Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ڈھکن بڑی کار آمد چیز ہے۔ موجودہ دور میں تو کچھ زیادہ ہی۔ یہ بیان بازی کا زمانہ ہے۔ بیان بازی ذرا کمزور لفظ ہے، لتے لینا کہئے۔ ویسے لوگ لتے لیتے ہوئے بھی کچھ خیال کر لیتے ہیں۔ موجودہ انصافی دور میں جس قسم کے لتے لیے جاتے ہیں اور طبیعیت منغض ہوتی ہے، اس کے تدارک کے لیے کہا جاتا ہے کہ ذرا اس کے منہ پر ڈھکن تو دینا
۔۔۔
یوں تو ایسا کون ہے جو ڈھکن سے واقف نہ ہو اکثر لوگ کسی نہ کسی بہانے سے ایک دوسرے کو ڈھکن کے لقب سے یاد کرتے رہتے ہیں۔ اور کہتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں شخص تو بڑا ہی ڈھکن ہے۔ اب یہ تو کہنے والا ہی جان سکتا ہے کہ اس کی ڈھکن سے کیا مراد ہے۔ آیا مزکورہ شخص بالکل ہی عقل سے پیدل ہے یا کوڑھ مغز ہے۔ یا حد سے زیادہ ہوشیار اور عیار ہے۔ گزشتہ دنوں ہماری سیاست میں بھی ڈھکن کا کافی شور ہوا۔ جب ایک ایم این اے نے کھلے گٹرروں پر ڈھکن رکھ کر تصویریں کھنچوائیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کافی دنوں تک ان کی اس مہم کا چرچا رہا۔
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نیں کہا ڈھکن تیرا
ڈھکن پر یاد آیا کہ ایک پارٹی کے لیڈر نے پریس کانفرنس میں اپنی پانی کی بوتل سے ڈھکن کھولنے کی کوشش کی۔ جس کو پڑوس میں بیٹھے صوبائی وزیر نے فوراً لپک لیا۔ پھر نہ صرف ڈھکن کھول کر پانی کی بوتل اپنے لیڈر موصوف کو پیش کی بلکہ اسے ٹیشو پیپر سے صاف کرکے اپنے ہاتھ میں لیے رکھا۔
یہ بھی دیکھئے:
جب لیڈر صاحب نے پانی پی لیا تو انھوں نے ڈھکن سے بوتل بند کر کے رکھ دی۔ آج ہمیں احساس ہوا کہ لوگ ایسے ہی نہی وزیر بن جاتے بلکہ اس کیلیے کچھ اضافی خدمات بھی درکار ہیں۔ مثلاً ڈھکن کھولنا اور بند کرنا بھی آنا چاہیے۔
بظاہر تو یہ بڑی معمولی سی شے ہے مگر ہے بڑی کام کی شے۔ اس سے آپ ہر طرح کی بوتل کا منہ بند کرسکتے ہیں۔ اب چاہے وہ بوتل شراب کی ہو یا شہد کی یا پھر سرکہ کی۔ اگر یہ نہ ہو تو بوتل کھلی رہ جاتی ہے۔ اس میں ملاوٹ کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ملاوٹ سے کسی بھی شے کی اصلیت بدل جاتی ہے۔ کبھی کبھی شراب کی بوتل لیباریٹری پہنچ کر شہد کی بوتل بن جاتی ہے۔ کیونکہ یار لوگ جلدی میں بند کرنا بھول گئے تھے۔ اسی لیے سیانے ہمیشہ اپنی بوتل پر اسے لگا کر رکھتے ہیں کہ مبادہ ملاوٹ نہ ہوجائے اور لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ڈھکن کا ذکر ہو اور خواتین کا ذکر خیر نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔ ہر خاتون خانہ جو کچن سے شغف رکھتی ہیں۔ یہ چیز ان کی ندگی کا لازمی حصہ ہے۔ ساری زندگی بے چاریاں پتیلیوں پر رکھتی اور اتارتی ریتی ہیں۔ کبھی کبھی ڈھکن رکھنے اتارنے سے کھانا صحیح سے نہیں پکتا۔ اور ذائقہ خراب ہوجاتا ہے۔ جس کا خمیازہ بعدازاں صاحب خانہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ڈھکن لگانے اور ہٹانے کے بھی کچھ اصول ہیں۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو زندگی خوشگوار گزرتی ہے ورنہ اکثر جوتوں میں دال بٹتی ہے۔ کھانا بدمزہ ہوجاتا ہے اور گوشت گلنے سے رہ جاتا ہے نتیجتاً تنازع کا باعث بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ تین عوامل جو عمران خان حکومت کا دھڑن تختہ کریں گے
تیرہ جنوری: آج پاکستان کے مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان کی برسی ہے
عبوری وزیر اعظم کے لیے سید فخر امام کے نام پر اتفاق
یوں تو ڈھکن کئی سائز کے ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک کو فٹ بھی نہیں آتا۔ لہٰذا اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ یہ صحیح صحیح فٹ بیٹھ جائے۔ ورنہ وہ آپ کو بٹھاسکتا ہے اگر پریشر ککر کا ہو تو خطرہ صاف ظاہر ہے۔ اکثر نمک کالی مرچ وغیرہ شیشیوں میں رکھی جاتی ہیں۔ مگر اس میں حسب ضرورت و ذائقہ سوراخ بنے ہوتے ہیں۔ جن سے نمک پاشی کا کام لیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی غلط ڈھکن کی وجہ سے نمک پاشی کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ خاتون خانہ کو اس کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ڈھکن کا صحیح اور بروقت استعمال کھانے کو چارچاند لگادیتا ہے۔ ورنہ قارئین آپ تو جانتے ہی ہیں اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔
اکثر ہم نے تو بچوں کو کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کے ڈھکنوں سے بھی کھیلتے دیکھا ہے۔ کئی دفعہ تو لوگ محاورةً بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص اگر بہت باتونی ہو اور بلاتکان بولے جارہا ہو تو اسے چپ کرانے کیلیے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی ہے جو اس کے منہ پر ڈھکن لگائے۔ اب یہاں مقصد اصلی ڈھکن لگانا نہیں ہے بلکہ کسی طرح اسے چپ کرانا مقصود ہے۔ اکثر لوگ ایک دوسرے کو ڈھکن کے القاب سے یاد کرتے پائے جاتے ہیں۔ مگر اس سے واضح نہیں ہوتا کہ صاحبخطاب ذہین و فطین ہیں یا بے وقوف و غبی۔ اس کیلیے ان کی دیگر خصوصیات اور حر کات و سکنات کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو ڈھکن کے غلط استعمال سے محفوظ رکھے۔ آمین
ڈھکن بڑی کار آمد چیز ہے۔ موجودہ دور میں تو کچھ زیادہ ہی۔ یہ بیان بازی کا زمانہ ہے۔ بیان بازی ذرا کمزور لفظ ہے، لتے لینا کہئے۔ ویسے لوگ لتے لیتے ہوئے بھی کچھ خیال کر لیتے ہیں۔ موجودہ انصافی دور میں جس قسم کے لتے لیے جاتے ہیں اور طبیعیت منغض ہوتی ہے، اس کے تدارک کے لیے کہا جاتا ہے کہ ذرا اس کے منہ پر ڈھکن تو دینا
۔۔۔
یوں تو ایسا کون ہے جو ڈھکن سے واقف نہ ہو اکثر لوگ کسی نہ کسی بہانے سے ایک دوسرے کو ڈھکن کے لقب سے یاد کرتے رہتے ہیں۔ اور کہتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں شخص تو بڑا ہی ڈھکن ہے۔ اب یہ تو کہنے والا ہی جان سکتا ہے کہ اس کی ڈھکن سے کیا مراد ہے۔ آیا مزکورہ شخص بالکل ہی عقل سے پیدل ہے یا کوڑھ مغز ہے۔ یا حد سے زیادہ ہوشیار اور عیار ہے۔ گزشتہ دنوں ہماری سیاست میں بھی ڈھکن کا کافی شور ہوا۔ جب ایک ایم این اے نے کھلے گٹرروں پر ڈھکن رکھ کر تصویریں کھنچوائیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کافی دنوں تک ان کی اس مہم کا چرچا رہا۔
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نیں کہا ڈھکن تیرا
ڈھکن پر یاد آیا کہ ایک پارٹی کے لیڈر نے پریس کانفرنس میں اپنی پانی کی بوتل سے ڈھکن کھولنے کی کوشش کی۔ جس کو پڑوس میں بیٹھے صوبائی وزیر نے فوراً لپک لیا۔ پھر نہ صرف ڈھکن کھول کر پانی کی بوتل اپنے لیڈر موصوف کو پیش کی بلکہ اسے ٹیشو پیپر سے صاف کرکے اپنے ہاتھ میں لیے رکھا۔
یہ بھی دیکھئے:
جب لیڈر صاحب نے پانی پی لیا تو انھوں نے ڈھکن سے بوتل بند کر کے رکھ دی۔ آج ہمیں احساس ہوا کہ لوگ ایسے ہی نہی وزیر بن جاتے بلکہ اس کیلیے کچھ اضافی خدمات بھی درکار ہیں۔ مثلاً ڈھکن کھولنا اور بند کرنا بھی آنا چاہیے۔
بظاہر تو یہ بڑی معمولی سی شے ہے مگر ہے بڑی کام کی شے۔ اس سے آپ ہر طرح کی بوتل کا منہ بند کرسکتے ہیں۔ اب چاہے وہ بوتل شراب کی ہو یا شہد کی یا پھر سرکہ کی۔ اگر یہ نہ ہو تو بوتل کھلی رہ جاتی ہے۔ اس میں ملاوٹ کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ملاوٹ سے کسی بھی شے کی اصلیت بدل جاتی ہے۔ کبھی کبھی شراب کی بوتل لیباریٹری پہنچ کر شہد کی بوتل بن جاتی ہے۔ کیونکہ یار لوگ جلدی میں بند کرنا بھول گئے تھے۔ اسی لیے سیانے ہمیشہ اپنی بوتل پر اسے لگا کر رکھتے ہیں کہ مبادہ ملاوٹ نہ ہوجائے اور لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ڈھکن کا ذکر ہو اور خواتین کا ذکر خیر نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔ ہر خاتون خانہ جو کچن سے شغف رکھتی ہیں۔ یہ چیز ان کی ندگی کا لازمی حصہ ہے۔ ساری زندگی بے چاریاں پتیلیوں پر رکھتی اور اتارتی ریتی ہیں۔ کبھی کبھی ڈھکن رکھنے اتارنے سے کھانا صحیح سے نہیں پکتا۔ اور ذائقہ خراب ہوجاتا ہے۔ جس کا خمیازہ بعدازاں صاحب خانہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ڈھکن لگانے اور ہٹانے کے بھی کچھ اصول ہیں۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو زندگی خوشگوار گزرتی ہے ورنہ اکثر جوتوں میں دال بٹتی ہے۔ کھانا بدمزہ ہوجاتا ہے اور گوشت گلنے سے رہ جاتا ہے نتیجتاً تنازع کا باعث بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ تین عوامل جو عمران خان حکومت کا دھڑن تختہ کریں گے
تیرہ جنوری: آج پاکستان کے مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان کی برسی ہے
عبوری وزیر اعظم کے لیے سید فخر امام کے نام پر اتفاق
یوں تو ڈھکن کئی سائز کے ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک کو فٹ بھی نہیں آتا۔ لہٰذا اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ یہ صحیح صحیح فٹ بیٹھ جائے۔ ورنہ وہ آپ کو بٹھاسکتا ہے اگر پریشر ککر کا ہو تو خطرہ صاف ظاہر ہے۔ اکثر نمک کالی مرچ وغیرہ شیشیوں میں رکھی جاتی ہیں۔ مگر اس میں حسب ضرورت و ذائقہ سوراخ بنے ہوتے ہیں۔ جن سے نمک پاشی کا کام لیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی غلط ڈھکن کی وجہ سے نمک پاشی کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ خاتون خانہ کو اس کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ڈھکن کا صحیح اور بروقت استعمال کھانے کو چارچاند لگادیتا ہے۔ ورنہ قارئین آپ تو جانتے ہی ہیں اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔
اکثر ہم نے تو بچوں کو کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کے ڈھکنوں سے بھی کھیلتے دیکھا ہے۔ کئی دفعہ تو لوگ محاورةً بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص اگر بہت باتونی ہو اور بلاتکان بولے جارہا ہو تو اسے چپ کرانے کیلیے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی ہے جو اس کے منہ پر ڈھکن لگائے۔ اب یہاں مقصد اصلی ڈھکن لگانا نہیں ہے بلکہ کسی طرح اسے چپ کرانا مقصود ہے۔ اکثر لوگ ایک دوسرے کو ڈھکن کے القاب سے یاد کرتے پائے جاتے ہیں۔ مگر اس سے واضح نہیں ہوتا کہ صاحبخطاب ذہین و فطین ہیں یا بے وقوف و غبی۔ اس کیلیے ان کی دیگر خصوصیات اور حر کات و سکنات کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو ڈھکن کے غلط استعمال سے محفوظ رکھے۔ آمین
ڈھکن بڑی کار آمد چیز ہے۔ موجودہ دور میں تو کچھ زیادہ ہی۔ یہ بیان بازی کا زمانہ ہے۔ بیان بازی ذرا کمزور لفظ ہے، لتے لینا کہئے۔ ویسے لوگ لتے لیتے ہوئے بھی کچھ خیال کر لیتے ہیں۔ موجودہ انصافی دور میں جس قسم کے لتے لیے جاتے ہیں اور طبیعیت منغض ہوتی ہے، اس کے تدارک کے لیے کہا جاتا ہے کہ ذرا اس کے منہ پر ڈھکن تو دینا
۔۔۔
یوں تو ایسا کون ہے جو ڈھکن سے واقف نہ ہو اکثر لوگ کسی نہ کسی بہانے سے ایک دوسرے کو ڈھکن کے لقب سے یاد کرتے رہتے ہیں۔ اور کہتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں شخص تو بڑا ہی ڈھکن ہے۔ اب یہ تو کہنے والا ہی جان سکتا ہے کہ اس کی ڈھکن سے کیا مراد ہے۔ آیا مزکورہ شخص بالکل ہی عقل سے پیدل ہے یا کوڑھ مغز ہے۔ یا حد سے زیادہ ہوشیار اور عیار ہے۔ گزشتہ دنوں ہماری سیاست میں بھی ڈھکن کا کافی شور ہوا۔ جب ایک ایم این اے نے کھلے گٹرروں پر ڈھکن رکھ کر تصویریں کھنچوائیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کافی دنوں تک ان کی اس مہم کا چرچا رہا۔
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نیں کہا ڈھکن تیرا
ڈھکن پر یاد آیا کہ ایک پارٹی کے لیڈر نے پریس کانفرنس میں اپنی پانی کی بوتل سے ڈھکن کھولنے کی کوشش کی۔ جس کو پڑوس میں بیٹھے صوبائی وزیر نے فوراً لپک لیا۔ پھر نہ صرف ڈھکن کھول کر پانی کی بوتل اپنے لیڈر موصوف کو پیش کی بلکہ اسے ٹیشو پیپر سے صاف کرکے اپنے ہاتھ میں لیے رکھا۔
یہ بھی دیکھئے:
جب لیڈر صاحب نے پانی پی لیا تو انھوں نے ڈھکن سے بوتل بند کر کے رکھ دی۔ آج ہمیں احساس ہوا کہ لوگ ایسے ہی نہی وزیر بن جاتے بلکہ اس کیلیے کچھ اضافی خدمات بھی درکار ہیں۔ مثلاً ڈھکن کھولنا اور بند کرنا بھی آنا چاہیے۔
بظاہر تو یہ بڑی معمولی سی شے ہے مگر ہے بڑی کام کی شے۔ اس سے آپ ہر طرح کی بوتل کا منہ بند کرسکتے ہیں۔ اب چاہے وہ بوتل شراب کی ہو یا شہد کی یا پھر سرکہ کی۔ اگر یہ نہ ہو تو بوتل کھلی رہ جاتی ہے۔ اس میں ملاوٹ کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ملاوٹ سے کسی بھی شے کی اصلیت بدل جاتی ہے۔ کبھی کبھی شراب کی بوتل لیباریٹری پہنچ کر شہد کی بوتل بن جاتی ہے۔ کیونکہ یار لوگ جلدی میں بند کرنا بھول گئے تھے۔ اسی لیے سیانے ہمیشہ اپنی بوتل پر اسے لگا کر رکھتے ہیں کہ مبادہ ملاوٹ نہ ہوجائے اور لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ڈھکن کا ذکر ہو اور خواتین کا ذکر خیر نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔ ہر خاتون خانہ جو کچن سے شغف رکھتی ہیں۔ یہ چیز ان کی ندگی کا لازمی حصہ ہے۔ ساری زندگی بے چاریاں پتیلیوں پر رکھتی اور اتارتی ریتی ہیں۔ کبھی کبھی ڈھکن رکھنے اتارنے سے کھانا صحیح سے نہیں پکتا۔ اور ذائقہ خراب ہوجاتا ہے۔ جس کا خمیازہ بعدازاں صاحب خانہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ڈھکن لگانے اور ہٹانے کے بھی کچھ اصول ہیں۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو زندگی خوشگوار گزرتی ہے ورنہ اکثر جوتوں میں دال بٹتی ہے۔ کھانا بدمزہ ہوجاتا ہے اور گوشت گلنے سے رہ جاتا ہے نتیجتاً تنازع کا باعث بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ تین عوامل جو عمران خان حکومت کا دھڑن تختہ کریں گے
تیرہ جنوری: آج پاکستان کے مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان کی برسی ہے
عبوری وزیر اعظم کے لیے سید فخر امام کے نام پر اتفاق
یوں تو ڈھکن کئی سائز کے ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک کو فٹ بھی نہیں آتا۔ لہٰذا اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ یہ صحیح صحیح فٹ بیٹھ جائے۔ ورنہ وہ آپ کو بٹھاسکتا ہے اگر پریشر ککر کا ہو تو خطرہ صاف ظاہر ہے۔ اکثر نمک کالی مرچ وغیرہ شیشیوں میں رکھی جاتی ہیں۔ مگر اس میں حسب ضرورت و ذائقہ سوراخ بنے ہوتے ہیں۔ جن سے نمک پاشی کا کام لیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی غلط ڈھکن کی وجہ سے نمک پاشی کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ خاتون خانہ کو اس کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ڈھکن کا صحیح اور بروقت استعمال کھانے کو چارچاند لگادیتا ہے۔ ورنہ قارئین آپ تو جانتے ہی ہیں اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔
اکثر ہم نے تو بچوں کو کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کے ڈھکنوں سے بھی کھیلتے دیکھا ہے۔ کئی دفعہ تو لوگ محاورةً بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص اگر بہت باتونی ہو اور بلاتکان بولے جارہا ہو تو اسے چپ کرانے کیلیے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی ہے جو اس کے منہ پر ڈھکن لگائے۔ اب یہاں مقصد اصلی ڈھکن لگانا نہیں ہے بلکہ کسی طرح اسے چپ کرانا مقصود ہے۔ اکثر لوگ ایک دوسرے کو ڈھکن کے القاب سے یاد کرتے پائے جاتے ہیں۔ مگر اس سے واضح نہیں ہوتا کہ صاحبخطاب ذہین و فطین ہیں یا بے وقوف و غبی۔ اس کیلیے ان کی دیگر خصوصیات اور حر کات و سکنات کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو ڈھکن کے غلط استعمال سے محفوظ رکھے۔ آمین
ڈھکن بڑی کار آمد چیز ہے۔ موجودہ دور میں تو کچھ زیادہ ہی۔ یہ بیان بازی کا زمانہ ہے۔ بیان بازی ذرا کمزور لفظ ہے، لتے لینا کہئے۔ ویسے لوگ لتے لیتے ہوئے بھی کچھ خیال کر لیتے ہیں۔ موجودہ انصافی دور میں جس قسم کے لتے لیے جاتے ہیں اور طبیعیت منغض ہوتی ہے، اس کے تدارک کے لیے کہا جاتا ہے کہ ذرا اس کے منہ پر ڈھکن تو دینا
۔۔۔
یوں تو ایسا کون ہے جو ڈھکن سے واقف نہ ہو اکثر لوگ کسی نہ کسی بہانے سے ایک دوسرے کو ڈھکن کے لقب سے یاد کرتے رہتے ہیں۔ اور کہتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں شخص تو بڑا ہی ڈھکن ہے۔ اب یہ تو کہنے والا ہی جان سکتا ہے کہ اس کی ڈھکن سے کیا مراد ہے۔ آیا مزکورہ شخص بالکل ہی عقل سے پیدل ہے یا کوڑھ مغز ہے۔ یا حد سے زیادہ ہوشیار اور عیار ہے۔ گزشتہ دنوں ہماری سیاست میں بھی ڈھکن کا کافی شور ہوا۔ جب ایک ایم این اے نے کھلے گٹرروں پر ڈھکن رکھ کر تصویریں کھنچوائیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کافی دنوں تک ان کی اس مہم کا چرچا رہا۔
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نیں کہا ڈھکن تیرا
ڈھکن پر یاد آیا کہ ایک پارٹی کے لیڈر نے پریس کانفرنس میں اپنی پانی کی بوتل سے ڈھکن کھولنے کی کوشش کی۔ جس کو پڑوس میں بیٹھے صوبائی وزیر نے فوراً لپک لیا۔ پھر نہ صرف ڈھکن کھول کر پانی کی بوتل اپنے لیڈر موصوف کو پیش کی بلکہ اسے ٹیشو پیپر سے صاف کرکے اپنے ہاتھ میں لیے رکھا۔
یہ بھی دیکھئے:
جب لیڈر صاحب نے پانی پی لیا تو انھوں نے ڈھکن سے بوتل بند کر کے رکھ دی۔ آج ہمیں احساس ہوا کہ لوگ ایسے ہی نہی وزیر بن جاتے بلکہ اس کیلیے کچھ اضافی خدمات بھی درکار ہیں۔ مثلاً ڈھکن کھولنا اور بند کرنا بھی آنا چاہیے۔
بظاہر تو یہ بڑی معمولی سی شے ہے مگر ہے بڑی کام کی شے۔ اس سے آپ ہر طرح کی بوتل کا منہ بند کرسکتے ہیں۔ اب چاہے وہ بوتل شراب کی ہو یا شہد کی یا پھر سرکہ کی۔ اگر یہ نہ ہو تو بوتل کھلی رہ جاتی ہے۔ اس میں ملاوٹ کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ملاوٹ سے کسی بھی شے کی اصلیت بدل جاتی ہے۔ کبھی کبھی شراب کی بوتل لیباریٹری پہنچ کر شہد کی بوتل بن جاتی ہے۔ کیونکہ یار لوگ جلدی میں بند کرنا بھول گئے تھے۔ اسی لیے سیانے ہمیشہ اپنی بوتل پر اسے لگا کر رکھتے ہیں کہ مبادہ ملاوٹ نہ ہوجائے اور لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ڈھکن کا ذکر ہو اور خواتین کا ذکر خیر نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔ ہر خاتون خانہ جو کچن سے شغف رکھتی ہیں۔ یہ چیز ان کی ندگی کا لازمی حصہ ہے۔ ساری زندگی بے چاریاں پتیلیوں پر رکھتی اور اتارتی ریتی ہیں۔ کبھی کبھی ڈھکن رکھنے اتارنے سے کھانا صحیح سے نہیں پکتا۔ اور ذائقہ خراب ہوجاتا ہے۔ جس کا خمیازہ بعدازاں صاحب خانہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ڈھکن لگانے اور ہٹانے کے بھی کچھ اصول ہیں۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو زندگی خوشگوار گزرتی ہے ورنہ اکثر جوتوں میں دال بٹتی ہے۔ کھانا بدمزہ ہوجاتا ہے اور گوشت گلنے سے رہ جاتا ہے نتیجتاً تنازع کا باعث بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ تین عوامل جو عمران خان حکومت کا دھڑن تختہ کریں گے
تیرہ جنوری: آج پاکستان کے مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان کی برسی ہے
عبوری وزیر اعظم کے لیے سید فخر امام کے نام پر اتفاق
یوں تو ڈھکن کئی سائز کے ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک کو فٹ بھی نہیں آتا۔ لہٰذا اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ یہ صحیح صحیح فٹ بیٹھ جائے۔ ورنہ وہ آپ کو بٹھاسکتا ہے اگر پریشر ککر کا ہو تو خطرہ صاف ظاہر ہے۔ اکثر نمک کالی مرچ وغیرہ شیشیوں میں رکھی جاتی ہیں۔ مگر اس میں حسب ضرورت و ذائقہ سوراخ بنے ہوتے ہیں۔ جن سے نمک پاشی کا کام لیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی غلط ڈھکن کی وجہ سے نمک پاشی کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ خاتون خانہ کو اس کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ڈھکن کا صحیح اور بروقت استعمال کھانے کو چارچاند لگادیتا ہے۔ ورنہ قارئین آپ تو جانتے ہی ہیں اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔
اکثر ہم نے تو بچوں کو کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کے ڈھکنوں سے بھی کھیلتے دیکھا ہے۔ کئی دفعہ تو لوگ محاورةً بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص اگر بہت باتونی ہو اور بلاتکان بولے جارہا ہو تو اسے چپ کرانے کیلیے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی ہے جو اس کے منہ پر ڈھکن لگائے۔ اب یہاں مقصد اصلی ڈھکن لگانا نہیں ہے بلکہ کسی طرح اسے چپ کرانا مقصود ہے۔ اکثر لوگ ایک دوسرے کو ڈھکن کے القاب سے یاد کرتے پائے جاتے ہیں۔ مگر اس سے واضح نہیں ہوتا کہ صاحبخطاب ذہین و فطین ہیں یا بے وقوف و غبی۔ اس کیلیے ان کی دیگر خصوصیات اور حر کات و سکنات کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو ڈھکن کے غلط استعمال سے محفوظ رکھے۔ آمین