Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
قیام پاکستان کے بعد ہمارے سیاسی منظر نامے پر کئی سیاست دان آئے اور کئی گئے لیکن دو شخصیات ایسی ہیں جن کے کردار کا نقش تادیر قائم رہے گا۔ ان میں ایک ذوالفقار علی بھٹو ہیں اور دوسرے میاں نواز شریف۔ یہ دو کردار کیوں ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں اور ان دونوں کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ سیاست سے دل چسپی رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں سیاست دانوں کے کردار کا وہ کون سا پہلو ہے جو انھیں اپنے ہم عصر اور دیگر سیاسی شخصیات سے ممتاز کرتا ہے اور خود ان دونوں کے درمیان کیا فرق کیا ہے؟ بات اگرچہ گہری ہے اور میں دو چار نازک مقام بھی آتے ہیں اس لیے کیوں نہ اس کا آغاز کسی دل چسپ اور رومانوی پہلو سے کیا جائے۔ قائد اعظم علیہ رحمہ ہوں، ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا میاں نواز شریف ہمارے ان تینوں قائدین کا پیدائشی ستارہ جدی یعنی کیپری کون ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنے نصب العین میں واضح اور اس کے حصول کے لیے ہمیشہ برعزم رہتے ہیں خواہ اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قائد اعظم رحم اللہ علیہ نے جب پاکستان کو اپنی منزل بنا لیا تو پھر کوئی رکاوٹ ان کی راہ کھوٹی نہ کر سکی یہاں تک کہ انھوں نے اپنی صحت کی پروا بھی نہ کی اور اسے دا پر لگا کر انھوں نے یہ مقصد حاصل کیا اور تاریخ میں امر ہو گئے۔ قائد اعظم کا موازنہ کسی دوسرے فرد سے کرتے ہوئے میرے ہاتھ کانپتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے بعد اپنی سطح اور افتاد کے مطابق قومی سیاست پر اگر کسی کا نقش دکھائی دیتا ہے تو وہ بھٹو ہیں۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے اہداف میں واضح تھے اور وہ بے لچک ہو کر اس راہ پر چلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اپنی جان کی پروا بھی نہ کی۔ 1990 اور اس کے بعد کی سیاست بتاتی ہے کہ یہی سب کچھ نواز شریف نے بھی کیا لیکن ایک پہلو ایسا ہے جو انھیں اپنے پیش رو یعنی ذوالفقار علی بھٹو شہید سے صرف مختلف نہیں بناتا بل کہ نمایاں بھی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے ہمارے مطالعے اور جائزے کا آغاز ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بین الاقوامی سیاست کے راز داں تھے۔ ان کا مطالعہ بھی خوب تھا اور طویل سیاسی کیریئر کے دوران عالمی سطح پر ان کے غیر معمولی تعلقات بھی تھے اور سیاسیات عالم کی نزاکتوں سے بھی خوب واقف تھے۔ ان کے یہی تعلقات اور اہمیت تھی جس سے آگاہی کے سبب انھوں نے کہا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو پہاڑ روئیں گے اور دریا خوں رنگ ہو جائیں گے۔ شاید یہی سبب تھا کہ جب وہ اڈیالہ جیل کے پھانسی گھاٹ میں زندگی کے آخری دن گن رہے تھے، ہم سمجھتے تھے اچانک کوئی کمانڈو ایکشن ایسا ہو گا جس میں فلسطینی فدائین یا کوئی اور سورما تمام دشمنوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انھیں بچا لے جائے گا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ یہ بات سیاسی انداز میں یہ بات یوں کہی جا سکتی ہے کہ بھٹو اپنے نظریات میں واضح تھے، جرات مند اور بہادر تھے لیکن اپنے علم اور ایکسپوزر کے باوجود اپنی جان کی حفاظت کر سکے اور نہ ملک کو آمریت کے پنجوں سے بچانے میں کامیاب رہے۔ ان کی عظمت یہی ہے کہ انھوں نے جو درست سمجھا، اس کے لیے اپنی جان کو معمولی جانا۔ ان کی یہی عظمت ہے اور اسی عظمت نے انھیں شہادت کے منصب پر فائز کر دیا۔ ان کے مقابلے میں میاں نواز شریف ہیں، کام انھوں نے بھی یہی کیا ہے۔ ان کی جان بھی کئی بار یقینی طور پر دا پر لگی ہے، انھوں نے ان خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں بھی بے خطر ڈالی ہیں لیکن ان کی عملی اپروچ، مختلف ورلڈ ویو اور حکمت عملی نے ان کی جنگ کو زیادہ نتیجہ خیز زیادہ با معنی اور طویل بنا دیا ہے۔ یہی طرز عمل انھیں اپنے پیش رو کے مقابلے میں نمایاں کرتا ہے۔
میاں نواز شریف کے سیاسی کردار کا یہی پہلو ہے جو انھیں صرف ممتاز نہیں کرتا بلکہ ان کے ناقدین اور مخالفین کو ان کی بہادری کا اعتراف کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ زیرک سیاسی راہ نما اور سابق وفاقی محمد علی درانی کا شمار نواز شریف کے ناقدین میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ان سے ایک طویل بے تکلف ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے تسلیم کیا کہ نواز شریف ایک بہادر سیاسی قائد ہیں اور وہ نتائج سے بے خوف ہو کر سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔
نواز شریف کے ناقدین اور مخالفین بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ایٹمی دھماکے کے وقت انھوں نے نتائج سے بے پروا ہو کر جو فیصلہ کیا، اس تعریف ہمیشہ کی جاتی ہے۔ ان کی سیاسی زندگی میں بہادری کا یہ واقعہ پہلا اور آخری نہیں ہے۔ بے شمار واقعات ہیں جو ان کی بہادری کا اعتراف کرتے ہیں جیسے بارہ اکتوبر 1999 کا دن۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد وہ مسلح مخالفین کے نرغے میں تھے اور تین جرنیلوں نے ان سے سیاست سے لا تعلقی اور ملک چھوڑنے کی شرط پر جاں بخشی کے عوض استعفے کا مطالبہ کیا۔ نواز شریف نے تمام تر نتائج جانتے ہوئے بھی Over my dead body کہہ کر اسے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا، تاریخ اس کی گواہ ہے۔
2018 میں وہ اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ وطن واپس لوٹ آئے اور گرفتاری پیش کر دی۔ انھوں نے یہ جانتے ہوئے ایسا کیا کہ مخالفین انھیں اذیتیں بھی دیں گے اور وہ ان کی جان بھی لے سکتے ہیں۔
یہ دو واقعات ایسے ہیں براہ راست جن کا تعلق جان کو لاحق خدشات سے ہے لیکن سیاسی زندگی میں بھی انھوں نے کچھ کم پر خطر فیصلے نہیں کیے۔ 1990 میں انتخابات میں کامیابی کے باوجود جنرل مرزا اسلم بیگ غلام مصطفی جتوئی مرحوم کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے لیکن انھوں نے ان کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے عوام کے فیصلے کے مطابق اسلم بیگ سے اختلاف کیا اور خود کو اس منصب کے لیے پیش کیا۔ سیاسی حرکیات سے واقفیت رکھنے والا کوئی فرد جان سکتا ہے کہ ایسا کر کے قومی سطح پر اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہی انھوں نے پر خطر طریقے سے کیا۔
محمد خان جونیجو کو جب جنرل ضیا الحق نے گھر بھیج دیا تو وہ خاموشی کے ساتھ گھر جا کر بیٹھ گئے لیکن غلام اسحاق خان نے نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے گھر بھیجا تو انھوں نے مزاحمت کی۔ عدالتی محاذ پر بھی اور عوامی محاذ پر بھی۔ پھر وہ جونیجو صاحب کی طرح گھر جا کر بیٹھ نہیں گئے غلام اسحاق خان جیسے طاقت ور مہرے کے اقتدار کا سورج غروب کر کے گئے۔ جنرل آصف نواز سے دشمنی کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔
نواز شریف کا بھٹو سے ایک اور فرق یہ ہے کہ انھوں نے مزاحمت کی لیکن لڑائی کو طول دے کر اپنے مخالفین کو زچ نہ کر سکے۔ لڑائی کے پہلے ہی مرحلے میں جان دے کر میدان مخالفین کو دے گئے جب کہ نواز شریف نے ایک بامقصد لڑائی کو طول دیا اور وہ جنگ جو اقتدار کے ایوانوں اور بند کمروں میں لڑی جاتی تھی، اس میں عوام کو حصے دار بنا دیا۔ جمہوریت کے عظیم مقصد کے ساتھ ان کی وابستگی اور اس کے لیے قربانیوں نے قوم کی نگاہوں میں انھیں اعتماد بخشا اور کچھ ایسا اعتماد ہی انھیں اپنے سیاسی رفقائے کار اور ہم عصر قایدین سے بھی حاصل ہوا۔ یہی سبب ہے کہ مسلم لیگ جیسی بند کمروں کی سیاسی جماعت اب ایک عوامی سیاسی جماعت کی حیثیت ہی اختیار نہیں کر چکی بل کہ اب اسے ایک عوامی تحریک کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔
سیاست نہ Do or die کا کھیل ہے اور نہ یہ کوئی مختصر لڑائی ہوتی ہے۔ اس کے لیے مستقل مزاجی اور حوصلے کے ساتھ طویل لڑائی لڑنی پڑتی ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت حکمت عملی کی ہے۔ یہ حکمت عملی کیا
ہے۔ ہمارے ایک بڑے شاعر ماہر القادری نے اسے بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے ؎
جہاں جس کی ضرورت تھی وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجوں کو ٹھہرایا
نواز شریف کے سیاسی سفر پر نگاہ ڈالیں تو یہی دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کا مطالعہ بھٹو جیسا نہ ہو لیکن عالمی سیاست کے اسرار و رموز کو جس خوبی کے ساتھ انھوں نے سمجھا اور پاکستان کے قومی مقاصد کے لیے انھیں استعمال کیا، یہ صرف نواز شریف پی کا اعزاز اور امتیاز ہے۔ یہ خوبی ہمیں کسی دوسرے سیاست دان میں دکھائی نہیں دیتی۔ اسی طرح انھوں نے کسی بھی نازک موڑ پر جذبات سے کام لینے کے بہ جائے حکمت سے کام لیا، اس کے نتیجے میں کبھی لڑائی ٹل گئی اور کبھی اس نے طول پکڑا نتیجے میں عوامی قوت اور جمہوری مقاصد کو تقویت ملی اور غیر جمہوری قوتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی تازہ ترین مثال جنرل باجوہ کی وہ دھمکی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر ان کی شرائط تسلیم نہ کی گئیں تو وہ مارشل لا لگا دیں گے۔ نواز شریف نے اس موقع پر کہا تھا کہ تم یہ بھی کر دیکھو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میدان آج جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں ہے اور پوری ریاست ملک کو اس کے درست جمہوری راستے پر گامزن کرنے میں سنجیدہ ہے۔ یہ سب کیسے ہوا؟ کیا یہ تسلیم جائے یا کیا جائے یا نہ کیا جائے کہ اس کا کریڈٹ صرف ایک ہی شخصیت کو جاتا ہے جس نے اپنی منزل یعنی جمہوریت نگاہوں سے کبھی اوجھل نہیں ہونے دی۔
قیام پاکستان کے بعد ہمارے سیاسی منظر نامے پر کئی سیاست دان آئے اور کئی گئے لیکن دو شخصیات ایسی ہیں جن کے کردار کا نقش تادیر قائم رہے گا۔ ان میں ایک ذوالفقار علی بھٹو ہیں اور دوسرے میاں نواز شریف۔ یہ دو کردار کیوں ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں اور ان دونوں کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ سیاست سے دل چسپی رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں سیاست دانوں کے کردار کا وہ کون سا پہلو ہے جو انھیں اپنے ہم عصر اور دیگر سیاسی شخصیات سے ممتاز کرتا ہے اور خود ان دونوں کے درمیان کیا فرق کیا ہے؟ بات اگرچہ گہری ہے اور میں دو چار نازک مقام بھی آتے ہیں اس لیے کیوں نہ اس کا آغاز کسی دل چسپ اور رومانوی پہلو سے کیا جائے۔ قائد اعظم علیہ رحمہ ہوں، ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا میاں نواز شریف ہمارے ان تینوں قائدین کا پیدائشی ستارہ جدی یعنی کیپری کون ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنے نصب العین میں واضح اور اس کے حصول کے لیے ہمیشہ برعزم رہتے ہیں خواہ اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قائد اعظم رحم اللہ علیہ نے جب پاکستان کو اپنی منزل بنا لیا تو پھر کوئی رکاوٹ ان کی راہ کھوٹی نہ کر سکی یہاں تک کہ انھوں نے اپنی صحت کی پروا بھی نہ کی اور اسے دا پر لگا کر انھوں نے یہ مقصد حاصل کیا اور تاریخ میں امر ہو گئے۔ قائد اعظم کا موازنہ کسی دوسرے فرد سے کرتے ہوئے میرے ہاتھ کانپتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے بعد اپنی سطح اور افتاد کے مطابق قومی سیاست پر اگر کسی کا نقش دکھائی دیتا ہے تو وہ بھٹو ہیں۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے اہداف میں واضح تھے اور وہ بے لچک ہو کر اس راہ پر چلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اپنی جان کی پروا بھی نہ کی۔ 1990 اور اس کے بعد کی سیاست بتاتی ہے کہ یہی سب کچھ نواز شریف نے بھی کیا لیکن ایک پہلو ایسا ہے جو انھیں اپنے پیش رو یعنی ذوالفقار علی بھٹو شہید سے صرف مختلف نہیں بناتا بل کہ نمایاں بھی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے ہمارے مطالعے اور جائزے کا آغاز ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بین الاقوامی سیاست کے راز داں تھے۔ ان کا مطالعہ بھی خوب تھا اور طویل سیاسی کیریئر کے دوران عالمی سطح پر ان کے غیر معمولی تعلقات بھی تھے اور سیاسیات عالم کی نزاکتوں سے بھی خوب واقف تھے۔ ان کے یہی تعلقات اور اہمیت تھی جس سے آگاہی کے سبب انھوں نے کہا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو پہاڑ روئیں گے اور دریا خوں رنگ ہو جائیں گے۔ شاید یہی سبب تھا کہ جب وہ اڈیالہ جیل کے پھانسی گھاٹ میں زندگی کے آخری دن گن رہے تھے، ہم سمجھتے تھے اچانک کوئی کمانڈو ایکشن ایسا ہو گا جس میں فلسطینی فدائین یا کوئی اور سورما تمام دشمنوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انھیں بچا لے جائے گا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ یہ بات سیاسی انداز میں یہ بات یوں کہی جا سکتی ہے کہ بھٹو اپنے نظریات میں واضح تھے، جرات مند اور بہادر تھے لیکن اپنے علم اور ایکسپوزر کے باوجود اپنی جان کی حفاظت کر سکے اور نہ ملک کو آمریت کے پنجوں سے بچانے میں کامیاب رہے۔ ان کی عظمت یہی ہے کہ انھوں نے جو درست سمجھا، اس کے لیے اپنی جان کو معمولی جانا۔ ان کی یہی عظمت ہے اور اسی عظمت نے انھیں شہادت کے منصب پر فائز کر دیا۔ ان کے مقابلے میں میاں نواز شریف ہیں، کام انھوں نے بھی یہی کیا ہے۔ ان کی جان بھی کئی بار یقینی طور پر دا پر لگی ہے، انھوں نے ان خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں بھی بے خطر ڈالی ہیں لیکن ان کی عملی اپروچ، مختلف ورلڈ ویو اور حکمت عملی نے ان کی جنگ کو زیادہ نتیجہ خیز زیادہ با معنی اور طویل بنا دیا ہے۔ یہی طرز عمل انھیں اپنے پیش رو کے مقابلے میں نمایاں کرتا ہے۔
میاں نواز شریف کے سیاسی کردار کا یہی پہلو ہے جو انھیں صرف ممتاز نہیں کرتا بلکہ ان کے ناقدین اور مخالفین کو ان کی بہادری کا اعتراف کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ زیرک سیاسی راہ نما اور سابق وفاقی محمد علی درانی کا شمار نواز شریف کے ناقدین میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ان سے ایک طویل بے تکلف ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے تسلیم کیا کہ نواز شریف ایک بہادر سیاسی قائد ہیں اور وہ نتائج سے بے خوف ہو کر سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔
نواز شریف کے ناقدین اور مخالفین بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ایٹمی دھماکے کے وقت انھوں نے نتائج سے بے پروا ہو کر جو فیصلہ کیا، اس تعریف ہمیشہ کی جاتی ہے۔ ان کی سیاسی زندگی میں بہادری کا یہ واقعہ پہلا اور آخری نہیں ہے۔ بے شمار واقعات ہیں جو ان کی بہادری کا اعتراف کرتے ہیں جیسے بارہ اکتوبر 1999 کا دن۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد وہ مسلح مخالفین کے نرغے میں تھے اور تین جرنیلوں نے ان سے سیاست سے لا تعلقی اور ملک چھوڑنے کی شرط پر جاں بخشی کے عوض استعفے کا مطالبہ کیا۔ نواز شریف نے تمام تر نتائج جانتے ہوئے بھی Over my dead body کہہ کر اسے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا، تاریخ اس کی گواہ ہے۔
2018 میں وہ اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ وطن واپس لوٹ آئے اور گرفتاری پیش کر دی۔ انھوں نے یہ جانتے ہوئے ایسا کیا کہ مخالفین انھیں اذیتیں بھی دیں گے اور وہ ان کی جان بھی لے سکتے ہیں۔
یہ دو واقعات ایسے ہیں براہ راست جن کا تعلق جان کو لاحق خدشات سے ہے لیکن سیاسی زندگی میں بھی انھوں نے کچھ کم پر خطر فیصلے نہیں کیے۔ 1990 میں انتخابات میں کامیابی کے باوجود جنرل مرزا اسلم بیگ غلام مصطفی جتوئی مرحوم کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے لیکن انھوں نے ان کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے عوام کے فیصلے کے مطابق اسلم بیگ سے اختلاف کیا اور خود کو اس منصب کے لیے پیش کیا۔ سیاسی حرکیات سے واقفیت رکھنے والا کوئی فرد جان سکتا ہے کہ ایسا کر کے قومی سطح پر اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہی انھوں نے پر خطر طریقے سے کیا۔
محمد خان جونیجو کو جب جنرل ضیا الحق نے گھر بھیج دیا تو وہ خاموشی کے ساتھ گھر جا کر بیٹھ گئے لیکن غلام اسحاق خان نے نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے گھر بھیجا تو انھوں نے مزاحمت کی۔ عدالتی محاذ پر بھی اور عوامی محاذ پر بھی۔ پھر وہ جونیجو صاحب کی طرح گھر جا کر بیٹھ نہیں گئے غلام اسحاق خان جیسے طاقت ور مہرے کے اقتدار کا سورج غروب کر کے گئے۔ جنرل آصف نواز سے دشمنی کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔
نواز شریف کا بھٹو سے ایک اور فرق یہ ہے کہ انھوں نے مزاحمت کی لیکن لڑائی کو طول دے کر اپنے مخالفین کو زچ نہ کر سکے۔ لڑائی کے پہلے ہی مرحلے میں جان دے کر میدان مخالفین کو دے گئے جب کہ نواز شریف نے ایک بامقصد لڑائی کو طول دیا اور وہ جنگ جو اقتدار کے ایوانوں اور بند کمروں میں لڑی جاتی تھی، اس میں عوام کو حصے دار بنا دیا۔ جمہوریت کے عظیم مقصد کے ساتھ ان کی وابستگی اور اس کے لیے قربانیوں نے قوم کی نگاہوں میں انھیں اعتماد بخشا اور کچھ ایسا اعتماد ہی انھیں اپنے سیاسی رفقائے کار اور ہم عصر قایدین سے بھی حاصل ہوا۔ یہی سبب ہے کہ مسلم لیگ جیسی بند کمروں کی سیاسی جماعت اب ایک عوامی سیاسی جماعت کی حیثیت ہی اختیار نہیں کر چکی بل کہ اب اسے ایک عوامی تحریک کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔
سیاست نہ Do or die کا کھیل ہے اور نہ یہ کوئی مختصر لڑائی ہوتی ہے۔ اس کے لیے مستقل مزاجی اور حوصلے کے ساتھ طویل لڑائی لڑنی پڑتی ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت حکمت عملی کی ہے۔ یہ حکمت عملی کیا
ہے۔ ہمارے ایک بڑے شاعر ماہر القادری نے اسے بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے ؎
جہاں جس کی ضرورت تھی وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجوں کو ٹھہرایا
نواز شریف کے سیاسی سفر پر نگاہ ڈالیں تو یہی دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کا مطالعہ بھٹو جیسا نہ ہو لیکن عالمی سیاست کے اسرار و رموز کو جس خوبی کے ساتھ انھوں نے سمجھا اور پاکستان کے قومی مقاصد کے لیے انھیں استعمال کیا، یہ صرف نواز شریف پی کا اعزاز اور امتیاز ہے۔ یہ خوبی ہمیں کسی دوسرے سیاست دان میں دکھائی نہیں دیتی۔ اسی طرح انھوں نے کسی بھی نازک موڑ پر جذبات سے کام لینے کے بہ جائے حکمت سے کام لیا، اس کے نتیجے میں کبھی لڑائی ٹل گئی اور کبھی اس نے طول پکڑا نتیجے میں عوامی قوت اور جمہوری مقاصد کو تقویت ملی اور غیر جمہوری قوتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی تازہ ترین مثال جنرل باجوہ کی وہ دھمکی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر ان کی شرائط تسلیم نہ کی گئیں تو وہ مارشل لا لگا دیں گے۔ نواز شریف نے اس موقع پر کہا تھا کہ تم یہ بھی کر دیکھو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میدان آج جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں ہے اور پوری ریاست ملک کو اس کے درست جمہوری راستے پر گامزن کرنے میں سنجیدہ ہے۔ یہ سب کیسے ہوا؟ کیا یہ تسلیم جائے یا کیا جائے یا نہ کیا جائے کہ اس کا کریڈٹ صرف ایک ہی شخصیت کو جاتا ہے جس نے اپنی منزل یعنی جمہوریت نگاہوں سے کبھی اوجھل نہیں ہونے دی۔
ADVERTISEMENT
قیام پاکستان کے بعد ہمارے سیاسی منظر نامے پر کئی سیاست دان آئے اور کئی گئے لیکن دو شخصیات ایسی ہیں جن کے کردار کا نقش تادیر قائم رہے گا۔ ان میں ایک ذوالفقار علی بھٹو ہیں اور دوسرے میاں نواز شریف۔ یہ دو کردار کیوں ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں اور ان دونوں کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ سیاست سے دل چسپی رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں سیاست دانوں کے کردار کا وہ کون سا پہلو ہے جو انھیں اپنے ہم عصر اور دیگر سیاسی شخصیات سے ممتاز کرتا ہے اور خود ان دونوں کے درمیان کیا فرق کیا ہے؟ بات اگرچہ گہری ہے اور میں دو چار نازک مقام بھی آتے ہیں اس لیے کیوں نہ اس کا آغاز کسی دل چسپ اور رومانوی پہلو سے کیا جائے۔ قائد اعظم علیہ رحمہ ہوں، ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا میاں نواز شریف ہمارے ان تینوں قائدین کا پیدائشی ستارہ جدی یعنی کیپری کون ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنے نصب العین میں واضح اور اس کے حصول کے لیے ہمیشہ برعزم رہتے ہیں خواہ اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قائد اعظم رحم اللہ علیہ نے جب پاکستان کو اپنی منزل بنا لیا تو پھر کوئی رکاوٹ ان کی راہ کھوٹی نہ کر سکی یہاں تک کہ انھوں نے اپنی صحت کی پروا بھی نہ کی اور اسے دا پر لگا کر انھوں نے یہ مقصد حاصل کیا اور تاریخ میں امر ہو گئے۔ قائد اعظم کا موازنہ کسی دوسرے فرد سے کرتے ہوئے میرے ہاتھ کانپتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے بعد اپنی سطح اور افتاد کے مطابق قومی سیاست پر اگر کسی کا نقش دکھائی دیتا ہے تو وہ بھٹو ہیں۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے اہداف میں واضح تھے اور وہ بے لچک ہو کر اس راہ پر چلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اپنی جان کی پروا بھی نہ کی۔ 1990 اور اس کے بعد کی سیاست بتاتی ہے کہ یہی سب کچھ نواز شریف نے بھی کیا لیکن ایک پہلو ایسا ہے جو انھیں اپنے پیش رو یعنی ذوالفقار علی بھٹو شہید سے صرف مختلف نہیں بناتا بل کہ نمایاں بھی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے ہمارے مطالعے اور جائزے کا آغاز ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بین الاقوامی سیاست کے راز داں تھے۔ ان کا مطالعہ بھی خوب تھا اور طویل سیاسی کیریئر کے دوران عالمی سطح پر ان کے غیر معمولی تعلقات بھی تھے اور سیاسیات عالم کی نزاکتوں سے بھی خوب واقف تھے۔ ان کے یہی تعلقات اور اہمیت تھی جس سے آگاہی کے سبب انھوں نے کہا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو پہاڑ روئیں گے اور دریا خوں رنگ ہو جائیں گے۔ شاید یہی سبب تھا کہ جب وہ اڈیالہ جیل کے پھانسی گھاٹ میں زندگی کے آخری دن گن رہے تھے، ہم سمجھتے تھے اچانک کوئی کمانڈو ایکشن ایسا ہو گا جس میں فلسطینی فدائین یا کوئی اور سورما تمام دشمنوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انھیں بچا لے جائے گا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ یہ بات سیاسی انداز میں یہ بات یوں کہی جا سکتی ہے کہ بھٹو اپنے نظریات میں واضح تھے، جرات مند اور بہادر تھے لیکن اپنے علم اور ایکسپوزر کے باوجود اپنی جان کی حفاظت کر سکے اور نہ ملک کو آمریت کے پنجوں سے بچانے میں کامیاب رہے۔ ان کی عظمت یہی ہے کہ انھوں نے جو درست سمجھا، اس کے لیے اپنی جان کو معمولی جانا۔ ان کی یہی عظمت ہے اور اسی عظمت نے انھیں شہادت کے منصب پر فائز کر دیا۔ ان کے مقابلے میں میاں نواز شریف ہیں، کام انھوں نے بھی یہی کیا ہے۔ ان کی جان بھی کئی بار یقینی طور پر دا پر لگی ہے، انھوں نے ان خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں بھی بے خطر ڈالی ہیں لیکن ان کی عملی اپروچ، مختلف ورلڈ ویو اور حکمت عملی نے ان کی جنگ کو زیادہ نتیجہ خیز زیادہ با معنی اور طویل بنا دیا ہے۔ یہی طرز عمل انھیں اپنے پیش رو کے مقابلے میں نمایاں کرتا ہے۔
میاں نواز شریف کے سیاسی کردار کا یہی پہلو ہے جو انھیں صرف ممتاز نہیں کرتا بلکہ ان کے ناقدین اور مخالفین کو ان کی بہادری کا اعتراف کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ زیرک سیاسی راہ نما اور سابق وفاقی محمد علی درانی کا شمار نواز شریف کے ناقدین میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ان سے ایک طویل بے تکلف ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے تسلیم کیا کہ نواز شریف ایک بہادر سیاسی قائد ہیں اور وہ نتائج سے بے خوف ہو کر سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔
نواز شریف کے ناقدین اور مخالفین بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ایٹمی دھماکے کے وقت انھوں نے نتائج سے بے پروا ہو کر جو فیصلہ کیا، اس تعریف ہمیشہ کی جاتی ہے۔ ان کی سیاسی زندگی میں بہادری کا یہ واقعہ پہلا اور آخری نہیں ہے۔ بے شمار واقعات ہیں جو ان کی بہادری کا اعتراف کرتے ہیں جیسے بارہ اکتوبر 1999 کا دن۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد وہ مسلح مخالفین کے نرغے میں تھے اور تین جرنیلوں نے ان سے سیاست سے لا تعلقی اور ملک چھوڑنے کی شرط پر جاں بخشی کے عوض استعفے کا مطالبہ کیا۔ نواز شریف نے تمام تر نتائج جانتے ہوئے بھی Over my dead body کہہ کر اسے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا، تاریخ اس کی گواہ ہے۔
2018 میں وہ اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ وطن واپس لوٹ آئے اور گرفتاری پیش کر دی۔ انھوں نے یہ جانتے ہوئے ایسا کیا کہ مخالفین انھیں اذیتیں بھی دیں گے اور وہ ان کی جان بھی لے سکتے ہیں۔
یہ دو واقعات ایسے ہیں براہ راست جن کا تعلق جان کو لاحق خدشات سے ہے لیکن سیاسی زندگی میں بھی انھوں نے کچھ کم پر خطر فیصلے نہیں کیے۔ 1990 میں انتخابات میں کامیابی کے باوجود جنرل مرزا اسلم بیگ غلام مصطفی جتوئی مرحوم کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے لیکن انھوں نے ان کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے عوام کے فیصلے کے مطابق اسلم بیگ سے اختلاف کیا اور خود کو اس منصب کے لیے پیش کیا۔ سیاسی حرکیات سے واقفیت رکھنے والا کوئی فرد جان سکتا ہے کہ ایسا کر کے قومی سطح پر اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہی انھوں نے پر خطر طریقے سے کیا۔
محمد خان جونیجو کو جب جنرل ضیا الحق نے گھر بھیج دیا تو وہ خاموشی کے ساتھ گھر جا کر بیٹھ گئے لیکن غلام اسحاق خان نے نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے گھر بھیجا تو انھوں نے مزاحمت کی۔ عدالتی محاذ پر بھی اور عوامی محاذ پر بھی۔ پھر وہ جونیجو صاحب کی طرح گھر جا کر بیٹھ نہیں گئے غلام اسحاق خان جیسے طاقت ور مہرے کے اقتدار کا سورج غروب کر کے گئے۔ جنرل آصف نواز سے دشمنی کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔
نواز شریف کا بھٹو سے ایک اور فرق یہ ہے کہ انھوں نے مزاحمت کی لیکن لڑائی کو طول دے کر اپنے مخالفین کو زچ نہ کر سکے۔ لڑائی کے پہلے ہی مرحلے میں جان دے کر میدان مخالفین کو دے گئے جب کہ نواز شریف نے ایک بامقصد لڑائی کو طول دیا اور وہ جنگ جو اقتدار کے ایوانوں اور بند کمروں میں لڑی جاتی تھی، اس میں عوام کو حصے دار بنا دیا۔ جمہوریت کے عظیم مقصد کے ساتھ ان کی وابستگی اور اس کے لیے قربانیوں نے قوم کی نگاہوں میں انھیں اعتماد بخشا اور کچھ ایسا اعتماد ہی انھیں اپنے سیاسی رفقائے کار اور ہم عصر قایدین سے بھی حاصل ہوا۔ یہی سبب ہے کہ مسلم لیگ جیسی بند کمروں کی سیاسی جماعت اب ایک عوامی سیاسی جماعت کی حیثیت ہی اختیار نہیں کر چکی بل کہ اب اسے ایک عوامی تحریک کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔
سیاست نہ Do or die کا کھیل ہے اور نہ یہ کوئی مختصر لڑائی ہوتی ہے۔ اس کے لیے مستقل مزاجی اور حوصلے کے ساتھ طویل لڑائی لڑنی پڑتی ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت حکمت عملی کی ہے۔ یہ حکمت عملی کیا
ہے۔ ہمارے ایک بڑے شاعر ماہر القادری نے اسے بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے ؎
جہاں جس کی ضرورت تھی وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجوں کو ٹھہرایا
نواز شریف کے سیاسی سفر پر نگاہ ڈالیں تو یہی دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کا مطالعہ بھٹو جیسا نہ ہو لیکن عالمی سیاست کے اسرار و رموز کو جس خوبی کے ساتھ انھوں نے سمجھا اور پاکستان کے قومی مقاصد کے لیے انھیں استعمال کیا، یہ صرف نواز شریف پی کا اعزاز اور امتیاز ہے۔ یہ خوبی ہمیں کسی دوسرے سیاست دان میں دکھائی نہیں دیتی۔ اسی طرح انھوں نے کسی بھی نازک موڑ پر جذبات سے کام لینے کے بہ جائے حکمت سے کام لیا، اس کے نتیجے میں کبھی لڑائی ٹل گئی اور کبھی اس نے طول پکڑا نتیجے میں عوامی قوت اور جمہوری مقاصد کو تقویت ملی اور غیر جمہوری قوتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی تازہ ترین مثال جنرل باجوہ کی وہ دھمکی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر ان کی شرائط تسلیم نہ کی گئیں تو وہ مارشل لا لگا دیں گے۔ نواز شریف نے اس موقع پر کہا تھا کہ تم یہ بھی کر دیکھو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میدان آج جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں ہے اور پوری ریاست ملک کو اس کے درست جمہوری راستے پر گامزن کرنے میں سنجیدہ ہے۔ یہ سب کیسے ہوا؟ کیا یہ تسلیم جائے یا کیا جائے یا نہ کیا جائے کہ اس کا کریڈٹ صرف ایک ہی شخصیت کو جاتا ہے جس نے اپنی منزل یعنی جمہوریت نگاہوں سے کبھی اوجھل نہیں ہونے دی۔
قیام پاکستان کے بعد ہمارے سیاسی منظر نامے پر کئی سیاست دان آئے اور کئی گئے لیکن دو شخصیات ایسی ہیں جن کے کردار کا نقش تادیر قائم رہے گا۔ ان میں ایک ذوالفقار علی بھٹو ہیں اور دوسرے میاں نواز شریف۔ یہ دو کردار کیوں ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں اور ان دونوں کے درمیان بنیادی فرق کیا ہے؟ سیاست سے دل چسپی رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں سیاست دانوں کے کردار کا وہ کون سا پہلو ہے جو انھیں اپنے ہم عصر اور دیگر سیاسی شخصیات سے ممتاز کرتا ہے اور خود ان دونوں کے درمیان کیا فرق کیا ہے؟ بات اگرچہ گہری ہے اور میں دو چار نازک مقام بھی آتے ہیں اس لیے کیوں نہ اس کا آغاز کسی دل چسپ اور رومانوی پہلو سے کیا جائے۔ قائد اعظم علیہ رحمہ ہوں، ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا میاں نواز شریف ہمارے ان تینوں قائدین کا پیدائشی ستارہ جدی یعنی کیپری کون ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنے نصب العین میں واضح اور اس کے حصول کے لیے ہمیشہ برعزم رہتے ہیں خواہ اس میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قائد اعظم رحم اللہ علیہ نے جب پاکستان کو اپنی منزل بنا لیا تو پھر کوئی رکاوٹ ان کی راہ کھوٹی نہ کر سکی یہاں تک کہ انھوں نے اپنی صحت کی پروا بھی نہ کی اور اسے دا پر لگا کر انھوں نے یہ مقصد حاصل کیا اور تاریخ میں امر ہو گئے۔ قائد اعظم کا موازنہ کسی دوسرے فرد سے کرتے ہوئے میرے ہاتھ کانپتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے بعد اپنی سطح اور افتاد کے مطابق قومی سیاست پر اگر کسی کا نقش دکھائی دیتا ہے تو وہ بھٹو ہیں۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے اہداف میں واضح تھے اور وہ بے لچک ہو کر اس راہ پر چلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اپنی جان کی پروا بھی نہ کی۔ 1990 اور اس کے بعد کی سیاست بتاتی ہے کہ یہی سب کچھ نواز شریف نے بھی کیا لیکن ایک پہلو ایسا ہے جو انھیں اپنے پیش رو یعنی ذوالفقار علی بھٹو شہید سے صرف مختلف نہیں بناتا بل کہ نمایاں بھی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے ہمارے مطالعے اور جائزے کا آغاز ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بین الاقوامی سیاست کے راز داں تھے۔ ان کا مطالعہ بھی خوب تھا اور طویل سیاسی کیریئر کے دوران عالمی سطح پر ان کے غیر معمولی تعلقات بھی تھے اور سیاسیات عالم کی نزاکتوں سے بھی خوب واقف تھے۔ ان کے یہی تعلقات اور اہمیت تھی جس سے آگاہی کے سبب انھوں نے کہا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو پہاڑ روئیں گے اور دریا خوں رنگ ہو جائیں گے۔ شاید یہی سبب تھا کہ جب وہ اڈیالہ جیل کے پھانسی گھاٹ میں زندگی کے آخری دن گن رہے تھے، ہم سمجھتے تھے اچانک کوئی کمانڈو ایکشن ایسا ہو گا جس میں فلسطینی فدائین یا کوئی اور سورما تمام دشمنوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انھیں بچا لے جائے گا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ یہ بات سیاسی انداز میں یہ بات یوں کہی جا سکتی ہے کہ بھٹو اپنے نظریات میں واضح تھے، جرات مند اور بہادر تھے لیکن اپنے علم اور ایکسپوزر کے باوجود اپنی جان کی حفاظت کر سکے اور نہ ملک کو آمریت کے پنجوں سے بچانے میں کامیاب رہے۔ ان کی عظمت یہی ہے کہ انھوں نے جو درست سمجھا، اس کے لیے اپنی جان کو معمولی جانا۔ ان کی یہی عظمت ہے اور اسی عظمت نے انھیں شہادت کے منصب پر فائز کر دیا۔ ان کے مقابلے میں میاں نواز شریف ہیں، کام انھوں نے بھی یہی کیا ہے۔ ان کی جان بھی کئی بار یقینی طور پر دا پر لگی ہے، انھوں نے ان خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں بھی بے خطر ڈالی ہیں لیکن ان کی عملی اپروچ، مختلف ورلڈ ویو اور حکمت عملی نے ان کی جنگ کو زیادہ نتیجہ خیز زیادہ با معنی اور طویل بنا دیا ہے۔ یہی طرز عمل انھیں اپنے پیش رو کے مقابلے میں نمایاں کرتا ہے۔
میاں نواز شریف کے سیاسی کردار کا یہی پہلو ہے جو انھیں صرف ممتاز نہیں کرتا بلکہ ان کے ناقدین اور مخالفین کو ان کی بہادری کا اعتراف کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ زیرک سیاسی راہ نما اور سابق وفاقی محمد علی درانی کا شمار نواز شریف کے ناقدین میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ان سے ایک طویل بے تکلف ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے تسلیم کیا کہ نواز شریف ایک بہادر سیاسی قائد ہیں اور وہ نتائج سے بے خوف ہو کر سیاسی فیصلے کرتے ہیں۔
نواز شریف کے ناقدین اور مخالفین بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ایٹمی دھماکے کے وقت انھوں نے نتائج سے بے پروا ہو کر جو فیصلہ کیا، اس تعریف ہمیشہ کی جاتی ہے۔ ان کی سیاسی زندگی میں بہادری کا یہ واقعہ پہلا اور آخری نہیں ہے۔ بے شمار واقعات ہیں جو ان کی بہادری کا اعتراف کرتے ہیں جیسے بارہ اکتوبر 1999 کا دن۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد وہ مسلح مخالفین کے نرغے میں تھے اور تین جرنیلوں نے ان سے سیاست سے لا تعلقی اور ملک چھوڑنے کی شرط پر جاں بخشی کے عوض استعفے کا مطالبہ کیا۔ نواز شریف نے تمام تر نتائج جانتے ہوئے بھی Over my dead body کہہ کر اسے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا، تاریخ اس کی گواہ ہے۔
2018 میں وہ اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ وطن واپس لوٹ آئے اور گرفتاری پیش کر دی۔ انھوں نے یہ جانتے ہوئے ایسا کیا کہ مخالفین انھیں اذیتیں بھی دیں گے اور وہ ان کی جان بھی لے سکتے ہیں۔
یہ دو واقعات ایسے ہیں براہ راست جن کا تعلق جان کو لاحق خدشات سے ہے لیکن سیاسی زندگی میں بھی انھوں نے کچھ کم پر خطر فیصلے نہیں کیے۔ 1990 میں انتخابات میں کامیابی کے باوجود جنرل مرزا اسلم بیگ غلام مصطفی جتوئی مرحوم کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے لیکن انھوں نے ان کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے عوام کے فیصلے کے مطابق اسلم بیگ سے اختلاف کیا اور خود کو اس منصب کے لیے پیش کیا۔ سیاسی حرکیات سے واقفیت رکھنے والا کوئی فرد جان سکتا ہے کہ ایسا کر کے قومی سطح پر اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہی انھوں نے پر خطر طریقے سے کیا۔
محمد خان جونیجو کو جب جنرل ضیا الحق نے گھر بھیج دیا تو وہ خاموشی کے ساتھ گھر جا کر بیٹھ گئے لیکن غلام اسحاق خان نے نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے گھر بھیجا تو انھوں نے مزاحمت کی۔ عدالتی محاذ پر بھی اور عوامی محاذ پر بھی۔ پھر وہ جونیجو صاحب کی طرح گھر جا کر بیٹھ نہیں گئے غلام اسحاق خان جیسے طاقت ور مہرے کے اقتدار کا سورج غروب کر کے گئے۔ جنرل آصف نواز سے دشمنی کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔
نواز شریف کا بھٹو سے ایک اور فرق یہ ہے کہ انھوں نے مزاحمت کی لیکن لڑائی کو طول دے کر اپنے مخالفین کو زچ نہ کر سکے۔ لڑائی کے پہلے ہی مرحلے میں جان دے کر میدان مخالفین کو دے گئے جب کہ نواز شریف نے ایک بامقصد لڑائی کو طول دیا اور وہ جنگ جو اقتدار کے ایوانوں اور بند کمروں میں لڑی جاتی تھی، اس میں عوام کو حصے دار بنا دیا۔ جمہوریت کے عظیم مقصد کے ساتھ ان کی وابستگی اور اس کے لیے قربانیوں نے قوم کی نگاہوں میں انھیں اعتماد بخشا اور کچھ ایسا اعتماد ہی انھیں اپنے سیاسی رفقائے کار اور ہم عصر قایدین سے بھی حاصل ہوا۔ یہی سبب ہے کہ مسلم لیگ جیسی بند کمروں کی سیاسی جماعت اب ایک عوامی سیاسی جماعت کی حیثیت ہی اختیار نہیں کر چکی بل کہ اب اسے ایک عوامی تحریک کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔
سیاست نہ Do or die کا کھیل ہے اور نہ یہ کوئی مختصر لڑائی ہوتی ہے۔ اس کے لیے مستقل مزاجی اور حوصلے کے ساتھ طویل لڑائی لڑنی پڑتی ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت حکمت عملی کی ہے۔ یہ حکمت عملی کیا
ہے۔ ہمارے ایک بڑے شاعر ماہر القادری نے اسے بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے ؎
جہاں جس کی ضرورت تھی وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجوں کو ٹھہرایا
نواز شریف کے سیاسی سفر پر نگاہ ڈالیں تو یہی دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کا مطالعہ بھٹو جیسا نہ ہو لیکن عالمی سیاست کے اسرار و رموز کو جس خوبی کے ساتھ انھوں نے سمجھا اور پاکستان کے قومی مقاصد کے لیے انھیں استعمال کیا، یہ صرف نواز شریف پی کا اعزاز اور امتیاز ہے۔ یہ خوبی ہمیں کسی دوسرے سیاست دان میں دکھائی نہیں دیتی۔ اسی طرح انھوں نے کسی بھی نازک موڑ پر جذبات سے کام لینے کے بہ جائے حکمت سے کام لیا، اس کے نتیجے میں کبھی لڑائی ٹل گئی اور کبھی اس نے طول پکڑا نتیجے میں عوامی قوت اور جمہوری مقاصد کو تقویت ملی اور غیر جمہوری قوتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی تازہ ترین مثال جنرل باجوہ کی وہ دھمکی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر ان کی شرائط تسلیم نہ کی گئیں تو وہ مارشل لا لگا دیں گے۔ نواز شریف نے اس موقع پر کہا تھا کہ تم یہ بھی کر دیکھو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میدان آج جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں ہے اور پوری ریاست ملک کو اس کے درست جمہوری راستے پر گامزن کرنے میں سنجیدہ ہے۔ یہ سب کیسے ہوا؟ کیا یہ تسلیم جائے یا کیا جائے یا نہ کیا جائے کہ اس کا کریڈٹ صرف ایک ہی شخصیت کو جاتا ہے جس نے اپنی منزل یعنی جمہوریت نگاہوں سے کبھی اوجھل نہیں ہونے دی۔