کیا سید فخر امام پر قسمت مہربان ہو جائے؟ اس بارے میں تو یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن حالات کی رفتار یہی بتاتی ہے کہ وہ آئندہ عبوری وزیر اعظم ہوں گے۔
یہ کہانی دراصل کچھ خبروں سے شروع ہوئی۔ ان خبروں میں بتایا گیا تھا کہ میاں محمد نواز شریف عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر متفق ہو گئے ہیں۔ اب اس معاملے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک ساتھ آگے بڑھیں گی۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو پھر گزشتہ روز اسلام آباد آصف علی زرداری نے ایسا کیوں کیا کہ ان کی جماعت کے پی ڈی ایم میں واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ دوسرے پیپلز پارٹی فروری میں لانگ مارچ کا پروگرام بنا چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کا یہ پروگرام ظاہر کرتا ہے کہ اس جماعت کی مسلم لیگ سے کوئی مفاہمت نہیں ہوئی۔ یہ جماعت دراصل ایک موقع سے فایدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
یہ موقع میاں نواز شریف کی طرف سے اپنے مؤقف پر جمے رہنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ میاں صاحب چوں کہ کوئی لچک پیدا کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، اس لیے پیپلز اس موقع سے فایدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ کیاوہ فایدہ اٹھا پائے گی، یہ زیادہ یقینی نہیں۔ اس کے علاوہ مسلم۔لیگ اس کے ساتھ ایسا کوئی تعاون نہیں کرے گی جس سے اسے کوئی موقع مل سکے۔
یہ بھی پڑھئے:
بارہ جنوری: آج نامور شاعر احمد فراز کی سال گرہ ہے
سانحہ مری کی دو حقیقی وجوہات جو توجہ سے محروم ہیں
مری والوں کو برا بھلا کہنا اب بند کریں
معاملات آگے اسی وقت بڑھیں گے جب میاں صاحب مطمئن ہوں گے۔ میاں صاحب کے مطمئن ہوتے ہی اس حکومت کی رخصتی کا طریقہ کار طے ہو جائے گا۔ اس سوال یہ ہو گا کہ اس عبوری عرصے میں حکومت کی قیادت کون کرے۔ آوازہ کے ذرائع کے مطابق میاں صاحب چاہتے ہیں کہ یہ قرعہ فال سید فخر امام کے نام نکلے۔ فخر امام ایک ایسی شخصیت ہیں جن پر سب لوگ متفق ہو سکتے ہیں۔