Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ڈاکٹر فاروق احمد
ڈاکٹر لاطینی زبان کے لفظ docere سے نکلا ہے جس کا مطلب To teach ہوتا ہے. پاکستان میں دو طرح کے ڈاکٹرز ہیں ایک وہ جنہوں نے PhD کی ہوتی ہے اور دوسرے جنہوں نے MBBS کیا ہوتا۔ ویسے تو ہسپتال میں کام کرنے والے چوکیدار سے لے کر ایم-ایس تک سبھی ڈاکٹر ہی کہلاتے ہیں اور سب نے مناسب جگہوں پر کلینک بھی بنائے ہوتے ہیں۔
ایک دلچسپ واقعہ گوش گزار کرتا چلوں۔ ایک دفعہ میں ڈسپنسنگ کے کورس کے دوران اس وقت کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شفیق صاحب کے روم میں بیٹھا تھا تو وہاں ایک ادھیڑ عمر کی خاتون آئی اور اس نے استفسار کیا کہ مجھے ڈاکٹر بشیر (فرضی نام کیونکہ مجھے اصل نام بھول گیا ہے) صاحب سے ملنا ہے۔ شفیق صاحب کو تو جیسے شاک لگا فی البدیہہ بولے “بی بی باہر ویکھ، پھلاں دی گوڈی کر رہیا ہونا ای” اب شاک لگنے کی باری اس خاتون کی تھی۔ دراصل بشیر ہسپتال میں مالی تھا اور وہ عورت گاوں سے آئی تھی جہاں بشیر کا کلینک تھا۔ میرے لیے وہ واقعہ بہت انٹرٹینگ تھا کیونکہ اس وقت مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ شفیق صاحب کے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر بھی اعزازی طور پہ لگا ہوا ہے۔
حقیقت میں MBBS ایک بیچلر ڈگری ہے اور اسکو حاصل کرنے والے ڈاکٹر نہیں بلکہ فزیشن یا سرجنز ہوتے ہیں۔ سننے میں آیا ہے ہائی کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے جس کے مطابق ایم بی بی ایس خود کو ڈاکٹر لکھ سکتے ہیں۔ ایم بی بی ایس کے بعد MD ایک ڈگری ہے جسے کچھ ممالک میں ڈاکٹریٹ ڈگری کی حیثیت حاصل ہے لیکن زیادہ تر ممالک میں اسے ماسٹرز ڈگری مانتے ہیں وہاں ڈاکٹر بننے کیلئے PhD ضروری ہوتی ہے۔
آج کل میں اپنے نام کے ساتھ پروفیسر تو کم ہی لکھتا ہوں لیکن ڈاکٹر اکثر لکھتا ہوں۔ جب بھی کسی نجی ملاقات یا محفل میں تعارف کے دوران ڈاکٹر سمیت نام بتاوں تو اگلا سوال یہی ہوتا کہ آپ کا کلینک کس جگہ ہے۔ ردعمل میں جب میں بتاتا ہوں کہ میں کالج میں پڑھاتا ہوں تو پھر وہ بندہ کہتا ہے کہ “اچھا تسیں اصل ڈاکٹر نہی” تو میرا جواب ہوتا ہے “جی”. دراصل لوگوں کی نظر میں اصل ڈاکٹر ایم بی بی ایس ہی ہوتا ہے۔ جی سی یونیورسٹی لاہور میں میرے نہایت محترم استاد فرماتے تھے کہ لائسینس کی غیر موجودگی میں مجھے جب کوئی ٹریفک وارڈن روڈ پہ روکتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ میں ڈاکٹر ہوں تو وہ کہتا اچھا چلے جائیں۔ پروفیسر کبھی نہیں کہا ورنہ اس نے کہنا ہے: “گڈی سائیڈ تے لا تے تھلے اتر”۔
اب آتے ہیں پروفیسز کی طرف، پچھلے دنوں سرگودھا میں جنسی طور پہ ہراساں کرنے کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں ملزم ایک ٹیوٹر تھا پنجاب کالج سرگودھا سے وابستہ ہے۔ میڈیا پہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی کیونکہ اس سے پہلے لاہور گرائمر سکول کے اساتذہ کی طرف سے جنسی ہراسگی کا کیس میڈیا کی خبروں کی زینت بن چکا تھا۔ اس نئی خبر کو میڈیا نے کچھ یوں بیان کیا کہ سرگودھا میں پروفیسر نے اپنی طالبہ کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا ڈالا۔
پروفیسر کا نام استعمال ہونے پر لیکچررز اور پروفیسرز کے گروپس میں اس بات کی مذمت کی گئی کہ ایک پرائیویٹ کالج کے استاد کی قبیح حرکت کی وجہ سے ہماری کمیونٹی کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ پہاں پہ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ آخر پروفیسر کون ہوتاہے۔ کالج کیڈر میں پروفیسر گریڈ 20 اور یونیورسٹیز میں پروفیسر گریڈ 21 کا آفیسر ہوتا ہے۔ گریڈ 20 تک پروموشن کیلئے کم از کم 25 سال کی ریاضت چاہیے ہوتی اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ڈائریکٹ پروفیسر بھرتی ہونے کیلئے بھی پی ایچ ڈی ڈگری کے ساتھ ساتھ 11 سال کا تجربہ درکار ہوتاہے۔
کالج اور یونیورسٹی میں پروفیسر تک پروموشن کیلئے لیکچرار، اسٹنٹ پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب میں نے اپنا ٹیچنگ کیرئیر جی سی یونیورسٹی لاہور سے سٹارٹ کیا تو سب سے نچلے درجے پہ فائض ہونے کی وجہ سے اپنے نام ساتھ اوپر والا عہدہ لکھنا تو درکنار اپنا اصل عہدہ بھی لکھنے کی جسارت کبھی نہیں کی۔ لیکن جب یونیورسٹی سے استعفیٰ دے کے کالج جائن کیا تو یہ دیکھ کہ حیرانگی ہوئی کہ جس کالج میں جائن کیا وہاں پروفیسر رینک کا کوئی ایک بندہ بھی نہیں تھا لیکن لیکچررز بھی اپنے نام کے ساتھ پروفیسر لکھتے تھے۔ ایک دن باتوں باتوں میں جب استفسار کیا تو ایک سینئر دوست نے بتایا کہ ڈاکٹرز کی طرح ہائی کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے جس میں لیکچرار سے لے کے اوپر تک سب کو اپنے نام کے ساتھ اعزازی طور پہ پروفیسر لکھنے کی اجازت ہے۔
گریڈ 20 یا 21 کے پروفیسرز کی تعداد تو آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن پروفیسر نام کے لوگوں کی لٹ پڑی ہوئی ہے کیونکہ پرائیویٹ کالجز میں پہلے دن سے جائن کرنے والے سے لے کر گورنمنٹ کالجز کے سب عہدہ داران پروفیسر ہی کہلاتے ہیں۔ یہاں تک کے اکثر کالجز کے کلرک بھی اپنے رشتہ داروں میں پروفیسر ہی ہوتے ہیں۔
نوٹ: مجھے کسی کے ڈاکٹر یا پروفیسر کہلوانے پہ کوئی اعتراض نہیں تحریر کا مقصد صرف انفارمیشن دینا تھا۔