ADVERTISEMENT
عمران خان کا پاکستان میں سیاسی کردار، ہمیشہ سیاہ باب کے طور پر لوگوں کے دلوں پر نقش رہے گا۔ ایک کامیاب کھلاڑی تھا مگر اس کے افکار و نظریات کبھی بھی قابل رشک نہیں رہے۔ چند جرنیلوں، دو تین اخبار نویسوں اور مستند نوسر بازوں کے ٹولے نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے خلاف اسے استعمال کرنے کے لئے سیاست کے پر کشش راستہ پر ڈالا اور مذہب، جس سے اس کا دور کا واسطہ نہیں تھا، اس کارڈ کو انتہائی بے شرمی سے کھیلنے کا فن سکھایا۔نتیجتاً عمران خان کی جھوٹ، مکاری اور دولت و عہدے کی ہوس کھل کر عیاں ہو گئی۔ اس وقت پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، ریاست کا وجود خطرے میں ہے مگر وہ ایک مخصوص گروہ کے نرغے میں پوری ڈھٹائی سے ریاست مدینہ کا راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ ان کی حکومت کے حالات انگریزی ناول اینیمل فارم میں جانوروں (سوروں ) کی حکومت سے رتی برابر بھی مختلف نہیں۔
نوبل انعام یافتہ ناول نگار جارج آرویل کا شہرہ آفاق ناول اینیمل فارم (Animal Farm) دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ یہ ناول 17 اگست 1945 ء کو انگلستان میں شائع ہوا۔ ٹائم میگزین نے اسے دنیا کے 50 بہترین ناولوں میں شمار کیا۔ ناول کے مرکزی کردار، مختلف جانوروں کی شکل میں ابھرتے ہیں جو اپنے فارم سے انسانوں کی اجارہ داری ختم کر کے نئی، انقلابی، جمہوری، عوامی، مساوی اور عوام دوست حکومت قائم کرتے ہیں۔ تبدیلی اور برابری کے نعرے کے ساتھ قائم ہونے والی نئی سرکار میں خونخوار کتوں کی حمایت سے طاقتور سوروں کی شکل میں اشرافیہ کا قبضہ ہو جاتا ہے۔
جو جانوروں پر انسانوں سے بھی زیادہ ظلم و جبر رواں رکھتے ہیں۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال جانور، پرندے، مرغیاں، بھیڑ بکریاں سب تبدیلی کے نام سے اقتدار پر قبضہ کرنے والے ظالم، جابر اور عیاش سوروں کے اس ٹولے کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔ یہ ناول دراصل روس میں انقلاب کے بعد لینن کی کمیونزم حکومت کے مرکزی رہنما جوزف اسٹالن کی حکومت کے کردار اور مظالم کی علامتی عکس بندی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا والد ایک موچی تھا اور والدہ دھوبن، جو لوگوں کے کپڑے دھونے کا کام کرتی تھی جوزف اسٹالن کا والد نشئی تھا اور نشۂ میں دھت ہو کر بیٹے پر تشدد کرتا، اسٹالن نے بچوں کے ایک ٹولے پر مشتمل چوروں کا ایک گروہ بنا رکھا تھا۔بعد ازاں وہی چوروں کا سرغنہ، لینن کا ہونہار شاگرد، پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا۔ اس کی ذمہ داری بینکوں میں ڈاکے ڈالنا اور لوٹی ہوئی رقم پارٹی فنڈز میں جمع کروانا تھی۔ لینن کے انتقال کے بعد اس نے پارٹی اور اقتدار پر قبضہ کر لیا اور زرعی زمینوں کو قومیا لیا۔ 10 فیصد اناج کسانوں جبکہ 90 فیصد حکومت کی ملکیت کا ظالمانہ قانون بنا دیا۔ اس کے فیصلوں سے کمیونزم کی روح شرما گئی۔
کسانوں نے اس کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کر دیا تو اسٹالن نے 30 لاکھ کسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بچنے والے کسانوں کو مشقتی کیمپوں میں منتقل کر دیا اور 99 فیصد زمینوں کو قومیا لیا۔ 1930 ء سے 1933 ء تک سالوں قحط کے باعث 60 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ بچپن میں معمولی پھل چوری کرنے والے نے گن پوائنٹ پر عوام کے منہ سے نوالہ تک چھین لیا۔ دس سالوں میں ایک کروڑ ستر لاکھ کسانوں نے زمین چھوڑ کر شہروں میں محنت مزدوری شروع کر دی۔
1934 ء میں اسٹالن نے اپنی پارٹی اور فوج میں تمام مخالفین کو قتل کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ کمیونسٹ پارٹی کے 139 ممبران میں سے 93 ممبران کو قتل کر دیا گیا۔ فوج کے 103 میں سے 83 جنرلز اور ایڈمرل کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے 30 لاکھ ورکرز میں سے 10 لاکھ کو ان کے انقلابی خیالات اور خوابوں سمیت صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ عوام کو مخالف سمجھ کر 2 کروڑ لوگوں کو مشقتی کیمپوں میں بھیج دیا۔ ان میں سے ایک کروڑ ہی زندہ واپس آئے۔
1944 ء میں معمولی اختلاف رکھنے والی ریاستیں انگشتیہ اور چیچنیا کی 5 لاکھ عوام کو گرفتار کر کے ریاست بدر کر دیا۔ بوڑھے اور بیمار افراد کو موقع پر گولی مار دی گئی پریس پر پابندی عائد کردی گئی۔ وہی خبر شائع ہوتی جس کی حکومت اجازت دیتی۔ کم و بیش دو کروڑ انسانوں کا قاتل، جوزف اسٹالن جنگ عظیم دوم کی اتفاقیہ یا حادثاتی کامیابی سے ہیرو بن گیا۔
اینیمل فارم کی کہانی، بنیادی طور پر انہی حالات کی عکاس ہے اور اتفاق دیکھئے ایک صدی بعد بھی پاکستان کے موجودہ حالات سے بہت حد تک مطابقت رکھتی ہے۔ پاکستان میں ”تبدیلی“ کے نام پر بننے والی حکومت اور اینیمل فارم میں ”سوروں“ کی حکومت میں موازنہ کس حد تک درست ہے اور کیا مستقبل قریب میں عمران خان کی حکومت کا حشر بھی فارم میں جانوروں کی حکومت سے ملتا جلتا تو نہیں ہو گا؟
اینیمل فارم کی کہانی انگلستان کے گاؤں ویلنگٹن سے شروع ہوتی ہے۔ مسٹر جونز جس اینیمل فارم کا مالک ہے اس کا نام ”مینور فارم“ ہے۔ مسٹر جونز کا کردار روس کے شہنشاہ زار نکولس دوئم سے مماثلت رکھتا ہے جو روس میں 1917 ء میں انقلاب سے پہلے حکمران تھے۔ مسز الیگزینڈرا زار نکولس دوئم کی ملکہ تھی۔ مسٹر پلنگٹن ہمسایہ فارم ”فاکس ووڈ“ کے مالک کا کردار برطانوی لیڈر کی عکاس تھا اور مسٹر فریڈرک ایک اور فارم ”پنچ فیلڈ“ کے مالک جو جرمن لیڈر ہٹلر کے کردار کی ترجمانی کرتا ہے۔اس ناول کا ہر کردار کسی تاریخی شخصیت کی طرف اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے جو ناول کی اشاعت کے کم و بیش 70 سال گزرنے کے باوجود آج بھی اسی طرح تر و تازہ ہے اور موجودہ دور کے کئی کرداروں کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔ فارم کے مالک مسٹر جونز ایک کاہل اور آ رام طلب شخصیت کے مالک تھے۔ فارم میں رکھے گئے جانوروں پر مظالم ڈھاتے، بھوکا پیاسا رکھتے۔ عدم توجہی کے باعث فارم کے حالات خرابی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایک روز مسٹر جونز شراب کے نشہ میں مرغیوں کو ڈربے میں بند کر کے کنڈی لگانا بھول گئے۔
یہ بھی دیکھئے:
لالٹین کی روشنی دائیں بائیں رقص کر رہی تھی۔ مسٹر جونز جھومتے ہوئے اپنے بستر پر جا گرے، جہاں ان کی بیوی پہلے ہی موجود تھی۔ اس دن فارم کے سب سے پرانے سور، اولڈ میجر نے تمام جانوروں کو اپنا خواب بیان کرنے کے لیے اکٹھا کیا۔ وہ ایک اونچے پلیٹ فارم پر گھاس پر براجمان تھا۔ جانور ایک ایک کر کے جمع ہوتے رہے۔ ”اولڈ میجر“ نے جانوروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ انسان ظالم اور بے رحم ہیں۔ جانوروں سے برا سلوک کرتے ہیں۔
اس لیے تمام جانوروں کو چاہیے کہ انسانوں کو باہر کر کے فارم پر خود قبضہ کرتے ہوئے اپنی حکومت قائم کریں۔ اس نے جانوروں کو تبدیلی اور انقلاب کا راستہ دکھایا۔ اس نے واضح کیا کہ محنت جانور کریں اور عیش و عشرت انسان کریں۔ اولڈ میجر کا کردار کمیونزم کے بانی ”کارل مارکس“ اور ”ولادیمیر لینن“ کی عکاسی کرتا ہے۔ جن کا فلسفہ تھا:
دنیا کے مزدور و ایک ہو جاؤ!
حکومتوں پر قبضہ کر لو۔
اولڈ میجر نے کہا کہ جانور نسل در نسل غلام ہیں۔ ان کی زندگی مشقت سے بھری پڑی ہے۔ کیا یہ ملک غریب ہے جو جانوروں کی خوراک پوری نہیں کر سکتا؟ نہیں یہ ملک غریب نہیں بلکہ زرخیز ہے اور اس میں اتنا غلہ پیدا ہوتا ہے کہ کئی گنا تعداد میں زیادہ جانور بھی ہوں تو خوراک پوری ہو سکتی ہے۔ میں نے طویل عمر پائی اس لیے اپنے تجربات شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ جانوروں کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے اور اکثر اپنی عمر کی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچا دیے جاتے ہیں۔ گویا جانوروں سے آخری سانس تک مشقت لی جاتی ہے۔ ان ساری تکالیف کا ذمہ دار کون ہے، محنت ہم کریں اور اس کا پھل کس کو ملتا ہے، ہماری مشکلات اور مسائل کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا جواب ہے انسان!
گویا ہمارا دشمن کون ہوا صرف و صرف انسان! اگر اسے راستے سے ہٹا دیا جائے تو بھوک ختم ہو جائے گی، غربت ختم ہو جائے گی اور دن رات مشقت سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ کیا انسان دودھ دے سکتا ہے۔ کیا انسان ہل چلا سکتا ہے۔ کیا انسان انڈے دے سکتا ہے؟ نہیں، انسان ان سارے کاموں کے لیے جانوروں کا محتاج ہے۔ ہمیں اپنی ہستی کو پہچاننا ہو گا۔ یہ گائیں اور بکریاں بیٹھی ہیں ان کا دودھ ان کے بچے نہیں پی سکتے، انسان پیتے ہیں۔
مرغیوں کے انڈوں سے چوزے نکالنے چاہیے۔ مگر انسان وہ انڈے ہڑپ کر لیتے ہیں۔ اگر ہم انسان کو راستے سے ہٹا دیں تو بھوک ختم ہو جائے گی۔ ہماری ”محنت“ اور ہمارا ”پھل“ ۔ ہمیں آزاری حاصل کرنا ہو گئی۔ بغاوت کرنا ہو گی اور اس سے انقلاب لانا ہو گا۔ یہ انقلاب ایک ہفتے میں بھی آ سکتا ہے اور اس کے لیے سو سال بھی لگ سکتا ہے۔ اولڈ میجر نے کہا کہ میرا یہ پیغام نسل در نسل آگے چلنا چاہیے تا کہ انقلاب کی کوشش جاری رہ سکے۔ یہ جھوٹ ہے کہ انسان جانور ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ انسان صرف انسان کا دوست ہے۔ جانوروں میں اتحاد بہت ضروری ہے۔ یہ سن کر جانوروں نے نعرہ بلند کیا۔
جانور جانور بھائی بھائی
تم بھی جانور ہم بھی جانور
انسان ہمارے دشمن ہیں۔
انسانوں کو ختم کرنا ہے
جانور زندہ باد انسان ہائے ہائے
میجر نے اعلان کیا کہ دو پیروں پر چلنے والے ہمارے دشمن ہیں اور چار پیروں والے دوست۔ انسانوں سے پاک ہونے کے بعد اس فارم میں انسانوں کی طرح کوئی زندگی نہیں گزارے گا۔ بستر پر نہیں سونا، گھروں میں نہیں رہنا، سگریٹ اور شراب کے قریب نہیں جانا۔ جانوروں پر ظلم نہیں کرنا، جانوروں کا قتل حرام تصور ہو گا، دولت جمع نہیں کرنی اور کسی سے تجارت نہیں کرنی۔ میجر کی تقریر کے دوران نعروں کی آواز سے فارم کے مالک مسٹر جونز کی آنکھ کھل گئی اس نے فائر کیا تو جانور خاموشی سے چھپ گئے۔
تین روز بعد ”سور اولڈ میجر“ مر گیا مگر فارم کے تمام جانوروں میں بغاوت کے بیج بو گیا۔ خاموشی سے انقلاب کی تیاری ہونے لگی۔ جانوروں کے اتحاد، تنظیم اور تعلیم کا بیڑا سوروں نے اٹھایا۔ سوروں میں ”نپولین“ اور ”سنو بال“ زیادہ چالاک اور ذہین تھے۔ سور ”سکویلر“ باتوں کا ماہر تھا۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا اس کا مشغلہ تھا۔ ان تینوں سوروں نے میجر کے خیال کو جانوریت (animalism ) کا نام دیا۔ اور جانوروں کو تبدیلی کے لیے تیار کیا۔
راتوں کو خفیہ اجلاس ہوتے اور فارم کے مالک مسٹر جونز کے خلاف مشورہ کیا جاتا۔ تمام جانور بغاوت کے لیے تیار تھے مگر کوا ”موزز“ مسٹر جونز کا جاسوس تھا وہ جانوروں کے تمام راز فارم کے مالک کو بتاتا اور جانوروں کو کہتا کہ مرنے کے بعد ہر جانور مزے کرے گا اور ایک شکر کا پہاڑ جس کا نام ”شوگر کینڈی“ ہے۔ مرنے کے بعد سارے جانور وہاں جائیں گے۔ سوروں کی کوشش تھی کہ جانور اس کی باتوں میں نہ آئیں۔ مسٹر جونز کی توجہ فارم سے ہٹ چکی تھی فارم ایک جنگل کا منظر پیش کرنے لگا۔
ایک اتوار کو فارم کے مالک مسٹر جونز نے جانوروں کو خوراک نہ دی اور نشہ میں دھت جانوروں کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس روز جانور بھوک سے نڈھال ہو گئے اور بغاوت پر اتر آئے۔ مسٹر جونز کو بھی غصہ آ گیا اور وہ جانوروں کو مارنے لگے جانوروں نے جوابی حملہ کر کے تمام افراد کو بھگا دیا اور فارم پر قبضہ کر لیا اور کئی بار ترانہ ”انگلستان کے جانورو“ گا کر جوش پیدا کیا گیا۔ (یہ لکھتے ہوئے مجھے عمران اسماعیل جو اس وقت سندھ کے گورنر ہیں کا گیت، روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رہے۔
)
اس رات کھل کر خوراک کھائی اور جی بھر کر مزے سے سوتے رہے۔ صبح آٹھ کر اونچی جگہ سے فارم کا جائزہ لیا۔ اور ترانہ ”انگلستان کے جانورو“ با آواز بلند گایا گیا۔ جانور بے حد خوش تھے۔ انہوں نے جونز کی رہائش کا معائنہ کیا اور اسے یادگار قرار دے دیا۔ فارم کا نام تبدیل کر کے جانورستان (Animal Farm) رکھ دیا۔ سوروں نے فارم کے ”نئے آئین“ اور ”قانون“ کو منظور کیا اور سات اصول وضع کیے۔ جن کو اونچی دیوار پر رہنما اصول کے طور پر کندہ کروایا۔
ان اصولوں میں، اول دو پیروں پر چلنے والے ہمارے دشمن ہیں۔ دوم، چار پیروں والے یا پروں والے دوست ہیں۔ سوم، جانور کپڑوں کا استعمال نہیں کریں گے۔ چہارم، شراب کبھی استعمال نہیں کریں گے پنجم، ایک جانور دوسرے جانور پر کبھی ظلم نہیں کرے گا۔ ششم، جانوروں کا بستر استعمال کرنا اور اس پر سونا منع ہے۔ ہفتم، تمام جانوروں کے حقوق مساوی ہیں۔ یہ اصول سب کو قبول تھے۔ اس انقلاب اور تبدیلی کے بعد جانوروں نے پہلے سے زیادہ محنت شروع کر دی البتہ دو سور نپولین اور سنو بال کام کرنے کی بجائے مشورے دیتے، باتیں بناتے، آرام کرتے۔
ہر اتوار کو چھٹی ہوتی اور اگلے ہفتے کے کاموں پر غور ہوتا اور ذمہ داریاں سونپی جاتیں۔ فارم کے مالک کی رہائش گاہ کو کتاب گھر بنانے کا اعلان کیا گیا اور وہاں جانوروں کی تعلیم و تربیت ہونے لگی۔ (اس واقع سے مجھے عمران خان کی طرف سے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان یاد آ گیا) ۔
اس دوران کتے ”جیسی“ اور ”بلیو بیل“ کے ہاں 9 کتوں کی پیدائش ہوئی۔ سور ”نپولین“ نے ان کی الگ پرورش شروع کر دی اور انہیں تمام دودھ پلایا جانے لگا۔ ”سور“ سیب اور تمام فروٹ کھا جاتے۔
اینیمل فارم کے سور، فارم کے کبوتروں کو دوسرے پڑوسی فارم کے جانوروں کو بغاوت، تبدیلی اور انقلاب کا پیغام بھیجتے جبکہ اس فارم کے سابق مالک مسٹر جونز پڑوسی فارم کے مالک مسٹر پنچ فیلڈ اور مسٹر فریڈرک کو جانوروں کے خلاف بھڑکاتے اور ان کو جانوروں کی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کے لیے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے۔ اس دوران مسٹر جونز نے ساتھیوں کی مدد سے فارم کا قبضہ واپس لینے کے لیے جانوروں پر حملہ کر دیا تاہم جانوروں نے مار بھگایا۔
سور ”سنو بال“ نے ہوا سے چلنے والی چکی کو بنانے کا فیصلہ کیا اور اس سے بجلی بنانے کا طریقہ بتایا اور اس مقصد کے لیے نقشے بنائے۔ اس حوالے سے جانوروں کو کام کرنے کے لیے تیار کرنے کے لیے انہیں اس کی اہمیت کا احساس دلایا۔ ”سور نپولین“ نے اس بات کو پسند نہیں کیا اور نو پالتو کتوں سے سور سنو بال پر حملہ کروا دیا۔ وہ بھاگ گیا تو سور سکویلر نے مشہور کر دیا کہ وہ غدار تھا اور فارم کے سابق مالک مسٹر جونز سے ملا ہوا تھا اس طرح سور نپولین نے اینیمل فارم کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
اتوار کو اہم اجلاس بلایا گیا تین سور ”نپولین“ ، ”سکویلر“ اور ”می نیمئس“ سب جانوروں سے الگ اونچی جگہ پر بیٹھے اور خونخوار کتے ان کی حفاظت پر مامور رہے۔ نپولین نے اعلان کیا کہ ہوائی چکی تعمیر ہو گی کیونکہ وہ میرا منصوبہ تھا جو سور سنو بال نے چوری کیا تھا۔ اب پہلے سے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ سور ہی حکومت کا حق رکھتے ہیں اور سوروں کا فیصلہ ہی آخری ہو گا۔ تبدیلی سرکار کے سات سنہری اصولوں کے برعکس ہوائی چکی کی تعمیر کے لیے ایک شخص مسٹر وائمپر سے خرید و فروخت کا معاہدہ کیا گیا۔
( اس معاہدہ سے عمران خان کا کہنا کہ خودکشی کر لوں گا قرضے کے لیے آئی ایم ایف نہیں جاؤں گا یاد آ گیا) ۔ قریبی فارم سے دودھ، انڈوں اور گھاس فروخت کا کام عروج پر تھا۔ یہ سات اصولوں کے خلاف تھا مگر کتوں کی غراہٹ میں کسی جانور کو ہمت نہیں تھی کہ سوروں کی مخالفت کر سکے۔ سور آرام دہ بستر پر سونے لگے باورچی خانہ میں طرح طرح کے کھانے تیار ہونے لگے۔ سور سکویلر نے جانوروں کو مطمئن کرنے کے لیے کہا کہ سوروں کا آرام دہ بستر پر سونا اور اچھی خوراک کھانا ضروری ہے کیونکہ وہ سوچ و فکر کا کام اور کار حکومت چلاتے ہیں۔
سکویلر خود تو چار پیروں والا ہے اور دو پیروں والے انسان کو حکم دیتا ہے۔ جانوروں کا سر فخر سے بلند ہوا۔ ”نپولین“ اب فارم ہاؤس تک محدود ہو کر رہ گیا دروازے پر کتے پہرے پر ہوتے اس کے احکامات صرف ”سور سکویلر“ کے ذریعے پہنچتے۔ خوراک کی قلت کے باعث جانور بھوک سے مرنے لگے۔ مرغیوں نے انڈے فروخت کرنے پر ہڑتال کی تو کتوں نے ان کی خوراک بند کر دی۔ نو مرغیاں بھوک سے مر گئی۔ جانوروں کے مرنے کی خبریں مسٹر جونز اور دیگر فارمز کے مالکان تک پہنچ چکی تھیں۔ مگر سور ”نپولین“ ان خبروں کی تردید کرتے اور انہیں افواہیں قرار دے کر سور سنو بال کے ذمہ ڈال دیتے اور اسے غدار قرار دیتے۔ (جیسے عمران خان ہر ایشو، مہنگائی، غربت، بے روزگاری کو سابق حکمرانوں کے ذمہ ڈال رہے ہیں )
سور نپولین نے خوراک کے اصول کے لیے باہر انسانوں سے معاہدہ کیا اور انہیں انڈے اور لکڑیوں کے ڈھیر بیچتے اور بدلے میں خوراک حاصل کی جاتی۔ انڈوں اور دودھ کی چوری کا الزام سنو بال پر لگا دیا جاتا۔ سنو بال کے بارے میں مشہور کر دیا گیا کہ وہ کامریڈوں کے خلاف ہے اور انسانوں کا دوست ہے۔ اس حوالے اجلاس بلایا گیا اور واضح کیا کہ غدار سور سنو بال کے جاسوس جانوروں کو سزا دی جائے گی (آج کل حلیم خان اور جہانگیر ترین کے حوالے سے عمران خان کا یہی طرز عمل نہیں؟
) کچھ دیر میں چار سوروں کو مجرم بنا کر پیش کیا گیا اور خونخوار کتوں نے چیڑ پھاڑ دیا۔ اسی وقت تین مرغیوں، ایک ہنس اور
تین بھیڑوں کی لاشیں وہاں پڑی ہوئی تھیں۔ سنو بال کی حمایت کرنے والے خوفزدہ ہو گئے۔ حکمران سور نپولین کی مخالفت کرنے والے اور اس کے احکامات نہ ماننے والوں کو جانوروں کے سامنے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ اس کے بعد جانور اداس، پریشان اور سہمے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ جانوروں کی اکثریت سوچنے لگی کہ اس سے پہلے کبھی بھی اس فارم میں چوہا تک نہیں مرا، یہ کیسا دور ہے جانوروں کی حکومت اور جانوروں ہی کا قتل عام، اینیمل فارم کے جانوروں میں مایوسی پھیل گئی۔
جانور حیران تھے کہ بوڑھے میجر، سور نے جس تبدیلی کا خواب دکھایا تھا اس میں یہ بھوک، قتل و غارت اور دہشت تو نہیں تھی اتنے میں سور سکویلر کتوں کے ہمراہ آیا اور جانوروں کو کہا کہ اب یہاں کوئی انقلاب کا ترانہ نہیں گائے گا اور اب نیا ترانہ رائج ہو چکا۔ جو سور شاعر می نی مس کا لکھا ہوا ہے۔ ترانہ گاتے ہوئے جانوروں میں وہ پہلے والا جذبہ نہ رہا۔ ہوا کی چکی تیار ہو چکی تھی۔ فصلوں میں اضافہ ہو چکا تھا مگر جانوروں کو خوراک بہت کم ملتی۔
اب حکمران سور ”نپولین“ بہت کم نظر آتا ہے۔ جب نظر آتا تو آنے سے پہلے خونخوار کتے آگے آگے چل رہے ہوتے اور ایک مرغا نپولین کی شان میں قصیدہ پڑتا اور تعریفیں کی جاتیں۔ (ڈاکٹر شہباز گل کسی سے کم نہیں )
اینیمل فارم کے اصولوں کو سور نپولین نے تبدیلی کروا دی اور چھٹے اصول میں لکھ دیا گیا کہ کوئی جانور کسی کو مار نہیں سکتا، بغیر وجہ کے۔ اسی طرح دیگر اصولوں میں بھی سوروں نے اپنی ضرورت اور سہولت کے لیے تحریف کر دی جیسے پہلے لکھا تھا چار پاؤں والے جانور اچھے ہوتے ہیں اور دو پاؤں والے انسان برے، اب اس میں تبدیلی کر لی گئی۔ کہ تمام جانور برابر ہیں تاہم کچھ جانور زیادہ برابر ہیں۔ فارم کا حکمران نپولین اب کبھی کبھار نظر آتا مگر جب نظر آتا تو خونخوار کتوں کے جھرمٹ میں تمغے سجائے نمودار ہوتا۔
سوروں نے فارم کے سابق مالک مسٹر جونز کے لباس پہننا شروع کر دیے۔ شراب نوشی اور آرام دہ بستر پر سونا شروع کر دیا۔ نپولین کی رہائش سے انسانوں کی آوازیں آتی تو جانوروں پر حیرانی کے دورے پڑتے۔ انقلاب میں شامل جانوروں کی ایک بڑی تعداد بھوک اور افلاس سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ نئے پیدا ہونے والوں کو جانوروں کی جد و جہد اور قربانیوں کا کچھ پتا نہیں تھا۔ فارم حالات تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ جانور محنت کے باوجود پریشان حال تھے۔
ونڈ مل کے بعد دوسری مل بن گئی۔ خوراک میں ہے پناہ اضافے کے باوجود جانور بھوک و افلاس کا شکار تھے۔ بہرحال سور خوب کھاتے، ترقی کے فوائد سے عیش و عشرت میں ڈوب گئے۔ وائرلیس اور ٹیلی فون لگ گئے۔ جانور یہ سب کچھ اس وجہ سے برداشت کرتے وہ جو بھی محنت کرتے ہیں اپنے لیے اب تو انتہا ہو گئی کہ سور سکویلر اور دوسرے دو پاؤں پر چلنے کی کوشش کر رہے تھے اب دو فارم کے حکمران سور نپولین بھی دو پاؤں سے انسانوں کی طرح چلنے کے لیے کوشاں تھے۔
ادھر جانوروں کو رہ رہ کر خیال آتا کہ کہا گئی سہولیات، پنشن کے وعدے اور تین دن کام کا اعلان (عمران خان کا انتخابی منشور کیا کسی سے کم تھا) اب تو سوروں نے ہاتھ میں کوڑا اٹھائے جانوروں پر تشدد شروع کر دیا تھا۔ اور تو اور نپولین کہتے کہ محنت میں عظمت ہے۔ نپولین سگار پیتے اور کام کا جائزہ لیتے۔ اب فارم میں انسانوں کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ ایک روز نپولین کی رہائش گاہ پر چھ پڑوسی اینیمل فارم کے مالکان اور چھ اعلی سور گول میز کانفرنس میں شریک تھے اور نپولین اونچی جگہ پر تشریف فرما تھے۔
کانفرنس میں طے پایا کہ اب اینیمل فارم کا نام مینز فارم رکھ دیا جائے گا۔ انسانوں اور جانوروں کے درمیان غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔ نچلی ذات کے انسانوں اور جانوروں سے زیادہ مشقت لی جائے گی اور خوراک کم دیں گے۔ انقلاب، تبدیلی اور کامریڈ کے سائن بورڈ ہٹا دیے جائیں۔ انسان اور سور بھائی بھائی ہوں گے۔ نپولین اور پڑوسی فارم کے مالک مسٹر پل کنگٹن جام نوش کرتے ہوئے تاش کی بازی لگائے بیٹھے تھے۔ کانفرنس میں شریک انسانوں اور سوروں کے چہرے یکساں دکھائی دے رے تھے ان میں فرق کرنا مشکل ہو چکا تھا۔
جارج آرویل کے اینیمل فارم کے پڑوسی تاش کی بازی لگائے بیٹھے تھے اور کانفرنس میں شریک انسانوں اور سؤروں کے چہرے ایک جیسے ہو چکے تھے