مری والوں پر تبرا بازی ختم ہونی چاہیے۔ میں ایسا کیوں کہتا ہوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سانحہ مری کی دو حقیقی وجوہات پر توجہ نہیں دی جا رہی۔
اس سانحے کی پہلی اور اہم ترین وجہ حقائق سے بے خبری۔ جو لوگ مری والوں کی مذمت کر رہے ہیں، انھیں حقائق کی کچھ خبر نہیں۔
مری کا سانحہ ایک انتظامی مسئلہ ہے۔ یہ جاننے کے باوجود تصدیق کے لیے میں نے بیوروکریسی کے ایک اہم ذمے دار سے بات کی۔ یہ صاحب ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ لگی لپٹی رکھے بغیر دوٹوک بات کرتے ہیں۔ انھوں نے میرا سوال سنتے ہی کہا کہ بنیادی زمہ داری ڈی سی او اور ڈی پی او اور ان کے عملے کی ہے۔ یہ لوگ بروقت متحرک نہ ہو سکے۔
یہ دو مناصب متحرک ہو جاتے تو مری صرف اتنے ہی لوگ آتے جتنے آنے چاہئے تھے۔ یوں کسی حادثے کا امکان ٹل جاتا۔
سانحہ مری کے بارے میں یہ وی لاگ دیکھئے:
سانحہ مری کے دوسرے پہلو کا تعلق ہوٹل کے کاروبار سے ہے۔ شکایات سامنے آئی ہیں کہ ہوٹل والوں نے سیاحوں کو لوٹا۔ دو چار ہزار روپے روزانہ والے کمرے بیس پچیس ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے پر کرائے پر دیے گئے۔ بوائلڈ انڈہ اور گرم پانی پانچ سو روپے سے ہزار روپے میں فروخت ہوا۔
یہ سب کیوں ہوا؟ اس کا ایک انسانی پہلو ضرور ہے لیکن زیادہ اہم پہلو انتظامی ہے۔ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے لیے جنرل مشرف کی اصلاحات سے قبل سی آر پی سی کے تحت میجسٹریٹ ایسے معاملات کو سنبھال لیا کرتے تھے۔ ان اصلاحات کے بعد یہ اختیار سول جج کے پاس چلا گیا۔ سول جج فیلڈ افسر نہیں ہے لہٰذا اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ بازار میں کیا ہو رہا ہے۔ مری میں ہوٹل کے کاروبار کے بے لگام ہونے کی اصل وجہ یہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
گیارہ جنوری: آج عدیم المثال مزاح نگار اور شاعر ابن انشا کی برسی ہے
مری والوں کو برا بھلا کہنا اب بند کریں
روزگار کا مسئلہ: جب تم جوان ہو گے، شاید تمھیں نوکری نہ ملے
ہوٹل والے مری کے ہیں یا نہیں، اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اب اس کاروبار پر نظر رکھنے والا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ اسی لیے انھیں کھلی چھوٹ مل چکی ہے۔
مری شہر میں گنجائش سے زیادہ شہریوں اور گاڑیوں کے جمع ہو جانے کی وجہ جیسے پہلے ذکر گیا ہے کہ ڈی سی او اور ڈی پی او جیسے اداروں کی بے عملی تھی۔ اس نازک موقع پر ان کے متحرک نہ ہونے کا کوئی جواز پیش کیے بغیر حقیقت یہی ہے کہ جنرل مشرف ہی کی اصلاحات نے ان محکموں کی اینیشی ایٹو لینے کی صلاحیت ختم کر دی ہے۔
مشرف کی تباہ کن اصلاحات سے قبل ڈی سی ضلعے کا انتظامی سربراہ ہوتا تھا اور تمام محکمے اس کا حکم بجا لاتے تھے۔ ان نام نہاد اصلاحات کے بعد اب اس کی یہ حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا کسی بھی ضروری موقع پر متعلقہ ادارے متحرک نہیں ہو پاتے۔ اس کی ایک مثال مری میں پھنسنے والے مسافر شہزاد کی گواہی سے ملتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس خونی رات برف ہٹانے والے محکمے کی گاڑیاں اس کے دفتر میں کھڑی تھیں۔ جو گاڑیاں متاثرہ مقامات پر موجود تھیں، ان میں تربیت یافتہ عملہ نہیں تھا۔ ان کے مطابق ان لوگوں کو اپنے کام میں کوئی دلچسپی بھی نہ تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ صبح جب شفٹ تبدیل ہوئی اور تربیت یافتہ عملہ آ پہنچا تو صورت حال بدل گئی۔ اگر جنرل مشرف سے پہلے کا ڈسٹرکٹ مینجمنٹ نظام برقرار ہوتا تو اس کوتاہی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
سانحہ مری کا ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ اس موقع پر کینٹونمنٹ بورڈ متحرک نہیں ہوا۔ یہ ادارہ متحرک کیوں نہیں ہوا، اس کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے۔
اس پس منظر میں مری کے لوگوں کو گالی دینا اور اصل حقائق کو نظر انداز کر دینا بے انصافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقامی ابادی
نے اپنی بساط سے بڑھ کر مسافروں کی مدد کی ہے۔ مقامی سماجی راہنما فرحان ارشد
عباسی سے اس سلسلے میں میرا رابطہ رہا ہے۔
وہ سیاحوں کی مدد کے لیے اس عرصے میں خود بھی متحرک رہے ہیں اور دیگر بے شمار
لوگ بھی۔ جو لوگ مری والوں کو اس نازک
وقت میں برا بھلا کہہ رہے ہیں، وہ یا تو
حقائق نہیں جانتے یا وہ بدنیت ہیں۔