کراچی ایک عجیب مقام پر پہنچ چُکا ہے جہاں راستے بہت نکلتے ہیں لیکن وہ کہاں پہنچائیں گے اس کا تعین مشکل ہے۔
بڑی مرکزی جماعتوں پی ٹی آئی اور ن لیگ نے سوائے انتخابات میں حصہ لیکر اپنی موجودگی کے اظہار کے کراچی سے بڑی حدتک ہاتھ دھو لیا ہے، پیپلز پارٹی بڑی حدتک کراچی کے مسائل کا ذمہ دار سمجھ سوائے چند علاقوں کے بڑی حدتک نفرت کا نشان ہے، اب یہ مت پوچھیے گا کہ اگر اتنی ہی نفرت ہے تو قادر مندوخیل اس سیٹ کو جیتنے کا “چمتکار” کیسے کرگیا۔
موجودہ وزیراعظم کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی محبتیں تو بدلتی رہتی ہیں لیکن نفرتوں کے معاملے بہت مستحکم ہیں، کراچی سے انکی دلچسپی صرف ووٹ لینے کی حدتک تھی ورنہ اس شھر سے نامعلوم وجوہات پر ان کی نفرت بھی کوئی خفیہ امر نہیں ہے۔
اپنے کھیل کے دور عروج میں ایک انٹرویو میں ڈومیسٹک کرکٹ میں PIA کی کرکٹ ٹیم چھوڑنے وجوہات بتاتے ہوئے فرمایا تھا کہ اس ٹیم میں زیادہ تر کھلاڑیوں سے لیکر مینیجر کا تعلق کراچی سے ہے۔ اسی طرح 1992 کی ورلڈ کپ کے فاتح ٹیم کے کراچی ائرپورٹ پر استقبالی ہجوم کے سامنے جاوید میانداد کو بھیجا تھا اپنا درشن کرانے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔
اب بھی سوائے چند گھنٹوں کے رسمی دوروں کے انہیں کراچی سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی خدا جانے اگلے انتخابات میں انہیں کراچی سے ووٹ کی ضرورت بھی ہوگی یا “خلائی مخلوق” بزور الیکڑونک ووٹنگ مشین کے سافٹوئیر ان کے بلّے کو ووٹوں سے نہال کردیں گے۔
ایک زمانے میں یہ افواہ تھی کہ امریکہ کراچی کو کالونائز کرنے والا ہے اور اس فقیرنے کچھ لوگوں کو خوشی سے امریکہ کا انتظار کرتے دیکھا ہے۔اب بھی بھائی لوگ دبے الفاظ میں کراچی کو ہانگ کانگ، دوبئی بنانے کی سازشوں کا زکر کرتے ہیں ۔۔ تری آواز مکّے مدینے ۔
کراچی والوں کا جو حال ان حکومتوں نے کردیا ہے اسے دیکھتے ہوئے ان کی اُمیدیں کچھ حدتک جائز بھی ہیں ۔اس ہجوم میں ہر گروہ کے قائدین دوسروں کی شکل و زبان سے خوف پیدا کرکے اپنی قیادت کی دوکان چمکاتے ہیں ۔ درحقیقت وہی ان کے لئے سب سے بڑی استعماری طاقت ثابت ہوئے ،کراچی کو تباہ کرنے والی کراچی کی مہاجر کے نام پر اُبھرنے والی قیادت ہے۔
سندھ کے حقوق کی سب سے بڑی علمبردار جماعت کے اپنے لاڑکانہ، ٹھٹھہ ، مورو و دادو وغیرہ وغیرہ کی حالتوں کو دیکھیں تو علم ہو جائے گا کہ کراچی کے ساتھ جو کرنا تھا وہ کیا وہ تو اپنے گھر و گاؤں کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہیں۔
جب کوئی فوج مقبوضہ علاقے سے پسپا ہوتی ہے تو جاتے جاتے ہر کار آمد چیز کو تباہ کردیتی ہے تاکہ ان کے دشمنوں کے جتنی مشکل ہو سکے پیدا کی جائے، سندھ کی حکومت اور سندھی اشرافیہ کا کراچی کے بارے میں رویہ دیکھتے ہوئے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے۔کہیں یہ بھی تو کراچی سے ذہنی طور پر ہاتھ دھو بیٹھے ہیں؟
لیکن یہ جب انکے اپنے شھروں و دیہاتوں کی حالت دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ انکی فطرت ہے اور اپنوں و “غیروں” سب کے لئے یکساں۔ سندھی و مہاجر دونوں کی قیادت نے اپنوں و پرایوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا۔ کہ سانپ کی فطرت ڈسنا ہے وہ اپنوں کو بھی ڈسے گا اور غیروں کو بھی۔
کیا سارا ذلت و بدترین حکمرانی کا طوق سندھ و کراچی کے گلے ہی پڑگیا ہے؟ کراچی کا بہترین دور عبدالستار افغانی و نعمت اللہ خان کا دور مئیرشپ تھا اس کے کچھ فوائد مصطفی کمال بھی ملے کہ نعمت اللہ خان کے کچھ پروجیکٹس کو مکمل کرنے کا تمغہ انکے سینے پر لگا۔
اس لحاظ سے پنجاب خوشقسمت ہی رہا۔ جبکہ سندھ و بلوچستان دونوں شھری ہوں یا دیہی فیوڈل کے نرغے میں سسک رہے ہیں۔ جن کے ووٹ اتنے پکّے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کو کارکردگی دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
میاں نواز شریف کسی حدتک پنجاب بلکہ وسطی پنجاب Centric حکمران تھے کہ صرف پنجاب کی نشتیں اسے پورے پاکستان کا راج دے سکتی ہیں۔ عہ مشھور کہاوت کہ “کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے” لاھور اور وسطی پنجاب کا چپہ چپہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ نواز شریف و شھباز شریف نے اپنے علاقوں میں واقعتاً کام کیا ہے۔ (یقیناً جنوبی پنجاب پر انکی توجہ کم رہی) میاں نواز شریف ہی نہیں پرویز الٰہی بھی اپنے دور کے کامیاب وزیراعلی پنجاب رہے ہیں۔
پنجاب سے ان کی وزارت وزیراعظمی کی ضمانت ملنے کے بعد سندھ بالخصوص کراچی سے انہیں کوئی دلچسپی، ضرورت و ہمدردی نہیں تھی اس لیے انہوں نے وہاں اپنی جڑیں بنانے کی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی۔
میں نے ایک دوست جن کا تعلق سندھ سے ہے اور موجودہ وزیراعلی کے ساتھ این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں سے یہ سوال کیا کہ اگر موجودہ حکومت سندھ کے ساتھ صرف تعصب کا معاملہ ہوتا تو وہ کراچی سے زیادتی کرکے اپنے آبائی علاقوں میں تو کچھ کرتے لیکن وہاں کی حالت تو کراچی سے بھی بدتر ہے۔ تو اصل مسئلہ کیا ہے؟
اُنہوں نے ٹھنڈی سانس بھری پھر کہا “پاکستان میں رنگ نسل کا مسئلہ نہیں ہے درحقیقت دو ہی فریق ہیں ایک ظالم و دوسرا مظلوم۔۔۔باقی سب بکواس ہے”۔
موجودہ صورتحال میں جماعت اسلامی کی حقوق کراچی کی مہم، دوسری طرف ایم کیو ایم یا ان سے منسلک گروہ کراچی صوبہ کے چورن کو لیکر میدان میں آئے ہیں۔
جہاں تک حقوق کراچی مہم ہے وہ کسی لسان رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر ہر وہ شخص جو کراچی میں رہتا ہے کے حقوق کی جنگ ہے، جب کہ کراچی صوبہ کا مطالبہ بڑی حدتک خوفناک و تباہ کُن نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
درحقیقت یہ سندھ میں لسانی فسادات کرانے کی خوفناک سازش ہے کہ کسی ایسی مہم کا نتیجہ اندرون سندھ میں رہنے والی غیر سندھی النسل کے خلاف معصوم مقامی عوام کو بھڑکا کر بھائیوں کو آپس میں لڑانے راستہ کھولے گا اس کا ممکنہ نتیجہ سندھ کے اندرون سے 1947 کی طرز کی نقل مکانی میں نکل سکتا ہے۔خدارا ہوش کا دامن تھامیں، سندھ کی لسانی بنیادوں پر تقسیم فیڈریشن کی جڑیں کھوکھلی کر سکتی ہے۔
جماعت اسلامی کی حقوق کراچی کی مہم ہی اس صورت میں بہتر راستہ ہے بشرطیہ کہ وہ دوسری چیزوں کے ساتھ درست مردم شماری کو اولیں ترجیح بنائیں ۔ اگر ایک بار مردم شماری کا معاملہ حل ہو جائے تو اس کے نتیجے میں سندھ کی سیاست میں دور رس تبدیلیاں آئیں گی اور کراچی و دیگر شھروں کی مظلومیت کا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔
حالیہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی 1.65 ملین ظاہر کی گئی جب کہ سندھ کی آبادی 4.8 ملین ، اگر مردم شماری کے نتیجے میں تین ملین (جس کا دعوی کیا جارہا ہے) کی بجائے ڈہائی ملین بھی ہو گئی تب بھی اسی تناسب سے صوبائی و قومی اسمبلی کی نشتیں ملنے کی صورت میں۔ بلاشبہ کراچی صوبائی و مرکزی حکومت میں فیصلہ کُن کردار ادا کرنے کے قابل ہو گا۔اور کوئی اہل کراچی کے حقوق
یقیناً موجودہ اسٹیٹس کو سے بیزار کراچی کے عوام کو کراچی صوبہ قسم کی مطالبے جو کہ ایم کیو ایم اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سھارا دینے کے لئے لگا رہی ہے سے دلچسپی ہو گی، لیکن عوام کو اس اقدام کے مضمرات کی آگاہی کی مہم چلانے کی شدید ضرورت ہے ۔ سندھ کی تقسیم سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا بلکہ ایک نئی خونریزی کی راہ کھُل جائے گی۔
یادرہے بلوچستان کی بے چینی پر قابو پانے میں سب سے بڑا عنصر بھارت کا براہ راست سرحدی ربط نہ ہونا، سندھ میں کرنے والی کسی بڑی بیچینی کا نتیجہ بھارت سرحدوں سے مشرقی پاکستان کی تاریخ کو دُھرانے کی کوشش کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جماعت اسلامی اس مہم کو تنہا لیکر چلنے کی بجائے ہم خیال سیاسی جماعتوں کے ساتھ مِل جُل کر مضبوط پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کرے جو کراچی کے عوام کے دلوں اُمید کی جوت جگا سکے۔
اب تک بڑی قومی جماعتوں میں چونکہ پیپلزپارٹی بذات خود استحصال کی علامت ہے، اور پی ٹی آئی تین سالوں کی عدم کارکردگی کے وجہ سے اپنے شانوں پر incumbent factor کی وجہ سے مشکلات کا شکار نظر آرہی ہے، لے دے کر ن لیگ ہی باقی رہ گئی ہے جو کراچی کے معاملے میں مجرمانہ غفلت کے باجود جو کچھ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے ساتھ کیا ہے اس کا حساب چکتا کرنے کے لئے حقوق کراچی مہم کا حصہ بن سکتی ہے۔
اگر جماعت اسلامی کے ساتھ ن لیگ شامل ہوتی ہے تو ن لیگ کا مستقبل کی ممکنہ حکومت کے تاثر سے ووٹروں کا جوش و خروش کئی گنا بڑھ کر جماعت اسلامی کے لئے فقید المثال کامیابیوں کا راستہ بن سکتا ہے۔
کرنا ہے آپ کو جو نئے راستوں کی کھوج
سب جس طرف نہ جائیں اُدھر جانا چاہیے