وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے سود اور اسلامی بینکاری کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بینچ میں دائر حکومتی اپیلوں کو واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر خوش آئند اور درست سمت میں ایک قدم ہے مگر اس سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے خلاف عدالتی اپیلیں مکمل طور پر غیر موثر نہیں ہوگی۔ اس فیصلے کے خلاف نجی کمرشل بینکس بھی سپریم کورٹ گئے ہوئے ہیں اور ان اپیلوں کی بنا پر وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہی رہے گا۔
اب یہ دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بینچ کے سامنے یہ کیس کب سماعت کے لئے فکس ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب سوائے چیف جسٹس آف پاکستان کے کسی کے پاس نہیں ہے۔ موجودہ چیف جسٹس صاحب کے بارے میں عام شنید یہی ہے کہ وہ کیسوں اور ان سے متعلقہ متفرق درخواستوں تک کو مضبوطی سے اپنے انتظامی کنٹرول میں رکھتے ہیں اور اس کام کو دیگر سینئر جج صاحبان پر نہیں چھوڑا جاتا۔ اس کا نتیجہ بسا اوقات غیر معمولی تاخیر کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔ سو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف بینکوں کی اپیل کی سماعت کے لئے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔ ایک بار یہ سماعت شروع ہو تو پھر دیکھنا ہوگا کہ سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ کی دقیق نکتہ آفرینیوں سے یہ کیس مزید کتنا لٹکتا ہے!
یہ بھی پڑھئے:
الیکشن جلد کرانے کا فائدہ کیوں نہیں؟
حملے، شخصیات پر، اداروں پر اور کردار پر
ہماری خواہش ہے کہ اس کیس کو سماعت کے لئے جلد از جلد فکس کیا جائے تاکہ عدالت میں وفاقی حکومت کا موقف پوری طرح سامنے آ سکے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت اس معاملے سے لاتعلق ہو کر ایک طرف بیٹھ جاتی ہے یا پھر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی حمایت اور عملی تطبیق کے لئے عدالت کے سامنے اپنا نکتہ نظر پیش کرے گی۔ اسحاق ڈار صاحب کے اعلان کے بعد تو حکومت کو موخر الذکر کردار کا مظاہرہ کرنا چاہیئے مگر ظاہر بات ہے کہ عدالتی موقف اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں فرق ہوتا ہے جو عدالت میں جا کر ہی واضح ہوگا۔
اپیل کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس اپیل کی سماعت ہونی چاہیئے اور جو احباب سرے سے اس اپیل کو ہی ڈراپ کروانے کے خواہشمند ہیں مجھے ان سے بوجوہ اتفاق نہیں ہے۔ اس میں تو شاید کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں بعض سقم موجود ہیں۔ ان کے تدارک کے لئے کسی نہ کسی انداز میں اسی فورم کو ہی دوبارہ درخواست کرنی چاہیئے تھی یا پھر سپریم کورٹ میں اپیل ایک بہتر آپشن تھا؟ اس بارے میں ظاہر ہے ایک سے زیادہ آراء موجود ہیں۔ نظری طور پر یہ بحث اپیلوں کے دائر ہونے سے قبل فائدہ مند تھی مگر اب اس بارے میں مزید بحث سودمند نہیں ہوگی۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا ایک اہم مدار ملک میں رائج اسلامک بینکنگ نظام ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس مروجہ نظام کے بارے میں ایک بڑے مفروضے کو قبول کرتے ہوئے اسے متبادل کے طور پر مزید آگے بڑھانے اور پھیلانے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ میں ذاتی طور پر اسلامی بینکنگ کے معاملے میں سخت فقہی آراء اور تنقید کو اپنانے سے گریز کرتا ہوں اور اس نظام کو تمام علمی و عملی اشکالات کے باوجود ایک خاص دائرہ کار میں اختیار کرنے کو غلط نہیں سمجھتا۔ اس کے باوجود اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں مروجہ اسلامک بینکنگ کی پریکٹس کو عدالت میں پوری طرح زیر بحث لایا جائے اور محض اس مفروضے کی بنیاد پر اسے “گو اہیڈ” نہ دیا جائے کہ اسے شرعی قواعد و ضوابط سے ہم آہنگ ہونے کے فتاوی کا تحفظ حاصل ہے۔
حالیہ دنوں میں آپ نے یہ خبر پڑھی ہوگی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے چھ بینکوں پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کئے ہیں۔ ان بینکوں میں میزان بینک بھی شامل ہے جس پر رپورٹ کے مطابق اکیاسی ملین روپے سے زیادہ کی پینلٹی ڈالی گئی ہے۔ ایک روایتی بینک کے لئے صرف ایک ہی ریگولیٹری فریم ورک ہے کہ اس نے اسٹیٹ بینک کی عمومی پروڈینشل ریگولیشنز وغیرہ کی پاسداری کرنی ہے۔ اس کے برعکس اسلامی بینک کو بینکنگ کے عمومی قواعد و ضوابط کے ساتھ ساتھ شریعہ اسٹینڈرڈز کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مختلف مارکیٹوں میں میزان بینک کی طرح کے اسلامی بینکس جو سودے کرتے ہیں ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو شرعی تقاضوں کے تحت جائز ہوتے ہیں۔ کیا شریعہ ایڈوائزر اس طرح کے معاملات پر موثر پکڑ کر پاتے ہیں جن کی وجہ سے بھاری پینلٹی ادا کرنی پڑتی ہے؟ ایسے کون سے امور ہیں جو قانونی لحاظ سے قابل گرفت ہیں مگر ان کے ارتکاب سے شرعی طور پر کوئی اعتراض نہیں اٹھتا؟ اسلامک بینکوں کی اس قسم کی پریکٹسز کو بھی دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے اور ان اداروں کو en bloc go ahead دینا محل نظر ہے۔ اب چونکہ اپیلیں دائر ہو چکی ہیں تو عدالت کو اس پہلو کو بھی دیکھنا چاہیئے۔