Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
وہ کونسی وجوہات ہیں کہ کچھ مریضوں کے لئے مکمل صحتیابی زیادہ مشکل ہوتی ہے؟ مختلف ہسپتالوں میں (دیگر امراض سے بھی ) پھیپھڑوں کے نا کاروں ہونے والے مریضوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کمزور طبع اور طویل عرصے اسپتال میں داخل رہنے والے مریضوں کی صحت و بحالی نسبتا مشکل ہوتی ہے۔
لیکن کورونا وائرس کے مریض صرف ضعیف یا پہلے ہی دیگر بیماریوں کے شکار ہی نہیں ، ہفتوں وینٹیلیٹر پر رہنے کے، وینٹیلیٹر سے نکلنے کے بعد بھی کئی ہفتے ہسپتال میں گذارنے کے بعد انکے لئے بحالی کی پہاڑی پر چڑہنا زیادہ دشوار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فیرنٹ کا کہنا ہے کہ مریضوں کا وینٹیلیٹر اور آئی سی یو میں قیام کے دورانیے کی اتنی طوالت پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی، اور ہمیں فکر ہے کہ اس سے مریض کے جسمانی نظام پر لازماً نقصانات ہوں گے اور بہت سے مریض مکمل صحتیابی حاصل نہ کرپائیں گے”۔
یہ بھی پڑھئے:
کوروناوائرس کے دوران ملازمت کاحصول| ارشد عاکف
کورونا میں اگر ایدھی صاحب ہوتے
ایک اور عنصر جو بیماری کو طویل یا مکمل صحت میں رکاوٹ بن سکتا ہے جسکے hospital delirium یعنی اسپتالی ہذیانی کیفیت جس کے نتیجے میں مریض گھبراہٹ، پریشانی کیفیت، غیر مرئی چیزیں دیکھنا ڈر خوف یہ ساری چیزیں زیادہ تر ایسے مریضوں میں پیدا ہوسکتی ہیں جو طویل عرصے تک بیہوش رکھّے جائیں،نقل و حرکت کے قابل نہ ہوں، بہت ہی محدود لوگوں سے بات چیت ہو یہ سب کچھ کورونا کے مریضوں کے معاملے میں عام ہے۔
وینڈربلٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ICU کے مریض جو hospital delirium یعنی اسپتالی ہذیانی کا شکار ہوئے ہیں انکا اسپتال سے فارغ ہونے کئی ماہ بعد ذہنی / دناغی صلاحیتوں کے مسائل کا سامنا کرنے کا امکان زیادہ ہے۔
مریضوں کی بحالی کی رفتار ؟
ڈاکٹر نیڈہام کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ہر مریض کا انفرادی معاملہ ہے، کسی دن بہتری نظر آئے گی اور کوئی مشکل دن ہوگا۔مستقل مزاجی سب سے اہم ہے۔ “ ہم یہ نہیں چاہیں گے کہ مریض گھر جاکر سارا دن بستر پر پڑا رہے، یہ معاملات کو بہتر نہیں بلکہ خراب کرے گا۔مریض اور انکے اہل خانہ کو اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اس معاملے میں اُتار چڑھاؤ عام سی بات ہے۔
“کسی دن ایسا لگے گا کہ آپکے پھیپھڑوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن آپکے جوڑوں میں شدید درد ہے کہ آپ اپنی پھیپھڑوں کی ورزش بھی نہیں سکتے۔ یا کبھی پھیپھڑے کا معاملہ ٹھیک ہے لیکن آپکی ذہنی دہند مسائل پیدا کررہی ہےاور گھبراہٹ، غصہ اور چیزوں کو سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے اور آپکو اپنے ماہر نفسیات کے ساتھ رابطہ کرنا پڑے۔یہ بالکل ایسا لگے گا کہ ایک قدم آگے دو قدم پیچھے”۔
یہ مسائل کتنے عرصے چلیں گے؟
ماہرین کا کہنا ہے زیادہ تر لوگوں کے لئے پھیپھڑے تو چند ماہ میں بحال ہو جائیں گے۔ لیکن دیگر مسائل کچھ زیادہ وقت لے سکتے ہیں اور بعض افراد تو شاید کبھی بھی مکمل صحتیاب نہ ہو سکیں۔
اسکے لئے ۲۰۱۱ کی نیوانگلینڈ جرنل اور میڈیسن میں کینیڈا میں مریضوں 35 سے 57 سال کی عمر کے 109 مریضوں ARDS یعنی acute respiratory distress syndrome پھیپھڑوں کی وہ کیفئت جب سانس لینے کے لئے آکسیجن یا وینٹیلیٹر کی ضرورت پیش آتی ہےکے مریضوں پر تحقیق کی گئی۔
چونکہ اسی قسم کا پھیپھڑے کام چھوڑنا کورونا کے مریضوں میں بھی دیکھا گیا ہے اس لئے اسے کووڈ کے مریضوں کے طویل المدت پروگریس کو جانچنے کے لئے بطور جسے مثال استعمال کیا گیا ہے۔
ان مریضوں کی صحتیابی کے پانچ سال بعد دیکھا گیا کہ زیادہ تر مریضوں کے پھپھڑے تو مکمل یا تقریباً عام کارکردگی پر آگئے تھے لیکن دیگر جسمانی، ذہنی اور جذباتی مسائل سے وہ اسوقت تک نبرد آزما تھے۔
ایک اور اہم ٹیسٹ یہ تھاکہ مریض چھ منٹوں میں کتنی دور تک چل سکتا ہے انکا اوسط فاصلہ 409 میٹر تھا جوکہ محققین کی پیشگوئی کے تین چوتھائی تھا۔، یہ ضرور ہے کہ نسبتا کم عمر مریضوں کی جسمانی صحت کی بحالی کی رفتار ضعیف العمر افراد کی بہ نسبت بہتر تھی لیکن پانچ سال کے بعد بھی کوئی بھی گروپ جسمانی نقل و حرکت کے لحاظ سے متوقع درجے پر نہ پہنچ سکا۔
اس تحقیق میں سارے مریض ARDS یعنی acute respiratory distress syndrome ککے مختلف وجوہات پر شکار ہوئے، انکا اوسط اسپتال کا قیام 49 دن رھا جن میں 26 دن ICU اور 24 دن وینٹیلیٹر پر قیام شامل ہے۔اس کے بعد دیکھا گیا کہ مریضوں طویل عرصے تک پٹھّوں میں کمزوری پائی گئی جو کئی ماہ بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہی ، وہ پٹھوں کی کمزوری صرف بازو اور پاؤں ہی نہیں بلکہ سانس کے لئے معاون پٹھے بھی شامل ہیں۔
ایک اور تحقیق کے مطابق ARDS کے تقریباً دوتہائی مریضوں نے اسپتال سے رخصت ہونے کے بعد بھی بہت زیادہ تکان محسوس کرنے کی شکایت کی ہے۔
نفسیاتی اور دماغی مسائل بھی بڑی حدتک مستقل باقی رہے ، ۲۰۱۱ کی کینیڈین تحقیق کے مریضوں میں دو اور پانچ سالوں کے درمیانی عرصے ڈپریشن ، گھبراہٹ و اضطراب یا دونوں ہی کی تشخیص کی گئی ہے۔
۲۰۰۳ کے سارس کی وباء جو کہ کورونا ہی کی ایک قسم تھی کے بارے میں ایک اور تحقیق جس میں سارس سے صحتیاب شدہ مریضوں کے ایک سال بعد بھی پریشان کن درجے کی ڈپریشن، گھبراہٹ و پریشانی اور دیگر PTSD کی علامات سامنے آئی ہیں۔
اسکے عواقب کیا ہوں گے؟
دیگر چیزوں کے علاوہ ممکن ہے کہ مریض دوبارہ اپنی ملازمتوں اور پروفیشنل زندگی کو شروع کرنے میں مشکلات محسوس کریں۔ڈاکٹر نیڈہام کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم نے 64 ADR (پھپھڑوں کا تقریباً کام چھوڑ کر سانس لینے میں شدید دقّت) کے مریضوں کو پانچ سال کے بعد دیکھا تو وہ (اسپتال سے جانے کے بعد ) دوبارہ اپنی ملازمت واپس نہیں جاسکے۔بعض نے کوشش بھی کی لیکن ناکام رہے۔ بعض نے اپنا شعبہ تبدیل کرکے کم آمدنی والے سادہ اور آسان شعبوں میں چلے گئے۔
ڈاکٹر زیجیان چین کا کہنا ہے کہ وہ کورونا کے مریضوں کے طویل المدت مسائل ایڈز کے مریضوں یا ۹/۱۱ کے نیویارک کے حملے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل اے مطابقت ہونے کے خطرے کے بارے میں متفکر ہیں۔
“ایک نئی بیماری جوکہ شدید بھی ہےاور تباہ کن بھی ، اسکی علامات طویل مدت تک باقی رہیں گی۔ یہ تو اثرات کے لحاظ سے ان دونوں (ایڈز اور ۹/۱۲) سے بھی بدتر شکل اختیار کررہی ہے۔(ویسے میں ایڈز اور ۹/۱۱ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے سے مطابقت سے متفق نہیں)۔”
لاکھوں افراد اس بیماری کے (chronic syndromes ) ناقابل علاج اثرات جو شاید ختم ہونے میں طویل وقت لیں کا شکار رہیں گے۔ اگر اسے بروقت نہیں سنبھالا گیا تو یہ ایک بہت بڑا صحت ہی نہیں معاشی مسئلہ بھی بن جائے گا “ ڈاکٹر چین نے کہا۔
اسپتال گھر صحتیاب ہو کر جانے والے مریضوں کے لئے کیا کررہے ہیں؟؟
کئی اسپتال بالخصوص Yale, ماؤنٹ سنائی، اور جان ہاکپبز مریضوں کو بذریعہ فون ٹیلی میڈیسن مشاورت فراہم کررہے ہیں اور حسب ضرورت ذاتی طور پر بھی .
(نیو یارک ٹائمز: پام بیلک)