چونکہ کہانی کا اختتام نہیں ہوپاتا اس لئے ابھی تک خوش وخرم اختتام شاید تاخیر سے آئے۔ مسافروں کو اب بھی راستہ دکھانے والے اور اچھی منزل کا انتظار ہے۔
کہانی ایک دفعہ کا ذکر ہے سے شروع کریں، معلوم نہیں، پھر سب ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگیں، کہانی کا اختتام ایسا ہوگا بھی یا نہیں۔
ایک سو سال پہلے کی بات ہے ممبئی شہر میں ایک وکیل رہتا تھا، اس نے کراچی میں جنم لیا، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگلستان چلا گیا۔ جہاں سے وکالت کی ڈگری لی۔ باہر پڑھنے والوں کے وہاں کے لوگوں سے اچھے مراسم بن جاتے ہیں۔ جب وہ وکیل صاحب وطن لوٹے تو یاں گوروں سے علیحدگی کا شور تھا۔ انہوں نے تقسیم کے بیانیے کو تسلیم کیا تقسیم کا کیس مضبوط تھا۔ اچھے وکیل کی ضرورت تھی، اس نوجوان وکیل پر نگاہ پڑی۔وہ کانگرسی تھا، وہاں سے مسلمانوں کی صف میں آکھڑا ہوا تھا۔ اس نے خوب کیس لڑا اور ایک طرف آنے والوں کا بڑا قائد کہلایا۔ بعد میں آنے والے مسلمان زعما نے بھی اسے اپنا پیر مان لیا۔ حالانکہ انہوں اس کا ساتھ بھی نہیں دیا تھا ۔
اب کہانی کا رُخ بدلیں۔
ایک گاڑی جسے نئے سفر کے لئے تیار کیا تھا، اور اس کا ڈرائیور بھی بڑی مہارت سے اسے چلاکر لایا تھا۔ آنے والے دنوں میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والوں میں ماہر کار سواروں کے ساتھ ساتھ محافظ بھی سٹیئرنگ سنبھالتے رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کی خواتین
سلیم احمد مرحوم کی وہ نعت جو اہل دل کو تڑپا دیتی ہے
سیاست چھوڑ دی میں نے، کیا واقعی سچ؟
مسافر کبھی حیران ہوتے۔ کبھی مجبوری میں عادی ہوجاتے کہ یہی گاڑی چلائے گا۔ راستوں کا تعین بھی اس سفر میں مشکل ہو جاتا جب کوئی درست راہ سجھاتا کسی کی سمجھ میں آتا کوئی اختلاف کر جاتا۔ کس طرف جانا ہے یہ بھی معمہ بن جاتا۔ ادھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والے باقی سب کو حقیر خیال کرتے اپنی رائے دینے والے کا احترام بھی نہیں کرتے۔ مخالف سوچ کو دبانے حتیٰ کہ کچل دینے سے بھی گریز نہ کرتے۔ اب گاڑی چلانا ایک باقاعدہ کھیل بن گیا۔ اس کے امیدواروں کی نگاہ سٹیئرنگ اور ڈرائیونگ سیٹ پر لگی رہتی۔ بیٹھنے کے بعد اکثر ڈرائیور بھول جاتے کہ کس راستے پر سفر کرنا ہے۔ اپنے بتائے شیڈول اور روٹ کی بھی پروا نہیں کرتے۔ مسافر اکثر گلا کرتے کہ راستہ بدل کیوں دیا، یا پھر گاڑی درست رفتار سے کیوں نہیں چلتی اور بعض اوقات کھڑی رہتی ہے۔ محافظ اب ڈرائیونگ بھی کرتے اور راستے کا تعین بھی کرتے۔ انہیں اصل ڈرائیوروں سے زیادہ انہیں پر بھروسا کرنا پڑا۔ یہاں تک گمان ہوجاتا بلکہ محافظ یہ تاثر بھی دیتے کہ حقیقی کارسوار وہی ہیں، اگر وہ گاڑی نہ چلائیں تو شاید یہ بڑے حادثات کا شکار ہو جائے یا پھر کسی غلط راستے کی جانب بڑھ جائے۔
ماہر ڈرائیوروں کی شکایات اور مسافروں میں ان کے خلاف سوچ یا بداعتمادی بڑھتی جارہی ہے۔ اب زیادہ تر مسافر اس مخمسے کا شکار ہوچکے ہیں کہ کس کی ذمہ داری ہے۔ کون انہیں منزل تک پہنچائے گا، ڈرائیور یا محافظ۔
اب ڈرائیور بھی محافظ کی مدد کے بغیر گاڑی کے آگے چلنے کا تصور نہیں کرتے۔ انہیں لگتا ہے کہ محافظ نیک انسان ہیں۔ وہی درست راستہ دکھاتے ہیں۔ پہلے وہ یہ بات دل میں رکھتے تھے، لیکن جب سے ڈرائیور کے خلاف عام مسافروں میں غصہ اور اشتعال بڑھا ہے۔ عارضی طور پر گاڑی چلانے والے ڈرائیور انہیں کو نجات دہندہ یا اپنا سب کچھ سمجھنے لگ گئے، سفر مشکل ہوتا جارہا ہے۔ آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا لیکن زیادہ تر ڈرائیور محافظ سے مخالفت کے باوجود اس کے طاقتور ہونے کے باعث اسی کو اپنا رہبر خیال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں محافظ کا ہاتھ تھامے بغیر گاڑی کو دھکیلنا ممکن نہیں۔ دوسری گاڑیوں کے ڈرائیور اور مسافر بھی اس گاڑی کے نظام پر سوال اٹھاتے اور حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ کون سا طریقہ ہے جسے ان لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے۔
یہ ایک تماشا سا لگتا ہے جسے ہر آنے جانے والا راہگیر بھی دیکھ کر سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ کیا محافظ کی ذمہ داری ہے ڈرائیونگ کرنا اور اگر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ ہی گیا ہے تو سارے ڈرائیور اسے اتنا معتبر کیوں خیال کرتے ہیں۔ یہ اس وکیل کی طرح کیا ان سب کا کیس لڑ رہے ہیں کہ سب خاموشی سے دیکھتے رہیں اور ان کی تمام دلیلیں بھی قبول کرلیں کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ محافظ کے دلائل وکیل کی طرح مسترد نہیں ہوسکتے اسے قبولیت دینے والے کئی ڈرائیور اور مسافروں میں سے بھی بے شمار نکل آتے ہیں۔
بس انہیں کسی نیک انسان کا انتظار رہتا ہے جو اس سفر میں درست راستہ دکھانے کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ معلوم نہیں وکیل نے کیس درست لڑا کہیں دلائل میں جھول آگئی کہ گاڑی چلانے والے سفر کے آغاز سے بدل گئے۔ نیک انسان کی بھی پہچان نہیں جو بھی کہلاتا ہے اسے رہنما مطلب رستہ دکھانے والا مان لیتے ہیں۔ سب ہی سچ کے علمبردار ہیں جھوٹ ثابت کرنا ایک تکلیف دہ عمل لگتا ہے اس میں اپنا آپ ہی دکھائی دیتا ہے۔ راستہ بتانے والے ہی پارسا سچے اور نیک انسان لگتے ہیں۔
چونکہ کہانی کا اختتام نہیں ہوپاتا اس لئے ابھی تک خوش وخرم اختتام شاید تاخیر سے آئے۔ مسافروں کو اب بھی اچھی منزل کا انتظار ہے۔