Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
مجھے 8 اکتوبر کو حج کی سعادت پانے کی خاطر ارض مقدس کے لیے روانہ ہونا ہے۔ مجھے کچھ اعترافات، انکشافات اور شکایات کا اظہار کرنا ہے، جس کے لیے اس سے اچھا موقع نہیں ہو سکتا۔ میں ایک زیادہ ہی مذہبی گھرانے کا فرد تھا، جہاں کروڑوں مسلمانوں کی طرح مذہب کے ساتھ وابستگی کی بنیاد عقلیت پسندی کی بجائے عقیدت پرستی تھی اور ہے۔ گھرانہ خالص دیوبندی تھا، مذہب سے شیفتگی کی وجہ میری والدہ تھیں جو ایک معروف عالم گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔
ہمارے والد کوئی اتنے زیادہ مذہبی نہیں تھے البتہ نماز پڑھ لیتے تھے اور روزے بھی رکھ لیتے تھے۔ میرے والد کا اس زمانے کے لاکھوں کا کاروبار، جسے کہتے ہیں ایک رات میں بیٹھ گیا تھا۔ بتدریج گھر میں غربت آن بسی تھی لیکن سفید پوشی کا دھیان رکھا جاتا تھا جس میں دنیا داری زیادہ ہوتی تھی۔ میں بچہ تھا مجھے تب سے دنیا داری زہر لگنے لگی تھی۔ کچھ اللہ سے گلہ تھا کہ ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا۔ تب میں ساتویں جماعت میں تھا۔ کہیں گیارھویں جماعت میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی کا طالبعلم تھا تو مذہب میں عقیدت پرستی کے عنصر سے چڑ ہونے لگی تھی۔ اسی اثناء میں ذوالفقار علی بھٹو منصہ شہود پہ نمودار ہوئے تھے اور پہلی بار سوشلزم کی اصطلاح سے شناسائی ہوئی تھی مگر اس نظام معیشت کے بارے میں سرسری آگاہی کے باوجود میرا میلان مذہب کی جانب ہی زیادہ رہا تھا۔ نشتر میڈیکل کالج کے پہلے سال میں “تبلیغی جماعت” کے ساتھ وابستگی ہو گئی تھی۔ دوسرے سال میں پشاور یونیورسٹی کی مسجد میں ایک باقاعدہ ڈاکٹر تبلیغی بھائی نے جب گفتگو کے دوران میرے ہاتھوں اور رانوں کو سب کے سامنے “اکرام مسلم” میں ایسے سہلانا شروع کیا تھا جیسے اظہار شفقت کر رہے ہوں مجھے پہلی بار جھرجھری آئی تھی۔ اس سے پہلے بھی مساجد میں میں اس قسم کی معیوب حرکات دیکھ چکا تھا لیکن خود پہلی بار ایسی حرکت کا شکار ہو رہا تھا۔ مارے خوف اور کراہت کے میں باہر نکل گیا تھا اور کہیں رات ایک بجے لوٹ کر مسجد میں چپکے سے سو گیا تھا۔ واپسی پہ ہماری ویگن گوجر خاں کے نزدیک کھائی میں جا گری تھی۔ چھت کے بل گری ویگن میں میں فرنٹ سیٹ پر تھا لیکن مجھے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔ تاہم جونہی میں نے کہنی سے کھڑکی کا شیشہ توڑ کر باہر نکلنا چاہا تھا تو کوئی گرم گرم مائع میرے چہرے پہ آ گرا تھا۔ میری آنکھوں میں بیٹری کا تیزاب چلا گیا تھا۔ میں کئی ماہ نابینائی، کم بینائی اور چکا چوندھ بینائی کے غیر عمومی عمل میں مبتلا رہا تھا۔ اب میں مذہب اور وجود خدا کے بارے میں مشکوک ہو گیا تھا۔ نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ ایک خاص واقعے کے بعد اقدام خود کشی کر لیا تھا اور پس از مرگ تحریر میں لکھا تھا،”میں خود مر رہا ہوں مجھے خدا نہیں مار رہا” لیکن ان دو دوستوں کی دوستی جو دونوں اب مرحوم ہیں ایک جوانی میں خود کشی کے باعث اور دوسرا چند روز پیشتر طبعی موت کے باعث اور ڈاکٹروں کی محنت کے طفیل مرنے سے بچا لیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ نے ہی بچایا تھا۔ اس شرمندگی نے مجھے اور ڈھیٹ کر دیا تھا۔ اب میں مذہب مخالف ہو گیا تھا اور ساتھ ہی مزدور دوستی کی جانب راغب بھی۔ البتہ اس سارے عرصے میں اللہ گواہ ہے، میں نے کبھی نہ مذہب کی اور نہ ہی اس سے وابستہ شخصیات کی توہین کرنا تو درکنار ایسا کرنے بارے سوچا تک نہیں تھا، جس کی وجہ جو میں سمجھتا تھا وہ یہ تھی کہ میں انسان اور الوہ کے تعلق کو لوگوں کا ذاتی مسئلہ سمجھتا ہوں لیکن دراصل یہی شے مذہب کی وہ رمق تھی جو مجھ میں باقی رہ گئی تھی۔ وقت گذرتا گیا، علم ،دلیل، عقلیت پسندی پہ تکیہ کیا اور لہو لعب سے بھی غافل نہیں رہا۔
9 مئی 1999 آ گیا۔ تب میں ماسکو میں تھا۔ کسی نے دن چڑھے سر راہ عقب سے میرے سر پہ وار کیا تھا۔ میری کھوپڑی تین جگہ سے چٹخ گئی تھی۔ خون میرے حرام مغز تک سرایت کر گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران موت واقع ہو سکتی ہے لیکن مجھے یقین تھا کہ میں نہیں مروں گا۔ مجھ پہ عالم بیہوشی میں کچھ آشکار ہو گیا تھا۔ میں نے ماورائیات اور کونیات پڑھنا شروع کر دیے تھے بلکہ پیرا سائینس کا ایک کورس بھی کر لیا تھا۔ روس چھوڑ کر امریکہ چلا گیا تھا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بعض اوقات سر پہ گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے انسان روحانیات کی جانب راغب ہو جاتا ہے لیکن مجھے روحانیات کی جانب کوئی رغبت نہ ہو پائی تھی ، ہاں البتہ میں یہ سمجھ چکا تھا کہ شعور سے آگے بھی کچھ ہے ضرور۔ امریکہ میں رہتے ہوئے کچھ کچھ مذہب کی جانب لوٹ آیا تھا۔ لیکن مجھے مکمل طور پر مذہب کی جانب لوٹانے میں، شاید آپ کو یقین نہ آئے امریکہ کے سابق صدر جارج بش جونیر نے بہت بڑا کردار ادا کیا تھا جب انہوں نے نو ستمبر کے واقعے کے بعد ہمارے تمدن یا تہذیب کو مطعون کیا تھا۔ اسلام کو اگر صرف مذہب نہ بھی لیا جائے تو وہ ہمارے ملک کی ثقافتی تہذیب کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔ یوں بش نے ہماری ثقافت کو چیلنج کیا تھا۔ میں شاید اپنے رویوں میں انتہا پسند ہوں اپنے گھر والوں کی طرح۔ میں نے یکسر دوسری جانب زقند بھر لی تھی۔ اب میرا لہو لعب سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ میں ملا نہیں بن گیا تھا لیکن نماز پڑھنا اور روزے رکھنا باقاعدہ عمل ہو گئے تھے۔ روس میں رہتے ہوئے مجھے احساس تک نہیں ہوتا کہ یہاں شراب بھی عام بکتی ہے۔
اب ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا ۔ میرا حلقہ دوستاں اگرچہ خاصا وسیع ہے لیکن خیالات کی ہم آہنگی انہیں کے ساتھ تھی جو خود کو میری طرح روشن خیال سمجھتے ہیں، لیکن میں ان کے لیے تقریبا” بیگانہ ہو چکا تھا کیونکہ نہ تو میں ان کے بہت سے خیالات سے ان کی طرح متفق ہو سکتا ہوں اور نہ ہی ان کی ان محفلوں میں شامل ہو سکتا ہوں جن میں خالی خولی گفتگو نہیں ہوتی اور نہ ہی میں محتسب کا کردار ادا کر سکتا ہوں۔ پہلے پہل تو انہوں نے سمجھا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ ایک عارضی دور ہے، ختم ہو جائے گا مگر جب سالہا سال بیت گئے تو وہ مجھ سے دور ہو گئے بلکہ ملا، مولوی، پاگل، دماغ خراب وغیرہ کہنے لگے۔ وہ لوگ جو مذہب کو محض عقیدت تصور کرتے ہیں اور مذہب سے متعلق اجتہادانہ نکات کو سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں یا خشمگیں ہونے لگتے ہیں ان کے ساتھ میری نہیں بن پاتی۔ تیسرے وہ ہیں جو تمام مذہبی عوامل سے بھی بہرہ ور ہوتے ہیں اور دنیاوی اعمال کو بھی من و عن وطیرہ بنائے رکھتے ہیں ان کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ اللہ تعالٰی کو محض رحمٰن و رحیم ہی کیوں سمجھتے ہیں جو ان کے خیراتی اعمال کی وجہ سے ان کے برے عمل بخش دے گا مثلا” مجھے سمجھ نہیں آتی کی وہ لوگ جو خود کو شدومد سے مسلمان ثابت کرتے ہیں اور عیوب سے بھی ہاتھ نہیں آٹھا پاتے وہ پھر کیونکر مسلمان ہیں۔
ایسے لوگ بہت زیادہ ہیں جو ملک سے باہر آتے ہیں تو کھلتے ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی شخصی آزادی ہوتی تو وہ سب کچھ عیاں ہورہا ہوتا جو آج مخفی ہو رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پہ ان لوگوں پہ اعتراض نہیں ہے، صرف اعتراض ہے تو یہ کہ وہ خود کو مسلمان کیوں کہتے ہیں۔ کیا مسلمان ہونا صرف کلمہ پڑھ لینے کا نام ہے؟ میں ان پہ تو معترض ہوں لیکن خود حج پہ جاتے ہوئے میری سوچ کس قدر خلجان کا شکار ہے، میں جانتا ہوں لیکن لوگ تو عقیدت میں دیوانے ہیں چنانچہ وہ باتیں کیا کرنی جنہیں میں اجتہادی نکات کہتا ہوں۔ آج تو زمانہ طالبان کے اسلام کا ہے جنہیں یہ پتہ نہیں کہ ان کے جانی دشمن بش کے ایک عمل سے میرے جیسے کتنے لوگ اسلام کی جانب لوٹے ہیں۔ طالبان ایک تنظیم کا نام نہیں بلکہ ایک رویے کا نام ہے جو عقیدت پرست ہیں جنہیں، عقل، استدلال، رواداری اور اتحاد بین المذاہب کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ چنانچہ آپ سے یہی درخواست ہے کہ میرے ساتھ ساتھ طالبان کے لیے بھی دعا کریں کہ وہ انسان بن جائیں اور انسان دوستی کو شعار بنائیں جو کسی بھی مذہب کی اصل الاساس ہے۔
(جاری ہے)
مجھے 8 اکتوبر کو حج کی سعادت پانے کی خاطر ارض مقدس کے لیے روانہ ہونا ہے۔ مجھے کچھ اعترافات، انکشافات اور شکایات کا اظہار کرنا ہے، جس کے لیے اس سے اچھا موقع نہیں ہو سکتا۔ میں ایک زیادہ ہی مذہبی گھرانے کا فرد تھا، جہاں کروڑوں مسلمانوں کی طرح مذہب کے ساتھ وابستگی کی بنیاد عقلیت پسندی کی بجائے عقیدت پرستی تھی اور ہے۔ گھرانہ خالص دیوبندی تھا، مذہب سے شیفتگی کی وجہ میری والدہ تھیں جو ایک معروف عالم گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔
ہمارے والد کوئی اتنے زیادہ مذہبی نہیں تھے البتہ نماز پڑھ لیتے تھے اور روزے بھی رکھ لیتے تھے۔ میرے والد کا اس زمانے کے لاکھوں کا کاروبار، جسے کہتے ہیں ایک رات میں بیٹھ گیا تھا۔ بتدریج گھر میں غربت آن بسی تھی لیکن سفید پوشی کا دھیان رکھا جاتا تھا جس میں دنیا داری زیادہ ہوتی تھی۔ میں بچہ تھا مجھے تب سے دنیا داری زہر لگنے لگی تھی۔ کچھ اللہ سے گلہ تھا کہ ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا۔ تب میں ساتویں جماعت میں تھا۔ کہیں گیارھویں جماعت میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی کا طالبعلم تھا تو مذہب میں عقیدت پرستی کے عنصر سے چڑ ہونے لگی تھی۔ اسی اثناء میں ذوالفقار علی بھٹو منصہ شہود پہ نمودار ہوئے تھے اور پہلی بار سوشلزم کی اصطلاح سے شناسائی ہوئی تھی مگر اس نظام معیشت کے بارے میں سرسری آگاہی کے باوجود میرا میلان مذہب کی جانب ہی زیادہ رہا تھا۔ نشتر میڈیکل کالج کے پہلے سال میں “تبلیغی جماعت” کے ساتھ وابستگی ہو گئی تھی۔ دوسرے سال میں پشاور یونیورسٹی کی مسجد میں ایک باقاعدہ ڈاکٹر تبلیغی بھائی نے جب گفتگو کے دوران میرے ہاتھوں اور رانوں کو سب کے سامنے “اکرام مسلم” میں ایسے سہلانا شروع کیا تھا جیسے اظہار شفقت کر رہے ہوں مجھے پہلی بار جھرجھری آئی تھی۔ اس سے پہلے بھی مساجد میں میں اس قسم کی معیوب حرکات دیکھ چکا تھا لیکن خود پہلی بار ایسی حرکت کا شکار ہو رہا تھا۔ مارے خوف اور کراہت کے میں باہر نکل گیا تھا اور کہیں رات ایک بجے لوٹ کر مسجد میں چپکے سے سو گیا تھا۔ واپسی پہ ہماری ویگن گوجر خاں کے نزدیک کھائی میں جا گری تھی۔ چھت کے بل گری ویگن میں میں فرنٹ سیٹ پر تھا لیکن مجھے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔ تاہم جونہی میں نے کہنی سے کھڑکی کا شیشہ توڑ کر باہر نکلنا چاہا تھا تو کوئی گرم گرم مائع میرے چہرے پہ آ گرا تھا۔ میری آنکھوں میں بیٹری کا تیزاب چلا گیا تھا۔ میں کئی ماہ نابینائی، کم بینائی اور چکا چوندھ بینائی کے غیر عمومی عمل میں مبتلا رہا تھا۔ اب میں مذہب اور وجود خدا کے بارے میں مشکوک ہو گیا تھا۔ نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ ایک خاص واقعے کے بعد اقدام خود کشی کر لیا تھا اور پس از مرگ تحریر میں لکھا تھا،”میں خود مر رہا ہوں مجھے خدا نہیں مار رہا” لیکن ان دو دوستوں کی دوستی جو دونوں اب مرحوم ہیں ایک جوانی میں خود کشی کے باعث اور دوسرا چند روز پیشتر طبعی موت کے باعث اور ڈاکٹروں کی محنت کے طفیل مرنے سے بچا لیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ نے ہی بچایا تھا۔ اس شرمندگی نے مجھے اور ڈھیٹ کر دیا تھا۔ اب میں مذہب مخالف ہو گیا تھا اور ساتھ ہی مزدور دوستی کی جانب راغب بھی۔ البتہ اس سارے عرصے میں اللہ گواہ ہے، میں نے کبھی نہ مذہب کی اور نہ ہی اس سے وابستہ شخصیات کی توہین کرنا تو درکنار ایسا کرنے بارے سوچا تک نہیں تھا، جس کی وجہ جو میں سمجھتا تھا وہ یہ تھی کہ میں انسان اور الوہ کے تعلق کو لوگوں کا ذاتی مسئلہ سمجھتا ہوں لیکن دراصل یہی شے مذہب کی وہ رمق تھی جو مجھ میں باقی رہ گئی تھی۔ وقت گذرتا گیا، علم ،دلیل، عقلیت پسندی پہ تکیہ کیا اور لہو لعب سے بھی غافل نہیں رہا۔
9 مئی 1999 آ گیا۔ تب میں ماسکو میں تھا۔ کسی نے دن چڑھے سر راہ عقب سے میرے سر پہ وار کیا تھا۔ میری کھوپڑی تین جگہ سے چٹخ گئی تھی۔ خون میرے حرام مغز تک سرایت کر گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران موت واقع ہو سکتی ہے لیکن مجھے یقین تھا کہ میں نہیں مروں گا۔ مجھ پہ عالم بیہوشی میں کچھ آشکار ہو گیا تھا۔ میں نے ماورائیات اور کونیات پڑھنا شروع کر دیے تھے بلکہ پیرا سائینس کا ایک کورس بھی کر لیا تھا۔ روس چھوڑ کر امریکہ چلا گیا تھا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بعض اوقات سر پہ گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے انسان روحانیات کی جانب راغب ہو جاتا ہے لیکن مجھے روحانیات کی جانب کوئی رغبت نہ ہو پائی تھی ، ہاں البتہ میں یہ سمجھ چکا تھا کہ شعور سے آگے بھی کچھ ہے ضرور۔ امریکہ میں رہتے ہوئے کچھ کچھ مذہب کی جانب لوٹ آیا تھا۔ لیکن مجھے مکمل طور پر مذہب کی جانب لوٹانے میں، شاید آپ کو یقین نہ آئے امریکہ کے سابق صدر جارج بش جونیر نے بہت بڑا کردار ادا کیا تھا جب انہوں نے نو ستمبر کے واقعے کے بعد ہمارے تمدن یا تہذیب کو مطعون کیا تھا۔ اسلام کو اگر صرف مذہب نہ بھی لیا جائے تو وہ ہمارے ملک کی ثقافتی تہذیب کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔ یوں بش نے ہماری ثقافت کو چیلنج کیا تھا۔ میں شاید اپنے رویوں میں انتہا پسند ہوں اپنے گھر والوں کی طرح۔ میں نے یکسر دوسری جانب زقند بھر لی تھی۔ اب میرا لہو لعب سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ میں ملا نہیں بن گیا تھا لیکن نماز پڑھنا اور روزے رکھنا باقاعدہ عمل ہو گئے تھے۔ روس میں رہتے ہوئے مجھے احساس تک نہیں ہوتا کہ یہاں شراب بھی عام بکتی ہے۔
اب ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا ۔ میرا حلقہ دوستاں اگرچہ خاصا وسیع ہے لیکن خیالات کی ہم آہنگی انہیں کے ساتھ تھی جو خود کو میری طرح روشن خیال سمجھتے ہیں، لیکن میں ان کے لیے تقریبا” بیگانہ ہو چکا تھا کیونکہ نہ تو میں ان کے بہت سے خیالات سے ان کی طرح متفق ہو سکتا ہوں اور نہ ہی ان کی ان محفلوں میں شامل ہو سکتا ہوں جن میں خالی خولی گفتگو نہیں ہوتی اور نہ ہی میں محتسب کا کردار ادا کر سکتا ہوں۔ پہلے پہل تو انہوں نے سمجھا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ ایک عارضی دور ہے، ختم ہو جائے گا مگر جب سالہا سال بیت گئے تو وہ مجھ سے دور ہو گئے بلکہ ملا، مولوی، پاگل، دماغ خراب وغیرہ کہنے لگے۔ وہ لوگ جو مذہب کو محض عقیدت تصور کرتے ہیں اور مذہب سے متعلق اجتہادانہ نکات کو سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں یا خشمگیں ہونے لگتے ہیں ان کے ساتھ میری نہیں بن پاتی۔ تیسرے وہ ہیں جو تمام مذہبی عوامل سے بھی بہرہ ور ہوتے ہیں اور دنیاوی اعمال کو بھی من و عن وطیرہ بنائے رکھتے ہیں ان کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ اللہ تعالٰی کو محض رحمٰن و رحیم ہی کیوں سمجھتے ہیں جو ان کے خیراتی اعمال کی وجہ سے ان کے برے عمل بخش دے گا مثلا” مجھے سمجھ نہیں آتی کی وہ لوگ جو خود کو شدومد سے مسلمان ثابت کرتے ہیں اور عیوب سے بھی ہاتھ نہیں آٹھا پاتے وہ پھر کیونکر مسلمان ہیں۔
ایسے لوگ بہت زیادہ ہیں جو ملک سے باہر آتے ہیں تو کھلتے ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی شخصی آزادی ہوتی تو وہ سب کچھ عیاں ہورہا ہوتا جو آج مخفی ہو رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پہ ان لوگوں پہ اعتراض نہیں ہے، صرف اعتراض ہے تو یہ کہ وہ خود کو مسلمان کیوں کہتے ہیں۔ کیا مسلمان ہونا صرف کلمہ پڑھ لینے کا نام ہے؟ میں ان پہ تو معترض ہوں لیکن خود حج پہ جاتے ہوئے میری سوچ کس قدر خلجان کا شکار ہے، میں جانتا ہوں لیکن لوگ تو عقیدت میں دیوانے ہیں چنانچہ وہ باتیں کیا کرنی جنہیں میں اجتہادی نکات کہتا ہوں۔ آج تو زمانہ طالبان کے اسلام کا ہے جنہیں یہ پتہ نہیں کہ ان کے جانی دشمن بش کے ایک عمل سے میرے جیسے کتنے لوگ اسلام کی جانب لوٹے ہیں۔ طالبان ایک تنظیم کا نام نہیں بلکہ ایک رویے کا نام ہے جو عقیدت پرست ہیں جنہیں، عقل، استدلال، رواداری اور اتحاد بین المذاہب کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ چنانچہ آپ سے یہی درخواست ہے کہ میرے ساتھ ساتھ طالبان کے لیے بھی دعا کریں کہ وہ انسان بن جائیں اور انسان دوستی کو شعار بنائیں جو کسی بھی مذہب کی اصل الاساس ہے۔
(جاری ہے)
مجھے 8 اکتوبر کو حج کی سعادت پانے کی خاطر ارض مقدس کے لیے روانہ ہونا ہے۔ مجھے کچھ اعترافات، انکشافات اور شکایات کا اظہار کرنا ہے، جس کے لیے اس سے اچھا موقع نہیں ہو سکتا۔ میں ایک زیادہ ہی مذہبی گھرانے کا فرد تھا، جہاں کروڑوں مسلمانوں کی طرح مذہب کے ساتھ وابستگی کی بنیاد عقلیت پسندی کی بجائے عقیدت پرستی تھی اور ہے۔ گھرانہ خالص دیوبندی تھا، مذہب سے شیفتگی کی وجہ میری والدہ تھیں جو ایک معروف عالم گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔
ہمارے والد کوئی اتنے زیادہ مذہبی نہیں تھے البتہ نماز پڑھ لیتے تھے اور روزے بھی رکھ لیتے تھے۔ میرے والد کا اس زمانے کے لاکھوں کا کاروبار، جسے کہتے ہیں ایک رات میں بیٹھ گیا تھا۔ بتدریج گھر میں غربت آن بسی تھی لیکن سفید پوشی کا دھیان رکھا جاتا تھا جس میں دنیا داری زیادہ ہوتی تھی۔ میں بچہ تھا مجھے تب سے دنیا داری زہر لگنے لگی تھی۔ کچھ اللہ سے گلہ تھا کہ ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا۔ تب میں ساتویں جماعت میں تھا۔ کہیں گیارھویں جماعت میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی کا طالبعلم تھا تو مذہب میں عقیدت پرستی کے عنصر سے چڑ ہونے لگی تھی۔ اسی اثناء میں ذوالفقار علی بھٹو منصہ شہود پہ نمودار ہوئے تھے اور پہلی بار سوشلزم کی اصطلاح سے شناسائی ہوئی تھی مگر اس نظام معیشت کے بارے میں سرسری آگاہی کے باوجود میرا میلان مذہب کی جانب ہی زیادہ رہا تھا۔ نشتر میڈیکل کالج کے پہلے سال میں “تبلیغی جماعت” کے ساتھ وابستگی ہو گئی تھی۔ دوسرے سال میں پشاور یونیورسٹی کی مسجد میں ایک باقاعدہ ڈاکٹر تبلیغی بھائی نے جب گفتگو کے دوران میرے ہاتھوں اور رانوں کو سب کے سامنے “اکرام مسلم” میں ایسے سہلانا شروع کیا تھا جیسے اظہار شفقت کر رہے ہوں مجھے پہلی بار جھرجھری آئی تھی۔ اس سے پہلے بھی مساجد میں میں اس قسم کی معیوب حرکات دیکھ چکا تھا لیکن خود پہلی بار ایسی حرکت کا شکار ہو رہا تھا۔ مارے خوف اور کراہت کے میں باہر نکل گیا تھا اور کہیں رات ایک بجے لوٹ کر مسجد میں چپکے سے سو گیا تھا۔ واپسی پہ ہماری ویگن گوجر خاں کے نزدیک کھائی میں جا گری تھی۔ چھت کے بل گری ویگن میں میں فرنٹ سیٹ پر تھا لیکن مجھے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔ تاہم جونہی میں نے کہنی سے کھڑکی کا شیشہ توڑ کر باہر نکلنا چاہا تھا تو کوئی گرم گرم مائع میرے چہرے پہ آ گرا تھا۔ میری آنکھوں میں بیٹری کا تیزاب چلا گیا تھا۔ میں کئی ماہ نابینائی، کم بینائی اور چکا چوندھ بینائی کے غیر عمومی عمل میں مبتلا رہا تھا۔ اب میں مذہب اور وجود خدا کے بارے میں مشکوک ہو گیا تھا۔ نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ ایک خاص واقعے کے بعد اقدام خود کشی کر لیا تھا اور پس از مرگ تحریر میں لکھا تھا،”میں خود مر رہا ہوں مجھے خدا نہیں مار رہا” لیکن ان دو دوستوں کی دوستی جو دونوں اب مرحوم ہیں ایک جوانی میں خود کشی کے باعث اور دوسرا چند روز پیشتر طبعی موت کے باعث اور ڈاکٹروں کی محنت کے طفیل مرنے سے بچا لیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ نے ہی بچایا تھا۔ اس شرمندگی نے مجھے اور ڈھیٹ کر دیا تھا۔ اب میں مذہب مخالف ہو گیا تھا اور ساتھ ہی مزدور دوستی کی جانب راغب بھی۔ البتہ اس سارے عرصے میں اللہ گواہ ہے، میں نے کبھی نہ مذہب کی اور نہ ہی اس سے وابستہ شخصیات کی توہین کرنا تو درکنار ایسا کرنے بارے سوچا تک نہیں تھا، جس کی وجہ جو میں سمجھتا تھا وہ یہ تھی کہ میں انسان اور الوہ کے تعلق کو لوگوں کا ذاتی مسئلہ سمجھتا ہوں لیکن دراصل یہی شے مذہب کی وہ رمق تھی جو مجھ میں باقی رہ گئی تھی۔ وقت گذرتا گیا، علم ،دلیل، عقلیت پسندی پہ تکیہ کیا اور لہو لعب سے بھی غافل نہیں رہا۔
9 مئی 1999 آ گیا۔ تب میں ماسکو میں تھا۔ کسی نے دن چڑھے سر راہ عقب سے میرے سر پہ وار کیا تھا۔ میری کھوپڑی تین جگہ سے چٹخ گئی تھی۔ خون میرے حرام مغز تک سرایت کر گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران موت واقع ہو سکتی ہے لیکن مجھے یقین تھا کہ میں نہیں مروں گا۔ مجھ پہ عالم بیہوشی میں کچھ آشکار ہو گیا تھا۔ میں نے ماورائیات اور کونیات پڑھنا شروع کر دیے تھے بلکہ پیرا سائینس کا ایک کورس بھی کر لیا تھا۔ روس چھوڑ کر امریکہ چلا گیا تھا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بعض اوقات سر پہ گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے انسان روحانیات کی جانب راغب ہو جاتا ہے لیکن مجھے روحانیات کی جانب کوئی رغبت نہ ہو پائی تھی ، ہاں البتہ میں یہ سمجھ چکا تھا کہ شعور سے آگے بھی کچھ ہے ضرور۔ امریکہ میں رہتے ہوئے کچھ کچھ مذہب کی جانب لوٹ آیا تھا۔ لیکن مجھے مکمل طور پر مذہب کی جانب لوٹانے میں، شاید آپ کو یقین نہ آئے امریکہ کے سابق صدر جارج بش جونیر نے بہت بڑا کردار ادا کیا تھا جب انہوں نے نو ستمبر کے واقعے کے بعد ہمارے تمدن یا تہذیب کو مطعون کیا تھا۔ اسلام کو اگر صرف مذہب نہ بھی لیا جائے تو وہ ہمارے ملک کی ثقافتی تہذیب کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔ یوں بش نے ہماری ثقافت کو چیلنج کیا تھا۔ میں شاید اپنے رویوں میں انتہا پسند ہوں اپنے گھر والوں کی طرح۔ میں نے یکسر دوسری جانب زقند بھر لی تھی۔ اب میرا لہو لعب سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ میں ملا نہیں بن گیا تھا لیکن نماز پڑھنا اور روزے رکھنا باقاعدہ عمل ہو گئے تھے۔ روس میں رہتے ہوئے مجھے احساس تک نہیں ہوتا کہ یہاں شراب بھی عام بکتی ہے۔
اب ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا ۔ میرا حلقہ دوستاں اگرچہ خاصا وسیع ہے لیکن خیالات کی ہم آہنگی انہیں کے ساتھ تھی جو خود کو میری طرح روشن خیال سمجھتے ہیں، لیکن میں ان کے لیے تقریبا” بیگانہ ہو چکا تھا کیونکہ نہ تو میں ان کے بہت سے خیالات سے ان کی طرح متفق ہو سکتا ہوں اور نہ ہی ان کی ان محفلوں میں شامل ہو سکتا ہوں جن میں خالی خولی گفتگو نہیں ہوتی اور نہ ہی میں محتسب کا کردار ادا کر سکتا ہوں۔ پہلے پہل تو انہوں نے سمجھا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ ایک عارضی دور ہے، ختم ہو جائے گا مگر جب سالہا سال بیت گئے تو وہ مجھ سے دور ہو گئے بلکہ ملا، مولوی، پاگل، دماغ خراب وغیرہ کہنے لگے۔ وہ لوگ جو مذہب کو محض عقیدت تصور کرتے ہیں اور مذہب سے متعلق اجتہادانہ نکات کو سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں یا خشمگیں ہونے لگتے ہیں ان کے ساتھ میری نہیں بن پاتی۔ تیسرے وہ ہیں جو تمام مذہبی عوامل سے بھی بہرہ ور ہوتے ہیں اور دنیاوی اعمال کو بھی من و عن وطیرہ بنائے رکھتے ہیں ان کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ اللہ تعالٰی کو محض رحمٰن و رحیم ہی کیوں سمجھتے ہیں جو ان کے خیراتی اعمال کی وجہ سے ان کے برے عمل بخش دے گا مثلا” مجھے سمجھ نہیں آتی کی وہ لوگ جو خود کو شدومد سے مسلمان ثابت کرتے ہیں اور عیوب سے بھی ہاتھ نہیں آٹھا پاتے وہ پھر کیونکر مسلمان ہیں۔
ایسے لوگ بہت زیادہ ہیں جو ملک سے باہر آتے ہیں تو کھلتے ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی شخصی آزادی ہوتی تو وہ سب کچھ عیاں ہورہا ہوتا جو آج مخفی ہو رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پہ ان لوگوں پہ اعتراض نہیں ہے، صرف اعتراض ہے تو یہ کہ وہ خود کو مسلمان کیوں کہتے ہیں۔ کیا مسلمان ہونا صرف کلمہ پڑھ لینے کا نام ہے؟ میں ان پہ تو معترض ہوں لیکن خود حج پہ جاتے ہوئے میری سوچ کس قدر خلجان کا شکار ہے، میں جانتا ہوں لیکن لوگ تو عقیدت میں دیوانے ہیں چنانچہ وہ باتیں کیا کرنی جنہیں میں اجتہادی نکات کہتا ہوں۔ آج تو زمانہ طالبان کے اسلام کا ہے جنہیں یہ پتہ نہیں کہ ان کے جانی دشمن بش کے ایک عمل سے میرے جیسے کتنے لوگ اسلام کی جانب لوٹے ہیں۔ طالبان ایک تنظیم کا نام نہیں بلکہ ایک رویے کا نام ہے جو عقیدت پرست ہیں جنہیں، عقل، استدلال، رواداری اور اتحاد بین المذاہب کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ چنانچہ آپ سے یہی درخواست ہے کہ میرے ساتھ ساتھ طالبان کے لیے بھی دعا کریں کہ وہ انسان بن جائیں اور انسان دوستی کو شعار بنائیں جو کسی بھی مذہب کی اصل الاساس ہے۔
(جاری ہے)
مجھے 8 اکتوبر کو حج کی سعادت پانے کی خاطر ارض مقدس کے لیے روانہ ہونا ہے۔ مجھے کچھ اعترافات، انکشافات اور شکایات کا اظہار کرنا ہے، جس کے لیے اس سے اچھا موقع نہیں ہو سکتا۔ میں ایک زیادہ ہی مذہبی گھرانے کا فرد تھا، جہاں کروڑوں مسلمانوں کی طرح مذہب کے ساتھ وابستگی کی بنیاد عقلیت پسندی کی بجائے عقیدت پرستی تھی اور ہے۔ گھرانہ خالص دیوبندی تھا، مذہب سے شیفتگی کی وجہ میری والدہ تھیں جو ایک معروف عالم گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔
ہمارے والد کوئی اتنے زیادہ مذہبی نہیں تھے البتہ نماز پڑھ لیتے تھے اور روزے بھی رکھ لیتے تھے۔ میرے والد کا اس زمانے کے لاکھوں کا کاروبار، جسے کہتے ہیں ایک رات میں بیٹھ گیا تھا۔ بتدریج گھر میں غربت آن بسی تھی لیکن سفید پوشی کا دھیان رکھا جاتا تھا جس میں دنیا داری زیادہ ہوتی تھی۔ میں بچہ تھا مجھے تب سے دنیا داری زہر لگنے لگی تھی۔ کچھ اللہ سے گلہ تھا کہ ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا۔ تب میں ساتویں جماعت میں تھا۔ کہیں گیارھویں جماعت میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی کا طالبعلم تھا تو مذہب میں عقیدت پرستی کے عنصر سے چڑ ہونے لگی تھی۔ اسی اثناء میں ذوالفقار علی بھٹو منصہ شہود پہ نمودار ہوئے تھے اور پہلی بار سوشلزم کی اصطلاح سے شناسائی ہوئی تھی مگر اس نظام معیشت کے بارے میں سرسری آگاہی کے باوجود میرا میلان مذہب کی جانب ہی زیادہ رہا تھا۔ نشتر میڈیکل کالج کے پہلے سال میں “تبلیغی جماعت” کے ساتھ وابستگی ہو گئی تھی۔ دوسرے سال میں پشاور یونیورسٹی کی مسجد میں ایک باقاعدہ ڈاکٹر تبلیغی بھائی نے جب گفتگو کے دوران میرے ہاتھوں اور رانوں کو سب کے سامنے “اکرام مسلم” میں ایسے سہلانا شروع کیا تھا جیسے اظہار شفقت کر رہے ہوں مجھے پہلی بار جھرجھری آئی تھی۔ اس سے پہلے بھی مساجد میں میں اس قسم کی معیوب حرکات دیکھ چکا تھا لیکن خود پہلی بار ایسی حرکت کا شکار ہو رہا تھا۔ مارے خوف اور کراہت کے میں باہر نکل گیا تھا اور کہیں رات ایک بجے لوٹ کر مسجد میں چپکے سے سو گیا تھا۔ واپسی پہ ہماری ویگن گوجر خاں کے نزدیک کھائی میں جا گری تھی۔ چھت کے بل گری ویگن میں میں فرنٹ سیٹ پر تھا لیکن مجھے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔ تاہم جونہی میں نے کہنی سے کھڑکی کا شیشہ توڑ کر باہر نکلنا چاہا تھا تو کوئی گرم گرم مائع میرے چہرے پہ آ گرا تھا۔ میری آنکھوں میں بیٹری کا تیزاب چلا گیا تھا۔ میں کئی ماہ نابینائی، کم بینائی اور چکا چوندھ بینائی کے غیر عمومی عمل میں مبتلا رہا تھا۔ اب میں مذہب اور وجود خدا کے بارے میں مشکوک ہو گیا تھا۔ نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ ایک خاص واقعے کے بعد اقدام خود کشی کر لیا تھا اور پس از مرگ تحریر میں لکھا تھا،”میں خود مر رہا ہوں مجھے خدا نہیں مار رہا” لیکن ان دو دوستوں کی دوستی جو دونوں اب مرحوم ہیں ایک جوانی میں خود کشی کے باعث اور دوسرا چند روز پیشتر طبعی موت کے باعث اور ڈاکٹروں کی محنت کے طفیل مرنے سے بچا لیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ نے ہی بچایا تھا۔ اس شرمندگی نے مجھے اور ڈھیٹ کر دیا تھا۔ اب میں مذہب مخالف ہو گیا تھا اور ساتھ ہی مزدور دوستی کی جانب راغب بھی۔ البتہ اس سارے عرصے میں اللہ گواہ ہے، میں نے کبھی نہ مذہب کی اور نہ ہی اس سے وابستہ شخصیات کی توہین کرنا تو درکنار ایسا کرنے بارے سوچا تک نہیں تھا، جس کی وجہ جو میں سمجھتا تھا وہ یہ تھی کہ میں انسان اور الوہ کے تعلق کو لوگوں کا ذاتی مسئلہ سمجھتا ہوں لیکن دراصل یہی شے مذہب کی وہ رمق تھی جو مجھ میں باقی رہ گئی تھی۔ وقت گذرتا گیا، علم ،دلیل، عقلیت پسندی پہ تکیہ کیا اور لہو لعب سے بھی غافل نہیں رہا۔
9 مئی 1999 آ گیا۔ تب میں ماسکو میں تھا۔ کسی نے دن چڑھے سر راہ عقب سے میرے سر پہ وار کیا تھا۔ میری کھوپڑی تین جگہ سے چٹخ گئی تھی۔ خون میرے حرام مغز تک سرایت کر گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران موت واقع ہو سکتی ہے لیکن مجھے یقین تھا کہ میں نہیں مروں گا۔ مجھ پہ عالم بیہوشی میں کچھ آشکار ہو گیا تھا۔ میں نے ماورائیات اور کونیات پڑھنا شروع کر دیے تھے بلکہ پیرا سائینس کا ایک کورس بھی کر لیا تھا۔ روس چھوڑ کر امریکہ چلا گیا تھا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بعض اوقات سر پہ گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے انسان روحانیات کی جانب راغب ہو جاتا ہے لیکن مجھے روحانیات کی جانب کوئی رغبت نہ ہو پائی تھی ، ہاں البتہ میں یہ سمجھ چکا تھا کہ شعور سے آگے بھی کچھ ہے ضرور۔ امریکہ میں رہتے ہوئے کچھ کچھ مذہب کی جانب لوٹ آیا تھا۔ لیکن مجھے مکمل طور پر مذہب کی جانب لوٹانے میں، شاید آپ کو یقین نہ آئے امریکہ کے سابق صدر جارج بش جونیر نے بہت بڑا کردار ادا کیا تھا جب انہوں نے نو ستمبر کے واقعے کے بعد ہمارے تمدن یا تہذیب کو مطعون کیا تھا۔ اسلام کو اگر صرف مذہب نہ بھی لیا جائے تو وہ ہمارے ملک کی ثقافتی تہذیب کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔ یوں بش نے ہماری ثقافت کو چیلنج کیا تھا۔ میں شاید اپنے رویوں میں انتہا پسند ہوں اپنے گھر والوں کی طرح۔ میں نے یکسر دوسری جانب زقند بھر لی تھی۔ اب میرا لہو لعب سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ میں ملا نہیں بن گیا تھا لیکن نماز پڑھنا اور روزے رکھنا باقاعدہ عمل ہو گئے تھے۔ روس میں رہتے ہوئے مجھے احساس تک نہیں ہوتا کہ یہاں شراب بھی عام بکتی ہے۔
اب ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا ۔ میرا حلقہ دوستاں اگرچہ خاصا وسیع ہے لیکن خیالات کی ہم آہنگی انہیں کے ساتھ تھی جو خود کو میری طرح روشن خیال سمجھتے ہیں، لیکن میں ان کے لیے تقریبا” بیگانہ ہو چکا تھا کیونکہ نہ تو میں ان کے بہت سے خیالات سے ان کی طرح متفق ہو سکتا ہوں اور نہ ہی ان کی ان محفلوں میں شامل ہو سکتا ہوں جن میں خالی خولی گفتگو نہیں ہوتی اور نہ ہی میں محتسب کا کردار ادا کر سکتا ہوں۔ پہلے پہل تو انہوں نے سمجھا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ ایک عارضی دور ہے، ختم ہو جائے گا مگر جب سالہا سال بیت گئے تو وہ مجھ سے دور ہو گئے بلکہ ملا، مولوی، پاگل، دماغ خراب وغیرہ کہنے لگے۔ وہ لوگ جو مذہب کو محض عقیدت تصور کرتے ہیں اور مذہب سے متعلق اجتہادانہ نکات کو سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں یا خشمگیں ہونے لگتے ہیں ان کے ساتھ میری نہیں بن پاتی۔ تیسرے وہ ہیں جو تمام مذہبی عوامل سے بھی بہرہ ور ہوتے ہیں اور دنیاوی اعمال کو بھی من و عن وطیرہ بنائے رکھتے ہیں ان کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ اللہ تعالٰی کو محض رحمٰن و رحیم ہی کیوں سمجھتے ہیں جو ان کے خیراتی اعمال کی وجہ سے ان کے برے عمل بخش دے گا مثلا” مجھے سمجھ نہیں آتی کی وہ لوگ جو خود کو شدومد سے مسلمان ثابت کرتے ہیں اور عیوب سے بھی ہاتھ نہیں آٹھا پاتے وہ پھر کیونکر مسلمان ہیں۔
ایسے لوگ بہت زیادہ ہیں جو ملک سے باہر آتے ہیں تو کھلتے ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی شخصی آزادی ہوتی تو وہ سب کچھ عیاں ہورہا ہوتا جو آج مخفی ہو رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پہ ان لوگوں پہ اعتراض نہیں ہے، صرف اعتراض ہے تو یہ کہ وہ خود کو مسلمان کیوں کہتے ہیں۔ کیا مسلمان ہونا صرف کلمہ پڑھ لینے کا نام ہے؟ میں ان پہ تو معترض ہوں لیکن خود حج پہ جاتے ہوئے میری سوچ کس قدر خلجان کا شکار ہے، میں جانتا ہوں لیکن لوگ تو عقیدت میں دیوانے ہیں چنانچہ وہ باتیں کیا کرنی جنہیں میں اجتہادی نکات کہتا ہوں۔ آج تو زمانہ طالبان کے اسلام کا ہے جنہیں یہ پتہ نہیں کہ ان کے جانی دشمن بش کے ایک عمل سے میرے جیسے کتنے لوگ اسلام کی جانب لوٹے ہیں۔ طالبان ایک تنظیم کا نام نہیں بلکہ ایک رویے کا نام ہے جو عقیدت پرست ہیں جنہیں، عقل، استدلال، رواداری اور اتحاد بین المذاہب کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ چنانچہ آپ سے یہی درخواست ہے کہ میرے ساتھ ساتھ طالبان کے لیے بھی دعا کریں کہ وہ انسان بن جائیں اور انسان دوستی کو شعار بنائیں جو کسی بھی مذہب کی اصل الاساس ہے۔
(جاری ہے)