ADVERTISEMENT
.ٹرین کے سفر میں اک ایسا رومانس ہے جو بس کے سفر میں نہیں ۔ٹرین کی سیٹی کا بجنااور اس کا دھیرے دھیرے چھک چھک کرکے چلنا اور مسافروں کا تادیر حالت سفر میں رہنا سفر کے شائقین کو اچھا لگتا ہے۔ بہت عرصے بعد اس دفعہ لاہور کے لیے بذریعہ ٹرین سفر کرنے کا پروگرام بنا۔۔ مارگلہ اسٹیشن سے بکنگ کرانے گئی تو سوچا کچھ معلومات بھی حاصل کر لی جائیں۔
ٹرین میں سفر کرنے کے لیئے چار درجات تھے اکانومی کا ٹکٹ ساڑھے چھ سو کاتھا۔ میں بہت خوش ہوئی کہ اتنا کم کرایہ —-ویسے بھی مجھے تجربے کرنے کا بہت شوق ہے۔ میں ٹکٹ لینے ہی والی تھی کہ اسی دوران میرے بھائی کا فون آگیا ۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اکانومی کلاس کا تجربہ کرنے والی ہوں اس نے فورا کہا خبردار جو اکانومی کا ٹکٹ لیا پھر ٹرین کے سفر کی برائیاں کروگی۔ سو میں نے اس کی دھونس میں آکر بزنس کلاس کا ٹکٹ لے لیا ۔مجھے تو خیر ایک نئے تجربے سے گزرنا تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
کئی دن پہلے بکنگ کروانے کی وجہ سے انہوں نے مجھے پچاس روپے کی رعائت سے ساڑھے چودہ سو کا ٹکٹ دیا جو میرے خیال سے بہت مناسب کرایہ تھا۔۔مارگلہ ریلوے سٹیشن سے ٹرین شام سوا پانچ بجے روانہ ہوتی ہے جو آپ کو تقریبا ساڑھے پانچ گھنٹے میں لاہور پہنچا دیتی ہے۔ٹرین کا سفر آرام دہ تھا۔ واش روم کی سہولت بھی میسر تھی۔میرے ساتھ والی سیٹ خالی تھی جبکہ سامنے والی سیٹ پر دو نوجوان لڑکے بیٹھے تھے۔ لباس سے تو مہذب ہی لگتے تھے چہرے مہرے سے بھی حسین تھے مگر کاش وہ زندگی گزارنے کاسلیقہ بھی سیکھ لیتے ۔دونوں نوجوان کنو کھا کر چھلکے پاؤں میں پھینکتے رہے۔اور بار بار چھلکوں پر تھوکتے بھی رہے۔ خاصا کراہت آمیز منظر تھا۔چونکہ رات کا سفر تھا لہذ ا باقی مناظر تک رسائی میسر نہ ہو سکی۔اسٹیشن پر اتر کر سوچا واپسی کی ٹکٹ بھی بک کرا لی جائے۔ سو واپسی کا ٹکٹ لینے کے لیئے لائن میں لگ گئی ۔ٹکٹ گھر میں ریلوے کے جو مرد اور خواتین بییٹھے تھے۔وہ اپنے اخلاقی رویوں کو کہیں طاق پر رکھ کر بھول گئے تھے۔سیدھے منہ بات کرنا ان کی فطرت سے میل نہ کھاتا تھا۔ مزید یہ کہ ان کے پاس معلومات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔
اسلام آباد مارگلہ اسٹیشن کے لیئے ٹکٹ کا پوچھا تو ایک نے کہا دس ہزار دوسرے نے کہا بارہ ہزار۔ میں نے پوچھا کیا آن لائن بکنگ ہو جاتی ہے؟ کہنے لگے۔ ہو جاتی ہے ۔سو میں بغیر ٹکٹ خریدے چل دی۔ بعد ازاں آن لائن مارگلہ تک کا ٹکٹ تئیس سو میں مل گیا۔
واپسی پر لاہور سے اسلام آباد گرین لائن ٹرین نے چھ گھنٹے میں پہنچایا ۔گرین لائن میں کھانا وغیرہ بھی دیا جاتا ہے سنا ہے کھانا اچھا ہوتا ہے۔اللہ جانے صفائی کا کیا انتظام ہے؟ مجھے تو انہوں نے چائے اور دو سموسے آفر کیئے تھے۔ میں چونکہ راستے سے لے کر کچھ نہیں کھاتی لہذا معذرت کر لی۔ چھ گھنٹے گزارنے کے لیئے میں اپنے ساتھ کتاب یا نٹنگ ضرور رکھتی ہوں۔ کتاب پڑھنے کی کوشش کی تو ہچکولوں کی زد میں مشکل محسوس ہوا سو اپنی نٹنگ نکال لی۔ میں نٹنگ کرتی ہوئی اپنی سوچوں میں مگن تھی کہ ایک ادھیڑ عمر مرد کو دیکھا جو بڑے ذوق و شوق سے مجھے دیکھ رہا تھا۔میں نے اسے حیران ہو کر دیکھا تو کہنے لگا اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کی مووی بنالوں؟ میں نے بہت عرصے بعد کسی کو نٹنگ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
اتنی دیر میں کچھ اور لوگ بھی باری باری دیکھنے آئے اور پسندیدگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا بہت پرانے زمانے میں عورتیں نٹنگ کیا کرتی تھیں۔ میں نے کہا خاطر جمع رکھیئے میں بھی پرانے زمانے ہی کی ہوں۔
مجھے کچھ دن پہلے کی ایک بات یاد آ گئی میرے گھر کچھ مہمان آئے تو انہیں باتھ روم کے لیے میرے بیڈ روم سے گزر کر جانا پڑا واپس آ کر بڑی حیرت سے مجھے پوچھا حیرت ہے آپ نے آج کے زمانے میں بھی اپنے کمرے میں سلائی مشین رکھی ہوئی ہے۔ کیا آپ اسے استعمال کرتی ہیں؟ میں نے مہمان کی جوان اور فیشن ایبل بیوی کو دیکھا اور حسرت سے سوچا کہ چند دہایوں میں کتنی تبدیلیاں آگئ ہیں۔سب کچھ بدل گیا۔لگتا ہے ہم اصحاب کہف کے زمانے کے ہیں۔
میرے ساتھ بیٹھی ہوئی دو خواتین نے بھی حیرت سے پوچھا، کیا آپ وقت گزاری کے لیئے نٹنگ کر رہی ہیں؟
میں نے پوچھا آپ وقت گزاری کے لیئے کیا کرتی ہیں؟ کہنے لگیں کچھ بھی نہیں۔ میں نے کہا اپ شاید اسی لیئے بے چین ہیں اور بار بارگھڑی دیکھ رہی ہیں۔ ان میں سے ایک عورت نے مجھ سے پوچھا کیا آپ کبھی کراچی گئی ہیں میں نے کہا ہاں گئی ہوں مگر بہت گندا شہر ہے۔
اس نے غصے سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا “کیا صرف کراچی ہی گندا ہے۔”
عین اُس وقت ٹرین چھک چھک کرتی لاہور ریلوے اسٹیشن سے چلنا شروع ہو گئی تھی ۔۔اور اسٹیشن کے بلکل ساتھ جا بجا کچرے کے ڈھیر نظر آنے لگے تھے۔
میں نے کہا صرف کراچی نہیں پورے ملک ہی میں کوڑا بے ترتیبی سے بکھرا ہوا ہے۔کوئی پرسان حال نہیں ۔اس کا غصہ قدرے کم ہوا اور اس نے بیگ سے پرفیوم نکال کر جسم پر چھڑکاؤ کرنا شروع کر دیا۔
دوسری خاتون نے ہونٹوں پر لپ اسٹک کہ تہہ جمائی اتنے میں اس خاتون کا میاں آکر اپنی بیگم کے ساتھ بیٹھ گیا۔ بیگم نے لاڈ سے اپنے پاؤں اس کی گود میں رکھ دیئے اور وہ نیل پالش سے سجے پاؤں ہاتھ میں پکڑ کر دبانے لگا۔سامنے والی عورت نے اپنا منہ کھڑکی کی طرف موڑ لیا ۔۔اور میں اپنی نٹنگ میں مصروف ان مناظر کو کن اکھیوں سے دیکھ کر محظوظ ہوتی رہی۔ چھ گھنٹے کا سفر اختتام کو پہنچا تو میرا بھاری بھر کم بیگ برتھ سے ان لوگوں نے فورا اتار دیا جو کچھ دیر پہلے میری نٹنگ کی تعریف کر رہے تھے ۔میں ان کی اس مہربانی سے اتنی متاثر ہوئی کہ نٹنگ کا تھیلا ٹرین میں ہی چھوڑ کر اتر گئی۔ اتنی دیر میں ایک نوجوان لڑکے نے زور سے آواز دی۔ آنٹی آپ کی نٹنگ۔ میں نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھا اور نٹنگ کا تھیلا اس سے لے لیا۔ مارگلہ اسٹیشن کا ہر درخت سفید رنگ سے سجا اور صاف ستھرا پلیٹ فارم میری قدم بوسی کے لیئے تیار تھا۔ ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے بڑھ کر استقبال کیا اور میں اپنے شہر اسلام آباد کے خوبصورت حصار میں کھو گئی۔