سانحہ مری عمران خان حکومت کے لیے لال مسجد بن چکا ہے۔ لال مسجد میں آپریشن کی پہلی زد ق لیگ کی حکومت پر پڑی تھی۔ آئندہ عام انتخابات میں عوام نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اس کی اگلی ضرب جنرل مشرف پر پڑی اور اقتدار کے ایوان سے انھیں مکھی میں سے بال کی طرح باہر نکال دیا گیا۔
عمران خان حکومت کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
سانحہ مری ایک ایسا ہی حادثہ ہے جس نے اس حکومت کی ہر قسم کی نا اہلی کو بے نقاب کر دیا ہے۔
یہ سانحہ اس حکومت کے جرائم کے خلاف ایف آئی آر بن جائے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک سنگین انتظامی نا اہلی کی تحقیقات اس حکومت نے انتظامیہ ہی کے سپرد کر دی ہیں۔ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ حکومت ان تحقیقات کو دبا دینا چاہتی ہے۔
عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ لگانے کے فیصلے کی ہر سطح پر مخالفت کی گئی تھی۔ عثمان بزدار کی نا اہلی اور ناتجربہ کاری بار بار ثابت ہوئی۔ سانحہ مری نے ان کی نااہلی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ان کی نا اہلی دراصل عمران خان کی نااہلی ہے۔ عوام سے لے کر طاقت ور طبقات تک، سب اس حقیقت سے متفق ہو چکے ہیں۔ اس حکومت کے خلاف ایف آئی کا یہ سب سے مضبوط نکتہ ہے۔ یہ سانحہ اس حکومت کے لیے لال مسجد بن چکا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
تیرہ جنوری: آج پاکستان کے مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان کی برسی ہے
عبوری وزیر اعظم کے لیے سید فخر امام کے نام پر اتفاق
سانحہ مری کی دو حقیقی وجوہات جو توجہ سے محروم ہیں
خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات اس حکومت کے خاتمے کی بنیاد بن چکے ہیں۔ یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ حکومت انتخابات کا دوسرا مرحلہ جیتنے کے لیے دھاندلی کرانا چاہتی ہے۔ جن اضلاع میں انتخابات ہونا ہیں، ان کے ڈی سیز کی تبدیلی اس کا ثبوت بن چکی ہے۔ اس طرز عمل کی وجہ سے خود ہی ٹی آئی کے اپنے لوگ اسے دو چہروں والی جماعت قرار دے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب اہم افراد نے اس جماعت کو چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ پرویز خٹک کے بھانجے اس کی نمایاں مثال ہیں۔
اس حکومت کے خلاف تیسری ایف آئی آر منی بجٹ کی صورت میں کٹی ہے۔ منی بجٹ کا منظور ہونا یا نہ ہونا اہم نہیں۔ اس کی منظوری سے پہلے اس کے اپنے ارکان اسمبلی کا رویہ اہم ہے۔ ان ارکان نے منی بجٹ کو ملک دشمنی قرار دیا اور اسے سیکیورٹی رسک کہنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ منی بجٹ کی منظوری کے بعد جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، یہ بجٹ اس حکومت اور اسے کے سربراہ کے گلے میں شکنجے کی طرح کستا چلا جائے گا۔
حزب اختلاف ہو یا طاقت ور طبقات، یہ سب عمران خان کی حکومت سے نجات کے آرزو مند ہیں۔ اس مقصد کے لیے اس حکومت کی نا اہلی اور بدانتظامی سے متعلق یہ تین نکات ان کے ہاتھ میں ترپ کا پتہ ہیں۔