ذوالفقار علی بھٹو کا عمران خان سے موازنہ خارج از بحث ہے، آج اگر عمران خان سیاست کو محور ہیں تو اسکا کریڈٹ پی ڈی ایم اتحاد کو نہ دینا زیادتی ہو گی
****
فیض احمد فیض بے تکلف دوستوں کی محفل میں بیٹھے تھے، پاکستان کی سیاست اور مستقبل پر دھواں دھار بحث جاری تھی۔ خدشات، امکانات، الزامات، جو کچھ ہو رہا ہے بہت برا ہے، تباہی ہے۔ فیض صاحب خاموش، ان سے پوچھا گیا فیض صاحب آپ کا کیا خیال ہے۔ فیض صاحب مسکراتے ہوئے بولے جناب امکان ہے جن خدشات کا آپ اظہار کر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ برا ہونیوالا ہے، سب متوجہ ہو گئے پوچھا کیا ہو گا؟ فیض صاحب بولے مجھے لگتا ہے یہ ملک یونہی چلتا رہیگا۔
پچھتر سال بعد بھی ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، ایک طویل عرصے تک سیاست ذوالفقار علی بھٹو کے گرد گھومتی رہی۔ بھٹو حمایت، بھٹو مخالفت مانیں نہ مانیں آج ہماری سیاست کا محور عمران خان ہیں۔ عمران کی حمایت یا مخالفت، سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت اگر مزید چھ ماہ قائم رہتی تو نا مقبولیت کے آخری حد چھو لیتی۔ بھونڈے طریقے سے حکومت کا خاتمہ درحقیقت عمران خان کیلئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
میں کہاں کہاں سے گزرگیا ،سلگتی سسکتی یادیں
توہین مسجد نبوی اور شخصیت پرستی کے مرض سے اٹھنے والے کے فتنے
عمران خان وائٹ پیپر، توہین مسجد نبوی کو نئے پروپیگنڈے میں دبانے کی کوشش
امریکہ مخالف بیانیہ ہر دور میں عوامی مقبولیت پاتا رہا ہے اور اب عمران خان اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر بخوبی استعمال کر رہے ہیں۔ سیاستدان تو خیر سیاسی سچ اور جھوٹ بولنے پر مجبور ہیں مگر حیرت ان صحافیوں پر ہے جو آج جمہوری فتح کا راگ الاپ رہے ہیں۔ سیاسی بساط پر اسٹیبلشمنٹ نے ایک مہرہ ہٹا کر تین مہرے رکھ دئیے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کرنیوالے دوست اسے جمہوریت کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاسی بساط پر صرف ایک ہی کھلاڑی ہے اور وہ ہے اسٹیبلشمنٹ، جو دونوں طرف کی چالیں شاطرانہ انداز میں چلنا بخوبی جانتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عمران خان سے موازنہ خارج از بحث ہے، آج اگر عمران خان سیاست کو محور ہیں تو اسکا کریڈٹ پی ڈی ایم اتحاد کو نہ دینا زیادتی ہو گی۔
خواہش انسان کا بنیادی حق ہے، نفرت اور محبت بھی مگر خواہش اور خبر میں فرق برقرار رہنا چاہیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک غیر سیاسی وزیر اعظم تھے، اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پیشرئوں کی طرح ان کی بھی پہلی غلطی کمپرومائزڈ گورنمنٹ تھی جسے آگے چل کر ہائبرڈ حکومت کا خطاب ملا۔ حسب روایت اہم ملکی معاملات میں آزاد نہ تھے اور اسکے بعد روزمرہ کے معاملات بھی انکے کنٹرول سے باہر ہوتے گئے۔ بدانتظامی، نااہلی، ناتجربہ کاری کی ناقابل یقین صلاحیتوں سے مالامال وزرا ہر غلطی کو پارسائی کی عبا پہنا کر مطمئن اور عوام راندہ درگاہ بنتے گئے۔
کوئی شک نہیں تحریک انصاف کی وزرا و مشیران نے بربادی میں بڑا کردار ادا کیا ہے، شیخ رشید، فواد چوہدری، شہباز گل، شاہ محمود قریشی، علی محمد خان، مراد سعید اور دیگر، سمجھ نہیں آتا اوپر سے نیچے ترتیب کیا رکھی جائے۔ ہر گزشتہ حکومت کی طرح تین، ساڑھے تین سال تحریک انصاف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی پیج پر رہے۔ پچھلی دوحکومتوں کی طرح یعنی یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف بھی اسی پیج پر رہے۔ بہرحال عمران خان نے حسب استطاعت پیج پر رہنے کی بھرپور کوشش کی مگر اسکے باوجود ساڑھے تین سال کا ریکارڈ نہ توڑ سکے۔ کیا اس میں بھی کوئی شک ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی جمہوری حکومت مدت پوری نہ کر سکی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر قبل از وقت انتخابات کروانے پڑے تھے۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ اس تبدیلی پر خوشی کیوں منائی جا رہی ہے؟
ساڑھے تین سالہ نیا پاکستان ایک نیا تجربہ تھا، اچھا نہ گزرا مگر پرانا پاکستان تو پندرہ، بیس سالہ تجربہ ہے، دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک، سچ تو یہ بھی ہے کہ بائیس کروڑ عوام نے دو جماعتوں کو بار بار آزما کر تیسری جماعت سے تبدیلی کی امید لگائی۔ انتخابات میں عوام نے عمران خان کو تبدیلی کیلئے ووٹ ڈالا تھا، یہ خواہش کس حد تک پوری ہوئی یا نہ ہوئی یہ ایک علیحدہ بحث ہے مگر عوام نے تو اپنا فرض پورا کیا۔ ہماری جمہوریت اور آمریت کے بیچ اسٹیبلشمنٹ کی پوری تاریخ ہے، فاطمہ جناح سے بینظیر بھٹو، نواز شریف اور پھر عمران خان تک، یہ حقائق کوئی ڈھکے چھپے تو نہیں۔ عمران حکومت کیسے ختم ہوئی، شہباز حکومت کیسے بنی اور کیسے چلے گی، یہ ایک ایسا قومی راز ہے جو سب کو پتہ ہے۔
سیاسی نفرت کی فضا کثیف ہوتی جا رہی ہے، معاشرے کی تقسیم گہری ہوتی جا رہی ہے۔ چینلز، اینکرز، سیاسی تجزیہ کار زہریلی کثافت میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ سیاسی رہنما طبل جنگ بجا رہے ہیں۔ اسلام آباد میریٹ ہوٹل، پنجاب اسمبلی، مدینہ منورہ، کوہسار ہوٹل، انتہا پسند اور پرتشدد واقعات عام انتخابات کو خونریزی کی طرف لیجا رہے ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کی تو بات اور ہے مگر ایک چینل کے نزدیک عمران خان کا ہر غلط فیصلہ بھی آسمانی صحیفہ ہے تو دوسرے چینل کے مطابق صحیح قدم بھی ابلیس کی پیروی ہے، یہ اثرات پورے معاشرے حتی کہ گھروں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ کیسی صحافت ہے جو سچ کو نگل رہی ہے، زہر پھیلا رہی ہے؟ میڈیا حکومتیں بنانے اور گرانے میں شامل ہو جائے تو اسے مفادات کی جنگ قرار نہ دیا جائے تو اور کیا کہیں؟
سیاسی فضا زہر آلود، اس قدر گہری معاشرتی تقسیم کہ سانس لینا مشکل ہے، عمران مخالفین اور حمایتیوں نے شاید معاشرے میں ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ میں بھی دراڑ ڈال دی ہے۔ غداری کے لیبل تو ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں کل تک نواز شریف غدار تھے تو بہت ممکن ہے کل عمران خان غدار ٹہریں۔ یہ لیبل اتنی تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں کہ سماج اور ادارے دونوں متاثرین میں شامل ہیں۔ ایک سیاسی جماعت عتاب کو شکار ہوتی ہے تو باقی تین محبوب جماعتیں تالیاں بجاتی ہیں، معتوب جماعت عتاب سے نکتی ہے تو کوئی دوسری جماعت معتوب قرار پاتی ہے، تالیاں بجانے والوں کی تعداد وہی رہتی ہے۔ اس سارے تماشے میں سب سے زیادہ متاثر آئین، ریاست اور عوام ہوتے ہیں، باقی تو سب مہمان کردار ہیں۔ فیض صاحب درست ہی کہتے تھے یہ تماشہ 70 سال سے جاری ہے۔ آگے کیا ہو گا یہ تو کوئی جوتشی ہی بتا سکتا ہے مگر ناصرہ زبیری نے آنیوالے کل کی جھلک ضرور دکھلائی ہے
تماشا کل جو دیکھا تھا، وہی کل ہونے والا ہے
ہمارے ساتھ ایسا کیا مسلسل ہونے والا ہے؟
وہی جس میں تماشائی بھی سارے ہار جاتے ہیں
ہمارے شہر میں پھر سے وہ دنگل ہونے والا ہے