عمران خان کے حوالے سے سیاسی پارٹیوں کو بالعموم اور ن لیگ کو بالخصوص غلط فہمیاں پیدا ہوئیں جس نے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔نوے کی دہائی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بڑی جماعتوں کے طور پر میدان عمل میں تھیں ۔ انیس سو ستانوے میں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے پاکستان میں دو پارٹی نظام پوری طرح جڑ پکڑ چکا ہے ۔ پھر پرویز مشرف تشریف لے آئے اور ہم وہیں پہنچ گئے جہاں سے دو دہائی قبل چلے تھے ۔ دونوں جماعتوں کو احساس ہوا کہ آپس کے غیر ضروری جھگڑوں سے فائدہ کسی تیسرے کو ہوتا ہے سو میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے گئے ۔ طے ہوا کہ کسی غیر جمہوری روایت کو فروغ نہیں دیا جائے گا ۔ یہ بھی طے ہوا کہ اختلاف میں شائستگی کا دامن تھامے رہیں گے اور یہ کہ جو بھی حکومت بنے اسے پانچ سال پورے کرائے جائیں گے ۔
یہ بہت اچھا قدم تھا ۔ محترمہ کی شہادت کے بعد بھی دونوں پارٹیاں اس موقف پر قائم رہیں ۔ دوہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد ہوئے تو پیپلز پارٹی کی حکومت بنی ۔ مسلم لیگ ن حزب اختلاف میں تھی ۔ دونوں سہولت سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ کبھی کبھار کہیں سرحدی جھڑپیں ہو جاتیں مگر بڑا معرکہ نہیں ہوا سوائے اس کے کہ پنجاب میں کچھ دن کے لیے گورنر راج نافذ رہا اور شہباز شریف حکومت سے باہر ہوگئے ۔شہباز وزارت بحال ہوگئی اور معاملاتِ پھر فطری رفتار سے آگے بڑھنے لگے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان: تھوڑا جیا سیاست نوں دے دیو اسلامی ٹچ
لانگ مارچ روکتے ہوئے حکومت کیا غلطی کر بیٹھی؟
عمران خان عدم استحکام کیوں چاہتے ہیں؟
وہ جو کہتےہیں کہ بویا کاٹنا پڑتا ہے وہی کچھ یہاں ہوا ۔ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے دور میں ایک دوسرے پر کرپشن سمیت ہر طرح کے الزامات عائد کر چکی تھیں ۔ جب دونوں پارٹیوں نے شرافت سے معاملات آگے بڑھانے شروع کیے تو فطری طور پر یہ تاثر ابھرا کہ دونوں لوٹ مار کرنے والے آپس میں مل گئے ہیں اور یہ ملک کو تباہ کردیں گے ۔ ثبوت تلاش کرنے میں زیادہ محنت نہ کرنا پڑی کہ یہ دونوں پہلے ہی کسی تیسری پارٹی کے لیے خاصا مواد جمع کر چکے تھے ۔ یہاں عمران خان کی انٹری ہوتی ہے یا کرائی جاتی ہے ۔ عمران نے دونوں پارٹیوں کو آڑے ہاتھوں لیا تاہم پیپلز پارٹی نے جواب میں خاموشی اختیار کی دوسری طرف ن لیگ نے ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کیا ۔
ن لیگ کو نظر آرہا تھا کہ اگلی حکومت اس کی ہے اور پنجاب سے کسی تیسری قوت کا منظر عام پر آنا اس کے لیے قابل قبول نہ تھا سو دونوں میں ٹھن گئی ۔ عمران خان میثاقِ جمہوریت کے سکرپٹ کا حصہ نہ تھا ۔ دوہزار تیرا کے انتخابات میں تحریک انصاف نے حیرت انگیز کامیابی سمیٹی اور کے پی کے میں حکومت بھی قائم کرلی ۔ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر بھی تحریک انصاف کا تھا مرکز میں چھیہتر لاکھ ووٹ لے کر عمران خان کی تحریک انصاف نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ۔ تحریک انصاف کی جیتی ہوئی نشستیں گو پیپلز پارٹی سے کم تھیں تاہم حاصل کردہ ووٹ ان سے زیادہ تھے ۔تحریک انصاف نے ن لیگ کو خوب پریشان کیا اور انھیں بدعنوان ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے پریشان کرنے کے لیے جو حربے استعمال کیے وہ کسی طور بھی پسندیدہ نہیں تھے ۔ پارلیمنٹ پہ حملہ سمیت بہت سی ایسی حرکتیں ہیں جنھیں پاکستانی جمہوری تاریخ کے چہرے پر کالک کہا جانا چاہیے ۔
ن لیگ جواب میں اپنے ووٹرز کو یہی سمجھاتی رہی کہ عمران کوئی سیاسی قوت نہیں بلکہ ایسٹیبلمنٹ کا مہرہ ہے ۔ یہ شخص ایسٹیبلمنٹ کے کہنے پر ن لیگ کو پریشان کررہا ہے ۔ دوہزار اٹھارہ میں جب عمران خان جیت گیا یا جتوایا گیا تب بھی ن لیگ اسی موقف پر سیاست کرتی رہی ۔ اپنے ووٹر کو باور کرایا کہ عمران مصنوعی طور پر پلانٹ کیا گیا بچہ جمہورا ہے ۔ جب ایسٹیبلمنٹ اس کے سر پر سے ہاتھ اٹھا لے گی یہ معدوم ہو جائے گا ۔ انھوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اس پارٹی نے ایک کروڑ انہتر لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں ۔ یہاں کہا جاسکتا ہے کہ تحریکِ انصاف کو دھاندلی کے ذریعے جتوایا گیا ۔ مان لیا ۔۔۔۔۔۔۔فرض کرلیتے ہیں کہ انھیں انہتر لاکھ ووٹ دھاندلی کے ذریعے ملے ( حالانکہ اتنی بڑی دھاندلی ممکن نہیں) اس نے ایک کروڑ ووٹ تو پھر بھی حاصل کیے نا ۔ اگر کوئی سیاسی پارٹی مخالف کے ایک کروڑ ووٹوں کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیتی تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے ۔
یہ وہ پہلی غلطی ہے جو ن لیگ نے کی کہ عمران خان کو سیاسی قوت کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا ۔ ایک کروڑ انہتر لاکھ ووٹوں کے مالک کو غیر سنجیدہ قرار دے دیا ۔ دوسری غلطی یہ کی کہ فرض کرلیا کہ عمران کے خاتمے کے بعد یہ ووٹ واپس آجائے گا ۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکے ووٹر آپ کی کارکردگی کی بنا پر آپ سے دور نہیں ہوا بلکہ عمران کا یاد کرایا سبق دوری کا باعث بنا ہے یعنی یہ کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں خاندانی بادشاہت قائم کیے ہوئے ہیں اور یہ کہ دونوں مالی بدعنوانی اور سرمائے کے غیر قانونی بہاؤ میں ملوث ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ خود ن لیگ کے ووٹرز نے بھی اپنے راہنماؤں کی کرپشن کا دفاع نہیں کیا بلکہ مزے سے کہتے ” کھاتے ہیں تو لگاتے بھی تو ہیں” ۔
تیسری غلطی یہ کی گئی کہ سوچا گیا کہ کردار کو مشکوک کرکے عمران کی مقبولیت کم کی جاسکتی ہے۔ ایسی کوششیں بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے خلاف بھی ہوئیں۔ اگرچہ یہ حربہ تب بھی زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوا تاہم عمران کے مقابلے میں تو اس کی کامیابی کا امکان بہت ہی کم تھا۔ عمران خان شعوری یا غیر شعوری طور پر خبروں میں رہنے کا شوقین ہے۔ وہ خبر میں رہنے کا ہنر جانتا ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں ہے کہ اس کے بارے چلنے یا چھپنے والی خبر مثبت ہے یا منفی۔ ساری زندگی اس کا یہی رویہ رہا ہے کہ بدنام ہونے سے بھی بہرحال نام لوگوں کی زبان پر رہتا ہے۔ سو کردار کشی کی تحریک سے نہ تو کبھی وہ پریشان ہوا اور نہ شرمندہ۔ اسے عمران خان کی ڈھٹائی کہا جاسکتا ہے تاہم کیا کیجے کہ یہی اس کا سٹائل ہے۔ لہذا جن لوگوں نے اس کے خلاف مہم چلائی انھوں نے غیر محسوس انداز میں عمران کی مدد کی۔ میں نہ تو عمران کو پاکباز ثابت کرنا چاہ رہا ہوں اور نہ اس کی غلطیوں کا جواز تلاش کررہا ہوں بلکہ یہ عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اسے ایسی باتیں پسند ہیں
پھر وہ وقت بھی آیا جب ایسٹیبلمنٹ نے عمران کے سر پر سے ہاتھ اٹھا لیا ۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ یہ پارٹی بکھر جائے گی ۔ آخر شاہ محمود قریشی ، بابر اعوان اور فواد چودھری جیسے لوگوں کو تحریک انصاف سے چمٹے رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ اب کسی اور آشیانے میں بسیرا کریں گے لیکن حیرت انگیز طور پر ایسا نہیں ہوا ۔ حکومت ٹوٹنے کے بعد عمران کے کہنے پر عوام سڑکوں پر نکل آئے ۔ بعد ازاں خان نے پے در پے کامیاب جلسے کیے ۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ کسی بھی دوسرے یا تیسرے درجے کے لیڈر کو پارٹی چھوڑنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ ن لیگ یہاں بھی مغالطے کا شکار رہی ۔ اس نے عمران کی عوامی طاقت کو نظر انداز کیا ۔ اب کہنے کو یہ بھی نہیں تھا کہ یہ سب کچھ ایسٹیبلمنٹ کرا رہی ہے کیونکہ اب یہ تو ن لیگ کے ساتھ تھی ۔ سو یہ پراپیگنڈا کیا گیا کہ سڑک پر کوئی نکلا ہی نہیں اور یہ کہ عمران کے ساتھ کوئی ہے ہی نہیں ۔ اس طرح ن لیگ ایک بنیادی سوال نظر انداز کر گئی کہ اگر ایسٹبلشمنٹ بھی ساتھ نہیں اور عوام بھی عمران کو چھوڑ چکی ہے تو پھر یہ پارٹی اب تک کیوں قائم ہے؟ ۔
ماضی میں جب ایسٹیبلشمنٹ نے ساتھ چھوڑا تو ہم سب نے پارٹیوں کو بکھرتے دیکھا ۔ ن لیگ ہمارے سامنے ق لیگ میں تبدیل ہوئی اور جب ایسٹیبلشمنٹ نے نظریں بدلیں تو ق لیگ بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی تاہم سرپرستی نہ ہونے کے باوجود تحریک انصاف قائم رہی ۔اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ یہ پارٹی سیاسی حقیقت ہے اور اس کی جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں اور یہ کہ عوام نے عمران کا دیا سبق اچھی طرح یاد کررکھا ہے ۔تاہم ن لیگ اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ۔کتنی دلچسپ بات ہے کہ ن لیگ کے راہ نما ایک طرف تو یہ فرماتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ عوام بالکل نہیں دوسری طرف ان کی تقریر “عمران نامہ” کے سوا کچھ نہیں ہوتی ۔
میری ذاتی رائے میں اگر ن لیگ اسے سیاسی قوت تسلیم کرلیتی تو اسے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے میں آسانی ہوتی ۔ اس میں کیا شک ہے کہ خان کا رسوخ تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ تحریک انصاف میں طالب علم ، ڈاکٹرز ، وکلا ، ،پروفیسرز ،صحافی ، سابق فوجی بہت بڑی تعداد میں شامل ہیں ۔ کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے والے تعلیم یافتہ لوگ بھی خان کے مداح ہیں ۔ ن لیگ کے لوگوں نے ان ووٹرز کو یوتھیا اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا ۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ عمران کے ساتھ ساتھ اس کے ووٹرز بھی غیر سنجیدہ لونڈے لپاڑے ہیں اور ملکی سیاست میں ان کی کوئی جگہ نہیں ۔ اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دل میں بھی عمران کی بہت قدر ہے ۔
یہ لوگ پاکستان کے زر مبادلہ کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ان لوگوں کو بھی اسی لاٹھی سے ہانک دیا کہ جس سے پاکستان کے تعلیم یافتہ پروفیشنلز کو ہانکا جا رہا تھا ۔ کسی بھی سپہ سالار کے لیے ضروری ہے کہ اسے اپنی قوت کے ساتھ ساتھ دشمن کی قوت کا بھی اندازہ ہو۔ یہ درست کہ اپنے سپاہیوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے دشمن کو اپنے سے کم تر اور قابل تسخیر دکھایا جاتا ہے تاہم تحریک انصاف کے معاملے میں مجھے محسوس ہوا کہ ن لیگ اس کی سیاسی قوت کا اندازہ نہیں لگا سکی ۔ حوصلوں کا بلند ہونا اچھی بات ہے مگر مخالف کی قوت کا درست تخمینہ نہ لگانا جرنیل کی سب اچھائیوں پہ پانی پھیر دیتا ہے ۔
ن لیگ نے ملک کی قابل ذکر پارٹیوں سے مل کر تحریک انصاف کو سیاست بدر کرنے کی کوشش بھی کی اور اسے سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم بھی نہیں کیا ۔ اس کے خلاف اتحاد بھی بناتے رہے اور عمران کو تنہائی کا طعنہ بھی دیتے رہے۔ جس سے ایک طرف تو اس کا کارکن کنفیوز ہو گیا دوسری طرف دونوں جماعتوں میں بہت گہری اور وسیع خلیج پیدا ہوگئی۔ اس دوری میں یقیناً عمران خان کی ضد بلکہ ہٹ دھرمی کا بھی ہاتھ ہے مگر یہ وجہ بھی ہے کہ نواز لیگ نے صورت حال کا درست اندازہ نہیں لگایا یا لگایا تو ہم ایسے عام لوگوں کو بتانا پسند نہیں کیا ۔
وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی کہ عمران اس قابل نہیں کہ اسے مخالف سمجھا جائے ۔ جب سیاسی مخالفت نہ ہو تو دشمنی جنم لیتی ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں میں دشمنی کی فضا ہے یہ دشمنی اتنی شدید ہے کہ جب ایسٹیبلمنٹ نے عمران خان سے نظریں پھیریں تو ن لیگ اور دیگر جمہوری قوتیں جھٹ سے ایسٹبلشمنٹ سے نتھی ہو گئیں ۔ یہ بھی ن لیگ کی غلطی ہے کہ اس نے پرویز مشرف دور سے جو موقف اختیار کیا تھا اس سے یو ٹرن لے لیا ۔
جمہوریت کا تقاضا یہ تھا کہ اس موقع پر ایسٹیبلشمنٹ کے خلاف زیادہ مضبوط موقف اختیار کیا جاتا ۔ دوہزار اٹھارہ کے اپنے کالم میں میں نے پیشین گوئی کی تھی کہ ” عمران میں دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت زیادہ نہیں ۔ اس کی ایسٹیبلشمنٹ سے ضرور بگڑے گی اور وہ موقع ہوگا کہ ن لیگ اور دیگر پارٹیاں عمران پر طعنہ زنی کرنے کی بجائے اس کو بھی ساتھ ملائیں اور ایسٹیبلشمنٹ کا راستہ ہمیشہ کے لیے روک دیں ‘۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور آج بھی ایسٹبلشمنٹ کو اپنے بچے جمہورے ڈھونڈنے میں زیادہ تگ و دو نہ کرنی پڑی ۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں انیس سو ستتر میں تھے۔ اگر پاکستان کی سیاسی پارٹیاں بالعموم اور ن لیگ بالخصوص تحریک انصاف کو سیاسی قوت تسلیم کر لیتیں تو یہ میز پر بیٹھ کر مسائل حل کرسکتے تھے اور کیا بعید کہ کوئی نیا میثاق جمہوریت بھی ہو جاتا ۔