پاکستان میں مختلف ادوار میں مختلف قسم کے حالات آئے ہیں. آزادی کے بعد 1954 میں پاکستان کا معاشی بحران اور اس کے بعد ہمسایہ ملکوں سے جنگیں۔ اس کے بعد مملکتی سربراہان کا قتل اور آمریت کا نظام اس طرح کے بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن دور حاضر میں پاکستان ایک طرف ہمسایہ ممالک سے خراب تعلقات اور دوسری طرف حکومتوں میں غیر قانونی مدتوں تک حکومتوں کو قائم کرنا اور اسے واپس گرانا پاکستان میں اس چیز کا معمول بن چکا ہے۔
پچھلے ایک سال سے پاکستان تحریک انصاف کے حکومت کے خلاف کئی بار سیاسی جماعتوں کے درمیان جوڑ توڑ ہوا جو مختلف رائے پر مبنی عدم اعتماد کرنا چاہتے تھے مگر کھبی نہ کھبی رائے عامہ پر یکجہتی کا اظہار نہیں ہوا. مگر کچھ مہینوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد سیاسی جماعتوں کا حکومتی وزراء اور نمائندوں سے ملاقاتوں کے بعد عدم اعتماد کامیاب ہوا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماعت اسلامی اس عدم اعتماد میں شامل نہیں تھ۔ وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں مہنگائی اور حکومتی نا اہلی کے خلاف مظاہرے کررہی تھی۔
عدم اعتماد کے بعد وزارتوں اور صوبوں کو مختلف سیاسی جماعتوں کے حوالے کردیا اور ن لیگ موجودہ حکومت کے سربراہ بن گئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیٹ پر شہباز شریف منتخب ہوئے۔
تحریک عدم اعتماد کا مقصد حکومتی نااہلی کرپشن مافیا مہنگائی اور مختلف ممالک سے تعلقات خراب کرنا اور پاکستان میں رواں مالی اقتصادی معاہدے کو نقصان شامل تھے۔
حکومت کو گرانے کے بعد اس وقت پاکستان کو دو نوعیت کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ ایک سیاسی عدم استحکام اور دوسرا معاشی بحران۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اتحادی جماعتوں کی تشکیل پانے والی حکومت اور بعض سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ سیاسی معاملات ہموار طریقے سے آگے کی طرف بڑھیں گے۔ مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ تحریک عدم اعتماد میں موجود بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی ناراضگی اور اس کے علاوہ مختلف اداروں کو ملنے والے فنڈ کی روک تھام آئی ایم ایف نے مزید پیسے دینے سے انکار کر دیا۔
کچھ سیاسی و سماجی حلقوں کے مطابق عمران خان کے حکومتی دور میں مختلف مقامات پر میڈیا کے سامنے عمران خان کا یہ کہنا ’حکومت سے باہر آ کر زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا‘، بظاہر درست ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اِن کے فوری انتخابات کے مطالبے کی بدولت سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے فوری انتخابات کے مطالبے کو بھی مختلف انداز سے دیکھا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت کا جس انداز سے خاتمہ ہوا، اس سے عوام کے اندر ہمدردی کا عنصر پیدا ہوا اور عمران خان نے حکومت کے خاتمے کو اندرونی و بیرونی سازش قرار دے کر یہ آواز نیچے تک پہنچا دی، لہٰذا اگر اب جلد انتخابات ہوتے ہیں تو اس جماعت کو عوام کی تائید کی صورت سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔
جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان جلد انتخابات کی صورت مبینہ طور پر ’سلیکشن‘ چاہتے ہیں۔ اس پہلو کا اظہار بلاول بھٹو زرداری کر چکے ہیں۔