عمران خان نے پاکستانی سیاست کو آگ کے ایسے کنویں میں دھکیل دیا جہاں نفرت، جہالت، اندھے پن، بغض، حسد اور افراتفری کے سوا کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی، جہاں معاشرہ منقسم ہوگیا، ہر پاکستانی ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے کیلئے مجبور ہے، جہاں اسلامی روایات اور نہ ہی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جارہا ہے۔ عمران خان نے تمام اسلامی، جمہوری، اخلاقی اقدار کو اپنے اقتدار کے ہوس کی بھینٹ چڑھادیا جس کا ثبوت مسجد نبوی میں پاکستانی وفاقی وزرا کے وفد کے ساتھ پی ٹی آئی کارکنوں کا انتہائی شرمناک رویہ ہے۔ ہمارا ملک جس کو اسلامی فلاحی ریاست کہا جاتا ہے کے نام کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔
مسجد نبوی میں جو واقعہ پیش آیا اس نے پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ سوشل میڈیا پر جب میں نے مسجد نبوی کی توہین کا یہ واقعہ دیکھا کہ کس طرح پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مسجد نبوی میں گالم گلوچ کی تو میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ کیا ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمیں مقدس مقامات کا بھی خیال نہیں ہے۔ ایک ایسی مقدس جگہ جہاں تک پہنچنے کیلئے ہر انسان کو اولین تمنا اور آرزو ہوتا ہے، جس کا خواب میں بھی دیدار کرنے کو انسان بہت بڑی سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا ہے پی ٹی آئی کارکنوں کی اس مقام پر ہلڑ بازی اور گالم گلوچ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پی ٹی آئی کے اس طرز عمل کی زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے مذمت کی اور عمران خان اور انکی پارٹی کو ہدف تنقید بنایا۔
یہ بھی پڑھئے:
بھٹو اور عمران خان کا موازنہ خارج از بحث لیکن۔۔۔
میں کہاں کہاں سے گزرگیا ،سلگتی سسکتی یادیں
توہین مسجد نبوی اور شخصیت پرستی کے مرض سے اٹھنے والے کے فتنے
پی ٹی آئی کارکنوں کو مسجد نبوی کا احترام یاد رہا نہ ملک کی عزت کا خیال رہا، اگر کوئی چیز ذہن میں تھی تو اپنے رہنما عمران خان کی سیاسی حریفوں کے بارے میں زہر آلود باتیں جو وہ کئی سال سے مسلسل کرتے آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ نہ صرف منقسم ہے بلکہ ایک دوسرے سے دست و گریباں بھی ہے۔
عالم اسلام کے مشہور عالم مفتی تقی عثمانی نے اس دلخراش واقعہ پر اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا: روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صحابہ بھی اپنی آواز نیچی رکھتے تھے کہ بے ادبی نہ ہوجائے، مگر ذہنی مریضوں نے آج ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک ادب، احترام، تقدس اور اخلاقیات محض افسانوی باتیں ہیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد یوسف کا کہنا تھا کہ میں نے تو کبھی مکہ مدینہ نہیں دیکھا تھا، مسلمان ہونے کے بعد پہلی بار گیا تو خانہ کعبہ کو دیکھ کر چیخ نکل گئی اور آنسو جاری ہوگئے تھے، یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ روضہ روسول پر جو کچھ ہوا وہ دیکھ کے اے اللہ میں پوری امت کی طرف سے تجھ سے معافی مانگتا ہوں۔
شیخ رشید نے ایک روز قبل ہی کہا تھا یہ لوگ سعودی عرب جائیں گے تو دیکھیں مکہ مدینہ والے ان کے ساتھ کیا کریں گے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں شیخ رشید کو نہ صرف پہلے سے علم تھا بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اگر اس واقعہ میں عملی طور پر شریک ہونے والے اتنے لاعلم تھے لیکن پاکستان میں بیٹھے منصوبہ سازوں کو مسجد نبوی کی حرمت اور احترام کا خیال رکھنا چاہیئے تھا۔ عمران خان خود بھی پی ٹی آئی کارکنوں کو اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف اکساتے رہے۔ چند ہفتے قبل انہوں نے تقریر میں مخالفین سے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کیلئے عوامی مقامات پر جانا مشکل ہوجائے گا، لوگ آپ کے بچوں سے شادیاں نہیں کریں گے اور آپ کے بچوں کو سکولوں تک پیچھا کیا جائے گا۔
آج کل ہر طبقہ فکر کے افراد مسجد نبوی میں پیش آنے والے واقعہ اور پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے ہلڑ بازی پر غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ لیکن اس واقعہ کے پیچھے ایک خاص منفی سوچ ہے جس کو سیاسی پاگل پن کہا جاسکتا ہے جس کو ہمیں روشنی میں بدلنا ہوگا۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہم سیاسی حریفوں کے ساتھ مسلمان بھی ہیں، انسان بھی ہیں، ہم انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اخلاقیات، انسانیت اور احترام بھی معنی رکھتے ہیں۔