کیا یہ بہتر نہیں کہ عمران خان الیکشن کو اپنے وقت پہ ہو لینے دیں۔اس عرصہ وہ اپنا ہوم ورک کرلیں،پلیننگ کرلیں کہ چیزیں صحیح کیسے کرنی ہیں۔
——————————
عمران خان 2018 میں بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔عوام خان صاحب کو ایک مسیحا کے طور پر دیکھتی تھی۔ جو حکومت میں آ کر ان کے مسائل چٹکیوں میں حل کردے گا۔وجہ ان کے وہ دعوے تھے جو وہ اپنی انتخابی مہم میں تواتر سے بنا کسی پلینگ کے کیا کرتے تھے۔ان کے اندر عوام کو اکٹھا کر لینے کا ہنر موجود تھا۔تقاریر بہترین کیا کرتے تھے۔ان کے دامن میں کرپشن کا داغ نہ تھا۔نیت ان کی صاف تھی۔کچھ کر لینے کا عزم ان کے چہرے پر جھلکتا تھا نتیجا عوام نے ان سے امیدیں وابستہ کرلیں اور یوں یہ اقتدار کی کرسی تک پہنچ گئے۔
ان کی حکومت کی کارکردگی بہت بری رہی۔مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔جس کی بدولت ڈکیتی جیسے جرائم میں اضافہ ہوا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن میں اضافہ ہوا۔اداروں کا نظام بہتر نہ ہوسکا۔پولیس میں بہتری نہ آ سکی۔تعلیمی نظام جوں کا توں رہا۔صحت کے شعبے میں بھی ان کی کاردکردگی صفر رہی۔3 مہینے کے اندر فلاں ملک سے اتنے پیسے لا کر فلاں کے منہ پر مارنے کے ان کے دعوی محض دعوی رہے۔عوام کی امیدوں کی ڈور ٹوٹنے لگی۔وہ مایوسی کا شکار ہونے لگے۔خود عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومت میں آنے سے قبل انہیں اندازہ نہ تھا کہ معاملات چلانا آسان نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھئے:
حملے، شخصیات پر، اداروں پر اور کردار پر
عمران خان کس شکنجے میں کسے جانے والے ہیں؟
اس تمام عرصہ میں اپوزیشن ان پر طعنے کسنے کے فرائض ادا کرتی رہی۔ اپوزیشن میں موجود 11 جماعتوں نے اتحاد قائم کیا جس کو پی ڈی ایم کا نام دی گیا۔پی ڈی ایم نے مہنگائی کو وجہ بنا کر عمران خان کی حکومت کے خلاف بھر پور مہم چلائی۔جلسے جلوس کیے۔جوابا عمران خان لمبی لمبی پریس کانفرنسز کر کے اپنی کارکردگی پر بات کرنے کی بجائے ان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہے۔اپنی تمام ناکامیوں کو ماضی کی حکومتوں کے کھاتے میں ڈال کر خود کو ہر الزام سے بری الذمہ قرار دے دیا۔عوام عمران خان کی کارکردگی سے مایوس ہونے کے باوجود بھی انھیں ٹائم دینے کے حامی تھی۔عوام انھیں ہی اقتدار میں دیکھنا چاہتی تھی۔لیکن پھر 8 اپریل آگئی۔
اس دن عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کردی۔قرارداد منظور ہوئی اور 3 اپریل کا دن ووٹنگ کے لیے مختص کرلیا گیا۔لیکن 27 مارچ کو عوام سے خطاب کرتے اچانک ہی عمران خان نے ایک خط لہراتے ہوئے دعوی کردیا کہ ان کی حکومت کو گرانے کی سازش “باہر” سے ہوئی ہے اور پی ڈی ایم اس سازش میں ملوث ہے۔چونکہ انھوں نے روس یوکرین جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا لہذا انھیں اس بات کی سزا دی گئی ہے۔ووٹنگ کے دن قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے عدم اعتماد کو کالعدم قرار دے دیا۔لیکن سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی کالعدم کو مسترد قرار دے دیا اور عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم جاری کیا۔ووٹنگ ہوئی اور 10 اپریل کا دن عمران خان کی حکومت کے لیے آخری دن ثابت ہوا۔
شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے۔عوام شدید ہرٹ ہوئی۔وہ اس فیصلے کو قبول نہ کرسکی خان کی حمایت میں پورا پاکستان باہر نکل آیا۔نیوٹرلز اور اداروں کے خلاف نفرت نے جنم لیا۔ عمران خان دیکھتے پی دیکھتے ہیرو کے درجے پر فائز ہوگئے جنھوں نے ماضی کی روایت کو توڑ کے امریکہ کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
عمران خان اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے اور جلد از جلد نئے الیکشن کروانے کا مطالبہ کرڈالا۔عوام ان کے ساتھ تھی لیکن الیکشن کمیشن نے فوری الیکشن کروانے سے معذرت کرلی کہ ابھی یہ ممکن نہیں ہے۔یاد رہے عمران خان الیکشن کمیشن کے چیف سکندر سلطان راجا پر بھی اس سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
عمران خان نے فوری الیکشن کا مطالبہ منوانے کے کیے جلسے کرنا شروع کردیے۔وہ جس شہر میں جلسے کرتے عوام کا سمندر امڈ آتا۔25 مئی کو انھوں نے لانگ مارچ کا آغاز کیا لیکن اسے انجام تک پہنچائے بغیر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گئے کہ “حکومت کو مہلت دے رہا ہوں،جلد از جلد الیکشن کا اعلان کردے”۔اگست میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان پر کئی سال سے جاری فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ان کے خلاف سنا دیا۔فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر بیرون ملک سے فنڈز لینے کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔لیکن فارن فنڈنگ الزام کا ثابت ہونا عمران خان کی مقبولیت میں ذرہ برابر بھی کمی نہ آسکی۔
اکتوبر میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل قرار دے دیا۔لیکن عوام کے دل میں عمران خان کے لیے محبت کم نہ ہوسکی۔یہی وجہ ہے کہ جب عمران خان نے آزادی مارچ کا اعلان کیا تو عوام نے انکی صدا پر لبیک کہا۔عمران خان کا آزادی مارچ وزیر آباد واقعے کے وقفے کے بعد پھر شروع ہونے والا ہے۔دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اس مارچ سے نمٹنے کے لیے ہر طرح کے وسائل استعمال کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔کئی تجزیہ نگار امن کی صورتحال خراب ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
اب دوسری طرف آتے ہیں۔ ملک میں عجیب افراتفری مچی ہوئی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لفظی گولہ باری عروج پر ہے۔الیکشن کمیشن گالیاں کھا رہا ہے۔امن خراب ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ہمسایہ ملک کا وزیر دفاع گلگت بلتستان اور کشمیر پر قبضے کی دھمکی دے رہا ہے۔معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔اقوام متحدہ کے ایک تخمینہ کے مطابق حالیہ سیلاب سے پاکستان کو 40 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔مہنگائی اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔بے روزگاری میں اضافی ہورہا ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ماہرین خوراک کے بحران کے حوالے سے بار بار خبردار کررہے ہیں۔
اس وقت وطن عزیز کو ایسی قیادت کی اشد ضرورت ہے جو ان مسائل کے تدارک کے ساتھ ساتھ ان کو حل کرنا جانتی ہو۔
پاکستانی عوام ماضی کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں، بدنیتی،کرپشن کے بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک چکی ہے اس میں اب مزید سکت باقی نہیں ہے۔وہ ان مسائل سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے۔اس وقت پاکستانی عوام ایسی قیادت چاہ رہے ہیں جو کرپشن سے پاک،وطن سے مخلص اور معیشت کو ٹریک پر لانے کا ہنر جانتی ہو جو غیروں کی غلامی سے آزاد ہو اور فیصلے اپنے وطن کے مفادات میں کرے۔رجیم چینج کے اس کھیل نے عوام کی امیدوں کا مرکز ایک بار پھر عمران خان کو بنا دیا ہے۔عوام ایسا سمجھ رہی ہے کہ ان کی ملک کی قسمت بدل دینے کی چھڑی عمران خان کے پاس ہے۔
لیکن کیا واقعی؟؟؟
اب دوبارہ لانگ مارچ کی جانب جاتے ہیں۔یہ کہاں لکھا ہے کہ انتخابات ہوجانے سے ملک کے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔عوام خوشحال ہوجاتی ہے۔انتخابات تو محض اتنا کردار ادا کرتے ہیں کہ ایک شخص پر سابقہ کا لیبل لگ جاتا ہے اور دوسرے پر موجودہ کا۔سابقہ اور موجودہ کے اس کھیل میں ملک کی قسمتیں نہیں بدلا کرتی۔حالات تب بدلتے ہیں جب حکومت مسائل سے نبرد آزما ہونے کا ہنر جانتی ہے۔اس کے پاس مسائل کے حل کے لیے ایک لائحہ عمل موجود ہوتا ہے۔جس پر عمل کر کے وہ ملک کو صحیح ٹریک پر گامزن کردیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟انہوں نے معیشت کو ٹریک پر لانے کے حوالے کیا پلیننگ کر رکھی ہے؟تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری کیسے آئے گی؟اداروں میں اصلاحات کیسے ہونگی؟اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی امن کو ثبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ناکام کیسے بنانا ہے؟
یہ بات عوام طے کرچکے ہیں کہ الیکشن کل ہوتے ہیں یا اگلے مہینے یا اگلے سال،انہوں نے ووٹ عمران خان کو ہی دینا ہے پھر یہ لانگ مارچ کر کے حکومت کو پریشررائز کرنے کی کیا تک ہے؟سڑکوں کو بلاک کرنے سے کیا حاصل؟ہاں!جلد الیکشن متوقع ہوسکتے ہیں۔لیکن جب لائحہ عمل پاس موجود نہ ہو تو غلط چیزیں درست کیسے ہونگی؟نوجوانوں کی امیدیں کیسے پوری ہونگی؟اندھیرے روشنیوں میں کیسے بدلیں گے؟
کیا پھر ایک بار عمران خان اقتدار میں آکر ماضی حکومتوں پر الزام دھرنے کی روش پہ چلیں گے؟اگر ایسا ہی ہونا ہے تو جلد الیکشن کی کیا ضرورت باقی رہے جاتی ہے۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ عمران خان الیکشن کو اپنے وقت پہ ہو لینے دیں۔اس عرصہ وہ اپنا ہوم ورک کرلیں،پلیننگ کرلیں کہ چیزیں صحیح کیسے کرنی ہیں۔
اس سے ملک بھی عدم استحکام کا شکار ہونے سے بچ جائے گا اور دشمن کی اس ملک میں دنگے فساد کروانے کی کوششیں بھی ناکام ہوجائیں گی۔
یہی بہتر راستہ ہے!