جمعیت علماء اسلام پاکستان (JUIP) کے امیر مولانا فضل الرحمان گزشتہ 4 روز سے علیل اور کراچی کے مقامی ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ ان کی علالت کی خبر سے مختلف حلقوں نے متضاد قسم کی اطلاعات گردش میں آگئیں، ذیل میں ان خواہشات کا تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔
1۔ خبر!
خبر یہی ہے کہ وہ زیر علاج ہیں، انفیکشن کے باعث ان کو بخار تھا اور اب الحمد للہ بہتری آئی ہے۔ ابتداء میں تیز بخار کی وجہ سے کورونا کے ٹیسٹ ہوئے اور رپورٹ ٹھیک آئی۔ مولانافضل الرحمان کو خدانخواستہ کوئی ایسی تکلیف نہیں کہ جس کے بارے میں کہا جائے کہ بہت تشویشناک ہے۔ البتہ پہلے سے شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے عوارض کی وجہ سے آرام، کھانے پینے اور علاج میں سخت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں نے سختی سے ہدایت کی کہ ہسپتال میں ہی رہیں گے اور ڈاکٹروں کی ہدایت پر ہسپتال میں ہیں۔ یہ تو ہے بیماری کے حوالے سے اصل خبر۔
2۔ خواہش!
مولانا فضل الرحمان کی علالت پر کئی میڈیا کے اور کچھ خیر خواہوں نے خبر پر نہیں، بلکہ خواہش پر توجہ دی اور ایسی سنسی پھیلائی کی الامان و الحفیظ کچھ نے تو ڈاکٹروں کی جانب سے آخری جواب کی بھی بات کی اور کچھ تو گنتی میں مصروف ہوگئے۔ اس خواہش کی وجہ سے یقینا مولانا فضل الرحمان کے خاندان، عقیدت مندوں اور جماعت کے کارکنوں میں تشویش پھیل گئی اور انکو سخت تکلیف اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس خواہش کے اظہار کو صحافتی بددیانتی، بغض اور دشمنی سمیت کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ (یہاں پر جے یو آئی کے جاری مبہم یا متضاد بیانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے)۔
3۔ خواہش_ کو خبر بنانے کا انجام!
چند سال قبل مردان ہائوس کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی (ANP) کے سربراہ اسفند یار ولی خان کی پریس کانفرنس تھی، اس میں ایک صحافی نے خان صاحب سے انکے خاندان کے حوالے سے سوال کیا اور خان صاحب پھٹ پڑے کہا” تم اتنے بے شرم، انسانیت اور اخلاق سے عاری ہوکہ تم میڈیا والوں نے میرے زندہ بھائی (ان کے بھائی سنگین ولی خان ہسپتال میں زیر علاج تھے اور میڈیاکی جانب سے انتقال کی خبر جاری کرنے تین بعد ان کا انتقال ہوا تھا) کو ماردیا تھا اور اندازہ نہیں کہ تمہاری خبریں سن کر اس وقت ہم کس تکلیف اور اذیت میں مبتلا تھے۔ تم (تم سے مراد کوئی فرد نہیں بلکہ میڈیا کا عمومی کردار تھا اور خان صاحب نے شروع میں ہی وضاحت کردی تھی )انسان نہیں حیوان ہو۔ یقین کریں کہ عام حالات میں خان صاحب ایسی بات کرتے تو ہم سب سراپا احتجاج ہوتے، مگر اس پریس کانفرنس میں کوئی اف کے قابل بھی نہیں تھا کیونکہ خان صاحب نے جو کہا وہ حرف حرف سچ تھا۔ کچھ میڈیا کے اداروں کی خواہش یا سب سے پہلے یا بریکنگ نے پوری میڈیا کو شرمندگی سے دوچار کردیا تھا۔
4۔ سبق!
سبق یہ ہے کہ خبر کے معاملے بالخصوص بیماری ، موت، انتشار یا فساد کے ایشوز میں خبر میں خواہش، بغض، عداوت اور مبالغہ آرائی کے عنصر کو شامل کرنے سے مکمل گریز کرنا چاہیے، ورنہ رسوائی کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ خواہش کو خبر بنانے والے بھی کبھی اپنے آپ کو اسی جگہ پر کھڑا کرکے سوچیں کہ یہ لمحہ کتنی تکلیف اور اذیت کا سبب بنتا ہے۔
5۔ دعا!
اللہ تعالٰی شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب، مولانا فضل الرحمان صاحب اور مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب سمیت تمام بیماروں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، جلد صحت کامل اور ایمان و صحت کی سلامتی کے ساتھ عمر مقبول عطا فرمائے۔