’وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے پاکستان کو اس کے ابتدائی دنوں میں ہی سیاسی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے تباہی کی طرف دھکیل دیا۔‘
یہ تبصرہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں ہے جس نے قیام پاکستان سے قبل برصغیر کی تقسیم کے لیے قائم کیے جانے والے باؤنڈری کمیشن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے یہ بعد یہ شخص پنجاب چیف کورٹ (موجودہ ہائی کورٹ) کا چیف جسٹس بنا اور اس کے بعد فیڈرل کورٹ آف پاکستان (موجودہ سپریم کورٹ) کا چیف جسٹس آف پاکستان بنا
جسٹس محمد منیر جج کی حیثیت سے اپنے طویل کیرئیر کے دوران اپنا کردار ادا کر کے 26 جون 1981 کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ملک کے ممتاز قانون دان حامد خان نے پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ کے بارے میں اپنی ضخیم اور مقبول کتاب ’کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں لکھا: ’بطور جج جسٹس منیر کی قابلیت اور علمی حیثیت شک و شبہے سے بالا ہے لیکن کاش ان کے ارادے بھی نیک ہوتے۔‘
پاکستان کی قومی تاریخ میں جسٹس منیر کا کردار باؤنڈری کمیشن سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ باؤنڈری کمیشن کے ذریعے پنجاب کی ایسی تقسیم جس کی وجہ سے آزادی کے وقت بڑے پیمانے پر ہجرت اور قتل و غارت گری کے علاوہ کشمیر جیسا پیچیدہ مسئلہ بھی پیدا ہو گیا جو برصغیر کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان وجہ نزاع بنا۔
اس معاملے میں پاکستان میں باؤنڈری کمیشن (جسٹس منیر جس کے ایک رکن تھے) کے کرادر اور بعض صورتوں میں مسلم لیگی وفد کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا جاتا ہے تاہم قیام پاکستان کے بعد عدلیہ کے ایک ممتاز رکن کی حیثیت سے ان کے فیصلے بڑے پیمانے پر ہدف تنقید بنے۔
اس سلسلے میں ملک میں بہت حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے فیصلوں میں ’نظریہِ ضرورت‘ متعارف نہ کرایا ہوتا تو ملک کی تاریخ مختلف ہوتی۔
پاکستان میں جس طرح یہ اتفاق ہے کہ نظریہ ضرورت جسٹس منیر نے متعارف کرایا، اسی طرح اس پر بھی مختلف آرا نہیں پائی جاتی کہ ان کے منفی کردار کا آغاز مولوی تمیز الدین کیس سے ہوتا ہے۔
مولوی تمیز الدین کیس تو سیدھا اسمبلی کی تحلیل کے خلاف انصاف کے حصول کا مقدمہ تھا۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کے مقابلے میں جب جگتو فرنٹ نے بھاری کامیابی حاصل کر لی تو یہ مطالبہ سامنے آیا کہ اب مرکزی آئین ساز اسمبلی غیر نمائندہ ہو چکی ہے، اس لیے مرکز میں بھی نئے انتخابات کروائے جائیں۔
مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کا حشر دیکھ کر مسلم لیگ نئے انتخابات سے خوفزدہ تھی، اسے ڈر تھا کہ اگر کہیں انتخابات کرا دیے گئے تو اس کے پلے کچھ نہیں رہے گا۔ انتخابی نتائج کے خوف کے علاوہ مسلم لیگ کو کچھ عرصہ قبل وزیراعظم کی حیثیت سے خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کا بھی صدمہ تھا، حامد خان کے الفاظ میں گورنر جنرل غلام محمد نے جنھیں غیر آئینی طور پر برطرف کر دیا تھا۔
اسمبلی نے اس وقت تو کمزوری دکھائی اور خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کو قبول کرتے ہوئے ان ہی کے نامزد کردہ محمد علی بوگرہ کو بطور وزیر اعظم تسلیم کر لیا تھا لیکن اب وہ چاہتی تھی کہ وہ آئندہ ایسا کوئی اقدام نہ کر سکیں چنانچہ 21 ستمبر 1954 کو اسمبلی نے گورنر جنرل کے اسمبلی کی تحلیل اور حکومت کی برخواستگی کے اختیارات سلب کر لیے۔
موجودہ حالات کے مطابق یہ ایسی صورتحال تھی جیسے صدر مملکت کو آئین کے ارٹیکل اٹھاون ٹو بی سے محروم کر دیا جائے۔
گورنر جنرل نے آئین ساز اسمبلی کے اس اقدام کا جواب 23 روز کے بعد دیا۔ انھوں نے ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر کے آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ پاکستان کی یہ پہلی اسمبلی تھی، سربراہ ریاست نے غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے جس کا خاتمہ کیا تھا۔
حامد خان کہتے ہیں کہ گورنر جنرل کا یہ اقدام بلا جواز اور غیر قانونی تھا، ان کی رائے کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کارروائی میں فوج کی تائید شامل تھی کیونکہ اس کے بعد جو کابینہ بنائی گئی، اس میں کمانڈر انچیف (اب چیف آف آرمی اسٹاف) کو وزیر دفاع کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔
ایوب خان نے اپنی سیاسی خود نوشت ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ گورنر جنرل نے انھیں پیشکش کی تھی کہ وہ ملک کا اختیار سنبھال کر تین ماہ میں آئین تیار کریں جسے انھوں نے مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ عاقبت نا اندیشی ہو گی۔
قدرت اللہ شہاب اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فوج کا جو سربراہ اقتدار سنبھالنے کی پیشکش پر گورنر جنرل کو کھری کھری سنانے کی ہمت رکھتا ہو، اسے دیگر غیر آئینی اقدامات پر بھی اسے ٹوکنا چاہیے تھا لیکن ایسا کرنے کے بجائے وہ غیر آئینی اقدامات کے بعد بنائی جانے والی کابینہ میں فوج کا سربراہ رہتے ہوئے وزیر بن جاتا ہے جس سے ان کے دعویٰ کمزور ہو جاتا ہے۔
حامد خان کہتے ہیں کہ آئین اور جمہور کی حکمرانی کے خلاف طاقت ور طبقات کی ملی بھگت کے خلاف ایک ہی ادارے یعنی عدلیہ سے توقع تھی لیکن یہ ادارہ بھی ان ہی قوتوں کے ساتھ مل کر اقتدار کی کشمکش میں حصے دار بن گیا۔
آئین ساز اسمبلی کے صدر( اب اسپیکر) مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کے اس فیصلے کو چیف کورٹ (اب ہائی کورٹ) سندھ میں چیلنج کر دیا۔ چیف کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے بعد گورنر جنرل کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا اور آئین ساز اسمبلی کو بحال کر دیا۔
مرکزی حکومت سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں چلی گئی۔ فیڈرل کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ ٹیکنیکل یعنی اکثریتی بنیاد پر گورنر جنرل کے حق میں کر دیا یعنی قرار دیا کہ ان کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا اقدام درست تھا۔
حامد خان اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس کا سب سے کمزور پہلو یہ تھا کہ 64 صفحات کے فیصلے میں ایسی کوئی فائنڈنگ نہیں ملتی کہ آیا گورنر جنرل اسمبلی توڑنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔
حامد خان مزید لکھتے ہیں کہ جسٹس منیر جیسے شخص سے یہ قطعاً پوشیدہ نہیں تھا کہ ان کا فیصلہ ملک کے جہاز کو گہرے پانیوں میں ڈبو کر رکھ دے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس فیصلے نے جس میں گورنر جنرل کو انھوں نے ملکہ برطانیہ جیسے اختیارات دے دیے تھے، عدلیہ کے بارے میں عوام کے تاثر کو ہمیشہ کے لیے مجروح کر دیا۔
جسٹس منیر نے اپنے اس فیصلے میں سندھ چیف کورٹ کی سرزنش کی تھی اور لکھا تھا کہ عدالت فیصلہ کرتے ہوئے کبھی یہ پیش نظر نہیں رکھنا چاہئے کہ فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے۔
حامد خان اس پر تنقید کی اور لکھا ہے کہ جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے پر تو تنقید کر لی لیکن اپنا طرز عمل بھول گئے اور اپنے فیصلے کا جواز یہ پیش کیا کہ وہ اس قسم کا فیصلہ نہ دیتے تو ملک میں انقلاب آجاتا اور خون ریزی ہوتی۔
حامد خان کے خیال میں اس فیصلے کے پس پشت اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کے علاوہ برادری ازم کا تعصب بھی پایا جاتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ گورنر جنرل اور چیف جسٹس دونوں ککے زئی برادری کے چشم و چراغ تھے۔
قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت ’شہاب نامہ‘ میں اس فیصلے کے پس پشت ایک اور کہانی کا بھی انکشاف کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ جن دنوں اس مقدمے کی سماعت جاری تھی، گورنر جنرل ہاؤس کے ایک سینئر افسر فرخ امین ہر چند روز کے بعد دارالحکومت کراچی سے لاہور جایا کرتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے ان سے بازپرس کی تو انھوں نے بتایا کہ وہ گورنر جنرل کے خفیہ پیغامات چیف جسٹس تک اور چیف جسٹس کے خفیہ پیغامات گورنر جنرل تک پہنچاتے ہیں۔
مولوی تمیز الدین کیس کا فیصلہ بظاہر گورنر جنرل اور چیف جسٹس کے درمیان اسی ساز باز کا نتیجہ تھا جسے پاکستان کے عوام نے کبھی قبول نہ کیا۔
پاکستان کی سیاسی، آئینی اور عدالتی تاریخ کا اگلا سنگ میل یوسف پٹیل کیس ہے، اس مقدمے کی جڑیں بھی مولوی تمیز الدین کیس میں پیوست تھیں۔
فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے نظریہ ضرورت کی بنیاد پر مولوی تمیز الدین کیس کا جو فیصلہ دیا تھا، اس کے نتیجے میں صرف یہ نہیں ہوا کہ مقننہ بحال نہیں ہوئی بلکہ اس فیصلے کے نتیجے میں ملک کے 46 قوانین بھی کالعدم ہو گئے، اس وجہ سے کار ریاست کے روزمرہ کے امور کی انجام دہی بھی ناممکن ہو گئی اور ملک ایک بہت بڑے بحران سے دوچار ہو گیا۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے گورنر جنرل غلام محمد نے اس فیصلے کے چھ روز کے بعد ہنگامی اختیارات کے حصول کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا۔
اس آرڈیننس کے ذریعے گورنر جنرل نے جو اختیارات حاصل کیے، وہ غیر معمولی نوعیت کے سیاسی مضمرات رکھتے تھے۔ ان میں ایک اختیار مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو ون یونٹ میں تبدیل کرنے اور آئین سازی کے ضمن میں گورنر جنرل کو تمام تر اختیارات تفویض کرنے کا اختیار تھا۔
غلام محمد چاہتے تھے کہ تحلیل شدہ اسمبلی کی جگہ وہ اپنے نامزد افراد کا ایک کنوپنش منعقد کر کے ایک خود ساختہ آئین تیار کر لیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے فیڈرل کورٹ میں ایک ریفرنس بھی دائر کر دیا جب کہ ان ہی اختیارات کو ایک شہری نے بھی وفاقی عدالت میں چیلنج کردیا، یہ مقدمہ یوسف پٹیل کیس کے نام سے معروف ہوا۔
اس ریفرنس اور یوسف پٹیل کیس کے نتیجے میں گورنر جنرل کا یہ اختیار تسلیم کر لیا گیا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔ اسمبلی کی تحلیل کی وجہ سے بہت سے قوانین کی توثیق نہیں ہو سکی تھی، گورنر جنرل نے آرڈیننس کے ذریعے حاصل کیے جانے والے اختیارات کے ذریعے ان قوانین کی توثیق کر دی تھی، اس فیصلے کے ذریعے یہ توثیق اس وقت تک بحال رکھی گئی جب تک نئی آئین ساز اسمبلی وجود میں نہیں آ جاتی۔ عدالت نے نامزد افراد کے کنونشن کے ذریعے آئین سازی کی اجازت گورنر جنرل کو نہ دی۔
یہ بھی پڑھیے:
جنرل مشرف نے صدر رفیق تارڑ کو صدارت کے منصب سے کیسے معزول کیا؟
بارہ اکتوبر: جنرل مشرف کا کراچی ایئر پورٹ پر لینڈنگ سے عزیز ہم وطنو تک کا سفر
ان مقدمات کے فیصلوں کے ذریعے گورنر جنرل کو 100 فیصد کامیابی اگرچہ حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن ان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ بھی کھڑی نہیں ہوئی۔
اس پس منظر سے اشارہ ملتا ہے کہ چیف جسٹس اگر یہ مقدمہ آئینی اور قانونی بنیاد پر نمٹاتے تو فیصلہ مختلف ہوتا لیکن آئینی ماہرین اور مورخین کے مطابق ان کے پیش نظر کچھ دیگر مقاصد تھے، اس لیے انھوں نے اپنے ممکنہ فیصلے کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے جواز گھڑنے شروع کر دیے، چنانچہ ریفرنس کے فیصلے میں درج ایک جواز قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت میں درج کیا ہے:
’ہم ایک خندق کے کنارے پر آ پہنچے ہیں جہاں ہمارے سامنے صرف تین راستے ہیں: (1) جس راہ سے آئے ہیں، اسی راہ پر واپس مڑ جائیں، (2) خندق پر ایک قانونی پل تعمیر کر کے اسے عبور کر لیں (3) خندق میں چھلانگ لگا کر تباہی کا شکار ہو جائیں۔‘
جسٹس منیر نے واپس مڑنے یا خندق میں گرنے سے بچانے کا فریضہ ملک و قوم کے لیے ادا کرنے کےلیے خندق پر ایک پل تعمیر کر دیا۔
تاریخ نے اسی پل کو ’نظریہ ضرورت‘ کا نام دیا جس نے صرف عین اسی زمانے میں ملک کو ایک پیچیدہ بحران میں مبتلا کر دیا بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے مشکلات پیدا کیں جن کے آثار پینسٹھ ستر برس گزرنے کے بعد بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جسٹس منیر کے سیاسی نوعیت کے دیگر فیصلوں پر بھی اسی انداز فکر کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔
جسٹس منیر کا تیسرا فیصلہ جس نے پاکستانی میں جمہوری سیاسی عمل کی راہ میں پہاڑ جیسی رکاوٹیں حائل کیں، ڈوسو کیس کے نتیجے میں سامنے آیا۔
ڈوسو کیس کے ذریعے ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ اور اس کے نتیجے میں ایک منتخب حکومت کے خاتمے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
جسٹس منیر نے اس مقدمے میں مارشل لا کے نفاذ اور اس کی وجہ سے جائز طور پر ایک منتخب آئینی اور قانونی نظام کے خاتمے کو بغاوت قرار دینے کے بجائے اسے ایک کامیاب انقلاب قرار دینے کے لیے ہینس کیلسنز کی معروف تھیوری آف سٹیٹ کا سہار لیا۔
اس تھیوری میں کہا گیا کہ ایک کامیاب انقلاب اپنا جواز خود ہوتا ہے اور اسے آئین سازی کا حق بھی حاصل ہو جاتا ہے، اس سلسلے میں انھوں نے انقلاب فرانس، انقلاب چین اور اور انقلاب روس کی مثالیں پیش کیں۔
کیا ایوب خان کے مارشل لا کو جواز دینے کے لیے جسٹس منیر کا یہ استدلال درست تھا؟ حامد خان ایڈوکیٹ نے اس سوال کا جواب ان الفاظ میں دیا: ’ہرگز نہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ساٹھ کی اُس دہائی میں دنیا کے مختلف حصوں میں مارشل لا نافذ ہوتے رہتے تھے۔ پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ بھی اسی قسم کا ایک واقعہ تھا جسے فرانس، روس یا چین جیسے انقلاب کے مماثل قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ خود تھیوری آف سٹیٹ کے مصنف ہینس کیلسنز نے بھی اس موقع پر کہا کہ اس فیصلے کے ذریعے ان کی تھیوری کو جو رنگ دیا جارہا ہے، وہ درست نہیں۔‘
سیاسی مضمرات رکھنے والے جسٹس منیر کے یہی بنیادی فیصلے ہیں جن کی وجہ سے ملک سیاسی اور آئینی طور پر اپنے راستے سے بھٹک گیا تاہم حامد خان کہتے ہیں کہ مولوی تمیز الدین کیس کا فیصلہ ایسے دور رس مضمرات رکھتا تھا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھ دی گئی۔
وہ کہتے ہیں کہ مولوی تمیز الدین کیس کے فیصلے کے اس پہلو کا جائزہ لینے کے لیے اسمبلی کی تحلیل کے پس منظر کا غیر روائیتی انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کا اس زمانے کے تاریخی تذکروں میں ذکر نہیں ملتا۔
حامد خان کہتے ہیں کہ 24 اکتوبر 1954 کو آئین ساز اسمبلی کی تحلیل سے چار روز قبل یہ اسمبلی پاکستان کا پہلا آئین تیار کر چکی تھی۔
’اس آئین کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آبادی کے فرق کا تنازع طے کر دیا گیا تھا جس کے تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 55 فیصد اور مغربی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 45 فیصد طے کر دیا گیا تھا۔‘
’منصوبے کے مطابق آئین ساز اسمبلی اسی برس دسمبر میں دستور کے مسودے کو حتمی شکل دے کر اس کی منظوری کا فیصلہ کر چکی تھی کہ غلام محمد نے اسمبلی کو تحلیل کر کے دستور کی منظوری کا راستہ بند کر دیا، اس طرح ملک کے دونوں حصوں کے درمیان پارلیمان میں نمائندگی کا مشکل مسئلہ جو اس دستور میں حل کر دیا گیا تھا، ایک بار پھر بگاڑ کر مشرقی پاکستان کے حق نمائندگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا گیا اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اسٹیبلشمنٹ مشرقی پاکستان کے حق حکمرانی کو کبھی قبول نہیں کرے گی، اس طرح اس فیصلے نے علیحدگی کا بیج بو دیا۔‘
پاکستان کی سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی تاریخ میں جسٹس منیر کے متنازع کردار کا ایک پہلو یہ ہے، دوسرا پہلو نظریاتی ہے جس کے مختلف پہلو آئر لینڈ سے شائع ہونے والی سلینہ کریم کی کتاب’ سیکیولر جناح اینڈ پاکستان’ سے سامنے آتے ہیں۔
سلینہ کریم نے بانیِ پاکستان کے سیاسی نظریات کے بارے میں عمومی طور پر پائے جانے والے مختلف تصورات کا تجزیہ کیا ہے، ان میں ایک تصور جسٹس منیر کا بھی پیش کردہ ہے۔ مصنفہ نے اس سلسلے میں 1953ء میں پنجاب میں احمدیوں کے خلاف پُرتشدد فسادات کے اسباب کا جائزہ لینے کے لیے انکوائری رپورٹ سے جسٹس منیر کا ایک تبصرہ پیش کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے:
‘ جناح (پاکستان کے لیے) ایک جدید جمہوری ریاست یا مغربی جمہوریت کے خواہش مند تھے’۔
مصنفہ کہتی ہیں کہ جسٹس منیر نے یہ بات بانیِ پاکستان کے مسٹر ڈون کیمبل نامی ایک مغربی صحافی کو دیے گئے انٹرویو سے اخذ کی ہے۔ سلینہ کریم کے مطابق انٹر ویو کا یہ حصہ من گھڑت ہے کیوں کہ بانیِ پاکستان مغربی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے تھے، اس مقصد کے لیے انھوں نے پے درپے کئی حوالے پیش کیے ہیں جن میں انھوں نے مغربی جمہوریت کی مذمت کی ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس منیر کے اسی تبصرے سے ان کی معرف کتاب’ فرام جناح ٹو ضیا’ کا آغاز بھی ہوتا ہے۔
جسٹس منیر کے فیصلوں کی طرح فسادات پنجاب کے بارے میں ان کی تحریر کردہ رپورٹ کے نظریاتی اور تیکنیکی پہلوؤں پر بھی بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ پاکستان کے مذہبی حلقوں میں وہ ناپسندیدہ اور متنازع تصور کیے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں مولانا مودودی نے اپنی ایک کتاب ‘تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ’ میں کئی اعتراضات کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس رپورٹ کا دائرہ کار(ٹرم آف ریفرنس) فسادات پنجاب کی وجوہات کا تعین تھا لیکن جسٹس منیر نے اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے ملک کے سیاسی نظام کے تعین کی بحث چھیڑ دی۔ اس سلسلے میں مولانا مودودی نے بھی ڈون کیمبل کو بانیِ پاکستان کے زیر تذکرہ انٹرویو کے تعلق سے ہی بات کی ہے۔
جسٹس منیر نے اپنی رپورٹ میں 1949ء میں منظور کی جانے والی قرارداد مقاصد پر بھی اعتراضات کیے ہیں اور لکھا ہے:
‘ یہ قرار داد مقاصد اگرچہ الفاظ، فقروں اور دفعات میں بڑی پرشکوہ ہے مگر ایک فریب کے سوا کچھ نہیں اور یہ صرف اتنی ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اسلامی ریاست کے جنین کا شائبہ تک نہیں ہے’
مولانا موددی نے جسٹس منیر کے اس تبصرے کو بھی متنازع قرار دیتے ہوئے اسے تحقیقاتی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا ہے۔
ممتاز قانون دان حامد خان مولانا مودودی کے ان اعتراضات کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں اور جسٹس منیر کے ان تبصروں کو تحقیقاتی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتے ہیں۔
جسٹس منیر رپورٹ پر مولانا مودودی کا ایک اور اعتراض یہ ہے، 1953ء میں دو اہم واقعات رونما ہوئے، ایک فسادات پنجاب اور دوسرے مارشل لا کا نفاذ۔ وہ لکھتے ہیں کہ مارشل لا کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ اوّل یہ بدامنی نظمی کا کوئی طوفان ملک یا ملک کے کسی حصے کو گرفت میں لے لے، اس کی بحالی کے لیے مارشل لا لگانے کی روایت دنیا میں موجود ہے لیکن ایسی صورت میں فوج نظم ونسق بحال کر کے واپس چلی جاتی ہے۔ مارشل لا کی دوسری قسم یہ ہے کہ فوج ملک کے (یا ملک کسی حصے) کا مکمل یعنی انتظامی، عدالتی اور قانون سازی سمیت ملک کے تمام اختیارات پر قابض ہو جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تحقیقاتی عدالتی کو سب سے زیادہ توجہ اسی سوال پر دینی چاہئے تھی لیکن جسٹس منیر نے اپنی رپورٹ میں یہ پہلو مکمل طور پر نظر انداز کردیا جو ایک بڑی غلطی ہے کیونکہ اس کا تعلق ملک کے مستقبل سے تھا۔ دوسرے الفاظ میں وہ کہتے ہیں کہ جسٹس منیر نے اس موقع پر مارشل لا کا سوال نظر انداز کر کے آئندہ کے لیے بغاوتوں کا راستہ ہموار کر دیا۔
اس مضمون کا ایک حصہ https://www.bbc.com/urdu پر شائع ہو چکا ہے۔