قومی سیاسی اکھاڑے میں جمہوریت لگی دھینگا مشتی اور قومی و صوبائی انتخابات کی حتمی تاریخ کے فیصلے سے بادی النظر سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ کے حصول کی دوڑکا آغاز ہو چکا ہے۔ ویسے تو یہ دوڑتب ہی شروع ہو جاتی ہے جب تازہ تازہ الیکشن اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ابھی منتخب شدہ نمائندگان حلف ہی نہیں اٹھا پاتے اور ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ جس طرح ہر ملک کا سوشیو کلچر مختلف ہوتا ہے اس طرح سیاسی کلچر بھی ایک دوسرے سے کسی نہ کسی حد تک مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ خود سیاسی جماعتوں کے لیے شدید آزمائش کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران سیاسی جماعتوں کا خود قواعدو ضوابط کی دھجیاں اڑانا ہے۔ جہاں ٹکٹ کی تقسیم کاری کے دوران قومی سیاسی جماعتیں اور ان کی مرکزی قیادت ٹکٹ کے خواہش مند کو تجربہ،ساکھ، سیاسی بصیرت اور سینیئر شپ کے طے شدہ معیار کو پیمانہ مقرر کرنے کی بجائے اقربا پروری اور بھاری بھر کم قیمت کے پلڑے میں تولتی ہے۔جسے”پارٹی فنڈ“کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پارٹی فنڈ کی صورت میں جو امیدوار جتنا زیادہ مال خرچ کرے گا وہ اتنا ہی اپنے لیڈر کا منظور نظر ہو جائے گا۔
اس ضمن میں سیاسی کارکنان کی قربانیاں گئی تیل لینے! یہی وجہ ہے کہ ہر انتخابات کے موقع پر ٹکٹوں کی تقسیم کے اس کھیل میں ہر وہ سیاسی جماعت جب قواعدو ضوابط سے فرار اختیار کرتی ہے تو اس کے اندر تنظیمی ٹوٹ پھوٹ اورنئے ہم خیال گروہوں کی تشکیل ایک اٹوٹ عمل بن جاتا ہے جو کہ نہ صرف اس سیاسی جماعت کو کمزور کرتا ہے بلکہ قومی سیاسی دھارے میں کمزوری پیدا کرتا ہے۔لیکن بات پاکستان کے سیاسی کلچر پر ختم نہیں ہوتی۔
ہمارے ہاں سر کردہ سیاسی جماعتوں کے باہمی سیاسی کلچر بھی تضاد کا شکار ہیں۔جہاں ٹکٹوں کی اجرا ء کے لیے لیڈر شپ اور تنظیمی ضابطوں کے بھی اپنے اپنے پیرامیٹرز ہیں،لیکن ان پیرامیٹرز کی بنیاد مجموعی طور پرقیادت کی بدلتی ترجیحات، سیاسی چال بازیوں اور حکمتِ عملیوں کے ساتھ ساتھ مالی فوائد پرمنحصر ہوتی ہیں۔ اہم چیز یہ ہے کہ پاکستان میں چند اور نمایاں سیاسی جماعتوں کو جہاں ملک بھر سے نظریاتی ووٹ پڑتے ہیں وہ خود اندر خانہ پارٹی نظریات کو کچلنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ان مذ کورہ جماعتوں کے قائدین کی گردنوں میں اس قدررعونیت اور سریا پایاجاتا ہے کہ وہ بر ملا کہتے نظر آتے ہیں ہم اگر اپنے نظریاتی گھڑ والے حلقوں میں کسی جانور کو بھی کھڑا کر دیں تو وہ بھی جیت جائے گا۔جو کہ سراسر ایک غلط سوچ ہے۔ اسی سوچ کی بنا پروہ اپنی جماعت کے ان داتا بنے ہوئے ہیں اور ٹکٹوں کے حصول کے لیے امیدوار کو جہاں انتہائی چاپلوس اور خوش آمدی ہونا پڑتا ہے۔وہ ہر آئے روز پارٹی سرگرمیوں میں پھٹیکوں کو برداشت کرتے ہوئے جماعتی اللے تللوں کو بھی فیس کرنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
جیل بھرو تحریک اور از خود کیس کا مستقبل طے ہو گیا
سماج میں تبدیلی کے ماخذات اور نعیم فاطمہ علوی کا سفر نامہ
ٹرین کاخوشگوار سفر جس میں چھلکے تھے اور تھوک کاسیلاب
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انتحابات لڑنے کے لیے امیدواروں کو معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہیے۔جس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک بجٹ متعین کر رکھا ہے لیکن بجٹ تو تب ہو گا جب الیکشن لڑا جائے گااور الیکشن تک پہنچنے کے لیے پارٹی ٹکٹ کی رسائی جماعت کے اندر امیدواروں کی باہمی دوڑاور پیسوں کا بے دریغ استعمال نے ٹکٹوں کی تقسیم کاری کو اتنا مشکل کر دیا ہے کہ جھولیوں میں کڑوروں روپے لیے پھرنے کے باوجود بھی بہت سے امیدوار پارٹی ٹکٹ کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کروڑوں اور اربوں کی انفرادی خرچ اور سبقت کی دوڑ کا عوام پر کیا اثر پڑتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ سیدھی سی بات ہے کہ کروڑوں اور اربوں انویسٹمنٹ کرنے والے کوئی صدقہ جاریہ نہیں کر رہے ہوتے اور ٹکٹ کے حصول اور الیکشن میں جیت کے بعد تمام فتح یاب امیدواران قومی اور صوبائی اسمبلی اپنی سرمایہ کاری کی لاگت عوام سے سود سمیت وصول کرتے ہیں اور یہ وصولی معززممبران کے استحقاق کی مد میں تعین کیے جانے والے بلوں کی صورت میں ہوتے ہیں چاہے ان کا تعلق ان کی مراعات اور تنخواہ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو ۔ دوسری صورت میں جیتنے والے ارکان کا تعلق خزبِ اقتدار سے ہے تو پھر یہ سرمایہ کاری ٹھیکوں اوربھرتیوں سے جلد وصول ہو جاتی ہے۔
مطلب آجا کر عوام کو ہی بلا واسطہ طور پر امیدواران کی پارٹی ٹکٹ کا خرچ اُٹھا نا پڑتا ہے۔درحقیقت یہ وہ تمام بنیادی وجوہات ہیں جن کی بنا پر بالخصوص پاکستان میں لوئر مڈل یا مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد انتحابات لڑنے کا خواب دیکھنا بھی ایک جرم تصور کرتے ہیں جس ملک میں الیکشن گیم کروڑں سے نکل کر ارب تک پہنچ جائے وہاں ایک عام شہری کا کسی بھی حیثیت میں الیکشن لڑنا محض دیوانے کا خواب تصورکیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں روایتی جاگیردار،وڈیرے،بزنس میں یا بیرونی پے رول پر کام کرنے والے ہی ہمیشہ کی طرح الیکشن لڑتے ہیں اور آگے آتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہمارے ہاں ایوان زیریں یا ایوان بالاہمیشہ ہی متعلقہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے انتہائی ذہین و فطین اور اصل پالیسی سازوں سے محروم رہتی ہیں۔
ترقی یا فتہ ممالک میں الیکٹورل نظام کے تحت سائنسدان، انجینیئر، ماہرِ تعلیم اور ماہرِ معاشیات کو ایوان تک لایا جاتا ہے تا کہ وہ قوم کے بنیادی مسائل کو فوکس کرتے ہوئے پالیسیاں مرتب کریں جس سے ملک میں واقعی بہتری آجائے لیکن ہمارے ملک میں سیاست میں ایسے لوگوں کو لانے سے اجتناب برتا جاتا ہے کیونکہ یہ تو بھوکے ننگے لوگ ہوتے ہیں کوئی پیسہ بنانے والی مشین تھوڑی ہوتے ہیں! الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پیسے کی دوڑ کے کلچر سے متضاد مثال دیکھنے کے لیے ہی ہمیں زیادہ دور جانے کی بجائے پڑوسی ملک بھارت کے دارالحکومت دہلی کی سرکار کو دیکھ لینا چاہیے جہاں عام آدمی پارٹی کے کجریوال نے طاقتور اور پیسے کے مقابلے میں سادگی سے الیکشن لڑ کر دوسری بار اپنی حکومت بنائی ہے۔جس نے اپنے پارٹی امیدواروں کو روپے پیسے کی بجائے ان کی سیاسی و مہارتی معیار پر پرکھا یہی وجہ ہے کہ آج دہلی سرکار پورے بھارت کے لیے ایک ماڈل حکومت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس کی بنا پر دہلی شہر کے دیرینہ اور کٹھن مسائل حل ہو پائے کیا ہم بھی کیچری وال کی طرح الیکشن کو آسان اور سادگی کی طرف نہیں لے جا سکتے؟ٹکٹوں کے سلسلہ میں ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والوں کا انتخاب کرنے سے قبل سنجیدگی سے اس نقطہ کو ضرور ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ پارٹی ٹکٹ کو سینما ٹکٹ نہیں سمجھنا چاہیئے جسے پیسوں کی خاطر بلیک کر کے بیچ دیا جاتا ہے۔