شہر کی تقریب میں یک سینئر ادیب کی حیثیت سے اصرار کرکے بلایا جاتا ہے اور ان کی باتوں کو محبت اور توجہ سے سنا جاتا ہے۔اتنی ساری مصروفیات کے باوجود انہوں نے اپنا قلم رواں رکھا ہوا ہے۔تنقیدی مضامین لکھتے ہیں،اخبارات کو ہفتہ وار کالم بھیجتے ہیں،جن میں وہی نظریات واضح انداز میں اور کھلے کھلے بیان کرتے ہیں جو ان کے تنقیدی مضامین میں پائے جاتے ہیں۔انکی تنقید کا بنیادی مسئلہ ادب اور ثقافت کی نوعیت کی متعین کرتا رہا ہے اور دوسرے لفظوں میں ان کی تنقیدی فکر کو زیادہ سروکار اس بات سے ہے کہ پاکستانی قومیت کا تصور پاکستانی ادیبوں کی تخلیقات میں کیسے منعکس ہوتا ہے۔وہ ان چند نقادوں میں سے ہیں جواب بھی اس تصور کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں اور ایک مربوط اور ہم آہنگ انداز میں متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ملک صاحب وہ پہلے ادیب نہیں ہیں جنہوں نے پاکستانی ادب کے تصور پر بات کی ہو۔پروفیسر فتح محمد ملک اردو ادب میں ایک باکمال شخصیت ہیں اور ادب میں ان کی خدمات ایک قیمتی اثاثہ ہے۔