کوئی اگر یہ کہے کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا جلسہ چھوٹا تھا تو یہ درست نہیں ہوگا۔ جلسہ واقعہ بڑا تھا لیکن کیا یہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا؟ جلسے میں، جیسے دعویٰ کیا گیا تھا کہ دس لاکھ شریک ہوئے، ہرگز نہیں۔ غیر جانبدار میڈیا میں تعداد آر ہی ہے۔ اگر وہ اندازے درست نہ بھی ہوں تو سچ یہ ہے کہ یہ معمول کا ایک جلسہ تھا جس میں کوئی خاص نمایاں بات ہرگز نہیں تھی۔ ہاں ایک بات نمایاں تھی۔
یہ بھی دیکھئے:
اس جلسے کی واحد نمایاں بات یہ تھی کہ آج عمران خان غیر معمولی طور پر افسردہ تھے۔ ہمیشہ کی طرح ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی۔ انھوں نے ہمیشہ کی طرح حزب اختلاف کے لیے برے القابات استعمال کیے۔ ایسا کرتے ہوئے اس سے پہلے ان کے چہرے خوشی کے جذبات ہوتے تھے۔ ان باتوں پر ان کا فین کلب یعنی یوتھیا پارٹی خوشی سے نعرے لگاتی تھی تو یہ دیکھ کر خوشی عمران خان کے رگ و پے میں سما جاتی تھی جس کا پرتو ان کے چہرے پر بھی دکھائی دیتا لیکن آج یہ کیفیت بالکل نہیں تھی۔ ان کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا اور اپنی تقریر کے دوران ہی نہیں بلکہ جب تک جلسے میں موجود رہے، وہ افسردہ دکھائی دیے۔
شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر میں بین الاقوامی سازش کی طرف واضح اشارے کیے۔ ان کے انداز گفتگو سے محسوس ہوا کہ وہ ان انکشافات کی راہ ہموار کر رہے ہیں جو عمران خان کرنے والے ہیں۔ یہی تاثر عمران خان نے بھی اپنی تقریر میں دیا اور بار بار ان ممکنہ انکشافات کاذکر کر کے سامعین کو ساتھ لے کر چلتے رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
تحریک عدم اعتماد، تاخیری حربے نقصان دہ ہوں گے
سو چھید والی جھولی، کوچہ رقیب، اور جناب وزیر اعظم
عرفان صدیقی کی کوششیں رنگ لائیں، سمیرا بھارتی جیل سےرہا،پاکستان پہنچ گئی
عمران خان کے انکشافات درج ذیل ہیں:
بھٹو نے جب آزاد خارجہ پالیسی دینے کی کوشش کی تو بھٹو کے خلاف تحریک چلا کر آج جیسے حالاتِ پیدا کر دیے۔ ان حالات کی وجہ سے بھٹو کو پھانسی ہوئی۔
باہر سے ملک کی خارجہ پالیسی کو متاثر کیا جا رہا ہے۔
حکومت تبدیل کرنے کے لیے پیسہ باہر سے ارہا ہے اور لوگ ہمارے استعمال کر رہے ہیں ۔ ان میں کچھ انجانے میں استعمال ہو رہے ہیں ۔
ملکی مفاد کے نام پر ہمیں تحریری دھمکی دی گئی ہے۔
اعلان کیا کہ بیرونی سازش کی تفصیلات جلد سامنے لائی جائیں گی۔
ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے بھٹو کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ بھٹو نے اس موقع پر براہ راست امریکا کا نام لیا تھا لیکن عمران ایسا کچھ نہ کر سکے۔ اس موقع پر جو کاغذ خط کے نام پر لہرایا، وہ ان کی تقریر کے نوٹس تھے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے بالواسطہ طور پر یہ کہہ کر الزام لگایا کہ لندن
میں بیٹھا ،خص کس کس سے ملتا ہے؟ سامعین نے کہا کہ نواز شریف ۔
یہ اشارے کرنے کے بعد کہا کہ میں اس کے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔
سما نیوز کے مطابق اس جلسے کی ایک بات یہ تھی کہ جب انھوں نے بھٹو کاذکر کیا، متعدد وزرا اور ارکان اسمبلی جلسے سے اٹھ کر چلے گئے۔ ان میں فواد چوہدری، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، خسرو بختیار، آمین اسلم، علی اعوان اور وزیر اعلیٰ کے پہ کے محمود خان شامل تھے۔
مجموعی طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ انکشافات کے حوالے سے یہ کوشش پھسپھی رہی۔