امریکی فوجی انخلاء میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔کوئی طالبان کی فتح عظیم سے تعبیر کررہا ہے اور کسی کو امریکی جیت یا چال نظر آرہی ہے ۔ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم دوسری اقوام کے رویوں کو اپنی روایات کے آئینے میں دیکھنے و سمجھنے کے عادی ہیں۔
امریکی رویئے کو سمجھنے کے لئے اس بات کو جاننا پڑے گا کہ یہ لوگ وفاداری وغیرہ کے قائل نہیں ہے اور اس پر شرمندہ بھی نہیں کہ انکے تعلقات transactional ہوتے ہیں۔ یعنی جب تک ضرورت ہے ادائیگی ہو گی ضرورت نہ رہی تو انکی obligation یا فریضہ نہیں ہوتا کہ آپ کو پالتے رہیں۔
(جہاں تک بین القوامی تعلقات کی بات ہے امریکی کسی سے نکاح نہیں کرتے، بس وقتی رشتہ باندھتے ہیں، صرف اسرائیل کا معاملہ مستشنیات میں سے ہے)۔
عقلمند اقوام ان کی اس عادت سے فائدہ اُٹھاتی ہیں اور بہ وقت ضرورت زیادہ سے زیادہ نچوڑ کر آگے کی فکر کرتیں ہیں جبکہ ہم روایات کے مارے ان سے مستقل نکاح کے چکّر میں رہتے ہیں اور فائدہ مل سکتا ہے تو بھی پورے بکرے کے چکّر میں ملتی ہوئی بوٹی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
یہی کچھ موجودہ افغان سرکار کے ساتھ ہوگا، سوائے اس کے کہ کسی طرح سے اپنی relevance establish یا ضرورت باقی رکھ پائیں ۔ بیچارے افغانستان میں امریکہ کے پسماندگان وہی کچھ بھگتیں گے جو ہم اب تک بھگتتتے آرہے ہیں۔
ایسا ہی پاکستان امریکہ تعلقات کا معاملہ ہے کہ اس تعلق میں آدہی سے زیادہ محنت ہمیں اپنی relevances establish ہی نہیں قائم رکھنے میں کرنی پڑتی ہے ۔ جب تک relevance قائم رہی تنخواہ ملتی رہی ۔۔ بعد میں اپنی وفاؤں کی کہانیاں اور انکی جفاؤں کے مرثیہ پڑہتے رہتے ہیں ، ہائے ہماری غلامانہ فطرت۔۔
وہ relevances کیسے قائم رکھی جائے، بظاہر موجودہ افغان حکومت کے پاس بہت کم پتّے باقی ہیں لیکن افغانستان کی آنے والی طالبان حکومت بعض وہ “خدمات” ادا کر سکتی ہے جو پاکستان کبھی نہیں کرسکتا۔ سعودی عرب و متحدہ عرب امارت کے کاندھوں پر ایران کے خلاف شدید مسلکی تعصب کی وجہ سے بخوشی استعمال ہو سکتے ہیں۔
چین کی مسلمان اقلیت پر ظلم وستم جن پر پاکستان لب کشائی کرتے ہوئے گھبراتا ہے، لیکن طالبان حکومت کو اس پر شاید کوئی مسئلہ نہیں ہو گا جب افغانستان کی سرحد بھی مسلمان اکثریتی سنکیانک سے ملتی ہے۔
جہاں تک طالبان و آئی ایس آئی کی فتح کا ہے سچّی بات ہے کہ محدود حدتک اتفاق کیا جاسکتا ہے، اس کا اعتراف نہ کرنا بخل ہوگا لیکن فتح ان معنوں میں نہیں کہ امریکی افوج کو شکست فاش دے کر بھاگنے پر مجبور کردیا، کیونکہ امریکہ کی staying power پر ہمیشہ ہی سوالیہ نشان تھا۔
عالمی تنہائی اور کمزور معیشت کے باوجود پاکستان نے ایک عظیم کامیابی حاصل کی ہے اور انڈیا زخم چاٹ رہا ہے لیکن ہمیں بھی چیزوں کو انکے درست تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔اپنی صلاحیتوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد غیرضروری خطرات مول لینے پر اکساتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ نے افغانستان پر حملہ اسے اپنی ۵۱ ویں اسٹیٹ بنانے کے لئے کیا تھا؟
صحیح یا غلط، امریکی حملہ کے بظاہر مقاصد :-
ا۔ اسامہ بن لادن کی زندہ یا مُردہ گرفتاری
۲- القائدہ کا خاتمہ جسے وہ ۹/۱۱ کا ذمہ دار سمجھتا تھا۔
۳- چونکہ امریکہ طالبان کو القائدہ و اسامہ بن لادن کا پشت پناہ سمجھتا تھا انکی حکومت کا خاتمہ
طالبان کی حکومت ختم ہو گئی تھی، القائدہ بطور تنظیم امریکہ کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے اسامہ بن لادن شھید ہو چکے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے امریکہ اپنے ظاہر شدہ بنیادی اہداف حاصل کر چکا ہے۔ تو اسے کامیاب کہا جائے یا ناکام ؟؟؟
گوریلا تنظیم اور حکومتوں میں سب سے بڑا فرق یہی ہوتا ہے گوریلا تنظیم انتہائی متحرک ہوتی ہے اور وہ کسی جغرافیائی خطّے کے دفاع کی پابند نہیں ہوتئ، لیکن بطور حکومت اپنی سرزمین کو دشمن کے قبضے سے بچانا اسکا بنیادی فرض ہوتا ہے۔
جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو جنگ تو چند دنوں میں ختم ہو گئی طالبان امریکی فوجی دستوں کی مزاحمت کرنے کے قابل ہی نہیں تھے اور کابل چھوڑ کر پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔اسے فوجی شکست کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے؟
بات یہ یادرکھیں انگریز ہوں یا روس و امریکہ تینوں طاقتوں نے افغانستان کو فوجی طور پر تو شکست دے کر قبضہ کرہی لیا تھا۔اصل کھیل تو بعد میں شروع ہوتا ہے، افغانوں کے معاملے میں تاریخ بار بار دھراتی ہے۔
جب افغانوں نے بطور قوم (فوج نہیں ) hit and run… مارو اور بھاگو کی گوریلا جنگ کے ذریعے خون نکال نکال کر بھینسے کو گرنے پر مجبور کردیا۔ کلاسک گوریلا جنگ دس بیس پچاس سال تک لڑتے رہیں ۔اسکے لئے بھی حوصلہ اور مناسب حالات کی ضرورت ہوتئ ہے۔
طالبان بھی بطور ایک گوریلا فورس کے لڑے ہیں ، فوج ایک بڑا ٹارگٹ ہوتی ہے جسکے اڈے اور مستقر، آلات ہوتے ہیں اور کسی بھی بڑی جنگی قوت کے لئے اسے بہتر زمینی و فضائی طاقت کے ذریعے قابو پانا آسان ہوتاہے۔
لیکن گوریلا جنگ ایک قومی مزاحمت ہوتی ہے جو کسی بھی ہاتھی کو چیونٹیوں کے ذریعے مار گراتئ ہے۔گوریلا فورس ایک ہلکی پھلکی انتہائی متحرک اور بڑی حدتک ناقابل شناخت فوج جو ہاتھی پر حملہ کرکے باآسانی میں آبادی میں تحلیل ہو جاتی ہے، نتیجہ میں غصے میں بھرے ہاتھی کے جوابی حملے میں گھاس (بے گناہ عوام) ہی تباہ ہوتی۔
وہ بھی ہاتھی کے لئے نقصان دہ ہی ہوتی ہے کہ ساری دنیا ہاتھی کے پیروں تلے تباہ ہونے والی بیچاری “گھاس” سے ہمدردی کرتا ہے اور کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ ہاتھی کی سونڈ میں پن کس نے چبھوئی۔
پاکستان کا امریکہ سے تعاون ایک لحاظ سے جبری نکاح تھا۔ اسی طرح سے چلا اب اس زیادہ کیا عرض کروں کہ کوئی شریفانہ مثال سمجھ میں نہیں آرہی۔ اس لئے ایک طرف تو امریکہ کو اپنی وفا کا یقین دلانے کی کوشش دوسری طرف طالبان کے ساتھ بھی گرم وسرد رشتے قائم رکھے گئے۔
کبھی عبدالسلام ضعیف کو توہین آمیز اندازمیں گرفتار کرکے امریکیوں کے حوالے کیا گیا، اور ہاں عافیہ صدیقی بھی ایک ایسی کہانی ہے جس پر ہمارے سر شرم سے جھُک جاتے ہیں، دوسری طرف کبھی “کوئٹہ شوریٰ” کو بھی پناہ دی گئی، پشاور میں طالبان کمانڈروں کی اہل خانہ کو پُرامن رہائشی سہولیات بھی فراہم کی گئیں۔ طالبان مرہون منّت تو کیا ہوں گے لیکن انہوں نے مثبت منفی دونوں کھاتے تیار کئے ہوئے جنہیں حسب ضرورت لہرا کر گلے لگانے یا لات مارنے کا جواز بنایا جائے گا۔ہماری بھی کیا داستان ہے وفا کی کہانیاں بھی ہماری اور جفا کی داستانیں بھی ۔
یہ ایک مشکل تنی ہوئی رسّی پر توازن قائم رکھنے والا کام تھا، دو کشتیوں کے سوار کے ساتھ جو ہوتا ہے وہی ہمارے ساتھ ہوا، لیکن شاید حالات کے جبر کی وجہ سے ہماری مجبوری بھی تھی اور ضرورت بھی۔
افغانستان کوئی امریکہ کے قلب میں نہیں واقع اور نہ ہی اس کا “اٹوٹ انگ “ ہے کہ وہ اسے سو سال تک اپنے پاس رکھیں ۔ کچھ بھی ہو امریکہ ایک غیرملکی قوت ہے جوآئی ہی جانے کے لئے ہے ۔لیکن جب بھی وہ وقت آئے گا گوریلا مزاحمتی فورسز اسے اپنی فتح کے طور پر ہی لیں گی۔
درحقیقت یہ ایک کھوکھلی فتح ہوگی۔ یہ بات طالبان بھی جانتے تھے اور بین الاقوامی بلکہ پاکستانی ماہرین بھی جانتے تھے۔ اسی لئے طالبان سے منسوب یہ مشہور جملہ “تمھارے پاس گھڑی ہے ہمارے پاس وقت “ وجود میں آیا۔
لیکن امریکی حماقتوں کی وجہ جب انہیں اسامہ بن لادین کی شہادت کے فورا بعد فتح کے شادیانے بجاتے واپس جانے کا موقع مل گیا اسے ضائع کردیا اور گیا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔ انہوں نے خود کو غیر ضروری طور پر اپنی مرضی کی حکومت و نظام بنانے میں جھونک دیا جس میں ناکام ہو کر فوجی فتح کو گوریلوں کے ہاتھوں ذلت کے ساتھ شکست نہ سہی تو شکست کی صورت بنا کر نکلنا پڑرہا ہے۔
یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ ۲۰ سال تک اس گوریلا جنگ کو بغیر کسی “کھلی” بین القوامی امداد کے (ہماری چھپی ہوی حمایت بھی اہم تھی) جاری رکھنا اور فوجی شکست کے باوجود امریکہ کو اپنی مرضی کی حکومت نافذ کرنے میں ناکام کردیا بذات خود ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
افغانوں کی جدوجہد نے پہلے روس اور اب امریکہ کو اس کمبل سے جان چھڑانے سے مجبور کردیا ہے۔لاکھوں افغانوں کی لاشوں پر بجائے جانے والے فتح کے شادیانے مبارک کہ جنگوں کی تاریخ میں فتح و شکست کو دیکھی جاتی ہے قیمت نہیں۔
ورنہ امریکہ نے چند ہزار جانیں اور تقریباً دیڑھ کھرب ڈالر ضائع کرکے واپسی کا نقارہ بجایا ہے، جبکہ افغانوں نے گذشتہ چالیس ۲۵ لاکھ جانیں، اور اتنے ہی دنیا بھر میں بطور مہاجر در بہ در کرا دئیے۔ کس کا فائدہ کس کا نقصان اپنا اپنا حساب ۔۔
انہیں آئیڈیلائز کرنے سے پہلے ایک مرتبہ خود کو انکی جگہ رکھ کر فیصلہ کرلیں، تالیاں بناکر واہ واہ کرنا ایک اور بات ہے لیکن بطور قوم ہم شاید یہ سب کچھ نہ کرنا چاہیں -افغان تاریخ افغانوں کے لئے ہے اگر انہیں اس پر فخر ہو تو انہیں اس کا حق پہنچتا ہے لیکن شاید ہمارے لئے رول ماڈل نہیں ہے۔
ابھی صرف امریکہ و طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، اس پر عملدرآمد سے پہلے وہ قوتیں جو افغانستان میں امریکی افواج کے طفیلیےہیں اور اس معاہدے پر عملدرآمد انکے اقتدار کے تابوت میں کیل ثابت ہو گی اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔اشرف غنی کا حالیہ بیان اسی کوشش کا حصہ ہے۔
اسکے علاوہ افغانوں کی تاریخ خاص طور پر طالبان کی بہت افسوسناک ہے۔ وہ بجائے آدھی کے پوری روٹی کے چکر میں لڑتے رہیں گے۔امریکہ جو افغانستان چھوڑ کر جارہا ہے اس کے حصے بخرے ہونے کی پوری توقع ہے۔ ازبک جنگجو سردار اپنا حصہ کبھی نہ چھوڑیں گے۔ پھر تاجک بھی ہیں۔یقیناً طالبان اس صورتحال کو قبول نہیں کریں گے۔
ازبک و تاجک ملیشیا جو پہلے بھی شمالی اتحاد کے نام سے طالبان کے خلاف مزاحمت کر رہی تھی مجھے نہیں پتہ لیکن واپس نکلتی ہوئی امریکی افواج اپنا فاضل سامان انکے حوالے کرکے انہیں طویل عرصے تک مزاحمت کرنے کے قابل بنا دے گی اور بھارت بھی انکے ساتھ کھڑا ہوگا، اور اب داعش کی صورت میں ایک نیا عنصر شامل ہو چکا ہے۔پھر تاریخ خود کو دہرائے گی ۔۔اس بدقسمت قوم کا نصیب۔
لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کا فرض ہے کہ خود کو اور ہمارے عوام کو اس جنگ کا حصہ بننے سے روکنا ہے۔ ورنہ ہمارے وہ مجاہدین جو امریکہ کیخلاف مجبوراً یا مصلحتاً ارمان دل میں رکھّے ہوئے تھے لیکن آنے والی خانہ جنگی میں اپنے ارمان طالبان کے شانہ بشانہ شریک ہو کر نکالنا چاہیں گے۔
اس صورتحال پرسختی سے نظر ہی نہیں رکھنا بلکہ روکنا ضروری ہے۔ افغانستان کی اندرونی جنگیں افغانوں کا مسئلہ ہے۔ہمارے بچّے اور ہماری بندوقیں کسی اور کی جنگ کے لئے نہیں ہیں۔
ہم پُر امن افغانستان کے حامی ہیں لیکن ہمیں ان سے محفوظ فاصلے والی تعلقات رکھنے ہوں گے۔امریکی افواج کی واپسی کے بعد خانہ جنگی نے جاری رہنا ہے کہ امریکہ کی قائم شدہ افغان حکومت اپنے بیرونی سرپرستوں (بشمول بھارت) کے ساتھ ملکر طالبان کے خلاف مزاحمت جاری رکھے گی۔
ہم افغانستان میں ہونے والے واقعات پر قابو نہیں پاسکتے اور اسکا خواب بھی نہیں دیکھنا چاہیے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس گرتی ہوئی عمارت کے ملبے سے خود کو کیسے بچایا جائے۔
افغانستان میں طالبان کی کامیابی کے نتیجے میں ہونے والی خانہ جنگی میں ہمارے نوجوانوں کی شرکت کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے۔ دوسری طرف امریکی انخلاء کے بعد فتح کے نشے میں چور افغانستان کو اپنی سرحدوں سے نکل کر ہمارے گھر میں دراندازی کی بھی اجازت نہ دی جائے۔
مجھے اندازہ ہے کہ جس طرح انقلاب ایران کی برآمد کے خواب دیکھے گئے تھے، جو کہ اب ایک حقیقت بن چکا ہے کہ عراق سے لیکر یمن تک کئی ممالک بالواسطہ طور پر زیرنگین آچُکے ہیں۔
اسی طرح طالبان بھی اپنے انقلاب کی برآمد چاہیں گے اور چونکہ ہمارے ہاں ایک قابل ذکر حامی طبقہ پہلے ہی موجود ہے ہمارا ابتدائی ہدف بننے کا بھرپور امکان ہے۔ ممکن ہے بہت سے بھائی اس بات سے متفق نہ ہوں لیکن تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کوئی بھی انقلاب چاہے انقلاب ایران ہو یا یورپ اور کمیونسٹ انقلاب اپنی سرحدوں تک محدود رہنے کے لئے نہیں آتا۔
مشتری ہوشیار باش۔