مولانا فضل الرحمان ان دنوں زیر عتاب ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے خواتین کے لیے نا زیبا زبان استعمال کی۔ پی ٹی آئی کے فدائی اس پر انھیں برا بھلا کہیں اور کوسنے دیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن کچھ صالحین بھی اس جہاد’ میں شریک ہو گئے ہیں اور وہ غصے میں بھرے ہوئے نوجوانوں کی طرح مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے، صرف یہ چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن معذرت کریں۔ پی ٹی آئی مخالفین کے ساتھ جس قسم کا رویہ رکھتی ہے، اس میں یہ روّیہ اجنبی نہیں لیکن یہ صالحین کس پریشانی میں مبتلا ہیں؟ تاریخ بتاتی ہے کہ باری تعالی نے ان صالحین کی قسمت میں چڑھتے سورج کی پرستش لکھ دی ہے۔ یہ صالحین وہی ہیں، جب ایم کیو ایم کا سوج طلوع ہوا تو انھوں نے اپنے کھونٹے سے رسیاں تڑا کر اس کے دامن میں پناہ لی اور اپنے ووٹ اس کی نذر کر دیے۔
مولانا فضل الرحمن پرحالیہ تنقید سے کوئی تیس برس پرانا ایک تاریخی واقعہ یاد آ گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایم کیو ایم میں شخصیت پرستی حد سے بڑھ گئی۔پارٹی میں تشدد فروغ پا گیا اور متشددانہ رویوں سے شہری سندھ کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ایم کیو ایم دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک حصہ تو الطاف حسین کی قیادت میں ہی برقراررہا، دوسرا حصہ آفاق احمد کی قیادت میں مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے نام سے منظم ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم کی زندگی میں یہ واقعہ ایک بڑی آزمائش کی حیثیت رکھتا تھا۔ ایم کیو ایم ثابت کرنا چاہتی تھی کہ علیحدگی اختیار کرنے والے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ پارٹی بھی ہمیشہ کی طرح الطاف حسین کی آہنی گرفت میں ہے اور اس کے متعلقین بھی ان کے اسی طرح وفا دار ہیں جیسے وہ ہمیشہ سے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
سلیم احمد مرحوم کی وہ نعت جو اہل دل کو تڑپا دیتی ہے
پاکستان کے لیے ایسے سہارے کیوں ؟
سیاست چھوڑ دی میں نے، کیا واقعی سچ؟
اس تاثر کو پختہ کرنے کے لیے ضروری ہو گیا کہ پارٹی کے متعلقین یہ ثابت کرنے کے لیے ایسے ٹھوس انداز میں اپنا مؤقف پیش کریں کہ کوئی کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ اس مقصد کے لیے لاہور کا انتخاب کیا گیا ۔ یہ پہلی بار تھی کہ ایم کیو ایم جیسی داخلیت پسند جماعت نے اپنے سیاسی میدان یعنی شہری سندھ سے باہر نکل کر کوئی کردار ادا کرنا پسند کیا۔ اس کایہ پہلا تجربہ ہی ناکام رہا۔اس سرگرمی سے کوئی سیاسی فایدہ تو کیا ہوتا، الٹا بدنامی گلے پڑ گئی۔
ایم کیو ایم کے اراکین پارلیمنٹ نے الطاف حسین کی خواہش پر لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی جماعت کے بانی اور قائد الطاف حسین کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار ایسے الفاظ میں کیا جن کا استعمال شرفا نہیں کیا کرتے۔ ان راہ نماؤں نے الطاف حسین کی عزت و حرمت کو اپنی ماں بہن کی عزت و عصمت سے بھی افضل قرار دیا۔ اس پریس کانفرنس میں جس قسم کی زبان استعمال کی گئی، اہل لاہور بلکہ پورے پاکستان کے لیے اجنبی تھی۔ یہ طرز عمل نہ اسلامی تہذیب سے مطابقت رکھتا تھا اور نہ پاکستانی معاشرت کے شایان شان تھا۔
ویسے تو پورا پاکستان ہی ہند اسلامی تہذیب کا وارث ہے لیکن شہری سندھ اور خاص طور پر ایم کیو ایم دوسروں سے بڑھ کر اس وراثت کی دعوے دار تھی لیکن پہلے اسی شان دار تہذیب کے خود ساختہ وارثوں پہلے اپنے نوجوانوں کا واسطہ تعلیم سے توڑ کر انھیں دہشت گرد بنایا پھر انھیں، کانے، ٹنڈے اور لنگڑے جیسے خطابات سے سرفراز کر کے عزت نفس سے بھی محروم کر دیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ الطاف حسین کی عظمت کو اپنے مقدس رشتوں سے برتر قرار دینے کے واقعے نے پورے ملک کو سکتے کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ اس خرابی کا راستہ اسی وقت روک دیا گیا ہوتا اور ایک خاص مقصد کے لیے الطاف حسین کی تمام غلطیوں سے در گزر کرنے والے بزرگ اپنا کردار بروقت ادا کرتے تو آج یہ صورت حال دیکھنے کو نہ ملتی اور ایم کیو ایم سے بھی بڑے پیمانے پر ایسی باتیں سننے کو نہ ملتیں جیسی لاہور میں سننے کو ملی تھیں یعنی اگرکوئی غیر محرم جو ایک سیاسی راہ نما ہے، ان کی نجی زندگی میں آ گھسے توان کے لیے یہ خوشی کی بات ہوگی۔ یہی راہ نما اگر ان کی بزرگوں کی بے توقیری بھی کر ڈالے تو ان کے لیے یہ بھی ایک اعزاز ہوگا۔
ایم کیو ایم کے تجربے سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ ایسی وابستگی اور وفاداری کی ضرورت صرف اسی وقت پیش آتی ہے جب سیاست کسی نظریے یا اصول کے بجائے منفی مقاصد کے لیے کی جا ئے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرز عمل کا نقصان کیا ہے؟ ویسے تواس نقصان کا اندازہ ایم کیو ایم کے تجربے سے ہو جانا چاہیے لیکن مزید وضاحت کے لیے عرض ہے لہ سب سے پہلا اور اہم نقصان تو یہی ہے کہ جب آپ کوئی ایسا بت تراش لیتے ہیں تو اس کی پہلی زد مقدسات پر پڑتی ہے۔ ان مقدسات میں عقیدہ بھی شامل ہے اور وہ مقدس رشتے بھی جن کی حرمت کو مذہبی تعلیمات نے بھی یقینی بنایا ہے اور اخلاقی اقدار نے بھی۔ کسی معاشرے میں عقیدہ اور محترم رشتے غیر معتبر ہو جائیں تو معاشرے کی اساس ہی دم توڑ جاتی ہے۔ اس کے بعد پھر کوئی ایسا رشتہ باقی نہیں بچتا جو بکھرتے ہوئے معاشرے کو جوڑ سکے۔
قومی مقاصد اور نظریے پر اگر شخصیات غالب آ جائیں تو اس کا دوسرا اور خوف ناک نقصان یہ ہے کہ خود اپنا ملک اور وطن بھی غیر اہم ہو جاتا ہے۔ حا ل ہی میں جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ایک سیاسی جماعت اقتدار سے محروم ہوئی تو سوشل میڈیا پر اس جماعت سے وابستگی اور ہم دردی رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے لکھا کہ اب ہمارا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ اب یہ ملک ٹوٹ بھی جائے تو ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ ان ہی لوگوں کی طرف سے قومی پرچم کی بے حرمتی بھی کی گئی جس کے وڈیو بھی سامنے آ چکے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ شخصیت پرستی کے اس طوفان کے نتیجے میں انسان کی نگاہ میں اس کا عقیدہ ، محترم رشتے، حتیٰ کہ وطن سے محبت اور اس سے وفاداری بھی دم توڑ جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی تکلیف دہ چلن پر گرفت کی ہے اور درست گرفت کی ہے ۔ ہمارا گلہ تو یہ ہے کہ اس کام میں انھوں نے تاخیر کر دی۔بہت پہلے ایک تحریک کی صورت میں انھیں یہ کار خیر انجام دے ڈالنا چاہئے تھا۔ وقت کی ضرورت تو یہ ہے کہ پاکستان کا ہر غیرت مند اور وفادار شہری اس روّیے کے خلاف آواز اٹھائے تاکہ ہمارے نوجوان خطرناک سیاسی ہی نہیں بلکہ غارت گر تہذیب طوفان سے بچ جائیں اور ان کی توانائی کسی فرد کے ذاتی ایجنڈے کی بھینٹ چڑھنے کے بجائے ملک و ملت کے مفاد میںاستعمال ہوسکے۔