پاکستانی سیاست کی گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے ایک دوست مسکرائے اور انھوں نے کہا،
‘ نہ ہوئے ابرار الحق، ورنہ کہتے، ‘ تھوڑا جیا سیاست نوں دے دیو اسلامی ٹچ۔۔۔۔۔’۔
گفتگو کا مرکز قاسم سوری تھے اور ان کا وہ مشورہ جو انھوں نے ان کے حالیہ مارچ میں دوران تقریر عمران خان کو دیا کہ وہ اپنی تقریر کے ایک حصے کو اسلامی ٹچ بھی دیں۔ عمران خان نے یہ مشورہ یوں تسلیم کیا اور اگلے ہی لمحے انھوں نے اعلان کیا:
‘ میں عاشق رسول ہوں’۔
ہمارے سیاست دانوں میں کون عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور کتنا؟ یہ سوال زیر بحث نہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا عمران خان وہ پہلے سیاست داں ہیں جو پاکستان کی مذہب پر مر مٹنے والی رائے عامہ کو مذہب کے نعرے سے متاثر کرتے ہیں یا اس میدان کے شہ سوار کچھ دوسرے بھی ہیں؟ اگر ہیں تو کون ہیں اور کون کس ہر بھاری ہے؟
یہ بھی پڑھئے:
لانگ مارچ روکتے ہوئے حکومت کیا غلطی کر بیٹھی؟
عمران خان عدم استحکام کیوں چاہتے ہیں؟
بھٹو اور عمران خان کا موازنہ خارج از بحث لیکن۔۔۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس کی اولیں اور ٹھوس کوشش بانیان پاکستان یعنی ملک کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے زمانے میں ہوئی۔ یہ قرار داد مقاصد تھی۔ قرارداد مقاصد ایک ایسی اساسی (بنیادی) دستاویز ہے جس نے پاکستان کے ہر آئین کو بنیاد فراہم کی۔ پاکستان ڈیویلپمنٹ فورم کے ناصر الدین محمود کے مطابق یہ قرار داد ایک سنجیدہ حقیقت تو ہے ہی لیکن یہ ایک ایسی ٹھوس اور طاقت ور دستاویز بھی ہے جسے ختم کیا جاسکتا ہے، نہ اس میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔ یہ ریاست کی بنیاد ہے۔
پاکستان کی جدید سیاسی تاریخ میں ایسا ہی ایک مرحلہ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں آیا۔ پاکستان کا موجودہ آئین جسے 1973ء کے آئین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان ہی کی دین ہے۔ بھٹو اسلامی سوشلزم کے نعرے پر اقتدار میں آئے تھے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد سوال یہ تھا کہ وہ کیسا آئین بنائیں گے۔ مؤرخ پروفیسر سلیم منصور خالد اس کا بڑا دلچسپ جواب دیتے ہیں:
‘ وہ اقتدار میں آئے تو ان پر بڑا دباؤ تھا۔ ان کے بعض طاقت ور ساتھی چاہتے تھے کہ نیا آئین سوشلزم اور سیکیولرم کی بنیاد پر بنایا جائے لیکن انھوں نے اس سب کو نظر انداز کرتے ہوئے آئین کو ایسی بنیادیں فراہم کر دیں جن کی مدد سے قانون سازی میں قرآن و سنت سے انحراف ممکن نہ رہا’۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں مذہبی معاملات کو تین حصوں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا آئین سازی میں اسلامی تعلیمات کی کلیدی حیثیت۔ اس کے بعد دوسری آئینی ترمیم۔ اس ترمیم کے ذریعے ایک عوامی تحریک کے مطالبے پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا جب کہ تیسرے کا تعلق اس زمانے سے ہے جب انھوں نے 1977ء میں اپنے خلاف چلنے والی تند و تیز عوامی تحریک کو بے اثر بنانے کے لیے شراب اور جوئے پر پابندی کے علاوہ ہفتہ وار تعطیل جمعے کے دن کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پروفیسر سلیم منصور خالد بھٹو کے پہلے دو اقدامات کے بارے میں کہتے ہیں:
‘ یہ دونوں اقدامات اتنے ٹھوس اور سنجیدہ تھے جنھوں نے نہ صرف پاکستان کی نظریاتی شناخت کو اجاگر کیا بلکہ ان کی بنیاد اتنی پختہ بنا دی کہ کوئی انھیں چھیڑ تک نہیں سکتا’۔
جہاں تک عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے۔ کالم نگار ہارون رشید نے بزرگ صحافی مصطفیٰ صادق کی زبانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا ایک واقعہ رپورٹ کیا ہے۔ مدینہ منورہ کے دورے کے موقع پر ایک بار ان کے لیے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کھولا گیا۔ مصطفیٰ صادق جو اس موقع پر بھٹو کے ساتھ تھے، بتایا کہ جب وہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھ رہے تھے، اُن کی رنگت زرد پڑ گئی۔ وہ کھڑے نہ رہ سکے اور عقیدت سے گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے روضے میں داخل ہوئے۔ ( اسے کوٹیشن نہ بنایا جائے۔ یہ واقعہ میں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے)
بھٹو دور کے بعد جنرل ضیا کے مارشل لا کا زمانہ آتا ہے۔ اس زمانے میں انھوں نے عوام میں مقبولیت کے حصول کے لیے کئی فیصلے کیے جن میں ںطام صلٰواۃ، نظام زکوٰۃ اور شرعی عدالتوں کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ پرو فیسر سلیم منصور خالد کا خیال ہے:
‘ شرعی عدالتیں جنرل ضیا کے دور کی یادگار ہیں لیکن یہ کتنی مؤثر ہیں اور ان کی افادیت کیا ہے؟ یہ کوئی ایسا معمہ نہیں ہے۔ ان کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سب سیاسی فائدے کے لیے تھا’۔
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا سے قبل پاکستان پیپلز پارٹئ کی بے نظیر بھٹو اور پاکستان مسلم لیگ ن کے میاں محمد نواز شریف کو دو دو ادوار ملے۔
بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے سے قبل ایک خاص وضع قطع اختیار کی۔ انھوں نے بالکل مشرقی انداز میں سر ڈھانپنا شروع کیا۔ اسی زمانے میں تسبیح بھی ان کے ہاتھ آگئی۔
پروفیسر سلیم منصور خالد کہتے ہیں:
‘ بے نظیر بھٹو میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کو مشرقی انداز اختیار کرنے کی ایک شعوری کوشش قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ان کا کوئی مخالف بھی ان پر یہ الزام عاید نہیں کر سکتا کہ وہ حکمران کی حیثیت سے وہ کسی نمائشی مذہبی سرگرمی میں ملوث رہی ہوں’۔
مذہبی حوالے سے میاں محمد نواز شریف کے دونوں عہد بے نظیر بھٹو کے طرز حکمرانی سے مختلف تھے۔ ان کے پہلے دور میں شریعت بل منظور ہوا۔ اس بل کے محرک اسلامی جمہوری اتحاد کی ایک رکن جماعت جمیعت علمائے اسلام (س ) کے سربراہ مولونا سمیع الحق تھے۔ سب سے پہلے یہ بل سینیٹ سے منظور ہوا۔ بعد میں اسے قومی اسمبلی سے بھی منظور کرایا گیا۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے وقت ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں صرف دائیں بازو کے لوگ ہی شامل نہ تھے بلکہ بائیں بازو کے ثقہ عناصر بھی شامل تھے جن عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممتاز مارکسٹ اجمل خٹک کا نام بھی آتا ہے۔ یہ شریعت بل منظور ضرور ہوا لیکن اقتصادی معاملات کو اس کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا۔ پھر اس بل کا کیا بنا؟ پروفیسر خالد کے خیال میں یہ تاریخ کا رزق بن گیا۔
نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں پندرھویں آئینی ترمیم کا ایک مسودہ تیار کیا تھا جو اپنی ابتدا میں ہی اختلافات کا شکار ہو گیا۔ سابق وزیر خآرجہ خورشید محمود قصوری نے بی بی سی کو بتایا:
‘ اس ترمیم میں یہ کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم اگر یہ سمجھیں کہ ملک کا کوئی قانون اسلام کے راستے میں حائل ہے تو اسے قومی اسمبلی کی سادہ اکثریت کے ذریعے تبدیل کیا جا سکے گا چناں چہ میں نے اس کی مخالفت کی’۔
نواز شریف دور کی یہی مجوزہ آئینی ترمیم تھی جس نے بارے کہا گیا کہ یہ امیر المومنین بننے کی کوشش ہے۔
خورشید محمود قصوری کہتے ہیں:
‘ یہ کوشش اس لیے بھی ناکام رہی کہ صرف میں نے ہی اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ جمیعت علمائے پاکستان (نیازی) کے سربراہ مولانا عبدالستار خان نیازی نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے میرے مؤقف کی تائید کی۔ اس کے علاوہ میاں نواز شریف نے راجہ ظفر الحق صاحب کی سربراہی میں ایک مصالحتی کمیٹی قائم کی تھی، اس کی رپورٹ نے بھی میرے مؤقف کی تائید کی۔ اس طرح یہ معاملہ جسے بوجودہ شریعت بل کا نام دیا گیا تھا، ابتدا میں ہی ختم ہو گیا’۔
خورشید محمود قصوری نے اس واقعے کی تفصیل نواز شریف کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے اپنی کتاب میں بھی بیان کی ہے۔
جنرل مشرف کے بعد شروع ہونے والے سیاسی عہد میں عمران خان وہ پہلے سیاسی راہ نما ہیں جنھیں زیادہ شدت کے ساتھ مذہبی نعرہ لگانے کی وجہ سے شہرت ملی۔
مذہبی نعرہ عمران خان نے اپنی سیاست کی ابتدا میں ہی اختیار کر لیا تھا۔ 1997ء کے انتخابات سے قبل کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میں نظریاتی طور پر ایسا پاکستان چاہتا ہوں جس کی بنیادیں ہمارے بزرگوں( انھوں نے فور فاردز کے الفاظ استعمال کیے تھے) نے رکھیں تھی۔ انھیں وضاحت کے لیے کہا گیا تو انھوں کہا کہ وہ اسلامی نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے اسلامی نظریے کی کوئی زیادہ تفصیل تو اس جماعت کی کسی دستاویز میں نہیں ملتی سوائے 2018ء کے انتخابی منشور کے جس کی ابتدا میں درج ہے:
‘ پاکستان تحریک انصاف کا مقصد بطور ایک تحریک؛ انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ہے جس کا تصور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ میں پیش کیا جو جدید اسلامی ریاست کی بنیاد ہے’۔
میثاق مدینہ کو جدید پاکستانی معاشرے میں قانونی اعتبار سے عملی حیثیت کیسے دی جائے گی؟ منشور میں اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ البتہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے بعض دیگر راہ نماؤں کی تقاریر میں ریاست مدینہ کی اصطلاح کی گونج مسلسل سنائی دیتی ہے۔
ریاست مدینہ کیسے وجود میں آئے گی؟ اس سوال کا جواز اس جماعت کے منشور میں نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح یہ سوال کہ عمران خان نے اپنے عہد اقتدار میں اس مقصد کے لیے کیا کیا؟ اس کی تفصیل بھی کہیں دستیاب نہیں۔ سوائے اس کے کہ انھوں نے اپنے دور میں رحتمہ للعالمین اتھارٹی نامی ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ اتھارٹی کے سربراہ ڈاکٹر انیس احمد نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا:
‘ اس اتھارٹی کے قیام کے سلسلے میں آرڈیننس کے گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق ریاست مدینہ کے تصور کو حقیقت کی شکل دینا ہے جس کی بنیاد انصاف، قانون کی حکمرانی، اور عوام کی فلاح ہے جو کسی فلاحی ریاست کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ کام قوم کی کردار سازی کے ذریعے انجام دیا جائے گا’۔
عمران خان کے مذہبی رجحانات اور مذہبی نعرے سیاسی اعتبار سے زیر بحث رہے ہیں لیکن قیام پاکستان کے بعد ابتدائی زمانے میں قرارداد مقاصد کی منظوری یا 1973ء میں آئین میں اسلامی قوانین کو تحفظ دینے جیسے ٹھوس اقدامات کی کوئی بازگشت سنائی نہیں دیتی۔ شاید یہی سبب رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے مذہبی نعروں کو اس کی معاصر سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ اس پر تنقید کی۔ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا:
‘ اس شخص ( عمران خان) کا امر بالمعروف سے کیا تعلق؟ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ شخص اور یہ قرآنی اصطلاح ہی درست بیان کر دے یا قرآن کی چند آیات کی تلاوت ہی درست طریقے سے کر لے تو ہم یہ جانیں کہ اس شخص کا کوئی تعلق دین کے ساتھ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عمران خان ایک مختلف مزاج کی شخصیت ہیں اور محض سیاسی مقاصد کے لیے وہ دین کے ایک حکم کو استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں’۔
مولانا فضل الرحمٰن کے برعکس مولانا طارق جمیل عمران خان کے مذہبی چہرے کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں (جس کی وڈیو اور تحریری تفصیل بی بی سی کی ویب سائٹ پر موجود ہے) میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ وہ عمران خان کی اتنی پرجوش حمایت کیوں کرتے ہیں، انھوں نے کہا تھا:
‘ بطور وزیر اعظم جب عمران خان نے مجھے بلایا اور کہا کہ مولانا میں چاہتا ہوں کہ میرے نوجوان اپنے نبی کے ساتھ جڑ جائیں اور ان کی زندگی کو اپنائیں، یہ بات اس سے پہلے مجھے کسی حکمران نے نہیں کہی۔‘
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مولانا طارق جمیل کی گواہی کیا جوہری تبدیلی لائے گی، یہ فیصلہ مستقبل میں ہی ہو سکے گا۔
یہ مضمون http://www.bbc.com/ پر شائع ہو چکا ہے۔