Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
فرحین شیخ
کمر ے سے نکلتے وقت وہ مُڑی اور میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ اس کی آنکھیں تک مسکرا رہی تھیں، جو کرب کل چہرے سے عیاں تھا، اب اس کا دوردور تک نام و نشان نہ تھا۔ کل میرے پاس آئی تھی تو یہی چہرہ سوجا ہوا اور آنکھیں برس رہی تھیں۔
میں نے اس سے کہا کہ اپنے شوہر کو اسکول لے کر آؤ، تو اس نے بے یقینی سے انکار میں سرہلادیا تھا۔
”نہیں، کوئی فائدہ نہیں۔ اس نے تو غصے میں موبائل بھی توڑ دیا ہے۔ وہ کبھی نہیں مانے گا ”
دوپٹے کے پلو سے جتنے آنسو پونچھ چکی تھی اس سے کہیں زیادہ بہے جارہے تھے۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میاں بیوی کا یہ کوئی ذاتی جھگڑا ہے یا پھر گھر گھر کی کوئی دوسری کہانی, ہر گز نہیں، یہاں تو جھگڑا ہے بیٹی کو اسکول میں پڑھانے کا۔
بیٹی کی تعلیم آج بھی بے شمار خاندانوں میں ایک ٹیبو ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہماری نظریں شہر کی رونق سے ہٹ کر اس کے تاریک گوشوں کو کھوجتی ہیں۔
میرا پیغام ملنے کے بعد آج وہ باپ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ جو بیٹی کی تعلیم کے اس ٹیبو کو توڑکر پچھتا رہا تھا اور اب اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے خاندان بھر کی مزید مخالفت برداشت کرنے کے قطعاً موڈ میں نہ تھا۔ اس کو لگ رہا تھا کہ بیٹی کو پڑھانے سے برادری میں اس کی ناک کٹ چکی ہے۔ باپ بھائی تک روٹھ گئے ہیں۔
وہ بولتا جا رہا تھا اور میں خاموشی سے سن رہی تھی۔ اندر کی چیخیں باہر آنے سے زیادہ اہم اور بھلا کیا ہے؟
وہ اپنی بھڑاس نکال چکا تھا اور اب میری باری تھی۔ ایسے موقعوں پر اکثر میں اس قدر جذباتی ہوجاتی ہوں کہ آنکھوں میں پانی اور منہ میں الفاظ جانے کیسے بھرتے چلے جاتے ہیں۔ گھنٹہ بھر کی ہماری اس گفتگو کے دوران بچی کی ماں خاموش اور ڈری سہمی بیٹھی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ اس گفتگو کا نتیجہ توقع کے خلاف نکلا تو آخری امید بھی دم توڑ جائے گی۔ بیٹی کو پڑھانے کا اس کا واحد خواب ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جائے گا۔
” چاہتا میں بھی ہوں کہ پڑھیں… لیکن میرے دادا کے زمانے سے ہی بچیاں….. ”
” دادا کی روایتیں باپ اور باپ کی بیٹا جوں کی توں لے کر آگے بڑھے گا تو تبدیلی کیسے آئے گی، ترقی کا سفر کون سی نسل طے کرے گی؟” میں نے اس کی بات درمیان سے ہی کاٹ کر کہا تو وہ میری شکل تکنے لگا۔
وہ باپ جس کی سخت مزاجی کے قصے میں اکثر سنا کرتی تھی، حقیقت میں وہ تو خود خوف زدہ تھا۔ اس سماج سے، یہاں کی روایتوں سے، اپنوں کے درمیان اجنبی بن جانے سے۔
اب ذراسا حوصلہ بڑھانے کی دیر تھی کہ خوف کے سائے مدھم پڑنے لگے۔
اور پھر فیصلہ ہوگیا۔ فیصلے تک پہنچنے میں اکثر ایک لمحہ ہی لگتا ہے اور وہ لمحہ کسی کی زندگی کا کُل بن جاتا ہے۔
” ٹھیک ہے، میں اپنی بیٹی کو آگے پڑھاؤں گا، بتائیے کیا کرنا ہے؟”
خاموش بیٹھی بچی کی ماں سے میری نظریں ملیں اور ہم دونوں مسکرادیے۔۔۔۔
یہ کوئی پہلا قصہ نہیں۔ گوٹھوں اور پس ماندہ علاقوں میں قائم اسکولوں میں یہ معمول کی باتیں ہیں۔ یہ اسکول عبداللہ گبول گوٹھ کی ایک تنگ، پیچیدہ اور ٹوٹی پھوٹی گلی کے آخری کونے پر واقع ہے۔
گلشن ِمعمار اور عبد اللہ گبول گوٹھ کو بس ایک سڑک جدا کرتی ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک سڑک ہے لیکن حقیقت میں صدیوں کا فاصلہ ہے جس نے دونوں اطراف بسنے والوں کو ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنا رکھا ہے۔
سڑک کے دونوں پار بسنے والوں کے رہن سہن سے لے کر عادت و اطوار تک ہر چیز میں گویا زمین آسان کا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلشنِ معمار کے مکین سڑک کے اس پار دیکھتے وقت تیوریوں پر بل ڈال لیتے ہیں تو دوسری طرف عبداللہ گبول گوٹھ کے رہنے والے اس سڑک کو گویا سرحد ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ جسے پار کرنے کا تصور ان کے لیے محال ہے۔
ایک سڑک سے جدا ہوتے بظاہر تو یہ دو علاقے ہیں لیکن اصل میں یہ زندگی گزارنے کے دو مختلف نظریات ہیں۔ گلشنِ معمار کے لوگ زندگی گزارتے ہیں اور گوٹھ کے لوگوں کو زندگی گزار کر آگے بڑھ جاتی ہے۔
ایک سڑک کا یہ فاصلہ روز میرے لیے اذیت ناک بن جاتا ہے، لگتا ہے جیسے ایک دنیا سے دوسری دنیا میں قدم رکھ دیا ہو۔ ایسی دنیا جس سے ترقی جانے کس بات پر خفا ہے۔
اور جب میں نے بچی کے باپ سے پوچھا کہ کیا آپ گلشنِ معمار اور گبول گوٹھ کے درمیان بچھی اس سڑک پر پھیلا صدیوں کا یہ فاصلہ ختم چاہتے ہیں؟
تو وہ خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگا۔
جانتی ہوں کہ اس جملے کا مطلب وہ نہیں سمجھ سکا تھا۔
لیکن میں اور آپ تو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ صرف تعلیم اور اس سے جُڑی ترقی ہی شہر اور گوٹھ کی تفریق کرنے والی اس سڑک کو ختم کر سکتی ہے۔