ہمارے ملک میں سیاسی معاملات بعض اوقات بڑے غیرسنجیدہ انداز میں چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ اس سے وابستہ تمام فریق مطلب سیاستدان کبھی اپنی سنجیدگی کو ہاتھ سے جانے نہ دینے کا مکمل تاثر دیتے ہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن الزامات۔دعوے۔ انکشافات۔ رازداریاں سب ساتھ ساتھ جل رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بڑے دعووں سے بھری پڑی ہے۔ حصول اقتدار اور دوسری جانب حکمرانوں کا دھڑن تختہ کرنے کے لئے بڑے نعرے لگتے رہے ہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
جنرل ایوب نے قائد کی بہن کو شکست دینے اور راستے سے ہٹانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کیا۔ وہ فوجی جنرل تھے عوام کے سامنے سیاسی لوگوں کی طرح جانے اور جوابدہی کا کوئی دباو نہ تھا۔
بھٹو نے اقتدار کے لئے مذہبی جماعتوں کو کئی محاذوں پر نہ صرف حیرت زدہ کردیا بلکہ پیچھے چھوڑ دیا۔ سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ آنے والا یہ سیاستدان اسلامی دنیا کا لیڈر بن گیا۔ مغرب کو چیلنج کردیا ایٹم بنانے کا اعلان ساری دنیا کو حیران کرنے کے لئے کافی تھا۔ باہر والے بھی اور اپنے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ کام صرف اس وقت بگڑا جب تمام معاملات اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش بھٹو کو کہاں سے کہاں لے گئی۔
جنرل ضیا الحق نے اقتدار ہاتھ میں رکھنے کے لئے مذہب ذات برادری اور کسی بھی حر بے کو آزمانے کی کسر نہ چھوڑی۔ عالمی برادری کو بھی نہ جانے کیا کچھ بیچتے رہے۔ اپنی سہولت کے لئے سیاست کی نئی پنیری لگائی۔
یہ بھی پڑھئے:
پی ٹی آئی جلسہ: وہ کیا حربہ تھا، عمران خان جس میں ناکام رہے
تحریک عدم اعتماد، تاخیری حربے نقصان دہ ہوں گے
سو چھید والی جھولی، کوچہ رقیب، اور جناب وزیر اعظم
بے نظیر اور نوازشریف دونوں نے سیاست کی باگ ڈور سنبھالنے کی خاطر اپنے اپنے پتے پھینکے۔ یہ وہ دور شروع ہوچکا تھا جب پس پردہ قوتیں سرگرم ہوگئی تھیں۔ خود مختار اور آزاد حکمرانی رفتہ رفتہ ختم ہوتی گئی۔ سیاست۔ سیاسی جماعتوں اور جمہوری اداروں بشمول پارلیمنٹ مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہوتے گئے۔ اقتدار کی لالچ غیرسیاسی قوتوں میں بھی بڑھ گئی اس سب کے نتیجے میں مفروضوں اور خیالی باتوں پر مبنی معاملات چلائے گئے سیاست میں سے نظریات کے حقیقی معنی نکال باہر کئے۔ فرضی باتیں نظریے کا روپ دھار کے پیش کی جاتی رہیں۔ ایک کے بعد ایک آیا اور دوسرے کو جھوٹا بدعنوان دھوکے باز غدار کہہ کر غیر جمہوری قوتوں کی خوشنودی حاصل کرکے اپنی راہ ہموار کرتا رہا۔
اس سارے عمل کے دوران مذہب کو استعمال کرکے اپنی جگہ بنانے اور اقتدار میں حصہ لینے کا گھناونا فعل بھی اںجام پاتا رہا۔ جب مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے پھر اسے سیاست میں کس طرح شامل کیا جاسکتا ہے خاص طور پر ایسے میں کہ کئی فرقے اور مسالک ہوں کوئی ایک نقطے پر متفق نہیں اقتدار کیسے لے سکتا ہے۔ مگر کئی دہائیوں سے یہ سب ہورہا ہے۔
جسے زیادہ حصہ درکار ہوتا ہے وہ زیادہ مقبول اور بڑی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے۔ جیسا کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ سیاست نہیں اقتدار کی لالچ یے۔ لیکن مذہب کا کارڈ شاید اسلامی جمہوری پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی مجبوری رہا یے۔ جیسے بھٹو نے کئی کام کئے۔ ان کی بیٹی نے تو تسبیہ تک تھام لی تھی۔ نواز شریف کا تعلق زیادہ مذہبی گھرانے سے نہیں تھا لیکن انہوں نے بھی اکثریتی مسلک کی جانب جھکاو رکھا۔ ان کے بڑوں سے حمایت تک طلب کرتے رہے۔
نظریہ ضرورت کے تحت وقفے وقفے سے مسلم لیگ مختلف روپ میں عوام کو تحفے کے طور پر حکمران جماعت پیش کی جاتی رہی۔ قائد کا نام بھی مذہبی کارڈ کی طرح استعمال ہوا جس سے روگردانی کسی گناہ کبیرہ کے مترادف خیال کی جاتی رہی ہے۔
ہمارے اداروں نے دونوں جماعتوں سے قدرے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے تیسری قوت تیار کی۔ تبدیلی کے نعرے میں فطری کشش پائی جاتی ہے۔ میدان ہموار دیکھ کر من پسند سیاسی مہرے اس پرچم تلے جمع کردیے گئے۔
عوام کا شعور کس قدر بن پایا۔ اس کو جانچنے کا بظاہر کوئی پیمانہ نہیں کیونکہ لوگ بے چارے بھی نظریہ ضروت کے مارے کسی نظریے کے بغیر اچھی اور لچھے دار باتوں میں آجاتے رہے ہیں۔ میڈیا کا کردار کسی حد تک سوچ بنانے میں اہمیت اختیار کرتا رہا ہے لیکن سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں دونوں نے اسے بھی نظریہ ضرورت کا شکار بناکر اپنے حق اور فائدے میں استعمال کیا۔ لوگوں کو اپنے اظہار کا پہلی بار موقع سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی صورت میں ملا۔ جس نے سیاست اور سماج دونوں کی نہ صرف جہت بدلی بلکہ راہیں بھی استوار کردیں۔ اب کسی حد تک فیصلہ سازی اور جھکاو یعنی ٹرینڈ کا تعین سوشل میڈیا سے ہوتا ہے۔ وہاں کون معتبر اور مقبول ہے اسے زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔
موجودہ حکومت کو سارے تجربے کرنے کو ملے ہیں۔ انہوں نے کام اور گورننس سے زیادہ میڈیا پر کنٹرول کی کوشش کی ہے۔ اچھی اور لچھے دار باتوں سے لے کر مذہبی کارڈ تک استعمال کردیا۔ پچھلے تمام حکمرانوں کا ملغوبہ دیکھنے میں آئے گا۔ بھٹو۔ ضیا۔ بے نظیر کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
حمایت کرنے والے بھی دعوے سے نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان کا نظریہ کیا ہے۔ فلاحی ریاست کے سبھی دعوے دار ہوتے ہیں۔ مدینہ کی ریاست ایک قدم بڑھ کے بات تھی۔ کیا اس سوچ کے حامل تحمل بردباری اور برداشت کے اوصاف نہیں رکھتے تھے۔ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ کسی کا غلط نام بھی نہیں ڈالنا مگر اپنی مقبولیت اور اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لئے ریاست مدینہ کا نعرہ لگاکر مخالفین کے لئے عدم برداشت کا اظہار صاف بتاتا ہے کہ جمہوری سوچ کہیں دور دور تک نہیں پائی جاتی۔
اپوزیشن کے معاملات اگرچہ غیرواضح ہیں لیکن حکمرانی کا چلن کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ عوام کو محض اپنی حمایت کے لئے استعمال کرنے کی سوچ جمہوری بظاہر لگتی ہے مگر انداز درست نہیں۔ سیاست کو کھیل تماشا بنا دینے سے نقصان سیاسی سوچ کے دم توڑنے کی صورت ہوگا جس کی جانب قوم تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ عدم برداشت نہ سیاست میں چل پائے گی اور نہ ہی ریاست مدینہ میں اس کا ذکر ہے۔ دونوں جانب سے بولے جانے والے جھوٹ اپنے اپنے سچ بن کر تاریخ کو مسخ کردیں گے۔ جس کا جواب آنے والی نسلوں کو دینے کے بجائے منہ چھپانے پڑجائیں گے۔