تحریک عدم اعتماد سے مراد وہ ووٹ یا وہ بیان ہے جو کسی موقع پر پارلیمنٹ میں اور سرکاری یا تنظیمی عہدیدار کے خلاف دیا جاتا ہے کہ یہ منصب دار اور عہدیدار مزید اس منصب و عہدے کو سنبھالنے کے لائق نہیں۔
عدم اعتماد کا استعمال اکثر اس وقت ہوتا ہے جب کوئی منتخب نمائندہ، سرکاری یا تنظیمی عہدیدار کوئی ایسا قدم اٹھائے جو آئین، قانون اور ضابطہ اخلاق کے خلاف ہو۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کے منشور و دستور میں اب یہ صرف لکھے ہوئے الفاظ ہی رہ گئے ہیں البتہ پارلمینٹ اور اسمبلیوں میں مختلف اوقات میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر عدم اعتماد کی تحریک پیش کیا جاتا ہے،جس طرح ابھی حال ہی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ جام کمال صاحب کے خلاف عدم اعتماد کے چرچے کے بعد آخر کار ان کے اپنے ساتھیوں اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطے ایک طویل دور کے بعد جام کمال کی حکومت وقت کو آگے بڑھنے نہیں دیا اور اپوزیشن جماعتوں کی کامیاب حکمت عملی کے خلاف عدم اعتماد کے بعد وزیر اعلیٰ شپ کیلئے بلوچستان کے سطح پر اور اپوزیشن جماعتوں کے رائے دہندگان و مشاورت سے قدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بلوچستان مقرر کیا گیا_
یہ بھی دیکھئے:
موجودہ دور مرکزکے سیاسیت اور سیاسی جماعتوں میں ہلچل ملکی سیاست میں حالیہ دنوں میں کافی ہلچل دیکھنے میں آئی، جس کے دوران حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں ہوئیں، حزب اختلاف کی جماعتوں کے اجلاس ہوئے اور سیاسی شخصیات نے اپنے اپنے مؤقف کو ظاہر کرنے میں مصروف رہے، حکومت وقت کے خلاف پاکستان میں پچھلے کئی مہینوں بلکہ سال ڈیڑھ سے حکومت کے خلاف کمیٹیاں تشکیل دی گئی اور پاکستان میں کئی بار حکومتوں کو آگے بڑھنے سے روکا اور اس دور حکومتوں کو ختم کیا.
اور موجودہ دور حکومت کے خلاف بننے ولا سیاسی جماعتوں کا گٹھ جوڑ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان کے بڑے سیاسی جماعت پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے وزیراعظم عمران کے خلاف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں آخر کار تحریک عدم اعتماد جمع کرنے کی کوششیں جاری رہی جو 28 مارچ کے دن اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے پیش ہی کردیا، اسمبلی اسپیکر مختلف وجوہات کی بنا پر قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے اور بعد میں اسلامی دنیا کے وزراء خارجہ کے کانفرنس اور سیاسی جماعتوں کے جلسوں کے بنا پر اجلاس مؤخر کرتے رہے۔
تحریک عدم اعتماد کو ملکی سیاست میں کئی ماہ کی غیریقینی صورتحال کے بعد جمع کرنے کی کوششیں بلاآخر کامیاب رہی،
تو اب آگے کیا ہوگا؟
یہ بھی پڑھئے:
پی ٹی آئی جلسہ: وہ کیا حربہ تھا، عمران خان جس میں ناکام رہے
سو چھید والی جھولی، کوچہ رقیب، اور جناب وزیر اعظم
عرفان صدیقی کی کوششیں رنگ لائیں، سمیرا بھارتی جیل سےرہا،پاکستان پہنچ گئی
تحریک عدم اعتماد میں رائے شماری کا طریقہ کار کیا ہے؟
سب سے اہم کیا پی ٹی آئی حکومت گھر واپس جارہی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے حزب اختلاف کو سادہ اکثریت کی ضرورت ہوگی یعنی قومی اسمبلی کے 342 میں سے 172 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ اسے مطلوبہ اکثریت حاصل ہے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ وہ یہ تعداد 180 تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 155 ارکان، ایم کیو ایم کے 7، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔
جبکہ مسلم لیگ (ن) کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 56 ، متحدہ مجلس عمل کے 15، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک، جمہوری وطن پارٹی کا ایک اور اس کے علاوہ 4 آزاد اراکین شامل ہیں.
عدم اعتماد کے کامیابی کے بعد کیا ہوگا جس پر سینئر اینکرز نے مختلف رائے پیش کررہے ہیں جس میں سب سے پہلے عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان کو گھر جانے کا اہتمام جاری کیا ہے لیکن عدمِ اعتماد کے کامیابی کیلئے ساتھیوں کا تعداد 172 ہونا لازمی ہے۔
اتحادی ارکین اسمبلی کی تعداد 23 جبکہ ابھی تک جماعت اسلامی پاکستان اس سلسلے میں غیر جانب دار ہے۔
دور حکومت کے ساتھی 12 ایسے ارکین اسمبلی ہے جو مختلف نشستوں سے معلوم ہو رہا کہ عین وقت وزیراعظم عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر اس کے خلاف عدم اعتماد سیاسی جماعتوں کے ساتھ رہنگے
مگر اس کٹھن حالات میں یہ بھی پتہ نہیں کہ اتحادی جماعت کا موقف کیا ہے
پاکستان کے اس مشکل حالات میں اگر چہ عدم اعتماد تحریک کامیاب ہوا تو اگلے چند ہفتوں میں کیا ہوگا؟
اس میں مختلف سوالات ہورہے ہیں کہ پانچ سال پی ٹی آئی کا حکومت رہے گا یا نہیں کیونکہ تحریک کے کامیابی کے بعد بظاہر تو یہ کہ عمران خان کو کوئی ریپلیس کرےگا تاکہ دور حکومت اپنا مدت پورا کر سکے
لیکن موجودہ دنوں میں اس چیز کا امکان بہت حد تک کم نظر ارہا ہے اس کا وجہ یہ کا پاکستان تحریک انصاف نے خود یہ کہا ہے کہ پارٹی کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے
اس کے علاوہ دوسرا امکان یہ بھی ہے کہ اپوزیشن اپنا کوئی امیدوار لائے اور انتخابات تک حکومت پورا کرے۔
لیکن اس بات پر اپوزیشن نے شہباز شریف کا نام ظاہر کیا ہے کیونکہ وہ قائد حزب اختلاف ہے اور پارلیمانی عہدہ بھی ہے
اس کے بعد تیسرا راستہ یہ بھی ہے کی نئے وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کریں ایک عبوری حکومت تشکیل دی جائےاور جلد از جلد الیکشن کرایا جائے
اس کے علاوہ آخری راستہ ہے کہ اپوزیشن پارٹی نمبر پورے نہ کر سکے
آگر ایسا ہوتا ہے تو کیا عمران خان مشکلات سے نکلنے کا کونسا راستہ اپنانے کی کوشش کرےگا
عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد عمران خان کا رویہ اپوزیشنکیلئے مزید سخت ہوگا ۔ اس کے خلاف احتساب اور ملکی سلامتی کے نام پر بھی کامیابی کا امکان ہے۔
احتساب کا عمل مزید تیز ہونے کا قوی امکان ہے اور اپوزیشن کے لیے بہت سے مشکلات ہوگا
اس کے علاوہ اگر عدم اعتماد ناکام نہیں ہوا تو وزیر اعظم کیلئے سیاسی اور معاشی سخت نقصان ہوگا
تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن آنے والے دنوں میں پاکستانی سیاست میں کشیدگی پھیل جائے گی اور ممکن نہیں کہ ایک بہترین انداز میں سیاست ہو..###