ہمارے سماج میں ایسی تبدیلی کیسے رونما یوجاتی ہیں جن میں نوجوان نسل کے مقابلے میں بزرگ اجنبی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان مظاہر کو سمجھنے اور ان کی پیمائش کے لیے ماہرین عمرانیات نے کئی طریقے اور پیمانے وضع کر رکھے ہیں۔ ان تبدیلیوں کو جاننے کا سائینٹیفک طریقہ یہی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایک عام پڑھا لکھا آدمی کیا کرے جو ان علوم کی تہہ میں اترتا نہیں چاہتا؟ اس سوال کے جوابات بہت سے ہو سکتے ہیں لیکن آسان ترین جواب ہے ادب۔ اور ادب بھی وہ جسے رومانس کی سطح سے اوپر اٹھ کر سپرد قلم کیا گیا ہو۔
یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ادب میں ایسی چیزیں خال خال ملتی ہیں لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ایسے ادیب جو عام آدمی کی سطح پر آکر اپنے مشاہدات کو زبان دیں، کم ہوتے ہیں۔ ان تھوڑے سے لوگوں میں ہی ہماری آپا نعیم فاطمہ علوی صاحبہ ہیں۔ آپا کی شناختیں ایک سے زاید ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ ادیب ہیں اور ادیب بھی ایسی جنھوں نے شعری نشستوں کی طرز پر نثری نشستیں برپا کر کے ادب کی دنیا میں ایک نیا رجحان متعارف کرا دیا۔ اسلام آباد کا حلقہ احباب نثر ان کے ذہن رسا ہی کی پیداوار ہے۔ ادب کی بہتی ہوئی ندی میں کوئی نئی راہ نکالنا آسان نہیں لیکن یہ کارنامہ انھوں نے انجام دیا ہے تو اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ وہ اردو ادب کی رجحان ساز شخصیت مولانا غلام رسول مہر اولاد سے ہیں۔ مولانا ہمارے ادب میں تحریکیں چلانے کے لیے معروف تھے۔ ان کی نواسی کوئی نئی راہ نہ نکالتی حیرت ہوتی۔
یہ بھی پڑھئے:
ٹرین کاخوشگوار سفر جس میں چھلکے تھے اور تھوک کاسیلاب
پرویز مشرف: قومی ترانہ سے قومی پرچم تک
خیر، اس وقت ان کا یہ کارنامہ نہیں ایک کتاب زیر بحث ہے۔ مختار مسعود مرحوم و مغفور کی ایک کتاب کا نام ہے، ‘سفر نصیب’۔ یہ ان کے سفر نامے ہیں اور سفر نصیب انھوں نے خود کو قرار دیا ہے کہ سفر انھوں نے کسی زحمت کے طور پر نہیں کیا بلکہ اس سے لطف اندوز ہوئے، اس سے سیکھا اور یہ جانا کہ اس دنیا میں تنوع کتنا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو نعیم آپا بھی سفر نصیب ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر سفر کرتی ہیں اور ہماری خواتین کی طرح دیار غیر میں میزبان کے گھٹنے سے لگ کر نہیں بیٹھ جاتیں بلکہ سفر در سفر کرتی ہیں یعنی لندن میں ہیں تو ایک دن بیگ اٹھایا اور مانچسٹر کا پہنچیں۔ یوں چل سو چل۔
سفر کی اس عادت نے نہیں وہ نگاہ عطا کر دی ہے جس کے ذریعے تہذیبوں کے اندرون میں جھانکا جا سکتا ہے۔ مثلاً وہ لندن گئیں تو شہر کے ایک کوچے میں انھیں ایسے لڑکے لڑکیاں ملے جو معلوم وجوہات کی وجہ سے نام و نسب سے محروم ہوتے ہیں۔ نسل انسانی کی ان بدقسمت نشانیوں کے صبح و شام کیسے گزرتے ہیں۔ کسی فٹ پاتھ پر انھیں یہ بدقسمت دکھائی دیے انھیں دیکھا اور اس کھوج میں مصروف ہو گئیں کہ برطانیہ جیسے معاشرے میں یہ سب کیسے ہو جاتا ہے اور یہی طرز عمل برقرار رہا تو دنیا کا مستقبل کیا ہو گا؟
یہ نمونے کا ایک پہلو ہے لیکن اگر چند ملکوں کے ان کے سفر نامے ‘ حیرت کو تصویر کریں’ کا مطالعہ کھلی آ نکھ سے کریں تو پتہ چلتا ہے کہ بدلتے ہوئے رشتے ناتوں کی پیچیدگی نے انھیں متوجہ کیا تو وہیں دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے رشتے داروں کے درمیان تعلق باہم کی صورتیں بھی ان سے چھپی نہ رہ سکیں۔ کوئی سفر نامہ اگر مقامات کی دید اور دیگر مشاہدات کے ساتھ ساتھ اگر بدلتے ہوئے رجحانات کی خبر بھی فراہم کر دے تو اسی بات کو تو سونے پر سہاگہ کہتے ہیں۔
آپا جب برطانیہ یا دیگر ملکوں میں اپنے بچوں یا ان کی اولادوں کے ساتھ گھر سے نکلتی ہیں تو وہ روک ٹوک کرتے ہیں۔ سڑک پر بیٹھے نہ کرنے والی منڈلیوں کی طرف غور سے نہ دیکھیں۔ انھیں یہ معلوم نہ ہونے دیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، آپ کو ناپسند ہے، وغیرہ۔ میری نگاہ اس پہلو پر خاص طور سے اس لیے گئی کہ آج ہماری نوعمر اولادیں ہمارے ساتھ پاکستان میں یہی کچھ کر رہی ہیں، چند برس پیشتر اس کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایسے عمرانی رجحانات کس طرح سفر کرتے ہیں، اس کا کوئی لگا بندھا طریقہ نہیں لیکن آپا کی دریافت یہ ہے کہ ہمارے اب جو سمندر پار نقل مکانی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہوا ہے، ان تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ آپا سفر نامے لکھتی رہئے اور اپنی سادہ سلیس زبان میں کسی رنگ آمیزی کے بغیر ہمیں اپنے مشاہدات میں شریک کرتی رہئے۔