Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
پروفیسر ساجد حمید خان
برصغیر میں جن تحریکوں نے انگریز سامراج کے ایوانوں میں ارتعاش پیدا کیا ہے ان میں سے ایک تحریک ریشمی رومال بھی ہے۔اس تحریک کا استعارہ ریشمی رومال خط و کتابت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس تحریک کے روح رواں شیخ الہند محمود الحسن اور عبیداللہ سندھی تھے۔
مولانامحمودالحسن مدرسہ دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور وہاں تدریس سے بھی وابستہ تھے۔انھیں اس مدرسے کا پہلا طالب علم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔انھوں نے اپنا تعلیمی سفر اپنےاستاد مولانا قاسم نانوتوی کی شاگردگی میں طے کیا۔
عبیداللہ سندھی بھی اسی مدرسے سے فیض یاب تھے اور وہ بھی شیخ الہند کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔مولانا سندھی کا تعلق پنجاب سے تھا مگر سندھ میں آنے کے بعد سندھ سے ایسی محبت ہوگئی کہ انھوں نے اپنے نام کے آخر میں سندھی لگادیا۔ وہ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کا نام بوٹا سنگھ تھا اور وہ اپنے والد رام سنگھ کے گھر سیالکوٹ کے گاؤں چیانا والی میں پیدا ہوئے تھے۔بعد ازاں مسلمان ہو گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
فرائضی تحریک اور تیتو میر شہید
چپاتی تحریک اور ڈنکا شاہ
ان اصحاب کے دل میں انگریز سامراج سے آزادی کا جذبہ موجزن تھا اور ہر قیمت پر برصغیر کو آزاد کرانے کا جذبہ رکھتے تھے۔اس مقصد کے لئے شیخ الہند نے ایک تنظیم”ثمرہ التربیت” قائم کی جس کا مقصد مسلح جدوجہد کے لئے نوجوانوں کو تیار کرنا۔اس تنظیم نے بے شمار طلبہ کو اپنی طرف راغب کیا اور انگریز سامراج سے دشمنی بڑھانے میں مدد دی۔
اس کے بعد شیخ الہند نے ایک اور جماعت تیار کی جس کا نام “جمیعتہ الانصار” رکھا گیا۔اس جماعت کو منظم کرنے کی ذمہ داری عبیداللہ سندھی کے سپرد ہوئی۔اس جماعت کی اکثریت فاضلین دیوبند پہ مشتمل تھی۔عبیداللہ سندھی نے اسے پورے ہندوستان میں مقبول کرنے کے لئے بڑے بڑے شہروں میں جلسے منعقد کروائے اور عوام الناس کی خاطر خواہ حمایت حاصل کر لی۔میرٹھ،علی گڑھ اور مراد آباد اس کا گڑھ بن گئے۔اس جماعت کی مقبولیت سے انگریز حکومت بوکھلا گئی اور اس پہ 1913 میں پابندی عائد کر دی گئی۔

حریت فکرو عمل کا یہ کارواں کہاں رکنے والا تھا۔چنانچہ شیخ الہند اور عبیداللہ سندھی نے ایک نئی جماعت “نظارہ المعارف” کے نام سے بنا لی اور سامراج سے آزادی کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔اس پلیٹ فارم سے مولانا سندھی نے لوگوں کی خاموش حمایت اور مالی امداد کا حصول ممکن بنایا۔اسی دوران اس تحریک کے حامیوں سے خفیہ ملاقاتیں کی جاتی تھی۔مولانا محمد علی جوہر،ابوالکلام آزاد اور شیخ الہند کی ملاقاتیں اسی وساطت سے ہو پاتیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے مشاورت کی جاتی۔
1914میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی جس میں انگلستان اور جرمنی فریق تھے۔ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا ۔اس اہم موقع پہ شیخ الہند نے ایک جامع منصوبہ بنایا جس کے خدوخال میں سلطنت عثمانیہ اور جرمنوں کی مدد سے انگریز سامراج کے خلاف بغاوت شامل تھی۔
اس مقصد کے لئے انھوں نے خود صوبہ حجاز جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا،میں جانے اور مولانا سندھی کو افغانستان کے امیر حبیب اللہ خان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اس منصوبہ کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ ان دو اصحاب کےعلاوہ کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔اور طے پایا کہ خط و کتابت ریشمی رومال پہ تحریر کر کے خفیہ طور پر ارسال کی جائےگی۔اسی وجہ سے اس مشن کا نام تحریک ریشمی رومال پڑا۔
1915میں شیخ الہند حجاز مقدسہ میں ترک گورنر غالب پاشا سے ملے اور اسے اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ترک گورنر نے بھرپور حمایت کا یقین دلایا اور ایک خط برصغیر کی عوام الناس کے نام بھی لکھ کر دیا جو وقت آنے پہ آشکار کیا جانا تھا۔یہ خط “غالب نامہ” کے نام سے معروف ہے۔

ادھر افغانستان میں مولانا سندھی نے امیر حبیب اللہ خان کی وساطت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی وہ لکھتے ہیں کہ
میں سات سال تک حکومتِ کابل کی شرکت میں اپنا ہندوستانی کام کرتا رہا۔افغانستان میں امیرحبیب اللہ خاں نے ہندوؤں سے مل کر کام کرنے کا حکم دیا، اس کی تعمیل فقط ایک ہی صورت میں ممکن تھی کہ میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوجاؤں اس وقت سے میں کانگریس کا داعی بن گیا۔امیر امان اللہ خاں کے دور میں میں نے کانگریس کمیٹی کابل بنائی، جس کا الحاق ڈاکٹر انصاری کی کوششوں سے کانگریس کے گوا سیشن نے منظورکر لیا۔برٹش ایمپائر سے باہر یہ پہلی کانگریس کمیٹی ہے اور میں اس پر فخر محسوس کرسکتا ہوں کہ میں اس کا پہلا صدر ہوں۔
امیر افغانستان کی حمایت حاصل ہونے پر عبیداللہ سندھی نے ایک جلاوطن حکومت قائم کر لی۔اس جلا وطن حکومت کا صدر راجہ مہندر پرتاب سنگھ،وزیراعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی اور وزیر خارجہ مولانا عبیداللہ سندھی کو مقرر کیاگیا۔اور شیخ الہند محمود الحسن کو اس حکومت کا سرپرست بنایا گیا۔
اس منصوبے کے بارے میں شیخ الہند کو مکہ مکرمہ میں آگاہ کرنے کے لئے عبدالرحیم سندھی کا انتخاب کیا گیا اور ان تک عبدالحق کے ذریعے ریشمی رومال پہ تحریرخط ارسال کیا گیا۔
اس تحریک کو اندرون ملک مجاہدین اور بیرون ملک سلطنت عثمانیہ اور افغانستان کی مدد نے چار چاند لگا دئیے۔روز بروز اس کا زور بڑھنے لگا اور خفیہ طور پر اس تحریک کے جانبازوں کی تعداد چالیس ہزار کے قریب ہو گئی۔اب منصوبے کے مطابق ترکی اور جرمنی کی افواج براستہ افغانستان برصغیرپہ حملہ آوار ہوں گی ۔اور مقامی مجاہدین ان کی مدد سے بغاوت برپا کر دیں گے جس سے انگریز سامراج کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔
لیکن تاریخ کا ستم دیکھئے کہ یہ ریشمی رومال پہ مبنی تحریری خط تحریک میں موجود ایک نو مسلم عبدالحق کے ذریعے عبدالرحیم سندھی تک پہنچنے سے پہلے رب نواز جو کہ سامراجی ایجنٹ ہوتا ہے ، کی بدولت انگریز کمشنر ملتان کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور مخبری پانے والا خان بہادر و جاگیر کا تحفہ وصول پاتا ہے۔
ریشمی رومال خط کے پکڑے جانے کے بعد انگریز سامراج کو اس سارے منصوبے کا علم ہو جاتا ہے اور پورے برصغیر میں اس تحریک کے خلاف ایک آپریشن کیا جاتا ہے۔علما اور مجاہدین کی گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔مزید جاسوسوں کی مدد سے ریشمی رومال پہ تحریر خطوط قبضے میں لئے جاتے ہیں۔
اس تحریک کے وابستگان جن کی اکثریت کا تعلق مدرسہ دیوبند سے تھا، ان کو گرفتار کر لیا گیا۔کوئی مسجد،مدرسہ اور خانقاہ چھاپوں سے محفوظ نہ رہ سکی۔
اسی دوران شریف حسین آف مکہ ترکوں کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے اور انگریزوں کی مدد سے حجاز کا گورنر بن جاتا ہے۔شریف حسین آف مکہ شیخ الہند اور ان کے رفقا جن میں حسین احمد مدنی اور مولانا عزیر گل شامل تھے انھیں مکہ مکرمہ سے گرفتار کر وا دیتا ہےاور انھیں بحری جہاز کے ذریعے جزیرہ مالٹا میں قید کر دیا جاتا ہے۔
جزیرہ مالٹا کو کالا پانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جہاں خطرناک مجرم رکھے جاتے تھے۔شیخ الہند ساڑھے تین سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں ۔بالآخر انگریز حکومت انھیں دیوبند میں تدریس کی شرط کے ساتھ رہا کر دیتی ہے۔کیونکہ وہ کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہوتے ہیں۔
مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے ساتھی گرفتاری سے بچنے کے لئے وسط ایشیا کے رستےروس میں جلاوطن ہو جاتے ہیں۔وہاں سے وہ مکہ مکرمہ آتے ہیں جہاں 1939 میں انھیں ہندوستان آنے کی اجازت مل جاتی ہے اور بقیہ عمر وہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خاں میں موجود دینی خانقاہ دین پور شریف میں گزار کر ابدی نیند سو جاتے ہیں۔
یہ تاریخی ریشمی رومال خطوط انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ رکھے گئے ہیں۔اس تحریک کے بارے میں برطانوی پنجاب کے گورنر سر مائیکل اڈوائر نے اپنی یادداشتیں “India as I knew it “میں بھی تفصیلات لکھی ہیں۔
تحریک ریشمی رومال کی کامیابی کی صورت میں برصغیر میں انگریز سامراج کی تاریخ مختلف ہوتی مگر کیا کیا جائے کہ کچھ اپنے ہی عاقبت نااندیش مفاد پرستوں کی مخبری کی بدولت ناقابل تلافی نقصان کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔مگر آزادی کے متوالوں نے ہر دکھ اور صعوبت کا سامنا جواں مردی سے کر کے اپنا نام تاریخ میں امر کر دیاہے۔
پروفیسر ساجد حمید خان
برصغیر میں جن تحریکوں نے انگریز سامراج کے ایوانوں میں ارتعاش پیدا کیا ہے ان میں سے ایک تحریک ریشمی رومال بھی ہے۔اس تحریک کا استعارہ ریشمی رومال خط و کتابت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس تحریک کے روح رواں شیخ الہند محمود الحسن اور عبیداللہ سندھی تھے۔
مولانامحمودالحسن مدرسہ دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور وہاں تدریس سے بھی وابستہ تھے۔انھیں اس مدرسے کا پہلا طالب علم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔انھوں نے اپنا تعلیمی سفر اپنےاستاد مولانا قاسم نانوتوی کی شاگردگی میں طے کیا۔
عبیداللہ سندھی بھی اسی مدرسے سے فیض یاب تھے اور وہ بھی شیخ الہند کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔مولانا سندھی کا تعلق پنجاب سے تھا مگر سندھ میں آنے کے بعد سندھ سے ایسی محبت ہوگئی کہ انھوں نے اپنے نام کے آخر میں سندھی لگادیا۔ وہ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کا نام بوٹا سنگھ تھا اور وہ اپنے والد رام سنگھ کے گھر سیالکوٹ کے گاؤں چیانا والی میں پیدا ہوئے تھے۔بعد ازاں مسلمان ہو گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
فرائضی تحریک اور تیتو میر شہید
چپاتی تحریک اور ڈنکا شاہ
ان اصحاب کے دل میں انگریز سامراج سے آزادی کا جذبہ موجزن تھا اور ہر قیمت پر برصغیر کو آزاد کرانے کا جذبہ رکھتے تھے۔اس مقصد کے لئے شیخ الہند نے ایک تنظیم”ثمرہ التربیت” قائم کی جس کا مقصد مسلح جدوجہد کے لئے نوجوانوں کو تیار کرنا۔اس تنظیم نے بے شمار طلبہ کو اپنی طرف راغب کیا اور انگریز سامراج سے دشمنی بڑھانے میں مدد دی۔
اس کے بعد شیخ الہند نے ایک اور جماعت تیار کی جس کا نام “جمیعتہ الانصار” رکھا گیا۔اس جماعت کو منظم کرنے کی ذمہ داری عبیداللہ سندھی کے سپرد ہوئی۔اس جماعت کی اکثریت فاضلین دیوبند پہ مشتمل تھی۔عبیداللہ سندھی نے اسے پورے ہندوستان میں مقبول کرنے کے لئے بڑے بڑے شہروں میں جلسے منعقد کروائے اور عوام الناس کی خاطر خواہ حمایت حاصل کر لی۔میرٹھ،علی گڑھ اور مراد آباد اس کا گڑھ بن گئے۔اس جماعت کی مقبولیت سے انگریز حکومت بوکھلا گئی اور اس پہ 1913 میں پابندی عائد کر دی گئی۔

حریت فکرو عمل کا یہ کارواں کہاں رکنے والا تھا۔چنانچہ شیخ الہند اور عبیداللہ سندھی نے ایک نئی جماعت “نظارہ المعارف” کے نام سے بنا لی اور سامراج سے آزادی کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔اس پلیٹ فارم سے مولانا سندھی نے لوگوں کی خاموش حمایت اور مالی امداد کا حصول ممکن بنایا۔اسی دوران اس تحریک کے حامیوں سے خفیہ ملاقاتیں کی جاتی تھی۔مولانا محمد علی جوہر،ابوالکلام آزاد اور شیخ الہند کی ملاقاتیں اسی وساطت سے ہو پاتیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے مشاورت کی جاتی۔
1914میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی جس میں انگلستان اور جرمنی فریق تھے۔ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا ۔اس اہم موقع پہ شیخ الہند نے ایک جامع منصوبہ بنایا جس کے خدوخال میں سلطنت عثمانیہ اور جرمنوں کی مدد سے انگریز سامراج کے خلاف بغاوت شامل تھی۔
اس مقصد کے لئے انھوں نے خود صوبہ حجاز جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا،میں جانے اور مولانا سندھی کو افغانستان کے امیر حبیب اللہ خان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اس منصوبہ کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ ان دو اصحاب کےعلاوہ کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔اور طے پایا کہ خط و کتابت ریشمی رومال پہ تحریر کر کے خفیہ طور پر ارسال کی جائےگی۔اسی وجہ سے اس مشن کا نام تحریک ریشمی رومال پڑا۔
1915میں شیخ الہند حجاز مقدسہ میں ترک گورنر غالب پاشا سے ملے اور اسے اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ترک گورنر نے بھرپور حمایت کا یقین دلایا اور ایک خط برصغیر کی عوام الناس کے نام بھی لکھ کر دیا جو وقت آنے پہ آشکار کیا جانا تھا۔یہ خط “غالب نامہ” کے نام سے معروف ہے۔

ادھر افغانستان میں مولانا سندھی نے امیر حبیب اللہ خان کی وساطت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی وہ لکھتے ہیں کہ
میں سات سال تک حکومتِ کابل کی شرکت میں اپنا ہندوستانی کام کرتا رہا۔افغانستان میں امیرحبیب اللہ خاں نے ہندوؤں سے مل کر کام کرنے کا حکم دیا، اس کی تعمیل فقط ایک ہی صورت میں ممکن تھی کہ میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوجاؤں اس وقت سے میں کانگریس کا داعی بن گیا۔امیر امان اللہ خاں کے دور میں میں نے کانگریس کمیٹی کابل بنائی، جس کا الحاق ڈاکٹر انصاری کی کوششوں سے کانگریس کے گوا سیشن نے منظورکر لیا۔برٹش ایمپائر سے باہر یہ پہلی کانگریس کمیٹی ہے اور میں اس پر فخر محسوس کرسکتا ہوں کہ میں اس کا پہلا صدر ہوں۔
امیر افغانستان کی حمایت حاصل ہونے پر عبیداللہ سندھی نے ایک جلاوطن حکومت قائم کر لی۔اس جلا وطن حکومت کا صدر راجہ مہندر پرتاب سنگھ،وزیراعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی اور وزیر خارجہ مولانا عبیداللہ سندھی کو مقرر کیاگیا۔اور شیخ الہند محمود الحسن کو اس حکومت کا سرپرست بنایا گیا۔
اس منصوبے کے بارے میں شیخ الہند کو مکہ مکرمہ میں آگاہ کرنے کے لئے عبدالرحیم سندھی کا انتخاب کیا گیا اور ان تک عبدالحق کے ذریعے ریشمی رومال پہ تحریرخط ارسال کیا گیا۔
اس تحریک کو اندرون ملک مجاہدین اور بیرون ملک سلطنت عثمانیہ اور افغانستان کی مدد نے چار چاند لگا دئیے۔روز بروز اس کا زور بڑھنے لگا اور خفیہ طور پر اس تحریک کے جانبازوں کی تعداد چالیس ہزار کے قریب ہو گئی۔اب منصوبے کے مطابق ترکی اور جرمنی کی افواج براستہ افغانستان برصغیرپہ حملہ آوار ہوں گی ۔اور مقامی مجاہدین ان کی مدد سے بغاوت برپا کر دیں گے جس سے انگریز سامراج کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔
لیکن تاریخ کا ستم دیکھئے کہ یہ ریشمی رومال پہ مبنی تحریری خط تحریک میں موجود ایک نو مسلم عبدالحق کے ذریعے عبدالرحیم سندھی تک پہنچنے سے پہلے رب نواز جو کہ سامراجی ایجنٹ ہوتا ہے ، کی بدولت انگریز کمشنر ملتان کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور مخبری پانے والا خان بہادر و جاگیر کا تحفہ وصول پاتا ہے۔
ریشمی رومال خط کے پکڑے جانے کے بعد انگریز سامراج کو اس سارے منصوبے کا علم ہو جاتا ہے اور پورے برصغیر میں اس تحریک کے خلاف ایک آپریشن کیا جاتا ہے۔علما اور مجاہدین کی گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔مزید جاسوسوں کی مدد سے ریشمی رومال پہ تحریر خطوط قبضے میں لئے جاتے ہیں۔
اس تحریک کے وابستگان جن کی اکثریت کا تعلق مدرسہ دیوبند سے تھا، ان کو گرفتار کر لیا گیا۔کوئی مسجد،مدرسہ اور خانقاہ چھاپوں سے محفوظ نہ رہ سکی۔
اسی دوران شریف حسین آف مکہ ترکوں کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے اور انگریزوں کی مدد سے حجاز کا گورنر بن جاتا ہے۔شریف حسین آف مکہ شیخ الہند اور ان کے رفقا جن میں حسین احمد مدنی اور مولانا عزیر گل شامل تھے انھیں مکہ مکرمہ سے گرفتار کر وا دیتا ہےاور انھیں بحری جہاز کے ذریعے جزیرہ مالٹا میں قید کر دیا جاتا ہے۔
جزیرہ مالٹا کو کالا پانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جہاں خطرناک مجرم رکھے جاتے تھے۔شیخ الہند ساڑھے تین سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں ۔بالآخر انگریز حکومت انھیں دیوبند میں تدریس کی شرط کے ساتھ رہا کر دیتی ہے۔کیونکہ وہ کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہوتے ہیں۔
مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے ساتھی گرفتاری سے بچنے کے لئے وسط ایشیا کے رستےروس میں جلاوطن ہو جاتے ہیں۔وہاں سے وہ مکہ مکرمہ آتے ہیں جہاں 1939 میں انھیں ہندوستان آنے کی اجازت مل جاتی ہے اور بقیہ عمر وہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خاں میں موجود دینی خانقاہ دین پور شریف میں گزار کر ابدی نیند سو جاتے ہیں۔
یہ تاریخی ریشمی رومال خطوط انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ رکھے گئے ہیں۔اس تحریک کے بارے میں برطانوی پنجاب کے گورنر سر مائیکل اڈوائر نے اپنی یادداشتیں “India as I knew it “میں بھی تفصیلات لکھی ہیں۔
تحریک ریشمی رومال کی کامیابی کی صورت میں برصغیر میں انگریز سامراج کی تاریخ مختلف ہوتی مگر کیا کیا جائے کہ کچھ اپنے ہی عاقبت نااندیش مفاد پرستوں کی مخبری کی بدولت ناقابل تلافی نقصان کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔مگر آزادی کے متوالوں نے ہر دکھ اور صعوبت کا سامنا جواں مردی سے کر کے اپنا نام تاریخ میں امر کر دیاہے۔
پروفیسر ساجد حمید خان
برصغیر میں جن تحریکوں نے انگریز سامراج کے ایوانوں میں ارتعاش پیدا کیا ہے ان میں سے ایک تحریک ریشمی رومال بھی ہے۔اس تحریک کا استعارہ ریشمی رومال خط و کتابت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس تحریک کے روح رواں شیخ الہند محمود الحسن اور عبیداللہ سندھی تھے۔
مولانامحمودالحسن مدرسہ دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور وہاں تدریس سے بھی وابستہ تھے۔انھیں اس مدرسے کا پہلا طالب علم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔انھوں نے اپنا تعلیمی سفر اپنےاستاد مولانا قاسم نانوتوی کی شاگردگی میں طے کیا۔
عبیداللہ سندھی بھی اسی مدرسے سے فیض یاب تھے اور وہ بھی شیخ الہند کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔مولانا سندھی کا تعلق پنجاب سے تھا مگر سندھ میں آنے کے بعد سندھ سے ایسی محبت ہوگئی کہ انھوں نے اپنے نام کے آخر میں سندھی لگادیا۔ وہ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کا نام بوٹا سنگھ تھا اور وہ اپنے والد رام سنگھ کے گھر سیالکوٹ کے گاؤں چیانا والی میں پیدا ہوئے تھے۔بعد ازاں مسلمان ہو گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
فرائضی تحریک اور تیتو میر شہید
چپاتی تحریک اور ڈنکا شاہ
ان اصحاب کے دل میں انگریز سامراج سے آزادی کا جذبہ موجزن تھا اور ہر قیمت پر برصغیر کو آزاد کرانے کا جذبہ رکھتے تھے۔اس مقصد کے لئے شیخ الہند نے ایک تنظیم”ثمرہ التربیت” قائم کی جس کا مقصد مسلح جدوجہد کے لئے نوجوانوں کو تیار کرنا۔اس تنظیم نے بے شمار طلبہ کو اپنی طرف راغب کیا اور انگریز سامراج سے دشمنی بڑھانے میں مدد دی۔
اس کے بعد شیخ الہند نے ایک اور جماعت تیار کی جس کا نام “جمیعتہ الانصار” رکھا گیا۔اس جماعت کو منظم کرنے کی ذمہ داری عبیداللہ سندھی کے سپرد ہوئی۔اس جماعت کی اکثریت فاضلین دیوبند پہ مشتمل تھی۔عبیداللہ سندھی نے اسے پورے ہندوستان میں مقبول کرنے کے لئے بڑے بڑے شہروں میں جلسے منعقد کروائے اور عوام الناس کی خاطر خواہ حمایت حاصل کر لی۔میرٹھ،علی گڑھ اور مراد آباد اس کا گڑھ بن گئے۔اس جماعت کی مقبولیت سے انگریز حکومت بوکھلا گئی اور اس پہ 1913 میں پابندی عائد کر دی گئی۔

حریت فکرو عمل کا یہ کارواں کہاں رکنے والا تھا۔چنانچہ شیخ الہند اور عبیداللہ سندھی نے ایک نئی جماعت “نظارہ المعارف” کے نام سے بنا لی اور سامراج سے آزادی کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔اس پلیٹ فارم سے مولانا سندھی نے لوگوں کی خاموش حمایت اور مالی امداد کا حصول ممکن بنایا۔اسی دوران اس تحریک کے حامیوں سے خفیہ ملاقاتیں کی جاتی تھی۔مولانا محمد علی جوہر،ابوالکلام آزاد اور شیخ الہند کی ملاقاتیں اسی وساطت سے ہو پاتیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے مشاورت کی جاتی۔
1914میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی جس میں انگلستان اور جرمنی فریق تھے۔ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا ۔اس اہم موقع پہ شیخ الہند نے ایک جامع منصوبہ بنایا جس کے خدوخال میں سلطنت عثمانیہ اور جرمنوں کی مدد سے انگریز سامراج کے خلاف بغاوت شامل تھی۔
اس مقصد کے لئے انھوں نے خود صوبہ حجاز جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا،میں جانے اور مولانا سندھی کو افغانستان کے امیر حبیب اللہ خان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اس منصوبہ کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ ان دو اصحاب کےعلاوہ کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔اور طے پایا کہ خط و کتابت ریشمی رومال پہ تحریر کر کے خفیہ طور پر ارسال کی جائےگی۔اسی وجہ سے اس مشن کا نام تحریک ریشمی رومال پڑا۔
1915میں شیخ الہند حجاز مقدسہ میں ترک گورنر غالب پاشا سے ملے اور اسے اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ترک گورنر نے بھرپور حمایت کا یقین دلایا اور ایک خط برصغیر کی عوام الناس کے نام بھی لکھ کر دیا جو وقت آنے پہ آشکار کیا جانا تھا۔یہ خط “غالب نامہ” کے نام سے معروف ہے۔

ادھر افغانستان میں مولانا سندھی نے امیر حبیب اللہ خان کی وساطت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی وہ لکھتے ہیں کہ
میں سات سال تک حکومتِ کابل کی شرکت میں اپنا ہندوستانی کام کرتا رہا۔افغانستان میں امیرحبیب اللہ خاں نے ہندوؤں سے مل کر کام کرنے کا حکم دیا، اس کی تعمیل فقط ایک ہی صورت میں ممکن تھی کہ میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوجاؤں اس وقت سے میں کانگریس کا داعی بن گیا۔امیر امان اللہ خاں کے دور میں میں نے کانگریس کمیٹی کابل بنائی، جس کا الحاق ڈاکٹر انصاری کی کوششوں سے کانگریس کے گوا سیشن نے منظورکر لیا۔برٹش ایمپائر سے باہر یہ پہلی کانگریس کمیٹی ہے اور میں اس پر فخر محسوس کرسکتا ہوں کہ میں اس کا پہلا صدر ہوں۔
امیر افغانستان کی حمایت حاصل ہونے پر عبیداللہ سندھی نے ایک جلاوطن حکومت قائم کر لی۔اس جلا وطن حکومت کا صدر راجہ مہندر پرتاب سنگھ،وزیراعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی اور وزیر خارجہ مولانا عبیداللہ سندھی کو مقرر کیاگیا۔اور شیخ الہند محمود الحسن کو اس حکومت کا سرپرست بنایا گیا۔
اس منصوبے کے بارے میں شیخ الہند کو مکہ مکرمہ میں آگاہ کرنے کے لئے عبدالرحیم سندھی کا انتخاب کیا گیا اور ان تک عبدالحق کے ذریعے ریشمی رومال پہ تحریرخط ارسال کیا گیا۔
اس تحریک کو اندرون ملک مجاہدین اور بیرون ملک سلطنت عثمانیہ اور افغانستان کی مدد نے چار چاند لگا دئیے۔روز بروز اس کا زور بڑھنے لگا اور خفیہ طور پر اس تحریک کے جانبازوں کی تعداد چالیس ہزار کے قریب ہو گئی۔اب منصوبے کے مطابق ترکی اور جرمنی کی افواج براستہ افغانستان برصغیرپہ حملہ آوار ہوں گی ۔اور مقامی مجاہدین ان کی مدد سے بغاوت برپا کر دیں گے جس سے انگریز سامراج کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔
لیکن تاریخ کا ستم دیکھئے کہ یہ ریشمی رومال پہ مبنی تحریری خط تحریک میں موجود ایک نو مسلم عبدالحق کے ذریعے عبدالرحیم سندھی تک پہنچنے سے پہلے رب نواز جو کہ سامراجی ایجنٹ ہوتا ہے ، کی بدولت انگریز کمشنر ملتان کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور مخبری پانے والا خان بہادر و جاگیر کا تحفہ وصول پاتا ہے۔
ریشمی رومال خط کے پکڑے جانے کے بعد انگریز سامراج کو اس سارے منصوبے کا علم ہو جاتا ہے اور پورے برصغیر میں اس تحریک کے خلاف ایک آپریشن کیا جاتا ہے۔علما اور مجاہدین کی گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔مزید جاسوسوں کی مدد سے ریشمی رومال پہ تحریر خطوط قبضے میں لئے جاتے ہیں۔
اس تحریک کے وابستگان جن کی اکثریت کا تعلق مدرسہ دیوبند سے تھا، ان کو گرفتار کر لیا گیا۔کوئی مسجد،مدرسہ اور خانقاہ چھاپوں سے محفوظ نہ رہ سکی۔
اسی دوران شریف حسین آف مکہ ترکوں کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے اور انگریزوں کی مدد سے حجاز کا گورنر بن جاتا ہے۔شریف حسین آف مکہ شیخ الہند اور ان کے رفقا جن میں حسین احمد مدنی اور مولانا عزیر گل شامل تھے انھیں مکہ مکرمہ سے گرفتار کر وا دیتا ہےاور انھیں بحری جہاز کے ذریعے جزیرہ مالٹا میں قید کر دیا جاتا ہے۔
جزیرہ مالٹا کو کالا پانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جہاں خطرناک مجرم رکھے جاتے تھے۔شیخ الہند ساڑھے تین سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں ۔بالآخر انگریز حکومت انھیں دیوبند میں تدریس کی شرط کے ساتھ رہا کر دیتی ہے۔کیونکہ وہ کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہوتے ہیں۔
مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے ساتھی گرفتاری سے بچنے کے لئے وسط ایشیا کے رستےروس میں جلاوطن ہو جاتے ہیں۔وہاں سے وہ مکہ مکرمہ آتے ہیں جہاں 1939 میں انھیں ہندوستان آنے کی اجازت مل جاتی ہے اور بقیہ عمر وہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خاں میں موجود دینی خانقاہ دین پور شریف میں گزار کر ابدی نیند سو جاتے ہیں۔
یہ تاریخی ریشمی رومال خطوط انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ رکھے گئے ہیں۔اس تحریک کے بارے میں برطانوی پنجاب کے گورنر سر مائیکل اڈوائر نے اپنی یادداشتیں “India as I knew it “میں بھی تفصیلات لکھی ہیں۔
تحریک ریشمی رومال کی کامیابی کی صورت میں برصغیر میں انگریز سامراج کی تاریخ مختلف ہوتی مگر کیا کیا جائے کہ کچھ اپنے ہی عاقبت نااندیش مفاد پرستوں کی مخبری کی بدولت ناقابل تلافی نقصان کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔مگر آزادی کے متوالوں نے ہر دکھ اور صعوبت کا سامنا جواں مردی سے کر کے اپنا نام تاریخ میں امر کر دیاہے۔
پروفیسر ساجد حمید خان
برصغیر میں جن تحریکوں نے انگریز سامراج کے ایوانوں میں ارتعاش پیدا کیا ہے ان میں سے ایک تحریک ریشمی رومال بھی ہے۔اس تحریک کا استعارہ ریشمی رومال خط و کتابت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس تحریک کے روح رواں شیخ الہند محمود الحسن اور عبیداللہ سندھی تھے۔
مولانامحمودالحسن مدرسہ دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور وہاں تدریس سے بھی وابستہ تھے۔انھیں اس مدرسے کا پہلا طالب علم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔انھوں نے اپنا تعلیمی سفر اپنےاستاد مولانا قاسم نانوتوی کی شاگردگی میں طے کیا۔
عبیداللہ سندھی بھی اسی مدرسے سے فیض یاب تھے اور وہ بھی شیخ الہند کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔مولانا سندھی کا تعلق پنجاب سے تھا مگر سندھ میں آنے کے بعد سندھ سے ایسی محبت ہوگئی کہ انھوں نے اپنے نام کے آخر میں سندھی لگادیا۔ وہ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کا نام بوٹا سنگھ تھا اور وہ اپنے والد رام سنگھ کے گھر سیالکوٹ کے گاؤں چیانا والی میں پیدا ہوئے تھے۔بعد ازاں مسلمان ہو گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
فرائضی تحریک اور تیتو میر شہید
چپاتی تحریک اور ڈنکا شاہ
ان اصحاب کے دل میں انگریز سامراج سے آزادی کا جذبہ موجزن تھا اور ہر قیمت پر برصغیر کو آزاد کرانے کا جذبہ رکھتے تھے۔اس مقصد کے لئے شیخ الہند نے ایک تنظیم”ثمرہ التربیت” قائم کی جس کا مقصد مسلح جدوجہد کے لئے نوجوانوں کو تیار کرنا۔اس تنظیم نے بے شمار طلبہ کو اپنی طرف راغب کیا اور انگریز سامراج سے دشمنی بڑھانے میں مدد دی۔
اس کے بعد شیخ الہند نے ایک اور جماعت تیار کی جس کا نام “جمیعتہ الانصار” رکھا گیا۔اس جماعت کو منظم کرنے کی ذمہ داری عبیداللہ سندھی کے سپرد ہوئی۔اس جماعت کی اکثریت فاضلین دیوبند پہ مشتمل تھی۔عبیداللہ سندھی نے اسے پورے ہندوستان میں مقبول کرنے کے لئے بڑے بڑے شہروں میں جلسے منعقد کروائے اور عوام الناس کی خاطر خواہ حمایت حاصل کر لی۔میرٹھ،علی گڑھ اور مراد آباد اس کا گڑھ بن گئے۔اس جماعت کی مقبولیت سے انگریز حکومت بوکھلا گئی اور اس پہ 1913 میں پابندی عائد کر دی گئی۔

حریت فکرو عمل کا یہ کارواں کہاں رکنے والا تھا۔چنانچہ شیخ الہند اور عبیداللہ سندھی نے ایک نئی جماعت “نظارہ المعارف” کے نام سے بنا لی اور سامراج سے آزادی کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔اس پلیٹ فارم سے مولانا سندھی نے لوگوں کی خاموش حمایت اور مالی امداد کا حصول ممکن بنایا۔اسی دوران اس تحریک کے حامیوں سے خفیہ ملاقاتیں کی جاتی تھی۔مولانا محمد علی جوہر،ابوالکلام آزاد اور شیخ الہند کی ملاقاتیں اسی وساطت سے ہو پاتیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے مشاورت کی جاتی۔
1914میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی جس میں انگلستان اور جرمنی فریق تھے۔ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا ۔اس اہم موقع پہ شیخ الہند نے ایک جامع منصوبہ بنایا جس کے خدوخال میں سلطنت عثمانیہ اور جرمنوں کی مدد سے انگریز سامراج کے خلاف بغاوت شامل تھی۔
اس مقصد کے لئے انھوں نے خود صوبہ حجاز جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا،میں جانے اور مولانا سندھی کو افغانستان کے امیر حبیب اللہ خان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اس منصوبہ کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ ان دو اصحاب کےعلاوہ کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔اور طے پایا کہ خط و کتابت ریشمی رومال پہ تحریر کر کے خفیہ طور پر ارسال کی جائےگی۔اسی وجہ سے اس مشن کا نام تحریک ریشمی رومال پڑا۔
1915میں شیخ الہند حجاز مقدسہ میں ترک گورنر غالب پاشا سے ملے اور اسے اس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ترک گورنر نے بھرپور حمایت کا یقین دلایا اور ایک خط برصغیر کی عوام الناس کے نام بھی لکھ کر دیا جو وقت آنے پہ آشکار کیا جانا تھا۔یہ خط “غالب نامہ” کے نام سے معروف ہے۔

ادھر افغانستان میں مولانا سندھی نے امیر حبیب اللہ خان کی وساطت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی وہ لکھتے ہیں کہ
میں سات سال تک حکومتِ کابل کی شرکت میں اپنا ہندوستانی کام کرتا رہا۔افغانستان میں امیرحبیب اللہ خاں نے ہندوؤں سے مل کر کام کرنے کا حکم دیا، اس کی تعمیل فقط ایک ہی صورت میں ممکن تھی کہ میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوجاؤں اس وقت سے میں کانگریس کا داعی بن گیا۔امیر امان اللہ خاں کے دور میں میں نے کانگریس کمیٹی کابل بنائی، جس کا الحاق ڈاکٹر انصاری کی کوششوں سے کانگریس کے گوا سیشن نے منظورکر لیا۔برٹش ایمپائر سے باہر یہ پہلی کانگریس کمیٹی ہے اور میں اس پر فخر محسوس کرسکتا ہوں کہ میں اس کا پہلا صدر ہوں۔
امیر افغانستان کی حمایت حاصل ہونے پر عبیداللہ سندھی نے ایک جلاوطن حکومت قائم کر لی۔اس جلا وطن حکومت کا صدر راجہ مہندر پرتاب سنگھ،وزیراعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی اور وزیر خارجہ مولانا عبیداللہ سندھی کو مقرر کیاگیا۔اور شیخ الہند محمود الحسن کو اس حکومت کا سرپرست بنایا گیا۔
اس منصوبے کے بارے میں شیخ الہند کو مکہ مکرمہ میں آگاہ کرنے کے لئے عبدالرحیم سندھی کا انتخاب کیا گیا اور ان تک عبدالحق کے ذریعے ریشمی رومال پہ تحریرخط ارسال کیا گیا۔
اس تحریک کو اندرون ملک مجاہدین اور بیرون ملک سلطنت عثمانیہ اور افغانستان کی مدد نے چار چاند لگا دئیے۔روز بروز اس کا زور بڑھنے لگا اور خفیہ طور پر اس تحریک کے جانبازوں کی تعداد چالیس ہزار کے قریب ہو گئی۔اب منصوبے کے مطابق ترکی اور جرمنی کی افواج براستہ افغانستان برصغیرپہ حملہ آوار ہوں گی ۔اور مقامی مجاہدین ان کی مدد سے بغاوت برپا کر دیں گے جس سے انگریز سامراج کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔
لیکن تاریخ کا ستم دیکھئے کہ یہ ریشمی رومال پہ مبنی تحریری خط تحریک میں موجود ایک نو مسلم عبدالحق کے ذریعے عبدالرحیم سندھی تک پہنچنے سے پہلے رب نواز جو کہ سامراجی ایجنٹ ہوتا ہے ، کی بدولت انگریز کمشنر ملتان کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور مخبری پانے والا خان بہادر و جاگیر کا تحفہ وصول پاتا ہے۔
ریشمی رومال خط کے پکڑے جانے کے بعد انگریز سامراج کو اس سارے منصوبے کا علم ہو جاتا ہے اور پورے برصغیر میں اس تحریک کے خلاف ایک آپریشن کیا جاتا ہے۔علما اور مجاہدین کی گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔مزید جاسوسوں کی مدد سے ریشمی رومال پہ تحریر خطوط قبضے میں لئے جاتے ہیں۔
اس تحریک کے وابستگان جن کی اکثریت کا تعلق مدرسہ دیوبند سے تھا، ان کو گرفتار کر لیا گیا۔کوئی مسجد،مدرسہ اور خانقاہ چھاپوں سے محفوظ نہ رہ سکی۔
اسی دوران شریف حسین آف مکہ ترکوں کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے اور انگریزوں کی مدد سے حجاز کا گورنر بن جاتا ہے۔شریف حسین آف مکہ شیخ الہند اور ان کے رفقا جن میں حسین احمد مدنی اور مولانا عزیر گل شامل تھے انھیں مکہ مکرمہ سے گرفتار کر وا دیتا ہےاور انھیں بحری جہاز کے ذریعے جزیرہ مالٹا میں قید کر دیا جاتا ہے۔
جزیرہ مالٹا کو کالا پانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جہاں خطرناک مجرم رکھے جاتے تھے۔شیخ الہند ساڑھے تین سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں ۔بالآخر انگریز حکومت انھیں دیوبند میں تدریس کی شرط کے ساتھ رہا کر دیتی ہے۔کیونکہ وہ کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہوتے ہیں۔
مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے ساتھی گرفتاری سے بچنے کے لئے وسط ایشیا کے رستےروس میں جلاوطن ہو جاتے ہیں۔وہاں سے وہ مکہ مکرمہ آتے ہیں جہاں 1939 میں انھیں ہندوستان آنے کی اجازت مل جاتی ہے اور بقیہ عمر وہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خاں میں موجود دینی خانقاہ دین پور شریف میں گزار کر ابدی نیند سو جاتے ہیں۔
یہ تاریخی ریشمی رومال خطوط انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ رکھے گئے ہیں۔اس تحریک کے بارے میں برطانوی پنجاب کے گورنر سر مائیکل اڈوائر نے اپنی یادداشتیں “India as I knew it “میں بھی تفصیلات لکھی ہیں۔
تحریک ریشمی رومال کی کامیابی کی صورت میں برصغیر میں انگریز سامراج کی تاریخ مختلف ہوتی مگر کیا کیا جائے کہ کچھ اپنے ہی عاقبت نااندیش مفاد پرستوں کی مخبری کی بدولت ناقابل تلافی نقصان کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔مگر آزادی کے متوالوں نے ہر دکھ اور صعوبت کا سامنا جواں مردی سے کر کے اپنا نام تاریخ میں امر کر دیاہے۔