نیو یارک ٹائمز: پام بیلک، اردو: اعظم علی
نیویارک ٹائمز کا یہ مضمون کورونا کے شدید بیمار مریضوں کی طویل المدت ریکوری اور بحالی کے مسائل سے متعلق ہے لیکن درحقیقت یہ ان تمام مریضوں کے مسائل ہیں جو طویل عرصے ICU اور وینٹیلیٹر پر وقت گذار کر آئے ہیں۔ اس لئے اسے تھوڑے وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔
………………….
سانس پھولنا، اعصابی کمزوری، بیماری کی کیفیت کا دماغ میں گھومنا، دماغی دہندلاپن و دیگر مسائل ہیں جو مریضوں کا طویل عرصے تک پیچھا کریں گے۔ لاکھوں مریض جو کورونا کے ہاتھوں شدید بیماری کے بعد جان بچا کر اسپتالوں سے باہر تو آگئے لیکن اس کے بعد وہ ایک اور مشکل امتحان سے گذر رہے ہیں۔مکمل صحتیابی بذات خود ایک مشکل مرحلہ ہے۔ کئی مریض اسپتال سے گھر آنے کے باوجود مرض کے اثرات سے جو ممکنہ طور پر مہینوں ، سال اور ممکنہ طور پر انکئ پوری زندگی انکے ساتھ رہیں گے سے نمٹنے میں مشکل محسوس کررہے ہیں۔
وہ مریض جو کورونا کی وجہ پھیپھڑوں کے شدید مرض کا شکار کر سانس لینے میں مشکلات کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوئے تھے، گھر آنے کے بعد اس کے جسمانی، اعصابی، ذہنی اور جذباتی اثرات سے چھٹکارا پانے میں مشکلات کررہے ہیں، اس وباء کی وجہ سے پیدا ہونے والی تمام پریشانیوں اور وسائل کی قلت کے باوجود انہیں اس صوتحال سے نبرد آزما ہونا ہے۔
نیویارک کے ماؤنٹ سنائی ہیلتھ سسٹم کے ڈائریکڑ جدت طرازی برائے بحالی ( مریضوں کی جسمانی بحالی کے لئے نئے راستے تلاش کرنا) ڈاکٹر ڈیود پٹرینو کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کہ مریض یہ سمجھے کہ “چلیں بُرا وقت گذر گیا لیکن الحمدللّٰہ میں گھر آگیا ہوں اب سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا”۔
بلکہ کچھ اس قسم کی کہانی ہے کہ “ میرا اسپتال میں جو بھی بُرا وقت تھا گذر گیا لیکن طوفان ابھی تک جاری ہے، مجھے اب بھی خیال رکھنا ہے اس کے ساتھ اپنی پُرانی زندگی کو شروع کرنے کی کوشش کرنی ہے۔”
اب بھی ان مریضوں کے بحالی کی بارے میں کچھ کہنا قابل از وقت ہوگا، لیکن دیکھا جائے کہ اب تک وہ کیسا محسوس کررہے، اور اس قسم کی صورتحال میں دوسرے مریضوں کے ساتھ کیاہوا ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھنے سے ہم بہت کچھ سیکھ اور اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسپتالوں سے فارغ ہوکے گھر جانے والے مریضوں کو کن مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔
اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد مریضوں کے ساتھ کیا ہوا؟
بہت سے مریض اسپتال سے دل، گردے، پھیپھڑے و دیگر اعضاء میں نشانات، سوجن و دیگر نقصان جو اب تک مکمل تندرست نہیں ہیں لیکر گھر جاتے ہیں۔ان کی وجہ سے کئی مسائل بشمول مثانے اور غذائی انجذاب کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔
ماؤنٹ سنائی ہیلتھ سسٹم کے کورونا کے صحتیاب شدہ مریضوں کی نگرانی کے شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر زیجیان چین کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا جسمانی مسئلہ ہمارے سامنے آرہا ہے وہ سانس لینے میں دشواری کی شکایت، جو کہ پھیپھڑے، دل کے درست کام نہ کرنے یا جسم میں خون کے جم کر لوتھڑے بننے کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔
کچھ کو اچانک ہی شدید کھانسی کادورہ پڑتا ہے اور اسانس لینے میںُ دشواری ہوتی ہے، کچھ کو گھر میں آکسیجن دی جاری ہے لیکن انہیں افاقہ نہیں ہورہا۔
بعض مریض جو وینٹلیٹر پر تھے، انہیں غذا کے نگلنے یا سرگوشی سے زیادہ تیز آواز میں بولنے میں مشکل پیش آتی ہے۔لیکن یہ عموماً وینٹیلیٹر پر سانس لینے کے لئے حلق میں ڈالی جانے والی ٹیوب کی وجہ سے پیدا ہونے والی سوجن کا عارضی مسئلہ ہے۔
جان ہاکپبز اسکول آف میڈیسن کے انٹینسوکئیر کے مریضوں کے بحالی کی ماہر ڈاکٹر ڈیل نیڈہام کا کہنا ہےُکہ “ بہت سے مریض طویل عرصےتک اسپتال میں بستر پر لیٹے رہنے کی بناء پر اعصابی کمزوری محسوس کرنے لگتےہیں، جس کی وجہ سے انہیں چلنے، سیڑھیوں پر چڑہنے اور چیزوں کو اُٹھانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اعصاب کی کمزوری یا ڈیمیج کی وجہ سے پٹھوں کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔
اعصابی مسائل دیگرپرےشانےاب بھی پیدا کر سکتی ہیں، 40 فیصد مریض جنہیں نیورولاجسٹ کے پاس بھیجا گیا ہے، نے تکان، دماغی دہندلاہٹ اور چیزیں سمجھنے میں دشواری کی شکایت کی تھی۔
ڈاکٹر زیجیان چین نے کہا “ان میں سے کچھ تو واقعی لاچار کرنے والی ہوتی ہیں؟ ہمارے پا س ایسے مریض بھی آتے ہیں جوکہتے ہیں، مجھے سانس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی سینے کا درد، لیکن میں اپنی ملازمت پر نہیں جاسکتا کہ مجھے چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
ان میں سے کچھ مریضوں کو ماہرین نفسیات کے پاس بھیجا جاتا ہے، Yale یونیورسٹی کے سینے پھیپھڑے اور انتہائی توجہ ICU کی ماہر لورین فیرنٹ جنہوں نے ICU سے نکلنے والے مریضوں کی صحت پر تحقیق کی ہے کہ کہنا ہے” کہ اس مرحلے سے گذرنے کے بعد مریضوں پر اسکے دماغی اثرات ہونا معمول کی بات ہے۔ گھبراہٹ ، ڈراؤنے خواب ، ڈپریشن یہ سب اسکے اثرات ہیں کیونکہ انکے دماغ میں ان واقعات کی فلم اور یاد باقی رہتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے مریضوں کے جذباتی مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ کئی دنوں تک اسپتال میں فیملی اور دوستوں سے ملاقات سے محرومی، شدید بیمار انتہائی تنہائی ان چیزوں کو کئی گُنا بڑہانے کا سبب بنتا ہے۔
ڈاکٹر پٹرینو نے کہا کہ بہت سے مریض ٹیلیفون کے ذریعے نفسیاتی ماہر سے بات کرنے کے لئے رابطہ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں واقعتاً اپنے آپ میں نہیں ہوں مجھے کسی (نفسیاتی ماہر) سے بات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ان مریضوں کے بحالی کے وسیع الجہت مسائل کو سمجھنے کے لئے ماہرین نے اسے ایک دہائیوں پُرانی اصطلاع post-intensive care syndrome یا PICS کا نام دیا ہے جو مریض کو ظاہر ہونے والی ذہنی، جسمانی اور جذباتی کیفیات کا احاطہ کرتی ہے۔
جاری ہے۔