• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کی خواتین

عمران خان سے شادی کی خواہش مند خواتین کو مولانا فضل الرحمان کی تنبیہ کتنی غلط، کتنی درست، مولانا کو ہدگٓف تنقید بنانے والے اصل میں کون ہیں؟

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
December 4, 2022
in محشر خیال
0
مولانا فضل الرحمان
122
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

مولانا فضل الرحمان ان دنوں زیر عتاب ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے خواتین کے لیے نا زیبا زبان استعمال کی۔ پی ٹی آئی کے فدائی اس پر انھیں برا بھلا کہیں اور کوسنے دیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن کچھ صالحین بھی اس جہاد’ میں شریک ہو گئے ہیں اور وہ غصے میں بھرے ہوئے نوجوانوں کی طرح مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے، صرف یہ چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن معذرت کریں۔ پی ٹی آئی مخالفین کے ساتھ جس قسم کا رویہ رکھتی ہے، اس میں یہ روّیہ اجنبی نہیں لیکن یہ صالحین کس پریشانی میں مبتلا ہیں؟ تاریخ بتاتی ہے کہ باری تعالی نے ان صالحین کی قسمت میں چڑھتے سورج کی پرستش لکھ دی ہے۔ یہ صالحین وہی ہیں، جب ایم کیو ایم کا سوج طلوع ہوا تو انھوں نے اپنے کھونٹے سے رسیاں تڑا کر اس کے دامن میں پناہ لی اور اپنے ووٹ اس کی نذر کر دیے۔

مولانا فضل الرحمن پرحالیہ تنقید سے کوئی تیس برس پرانا ایک تاریخی واقعہ یاد آ گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایم کیو ایم میں شخصیت پرستی حد سے بڑھ گئی۔پارٹی میں تشدد فروغ پا گیا اور متشددانہ رویوں سے شہری سندھ کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ایم کیو ایم دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک حصہ تو الطاف حسین کی قیادت میں ہی برقراررہا، دوسرا حصہ آفاق احمد کی قیادت میں مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے نام سے منظم ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم کی زندگی میں یہ واقعہ ایک بڑی آزمائش کی حیثیت رکھتا تھا۔ ایم کیو ایم ثابت کرنا چاہتی تھی کہ علیحدگی اختیار کرنے والے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ پارٹی بھی ہمیشہ کی طرح الطاف حسین کی آہنی گرفت میں ہے اور اس کے متعلقین بھی ان کے اسی طرح وفا دار ہیں جیسے وہ ہمیشہ سے تھے۔

یہ بھی پڑھئے:

سلیم احمد مرحوم کی وہ نعت جو اہل دل کو تڑپا دیتی ہے

پاکستان کے لیے ایسے سہارے کیوں ؟

ADVERTISEMENT

سیاست چھوڑ دی میں نے، کیا واقعی سچ؟

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

اس تاثر کو پختہ کرنے کے لیے ضروری ہو گیا کہ پارٹی کے متعلقین یہ ثابت کرنے کے لیے ایسے ٹھوس انداز میں اپنا مؤقف پیش کریں کہ کوئی کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ اس مقصد کے لیے لاہور کا انتخاب کیا گیا ۔ یہ پہلی بار تھی کہ ایم کیو ایم جیسی داخلیت پسند جماعت نے اپنے سیاسی میدان یعنی شہری سندھ سے باہر نکل کر کوئی کردار ادا کرنا پسند کیا۔ اس کایہ پہلا تجربہ ہی ناکام رہا۔اس سرگرمی سے کوئی سیاسی فایدہ تو کیا ہوتا، الٹا بدنامی گلے پڑ گئی۔

ایم کیو ایم کے اراکین پارلیمنٹ نے الطاف حسین کی خواہش پر لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی جماعت کے بانی اور قائد الطاف حسین کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار ایسے الفاظ میں کیا جن کا استعمال شرفا نہیں کیا کرتے۔ ان راہ نماؤں نے الطاف حسین کی عزت و حرمت کو اپنی ماں بہن کی عزت و عصمت سے بھی افضل قرار دیا۔ اس پریس کانفرنس میں جس قسم کی زبان استعمال کی گئی، اہل لاہور بلکہ پورے پاکستان کے لیے اجنبی تھی۔ یہ طرز عمل نہ اسلامی تہذیب سے مطابقت رکھتا تھا اور نہ پاکستانی معاشرت کے شایان شان تھا۔

ویسے تو پورا پاکستان ہی ہند اسلامی تہذیب کا وارث ہے لیکن شہری سندھ اور خاص طور پر ایم کیو ایم دوسروں سے بڑھ کر اس وراثت کی دعوے دار تھی لیکن پہلے اسی شان دار تہذیب کے خود ساختہ وارثوں پہلے اپنے نوجوانوں کا واسطہ تعلیم سے توڑ کر انھیں دہشت گرد بنایا پھر انھیں، کانے، ٹنڈے اور لنگڑے جیسے خطابات سے سرفراز کر کے عزت نفس سے بھی محروم کر دیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ الطاف حسین کی عظمت کو اپنے مقدس رشتوں سے برتر قرار دینے کے واقعے نے پورے ملک کو سکتے کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ اس خرابی کا راستہ اسی وقت روک دیا گیا ہوتا اور ایک خاص مقصد کے لیے الطاف حسین کی تمام غلطیوں سے در گزر کرنے والے بزرگ اپنا کردار بروقت ادا کرتے تو آج یہ صورت حال دیکھنے کو نہ ملتی اور ایم کیو ایم سے بھی بڑے پیمانے پر ایسی باتیں سننے کو نہ ملتیں جیسی لاہور میں سننے کو ملی تھیں یعنی اگرکوئی غیر محرم جو ایک سیاسی راہ نما ہے، ان کی نجی زندگی میں آ گھسے توان کے لیے یہ خوشی کی بات ہوگی۔ یہی راہ نما اگر ان کی بزرگوں کی بے توقیری بھی کر ڈالے تو ان کے لیے یہ بھی ایک اعزاز ہوگا۔

ایم کیو ایم کے تجربے سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ ایسی وابستگی اور وفاداری کی ضرورت صرف اسی وقت پیش آتی ہے جب سیاست کسی نظریے یا اصول کے بجائے منفی مقاصد کے لیے کی جا ئے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرز عمل کا نقصان کیا ہے؟ ویسے تواس نقصان کا اندازہ ایم کیو ایم کے تجربے سے ہو جانا چاہیے لیکن مزید وضاحت کے لیے عرض ہے لہ سب سے پہلا اور اہم نقصان تو یہی ہے کہ جب آپ کوئی ایسا بت تراش لیتے ہیں تو اس کی پہلی زد مقدسات پر پڑتی ہے۔ ان مقدسات میں عقیدہ بھی شامل ہے اور وہ مقدس رشتے بھی جن کی حرمت کو مذہبی تعلیمات نے بھی یقینی بنایا ہے اور اخلاقی اقدار نے بھی۔ کسی معاشرے میں عقیدہ اور محترم رشتے غیر معتبر ہو جائیں تو معاشرے کی اساس ہی دم توڑ جاتی ہے۔ اس کے بعد پھر کوئی ایسا رشتہ باقی نہیں بچتا جو بکھرتے ہوئے معاشرے کو جوڑ سکے۔

قومی مقاصد اور نظریے پر اگر شخصیات غالب آ جائیں تو اس کا دوسرا اور خوف ناک نقصان یہ ہے کہ خود اپنا ملک اور وطن بھی غیر اہم ہو جاتا ہے۔ حا ل ہی میں جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ایک سیاسی جماعت اقتدار سے محروم ہوئی تو سوشل میڈیا پر اس جماعت سے وابستگی اور ہم دردی رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے لکھا کہ اب ہمارا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ اب یہ ملک ٹوٹ بھی جائے تو ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ ان ہی لوگوں کی طرف سے قومی پرچم کی بے حرمتی بھی کی گئی جس کے وڈیو بھی سامنے آ چکے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ شخصیت پرستی کے اس طوفان کے نتیجے میں انسان کی نگاہ میں اس کا عقیدہ ، محترم رشتے، حتیٰ کہ وطن سے محبت اور اس سے وفاداری بھی دم توڑ جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی تکلیف دہ چلن پر گرفت کی ہے اور درست گرفت کی ہے ۔ ہمارا گلہ تو یہ ہے کہ اس کام میں انھوں نے تاخیر کر دی۔بہت پہلے ایک تحریک کی صورت میں انھیں یہ کار خیر انجام دے ڈالنا چاہئے تھا۔ وقت کی ضرورت تو یہ ہے کہ پاکستان کا ہر غیرت مند اور وفادار شہری اس روّیے کے خلاف آواز اٹھائے تاکہ ہمارے نوجوان خطرناک سیاسی ہی نہیں بلکہ غارت گر تہذیب طوفان سے بچ جائیں اور ان کی توانائی کسی فرد کے ذاتی ایجنڈے کی بھینٹ چڑھنے کے بجائے ملک و ملت کے مفاد میںاستعمال ہوسکے۔

Tags: الطاف حسینایم کیو ایمپاکستانپی ٹی آئیعمران خانمولانا فضل الرحمان
Previous Post

سلیم احمد مرحوم کی وہ نعت جو اہل دل کو تڑپا دیتی ہے

Next Post

راستہ دکھانے والوں کی غیر مختتم کہانی

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
راستہ

راستہ دکھانے والوں کی غیر مختتم کہانی

محشر خیال

مریم نواز
محشر خیال

مریم نواز سے وابستہ اصل امید

عمران خان
محشر خیال

قریشی صاحب کا ٹوٹا تارا اور عمران خان

مولانا فضل الرحمان
محشر خیال

مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کی خواتین

عمران خان
محشر خیال

عمران خان بچاؤ کا آخری طریقہ

تبادلہ خیال

وفاقی محتسب
تبادلہ خیال

وفاقی محتسب۔چا لیس سال کا سفر

پختون خوا میپ
تبادلہ خیال

پختونخوا میپ: ایک جماعت تین سربراہ

کراچی
تبادلہ خیال

کراچی: ٹوٹا کیسے، بچائیں کیسے؟

سیاست
تبادلہ خیال

سیاست چھوڑ دی میں نے، کیا واقعی سچ؟

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions