• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں تصویر وطن

وزیر اعظم کا ”امر بالمعروف” اور مولانا کا”نہی عن المنکر” جلسہ

وزیر اعظم کی بدن بولی میں بھی آہوئے تتاری جیسی طراری اور طرحداری نہیں رہی جو مدتوں جوانان قوم کا لہو گرماتی اور حسینان وطن کے دل گدگداتی رہی || سینیٹر عرفان صدیقی عمران خان کی پسپائیوں کی داستان بیان کرتے ہیں

سینیٹر عرفان صدیقی by سینیٹر عرفان صدیقی
March 22, 2022
in تصویر وطن
0
وزیر اعظم
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

عزت ماب جناب وزیر اعظم عمران خان کی آتش بیانی جاری ہے لیکن “لاوا فشانی” میں کمی آرہی ہے۔ آسمان سے ہم کلام شعلوں کی لپک جھپک قدرے مدھم پڑنے لگی ہے۔ آتش فشاں کے سینے میں لاوے میں ڈھلتے کیمیائی اجزائے ترکیبی کی حدت اور شدّت تو موجود ہے لیکِن جوش و خروش مدھم پڑ گیا ہے جو آتشیں لاوے کو دہانے تک لاتا اور فوارے کی صورت اگلتا ہے۔ خان صاحب کی بدن بولی میں بھی آہوئے تتاری جیسی طراری اور طرحداری نہیں رہی جو مدتوں جوانان قوم کا لہو گرماتی اور حسینان وطن کے دل گدگداتی رہی۔ تاریخ پر نظر رکھنے والے لوگ پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو کتنے ہی وزرائے اعظم خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بے مہر ہواؤں کا رزق ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکِن اْن میں ایک بھی ایسا نہیں جو خان اعظم کی طرح یوں صحرائی بگولوں کی زد میں آئے، ورق بوسیدہ کی طرح یوں پارہ پارہ ہو رہا ہو۔ شکستگی کی ایسی قابل رحم جان کنی کسی نے نہیں دیکھی۔

برس ہا برس اپنے حریفوں کی دستاریں اچھالنے، انکے گریبان نوچنے، انکے لباس پر سیاہی تھوپنے، انکی پیشانیاں نوع بہ نوع الزامات سے داغنے، انہیں آخری درجے کی تحقیر اور تذلیل میں لتھڑے القابات دینے، انہیں جیلوں میں ڈالنے، انکی بہو بیٹیوں کو خوئے انتقام کا نشانہ بنانے، انکے گھر نیلام کرنے، ہر قومی ادارے کو انکے تعاقب میں لگا دینے اور اپنے زیر اثر میڈیا کو اْنکی کردار کْشی کیلئے وقف کر دینے کے طویل سلسلے کو اب خان صاحب نے قرآنی حکم “امربالمعروف” کا تقاضا قرار دے دیا ہے۔ ہم بھی کیا کم فہم لوگ ہیں جو خان صاحب کے اس “جہاد” کو عدم رواداری کا بزدلانہ رویہ، غیرجمہوری سوچ کا آمرانہ طرز عمل اور طفلان کوچہ و بازار کا کھلنڈراپن قرار دیتے رہے۔ اب کھلاکے خان صاحب کے نزدیک یہ سب قرآنی حکم “امر بالمعروف” کا تقاضا تھا جس کی تلقین اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ سو بجا طور پر خان صاحب خود کو نیکی، پارسائی، خیر، حق، سچائی اور صراط مستقیم کی ارفع علامت خیال کرتے اور جذبہ ایمانی کی حدوں کو چھوتا یقین کامل رکھتے ہیں جو خان صاحب کے اس مرتبہ و مقام کے منکر ہیں۔

یہ بھی دیکھئے:

انکی حیثیت کم و بیش وہی ہے جو پیغمبروں پر ایمان نہ لانے والوں کی ہوتی ہے۔ کم از کم میرے علم میں نہیں کہ کسی پیغمبر نے بھی اپنے منکرین کی آنے والی نسلوں کو بددعا دی ہو اور کہا ہو کہ تمہارے بچے سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے۔ تمہارے بچوں سے کوئی شادی نہیں کریگا۔ تم کسی تقریب میں جا نہیں سکو گے۔ تم اچھوت بن کر رہ جاؤ گے۔ خان صاحب صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ جو سیاستدان حلقہ بگوش تحریک انصاف ہوئے، وہ در اصل حلقہ کفر و شرک سے نکل کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ہیں۔ اب اگر کوئی تحریک انصاف سے مایوس ہو کر اس سے رشتہ توڑتا ہے تو وہ “ارتداد” کا ارتکاب کرتا اور “مرتد” ہو جاتا ہے۔
یہ سوال بے معنی ہے کہ خان صاحب نے یہ کیسے جان لیا کہ بائیس کروڑ انسانوں کے ابنوہ بے کراں میں صرف وہی نیکی، حق، سچائی اور پارسائی کا مجسمہ ہیں اور جو اْنکے دستِ مبارک پر بیعت نہیں کرتا یا بیعت کر کے اسے فسخ کر دیتا ہے وہ گردن زدنی ہے۔ ایسے شرانگیز سوالات حجت بازی اور فتنہ سازی کے زمرے میں آتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہئے کہ جب خان صاحب خود ایسا سمجھتے اور ببانگ دہل ایک ”برانڈ” ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں تو پھر کسی اور دل?ل کی کیا حاجت رہ جاتی ہے۔ ایسے بدگمان، خان صاحب کے اقوال اور دعووں کی مین میخ نکالنے کے بجائے، اْن کی زندگی کے نشیب و فراز پر ہی ایک چھلچھلاتی ہوئی نظر ڈال لیں تو انہیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا اگر خان صاحب خود کو مجسمہ خیر اور دوسروں کو ”شیطان مجسم” خیال کرتے ہیں تو اس میں بڑی حد تک حق بجانب ہیں۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)

یہ بھی پڑھئے:

جناب وزیراعظم… ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے؟

شاہ محمود قریشی کی توقع اور لوٹا کریسی

جارج آرویل کا اینیمل فارم اور پاکستان کے موجودہ حالات 
خان صاحب کے دل و دماغ میں یہ بات بھی رچ بس چکی ہے کہ 2018کے انتخابات میں پوری قوم وارفتگی کے عالم میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اْن کا دامن ووٹوں سے مالا مال کر دیا تھا اس لئے صرف وہی پاکستانی عوام کی نمائندگی کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اگرچہ اعداد و شمار کی تصویر کچھ اور کہتی ہے۔ 2018میں ساڑھے دس کروڑ کے لگ بھگ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے پانچ کروڑ اکتیس لاکھ تئیس ہزار سات سو تینتس (53123733) نے ووٹ کا حق استعمال کیا تھا۔ عین گنتی کے وقت ناگہانی طور پر آر۔ ٹی۔ ایس کی حرکت قلب بند ہو جانے اور خان صاحب کی اْمنگوں کو مادر مشفق کی طرح لوریاں دیتی ہواؤں کے باوجود تحریک انصاف ایک کروڑ انہتر لاکھ تین ہزار سات سو دو (16903702) ووٹ لے سکی جو پول شدہ ووٹوں کا 31.82فی صد تھے۔ باقی 68.18فیصد ووٹ، جو پاکستانی عوام ہی کے تھے، تحریک انصاف کے خلاف کھڑی جماعتوں یا امیدواروں کو ملے۔ ”چوروں” کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے چہار سمت سے اٹھتی آندھیوں کے باوجود ایک کروڑ انتیس لاکھ چونتیس ہزار پانچ سو نواسی (12934589) ووٹ لئے۔ ”ڈاکوؤں” کی جماعت پیپلز پارٹی نے انہتر لاکھ چوبیس ہزار تین سو چھپن (6924356)ووٹ لئے۔ صرف چوروں اور ڈاکوؤں کے ووٹ جمع کر لئے جائیں تو وہ خان صاحب کے ووٹوں پر بھاری ہیں۔ گویا ناسازگار موسموں کے باوجود عوام نے خان صاحب کی نسبت چوروں اور ڈاکوؤں کو زیادہ لائق اعتماد جانا۔ خان صاحب کے 31.82فیصد کے مقابلے میں ان دونوں کے ووٹ 37.38فیصد بنتے ہیں۔ لیکن ”امر بالمعروف” کے پرچم بردار سربکف سپاہ کے نزدیک اس طرح کے اعداد و شمار بے معنی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ مانے، اپنے ترازو، اپنے اوزان، اپنے عقیدے، اپنے نظریے، اپنا استدلال، اپنا فلسفہ، اپنا اسلوب، اپنا لہجہ، اپنی زبان اور اپنا بیانیہ رکھتے ہیں۔ اْن کی عدالت میں کسی وکیل، کسی، اپیل، کسی دلیل کا گزر نہیں۔
خیر کا مجسمہ اور پارسائی کا برانڈ ہونے کے باوجود، خان صاحب عبرت کا قابل رحم نمونہ کیوں دکھائی دے رہے ہیں؟ یہ واقعی ایک اہم سوال ہے۔ ابھی کل کی بات ہے 2012میں پیپلز پارٹی عہد کے وزیراعظم، سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں فارغ کر دیا گیا۔ پی۔ پی۔ پی اپنے پاؤں پر کھڑی رہی۔ کوئی حواس باختہ نہ ہوا۔ بڑے تحمل سے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم چن لیا گیا۔ پی۔پی۔پی نے پانچ سال کا عہد حکمرانی مکمل کر لیا۔ 2017میں وزیراعظم نواز شریف، اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے گناہ کبیرہ کے سبب، عمر بھر کے لئے سیاست بدر کر دیئے گئے۔ ہر طرف سے حملہ آور ہوتی منہ زور آندھیوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا کوئی ایک رْکن اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ کسی کا ”دہن” “دہانے” میں نہ بدلا۔ کسی نے کسی کو گالی دی نہ اْسکی آنے والی نسلوں کو کوسنے۔ شاہدخاقان عباسی قائد ایوان چن لئے گئے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی پانچ سالہ مدت اقتدار مکمل کر لی۔ آج مشکل میں کھڑی تحریک انصاف ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟
اسکے دو بڑے اسباب ہیں۔ پہلا یہ کہ پی ٹی آئی کو ایوان میں سادہ اکثریت حاصل نہیں۔ اسکی بیساکھیوں کو دیمک کھا چکی ہے۔ اْنکی اپنی جماعت بند مْٹھی میں ریت کی طرح انکے ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ “منکرین” یا “مرتدین” کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اب اس میں مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی جیسی سکت نہیں رہی کہ وہ اپنا وزیر اعظم چن سکے۔ دوسری اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی یا نواز شریف کے متبادل تلاش کر لینا تو ایسا مشکل کام نہ تھا لیکن خان صاحب کا ” نعم البدل” کوئی کہاں سے لائے۔ سو لگتا یہ ہے کہ خان صاحب گئے، تو پی ٹی آئی کی حکومت بھی گئی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان، ہر روز، صبح وشام طرح طرح کے اجلاس بلا رہے ہیں۔ بنی گالا سے ایک کارواں نکل رہا ہوتا ہے تو دوسرا دروازے پے کھڑا ہوتا ہے۔ لیکِن خان صاحب اپنی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس نہیں بلا رہے؟ وجہ؟ صرف یہ کہ وہ “172” کی طلسماتی تعداد کہاں سے لائیں؟ ورنہ اپوزیشن کے شور شرابے کا توڑ یہی تھا کہ خان صاحب پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا کر 172 کی تعداد دکھا دیتے۔ نہ دس لاکھ کا مجمہ لگانا پڑتا نہ آئین و قانون سے کھیلنے کی ضرورت محسوس ہوتی۔
اور ایک گزارش اپنے دیرینہ کرم فرما مولانا فضل الرحمن سے جن سے میرا برسوں کا رشتہ ارادت مندی ہے۔ میرا ایک فدیانہ اور عاجزانہ سا مشورہ ہے کہ جس طرح عزت ماب عمران خان نے اپنے جلسے کو “امر بالمعروف” کا نام دیا ہے اسی طرح حضرت, متحدہ اپوزیشن کے جلسے کو “نہی عن المنکر” کا نام دے دیں جو نہایت ہی بر محل اور بامعنی ہوگا۔
“گر قبول افتد زہے عز و شرف”

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: امر بالمعروفپاکستانعرفان صدیقیعمران خانوزیر اعظم
Previous Post

رحمان بابا کے مفسر،پروفیسر فضل حق میر مرحوم

Next Post

منگل کا دن عمران خان کے لیے عظیم ناکامیاں کیسے لایا؟

سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی

عرفان صدیقی استاد ہیں، ادیب ہیں، شاعر یا کالم نگار؟ یہ بحث اب پرانی ہوئی۔ قدرت نے انھیں یہ سب خوبیاں عطیہ کی ہیں لیکن ایک انعام اس سے بھی بڑا ہے۔ ہمارے یہاں ادیب اور شاعر حضرات اپنے سیاسی نظریات چھپاتے ہیں لیکن عرفان صاحب نے ان مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر اپنی سیاسی شناخت کو اجاگر کرنے میں بھی کسی عذر سے کام نہیں لیا۔ یہ طرز عمل ہمارے ان بزرگوں کی پیروی میں تھا جنھوں نے قلم و قرطاس سے بھی اپنا تعلق رکھا اور اپنی آدرشوں کے لیے جدوجہد کے لیے سیاسی راستہ بھی اختیار کیا۔ عرفاں صاحب ہماری اسی تہذیب کی زندہ نشانی ہیں۔

Next Post
Featured Video Play Icon

منگل کا دن عمران خان کے لیے عظیم ناکامیاں کیسے لایا؟

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions