لفافہ کھولا، اس میں اخبار کے ایڈیٹر کی طرف سے خط موجود تھا۔ مجھے اخبار کے دفتر بلایا گیا تھا۔ مجھے کافی خوشی ھوئی اور سوچا اخبار میں job ملے یا نہ ملے ، اخبار کا دفتر تو دیکھ ہی لوں گا۔ ملاقات کے لیےایک ھفتے بعد کا وقت دیا گیا تھا۔
پورا ھفتہ شدت سے انتظار کرتا رہا اور بالآخر وہ دن آن پہنچا۔ آج میں اپنی job سے جلدی واپس آ گیا تھا۔ کپڑے بدل کر میں اپنی منزل کی طرف روانہ ھو گیا۔ اخبار کا دفتر گھر سے کافی فاصلے پر تھا۔ میں چاہتا تھا کہ کم از کم آدھا گھنٹہ پہلے پہنچ جاؤں۔
اخبار کا دفتر دیکھ کر میری تو آنکھیں ہی دنگ رہ گئیں۔
پاکستان کے اخباری دفاتر تو میں کئی بار جا چکا تھا۔ گندے آفس، پان کی پیکیں، جگہ جگہ کچرا اور ہر جگہ بے ترتیبی۔ یہاں ہر چیز کو انتہائ سلیقے سے رکھا گیا تھا۔ کوئی موازنہ اور مقابلہ نہ تھا پاکستانی اخباری دفتر کا اور آسٹریلین اخباری دفتر کا۔
استقبالیہ جا کر انھیں بتایا کہ مجھے ایڈیٹر سے ملنا ھے۔ انھیں خط بھی دکھایا۔ استقبالیہ پر موجود لڑکی نے intercom کے ذریعے اندر بتایا۔ کچھ دیر بعد ایک صاحب آئے، اپنا تعارف کروایا اور مجھے اندر لے گئے۔
میرے لیے کافی منگوائی گئی۔ میں Sydney Morning Herald کے دفتر میں بیٹھ کر بہت ہی proud محسوس کر رہا تھا۔ایڈیٹر نے مجھ سے چند بنیادی سوالات کیے۔ مجھ سے میرے ویزے کے بارے میں پوچھا۔ اسی طرح میرے کورس کے بارے میں پوچھا۔ اس نے مجھ سے معذرت چاہی اور کہا کہ ہمیں ایسے لوگ چاہییں جن کے پاس آسٹریلیا کی شہریت ھو۔ میں اس کے جواب سے مایوس ضرور تھا لیکن مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ میں دنیا کے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر سے ملا۔ اور اس اخبار کا دفتر دیکھا۔
ملازمت اور پڑھائی کا سلسلہ چلتا رہا۔ پڑھائی بہت آسان تھی۔ دراصل کالج کو فیس سے غرض تھی۔اور کالج کا نظام ایسا تھا کہ جو بھی داخلہ لیتا اس کو ڈپلومہ ضرور ملتا۔
ملازمت اور کالج چلتے رہے۔ ڈپلومہ بھی مل گیا۔ بہت خوشی تھی۔ کیونکہ کسی فرد سے ایک روپیہ بھی نہ لیا تھا۔
دل گھر کے لیے بہت اداس تھا۔پاکستان کے موسم ، لوگ ، شھر اور گلیاں سب کچھ بہت یاد آتا تھا۔ سوچا پاکستان کا ایک چکر لگایا جائے۔ اپنے ریسٹورنٹ کے مینیجر سے بات کی۔ اس نے پندرہ دن کی چھٹی کی اجازت دے دی۔ آسٹریلیا میں لا تعداد اقسام کی چاکلیٹ ھوتی ہیں۔
چند دن بعد کا ٹکٹ لیا اور پاکستان کے لیے روانہ ھوا۔ میں نے کئی کلو چاکلیٹ خریدی۔اس کے علاوہ دوست واحباب کے لیے مختلف souvenirs بھی خریدے۔
پاکستان آکر بہت مایوسی ھوئی۔ معمولی سی بھی ترقی دیکھنے میں نہ آئی تھی۔ بلکہ چیزیں پہلے سے بھی بد تر ھو چکی تھیں۔ بہت مایوسی اور دکھ ھوا۔ دو ھفتوں کی چھٹی گزار کر میں واپس سڈنی روانہ ھو گیا۔
واپس آکر میں نے اسی ریسٹورنٹ میں ملازمت شروع کر دی۔ ریسٹورنٹ میں مجھے ملازمت کرتے ھوۓ تقریباً 18 ماہ ھو چکے تھے۔ میں kitchen Hand کی job سے اکتا چکا تھا اور اب کچھ change چاہتا تھا۔ میں نے مینیجر سے اس بارے میں بات کی۔ اسے بتایا کہ اب میں اسسٹنٹ مینیجر کی job کرنا چاہتا ھوں۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ جب بھی ریسٹورنٹ میں کوئی vacancy خالی ھو گی وہ ضرور میری مدد اور رہنمائی کرے گا۔
دوسری طرف اپنے ویزا کی میعاد بڑھانے کے لیے ضروری تھا کہ میں کسی نئے پروگرام میں داخلہ لیتا۔ ابھی ویزہ ختم ھونے میں چند ماہ باقی تھے۔ اگلے کچھ ماہ میں اس حوالے سے confuse ہی رہا۔
دراصل میرا یونیورسٹی کا ایک دوست جاپان میں مقیم تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ میں آسٹریلیا سے جاپان آجاؤں۔ اس کا خیال تھا کہ آسٹریلیا کے مقابلے میں جاپان میں کام کے زیادہ مواقع تھے اور تنخواہیں بھی زیادہ تھیں۔
مختلف لوگوں نے مجھے مختلف مشورے دیے۔ کسی کا خیال تھا کہ مجھے آسٹریلیا میں رہ کر شھریت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ جبکہ کئ دوستوں کے نزدیک جاپان زیادہ بہتر option تھا۔
بس اب مجھے فیصلہ کرنا تھا میں آسٹریلیا میں قیام کروں یا جاپان چلا جاؤں۔ تمام حالات کو مد نظر رکھتے ھوئے میں نے جاپان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس وقت پاکستان میں جاپان کے ویزہ کی قیمت تقریباً دس لاکھ پاکستانی روپۓ تھی۔ جب کہ آسٹریلیا سے جاپان کے لیے ویزہ مفت تھا۔ میں نے سڈنی میں جاپانی سفارت خانہ جاکر جاپان کے visit ویزا کے لیے درخواست دی۔ اور اگلے دن ہی مجھے جاپان کا تین ماہ کا ویزا مل گیا۔
اس دفعہ میں نے بالی کا پروگرام بنایا جو انڈونیشیا کا مشہور سیاحتی مقام ھے۔ مجھے سڈنی سے بالی ، جکارتہ اور پھر ٹوکیو پہنچنا تھا۔ اسی لیے میں نے انڈونیشیاء کی قومی ایئر لائن Garuda Indonesia کی ٹکٹ لی۔ مجھے آسٹریلیا چھوڑنے کا افسوس بھی تھا لیکن دوسری دفعہ جاپان جانے کی خوشی بھی تھی۔
ایک دن بالی اور ایک دن جکارتہ میں قیام کے بعد میں جاپان کے دارلحکومت ٹوکیو پہنچا۔ یہ میرا ٹوکیو کا دوسرا سفر تھا۔
(نوٹ۔۔۔میرا اگلا کالم جاپان کے پہلے سفر کے بارے میں ھو گا )