Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
شہزاد ناصر
5 جولائی ، وہ دن جب پاکستان میں طویل ترین تاریک شب کا آغازہوا، آسیب کے سائے اتنے گہرے کہ چالیس سال بعد بھی ووٹ چوری ہورہا ہے اور ملک کا پرایم منسٹر جھوٹے الزامات پر جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔ چالیس سال پہلے بھی ملک کا پرائم منسٹر بھٹو کوٹ لکھپت جیل میں بند تھا اور پارٹی پرمطلق العاننیت ایک قہر بن کرٹوٹ رہی تھی ،چالیس سال پہلے بھی سیاسی لیڈرزاور کارکنوں کوجھوٹے الزامات پر گرفتاربندکرکے جیلوں میں بندکیاجارہا تھا اورآج بھی نوازشریف کےخلاف کرپشن کا لچ تلاجارہا ہے ، ترقیاتی کاموں کی مخالفت کرکے پاکستان کو پسماندہ رکھنے کی سازش کی جارہی ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش اورانڈیا سے پیچھے تو چلاہی گیا، افغانستان اور نیپال سے بھی پیچھے چلا جائے کیونکہ ایک پسماندہ قوم اور ملک میں نظریاتی چورن بیچنا اور اسے قابومیں رکھنا آسان ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیا کے طویل دور اقتدار میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے اور اج بھی ترقیاتی کاموں ہی کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے چینلزپر ایسے لوگ بٹھا دیے جاتے ہیں جو ہرگھڑی جھوٹے اعدادوشمار سے قوم کی انکھوں میں مرچیں ڈالتے رہتے ہیں ۔
پانچ دس سال اس سوچ میں رہا کہ پانچ جولائی کو جنرل ضیا پر آرٹیکل لکھوں یا ناں ، کچھ دوست منع کردیتے کہ تم پنجابی نیشنلسٹ ہواور کچھ پنجابی بدقسمتی سے جنرل ضیا کو پسندبھی کرتےہیں تو قلم رک جاتا ،پھر سوچا کہ آخرکب تک؟ اگر کچھ پنجابیوں کو غلط فہمی ہے تو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ اگر جنرل ضیا نے سب سے زیادہ کسی کو تقصان پہنچایا تووہ پنجاب تھا ۔ ہوسکتاہے کچھ پنجابی قوم پرست دوستوں کو صدمہ پہنچے لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ جنرل ضیا پنجابی نیشنلسٹ نہیں تھا ، وہ صرف ذاتی مفاد دیکھتا تھا اورمفاد کے لئےکچھ بھی کرگزرتا جیسے کوئی چھوٹے ذہن کا شخص اپنے مفاد کے لئے ماں باپ بہن بھایئیوں کو بھی قتل کرگذرتا ہے تو جنرل ضیا بھی ایسا ہی تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر آج لٹکایا گیا
یوں تو پاکستان اور انسانیت کے خلاف جنرل ضیا کے جرایم کی فہرست طویل ہے ، (شاید اسے چلی کے جنرل پنوشے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے) لیکن اختصارکی وجہ سے پنجاب تک محدود رہوں گا کیونکہ پنجابی نیشنلسٹ ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ جنرل ضیا نے پنجاب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پنجابی اس حقیقت کا ادراک کریں کیونکہ لاہور میں بیٹھے فیک پنجابی نیشنلسٹوں کا کوئی مینٹل ائی کیو نہیں ، نہ ہی سٹڈی ، ان کے نزدیک پنجابی نیشنلزم صرف پنجابی میلہ کروانے کا نام ہے،
ایسے میں جن لوگوں کو پنجابی قومیت کو درپیش سنجیدہ چیلنجوں کاادراک ہے تو ان کی تاریخی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ خاموش نہ رہیں ،قوم کواپنے تجزیات سے اگاہ کریں ۔لہٰذا یہ ارٹیکل پنجاب تک ہی محدود رہے گا کہ وسیع تر کینوس میں بات سنبھالنا ممکن نہیں ۔
میرے نزدیک پنجاب کے خلاف جنرل ضیا کا بڑا جرم پنجاب کو توڑنا تھا اور وہ بھی صرف سادہ حکومتی حکم سے نہیں بلکہ پنجاب میں لسانی اور قومیتی تفریق پیدا کر کے۔ یہ تفریق پنجابی نیشنلزم پیداکرکے نہیں یا پنجابی بمقابلہ سندھی بلوچ پشتون تعصب کے ذریعے نہیں بلکہ پنجابی کو پنجابی کے خلاف کھڑا کرکے کی گئی ۔ اس مقصد کے لئے سرائکی تحریک چلوائی گئی جو اب تک صرف شعرا اور ادئبوں تک محدود تھی ، عام ادمی سے کوئی تعلق نہیں تھا ،ڈیرہ کا عام ادمی خود کو جاٹکی اور ملتان کا ملتانی کہتا، پنجابی کا لہجہ مانتا لیکن جنرل ضیا کے دور میں پہلی بار ایک ادبی اور شاعرانہ اختلا ف کو قومیت میں بدل کرسیاسی طاقت دی گئی۔ بڑا ثبوت یہ کہ جنرل ضیا نے سرائیکی کو مردم شماری میں الگ زبان کا درجہ دیا جوہسٹری میں کھبی الگ زبان شمار نہیں ہوئی ،نہ سرکاری طور پرمانی گئی۔ برٹش یا مغل دور یا قیام پاکستان کے بعد یا خود بھٹو دور تک ان علاقوں کو سرکاری طور پر پنجابی زبان ہی تسلیم کیاجاتا رہا ، سرائیکی کو الگ زبان منوانے کے لئے کوئی ہڑتال ہوئی نہ ہنگامے نہ کسی بڑی سیاسی پارٹی نے ڈیمانڈ کی لیکن تاج محمد لنگاہ کے کہنے پر اسے مان لیا گیا جو خود کوئی الیکشن نہ جیت سکا، دراصل جنرل ضیا لسانی بنیاد پر قوم میں تفریق پیدا کرنے کے کامیاب تجربات سندھ میں کرچکا تھا۔ اب وہی فارمولا ہوشیاری سے پنجاب میں ازمارہا تھا کیونکہ کراچی میں ایم کیوایم کو ریاستی سرپرستی میں بڑی پارٹی بنادیاگیا تاکہ کراچی سے جماعت اسلامی اور نورانی میاں کا ووٹ بنک ختم کردیا جائے۔ اس لئے کہ کراچی سے ہمشہ ملک گیرسیاسی تحریک کااغاز ہوتا تھا جس میں لاہور، پنڈی اورملتان بعد میں شامل ہوجاتے جو ہر حکومت کے لئے خطرہ ہوتا ، کراچی میں ایم کیوایم کی کامیابی کے بعد کسی بھی ملک گیرسیاسی تحریک کا خطرہ ٹل گیا ، کراچی والا فارمولا سندھ اور جنوبی پنجاب میں بھی استعمال کیاگیا ، سندھی قوم پرستوں کوفل سپورٹ دی گئی ، جی ایم سید سے ملاقاتیں تو کھلے عام تھیں ہی لیکن باقی سندھی قوم پرست تنظیموں کے بارے میں بھی صحافتی حلقے خوب جانتے تھے کہ ان کے پیچھے اصل طاقت کون ہے کہ سندھو دیش کی باتیں ہورہی ہیں ، ریلیاں نکل رہی تھیں ، اسلحہ عام تھا اور ان لوگوں کوکوریج دلوائی جارہی تھی ، مقصد صرف یہ تھا کہ کراچی فارمولے کی طرح سندھ میں بھی نیشنلسٹ کامیاب ہوجائیں تو پی پی کی جڑیں کٹ جائیں لیکن بے نظیر بھٹو ہوشیار سیاستدان تھیں اس لئے سندھ کی سطح پر پی پی نے خود ہی سندھی نیشنلزم کا جھنڈا اٹھا کرسندھی نیشنلسٹوں کاایجنڈا ناکام کردیا۔
یہی فارمولا سرائکی تحریک کواٹھانےکےلئے استعمال کیاگیا۔ تخت لہور کے قیدی نامی نظم جنرل ضیا کے دور میں لکھی گئی، سیاسی حلقے الزام لگاتے تھے کہ سرائیکی تنظیموں اور رہنماؤں کو خفیہ فنڈز دئیے جاتھے تھے ، اخبارات اور ٹی وی میں سرائیکی کا غلغلہ تھا۔ پنجاب کو صرف لاہور تک محدود کیا جارہا تھا ، بڑا گیم ہورہا تھا ، پنجاب چونکہ ایک بڑا صوبہ ہے اور دورافتادہ علاقے بھی اس لئے کراچی کی طرح فوری ری ایکشن نہ پیدا کیا جاسکے کیونکہ زبان بہرحال ایک تھی اور کلاسیک بھی ایک اس لئے جنرل ضیا کا سرایئکی چورن کوئی بڑی تحریک بننے میں کامیاب نہ ہوسکا لیکن طاقت ور حلقے سرائیکی کو پنجابی سیاستدانوں کو ناکام بنانے کے لئے ایک کارڈ کے طور پر استمعال کرتی رہے جس کا عملی مظاہرہ پچھلے الیکشن میں ہوا کہ پراسرار طاقتوں نے اچانک جنوبی پنجاب صوبہ محاز بناکرعمران خان کا اتحادی بنادیا ۔
دوسرا ناکام تجربہ۔
کراچی میں جنرل ضیا ایم کیوایم سے پہلے فرقہ ورانہ تقسیم کا عملی تجربہ کرچکا تھا جس کے تحت کراچی میں خوفناک شیعہ سنی فسادات کروائے گئے ، شیعہ سنی رہنما کھلم ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے اوروہ اخبارات میں چھپتے ، جلسے ہوتے ریلیاں نکلتی ، قابل غور بات یہ کہ اگر کوئی سیاسی پارٹی جلسہ کرتی یا کوئی سیاسی رہنما ضیا مخالف بیان دیتا تو اول تو چھپتا نہ اور اگر چھپ جاتا تو فوری گرفتاری ،کراچی چونکہ فرقہ پرست پارٹیوں کا سیاسی مرکز نہ بن سکا تو ایم کیوایم کوسرپرستی دی گئ اور سرائکی تحریک کو بھی۔

وسطی پنجاب میں فرقہ واریت کی اگ خوب بھڑکائی گئی اور پنجاب کو بھی شعیہ سنی لائن پر تقسیم کرکے پی پی کو ختم کرنے کے لئے فرقہ پرست تنظیموں کو آگے کیاگیا تاکہ جنرل ضیا کے اقتدار کو چینلج کرنے والی کوئی طاقت پاکستان میں زندہ نہ رہے ۔
جنرل ضیا نے انصاری کمیشن تشکیل دیا کہ پاکستان کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم کردیا جائے ، اس سے عام آدمی تو یہی سمجھے گا کہ ارے وہ صوبائیت کے خلاف تھا ، نہیں ہرگز نہیں ، دراصل میڈیا کے ذریعے فیک اشوز اٹھائے جاتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے ، جنرل ضیا نے صوبوں پر بحث چھیڑ دی اور آج بھی اسی فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے ڈویژن کو صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل قومی اور معاشی مسائل سے ہٹائی جاسکے ۔
انصاری کمیشن کی خوفناک تجویز یہ تھی کہ پنجاب کا نام ہی ختم کردیا جائے ، یعنی لاہور اور وسط پنجاب کے نام کا رچنا صوبہ بنایا جائے ، باقی پوٹھوار اور سرائیکی صوبہ ، اسی طرح سندھ ، بلوچستان اور سرحد کو بھی تقسیم کرنا تھا ، پیرپگاڑا نے اس احمقانہ تجویز کی مخالفت کی کہ اس پر عمل درامد سے ہر ضلع میں صوبائیت پیدا ہوجائے گی اور پاکستان نسلی قومیتی وار میں چلا جائے گا جس کو سنبھالنے کے لئے دس لاکھ فوج بھی ناکافی ہوگی تو جنرل ضیا نے اس شاطرانہ چال کو روک لیا ۔
گرچہ پنجاب میں برادری ازم کا پرابلم پرانا ہےلیکن اس کو سرپرستی جنرل ضیا کے دور میں ملی ، غیر جماعتی بنادوں پر الیکشن کروائے گئے اور آزاد میدواروں کو ترغیب دی گئی کہ اپنی اپنی برادری کی بنیاد پر الیکشن لڑیں اس طرح غیر دانش مند لوگوں کو آرائیں ، جاٹ اور گجر برادری وغیرہ کے نام پر لڑوایا گیا۔
جنرل ضیا کے دورمیں پورے پنجاب کو منشیات کا گڑھ بنادیا گیا ، افغان جہاد کو فنانس کرنے کے لئے ہیروئیں فیکٹریاں فاٹا کے ایریا میں سرکاری سرپرستی میں چل رہی تھیں۔ پورا پنجاب ہیروئن کے شکنجے میں تھا ، پنجاب کو زہنی طورپراپاہج کیاجارہا تھا ۔
جنرل ضیا کے دور میں لاہور میں ایک اسکول بھی نہیں کھلا تو باقی علاقوں کا کیا حال ہوگا، کوئی انڈسٹری نہیں لگی ، ایوب خان دور کے پاور پروجیکٹ اور کچھ بھٹو دور کے اور بس ، کوئی نیا بجلی گھر نہیں لگایا، ڈیمانڈ بڑھ رہی تھی اور بجلی نہ ہونے سے ملک اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔
ٹی وی پر اپنے چمچوں کو بٹھادیا اور بعض دانش ور پوری قوم کو کوڈے شاہ کا چوہا بنانے پر لگادئیے گئے جو قوم کو ملا اور خانقاہ کادرس دے کر جدوجہد کا راستہ ترک کرنے کا درس دیتا، ساری قوم نشے میں ڈوب گئی۔ اس سلسلے میں اشفاق احمد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
کرکٹ کو پوری قوم کا نشہ بنادیاگیا، ٹی وی پر سارا سارا دن کرکٹ میچز ، لوگوں کو کتاب اور سیاست سے دور کردیا گیا ، لوگوں کو ذہنی عیاشی میں لگادیا ، کرکت جیسا بے کار کھیل قوم کی جڑوں میں بیٹھ گیا ورنہ پاکستان کا فیورٹ کھیل ہاکی ہوتا تھا ۔ اب قوم سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر وقت ضائع کرتی رہتی ،
جنرل ضیا نے مذہب کا بے دریغ سیاسی استعمال کیا ، ملاؤں کو طاقت دی ، اسلام کی من مانی تعبیر کی گئی اور اسلام کو صرف ظاہری عبادت تک محدود کرنے کی سازش کی گئی ، عمرے اور حج کے ذریعے فراڈئے اور شوباز اپنے محلوں میں شریف لوگوں کو دبانے لگے ، جھوٹ ، چوری ، فراڈ کرنے پر فخر اور ساتھ ہی عبادت کا چلن ، یہ جنرل ضیا کی وہ چال تھی کہ آج پاکستان اسلام پر ہے نہ ویسٹرن کلچر پر ، عجیب جاہلانہ ماحول ہے ۔
جنرل ضیا کے دور میں پہلی بار فراڈ سکیموں کا آغاز کیاگیا، جعلی فنانس سکیموں کے ذریعے لوگوں سے اربوں روپے لوٹے گئے ، اس دور میں صرف فوجی افسران خوشحال ہوئے ، بڑے بڑے صرف انھیں عہدے دئے گیے کہ وہ جنرل ضیا کے ذاتی وفادار رہیں حالانکہ وہ فوجی افسر تھے اور پاکستان کے ملازم نہ کہ ایک ارمی چیف کے ملازم ، انڈسٹری بند ہوئی اور پنجاب کے خلاف دوسرے صوبوں میں شدید نفرت پیدا ہوئی ، اور صرف ایک جاہل شخص جنرل ضیا کی وجہ سے
شہزاد ناصر
5 جولائی ، وہ دن جب پاکستان میں طویل ترین تاریک شب کا آغازہوا، آسیب کے سائے اتنے گہرے کہ چالیس سال بعد بھی ووٹ چوری ہورہا ہے اور ملک کا پرایم منسٹر جھوٹے الزامات پر جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔ چالیس سال پہلے بھی ملک کا پرائم منسٹر بھٹو کوٹ لکھپت جیل میں بند تھا اور پارٹی پرمطلق العاننیت ایک قہر بن کرٹوٹ رہی تھی ،چالیس سال پہلے بھی سیاسی لیڈرزاور کارکنوں کوجھوٹے الزامات پر گرفتاربندکرکے جیلوں میں بندکیاجارہا تھا اورآج بھی نوازشریف کےخلاف کرپشن کا لچ تلاجارہا ہے ، ترقیاتی کاموں کی مخالفت کرکے پاکستان کو پسماندہ رکھنے کی سازش کی جارہی ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش اورانڈیا سے پیچھے تو چلاہی گیا، افغانستان اور نیپال سے بھی پیچھے چلا جائے کیونکہ ایک پسماندہ قوم اور ملک میں نظریاتی چورن بیچنا اور اسے قابومیں رکھنا آسان ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیا کے طویل دور اقتدار میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے اور اج بھی ترقیاتی کاموں ہی کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے چینلزپر ایسے لوگ بٹھا دیے جاتے ہیں جو ہرگھڑی جھوٹے اعدادوشمار سے قوم کی انکھوں میں مرچیں ڈالتے رہتے ہیں ۔
پانچ دس سال اس سوچ میں رہا کہ پانچ جولائی کو جنرل ضیا پر آرٹیکل لکھوں یا ناں ، کچھ دوست منع کردیتے کہ تم پنجابی نیشنلسٹ ہواور کچھ پنجابی بدقسمتی سے جنرل ضیا کو پسندبھی کرتےہیں تو قلم رک جاتا ،پھر سوچا کہ آخرکب تک؟ اگر کچھ پنجابیوں کو غلط فہمی ہے تو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ اگر جنرل ضیا نے سب سے زیادہ کسی کو تقصان پہنچایا تووہ پنجاب تھا ۔ ہوسکتاہے کچھ پنجابی قوم پرست دوستوں کو صدمہ پہنچے لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ جنرل ضیا پنجابی نیشنلسٹ نہیں تھا ، وہ صرف ذاتی مفاد دیکھتا تھا اورمفاد کے لئےکچھ بھی کرگزرتا جیسے کوئی چھوٹے ذہن کا شخص اپنے مفاد کے لئے ماں باپ بہن بھایئیوں کو بھی قتل کرگذرتا ہے تو جنرل ضیا بھی ایسا ہی تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر آج لٹکایا گیا
یوں تو پاکستان اور انسانیت کے خلاف جنرل ضیا کے جرایم کی فہرست طویل ہے ، (شاید اسے چلی کے جنرل پنوشے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے) لیکن اختصارکی وجہ سے پنجاب تک محدود رہوں گا کیونکہ پنجابی نیشنلسٹ ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ جنرل ضیا نے پنجاب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پنجابی اس حقیقت کا ادراک کریں کیونکہ لاہور میں بیٹھے فیک پنجابی نیشنلسٹوں کا کوئی مینٹل ائی کیو نہیں ، نہ ہی سٹڈی ، ان کے نزدیک پنجابی نیشنلزم صرف پنجابی میلہ کروانے کا نام ہے،
ایسے میں جن لوگوں کو پنجابی قومیت کو درپیش سنجیدہ چیلنجوں کاادراک ہے تو ان کی تاریخی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ خاموش نہ رہیں ،قوم کواپنے تجزیات سے اگاہ کریں ۔لہٰذا یہ ارٹیکل پنجاب تک ہی محدود رہے گا کہ وسیع تر کینوس میں بات سنبھالنا ممکن نہیں ۔
میرے نزدیک پنجاب کے خلاف جنرل ضیا کا بڑا جرم پنجاب کو توڑنا تھا اور وہ بھی صرف سادہ حکومتی حکم سے نہیں بلکہ پنجاب میں لسانی اور قومیتی تفریق پیدا کر کے۔ یہ تفریق پنجابی نیشنلزم پیداکرکے نہیں یا پنجابی بمقابلہ سندھی بلوچ پشتون تعصب کے ذریعے نہیں بلکہ پنجابی کو پنجابی کے خلاف کھڑا کرکے کی گئی ۔ اس مقصد کے لئے سرائکی تحریک چلوائی گئی جو اب تک صرف شعرا اور ادئبوں تک محدود تھی ، عام ادمی سے کوئی تعلق نہیں تھا ،ڈیرہ کا عام ادمی خود کو جاٹکی اور ملتان کا ملتانی کہتا، پنجابی کا لہجہ مانتا لیکن جنرل ضیا کے دور میں پہلی بار ایک ادبی اور شاعرانہ اختلا ف کو قومیت میں بدل کرسیاسی طاقت دی گئی۔ بڑا ثبوت یہ کہ جنرل ضیا نے سرائیکی کو مردم شماری میں الگ زبان کا درجہ دیا جوہسٹری میں کھبی الگ زبان شمار نہیں ہوئی ،نہ سرکاری طور پرمانی گئی۔ برٹش یا مغل دور یا قیام پاکستان کے بعد یا خود بھٹو دور تک ان علاقوں کو سرکاری طور پر پنجابی زبان ہی تسلیم کیاجاتا رہا ، سرائیکی کو الگ زبان منوانے کے لئے کوئی ہڑتال ہوئی نہ ہنگامے نہ کسی بڑی سیاسی پارٹی نے ڈیمانڈ کی لیکن تاج محمد لنگاہ کے کہنے پر اسے مان لیا گیا جو خود کوئی الیکشن نہ جیت سکا، دراصل جنرل ضیا لسانی بنیاد پر قوم میں تفریق پیدا کرنے کے کامیاب تجربات سندھ میں کرچکا تھا۔ اب وہی فارمولا ہوشیاری سے پنجاب میں ازمارہا تھا کیونکہ کراچی میں ایم کیوایم کو ریاستی سرپرستی میں بڑی پارٹی بنادیاگیا تاکہ کراچی سے جماعت اسلامی اور نورانی میاں کا ووٹ بنک ختم کردیا جائے۔ اس لئے کہ کراچی سے ہمشہ ملک گیرسیاسی تحریک کااغاز ہوتا تھا جس میں لاہور، پنڈی اورملتان بعد میں شامل ہوجاتے جو ہر حکومت کے لئے خطرہ ہوتا ، کراچی میں ایم کیوایم کی کامیابی کے بعد کسی بھی ملک گیرسیاسی تحریک کا خطرہ ٹل گیا ، کراچی والا فارمولا سندھ اور جنوبی پنجاب میں بھی استعمال کیاگیا ، سندھی قوم پرستوں کوفل سپورٹ دی گئی ، جی ایم سید سے ملاقاتیں تو کھلے عام تھیں ہی لیکن باقی سندھی قوم پرست تنظیموں کے بارے میں بھی صحافتی حلقے خوب جانتے تھے کہ ان کے پیچھے اصل طاقت کون ہے کہ سندھو دیش کی باتیں ہورہی ہیں ، ریلیاں نکل رہی تھیں ، اسلحہ عام تھا اور ان لوگوں کوکوریج دلوائی جارہی تھی ، مقصد صرف یہ تھا کہ کراچی فارمولے کی طرح سندھ میں بھی نیشنلسٹ کامیاب ہوجائیں تو پی پی کی جڑیں کٹ جائیں لیکن بے نظیر بھٹو ہوشیار سیاستدان تھیں اس لئے سندھ کی سطح پر پی پی نے خود ہی سندھی نیشنلزم کا جھنڈا اٹھا کرسندھی نیشنلسٹوں کاایجنڈا ناکام کردیا۔
یہی فارمولا سرائکی تحریک کواٹھانےکےلئے استعمال کیاگیا۔ تخت لہور کے قیدی نامی نظم جنرل ضیا کے دور میں لکھی گئی، سیاسی حلقے الزام لگاتے تھے کہ سرائیکی تنظیموں اور رہنماؤں کو خفیہ فنڈز دئیے جاتھے تھے ، اخبارات اور ٹی وی میں سرائیکی کا غلغلہ تھا۔ پنجاب کو صرف لاہور تک محدود کیا جارہا تھا ، بڑا گیم ہورہا تھا ، پنجاب چونکہ ایک بڑا صوبہ ہے اور دورافتادہ علاقے بھی اس لئے کراچی کی طرح فوری ری ایکشن نہ پیدا کیا جاسکے کیونکہ زبان بہرحال ایک تھی اور کلاسیک بھی ایک اس لئے جنرل ضیا کا سرایئکی چورن کوئی بڑی تحریک بننے میں کامیاب نہ ہوسکا لیکن طاقت ور حلقے سرائیکی کو پنجابی سیاستدانوں کو ناکام بنانے کے لئے ایک کارڈ کے طور پر استمعال کرتی رہے جس کا عملی مظاہرہ پچھلے الیکشن میں ہوا کہ پراسرار طاقتوں نے اچانک جنوبی پنجاب صوبہ محاز بناکرعمران خان کا اتحادی بنادیا ۔
دوسرا ناکام تجربہ۔
کراچی میں جنرل ضیا ایم کیوایم سے پہلے فرقہ ورانہ تقسیم کا عملی تجربہ کرچکا تھا جس کے تحت کراچی میں خوفناک شیعہ سنی فسادات کروائے گئے ، شیعہ سنی رہنما کھلم ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے اوروہ اخبارات میں چھپتے ، جلسے ہوتے ریلیاں نکلتی ، قابل غور بات یہ کہ اگر کوئی سیاسی پارٹی جلسہ کرتی یا کوئی سیاسی رہنما ضیا مخالف بیان دیتا تو اول تو چھپتا نہ اور اگر چھپ جاتا تو فوری گرفتاری ،کراچی چونکہ فرقہ پرست پارٹیوں کا سیاسی مرکز نہ بن سکا تو ایم کیوایم کوسرپرستی دی گئ اور سرائکی تحریک کو بھی۔

وسطی پنجاب میں فرقہ واریت کی اگ خوب بھڑکائی گئی اور پنجاب کو بھی شعیہ سنی لائن پر تقسیم کرکے پی پی کو ختم کرنے کے لئے فرقہ پرست تنظیموں کو آگے کیاگیا تاکہ جنرل ضیا کے اقتدار کو چینلج کرنے والی کوئی طاقت پاکستان میں زندہ نہ رہے ۔
جنرل ضیا نے انصاری کمیشن تشکیل دیا کہ پاکستان کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم کردیا جائے ، اس سے عام آدمی تو یہی سمجھے گا کہ ارے وہ صوبائیت کے خلاف تھا ، نہیں ہرگز نہیں ، دراصل میڈیا کے ذریعے فیک اشوز اٹھائے جاتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے ، جنرل ضیا نے صوبوں پر بحث چھیڑ دی اور آج بھی اسی فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے ڈویژن کو صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل قومی اور معاشی مسائل سے ہٹائی جاسکے ۔
انصاری کمیشن کی خوفناک تجویز یہ تھی کہ پنجاب کا نام ہی ختم کردیا جائے ، یعنی لاہور اور وسط پنجاب کے نام کا رچنا صوبہ بنایا جائے ، باقی پوٹھوار اور سرائیکی صوبہ ، اسی طرح سندھ ، بلوچستان اور سرحد کو بھی تقسیم کرنا تھا ، پیرپگاڑا نے اس احمقانہ تجویز کی مخالفت کی کہ اس پر عمل درامد سے ہر ضلع میں صوبائیت پیدا ہوجائے گی اور پاکستان نسلی قومیتی وار میں چلا جائے گا جس کو سنبھالنے کے لئے دس لاکھ فوج بھی ناکافی ہوگی تو جنرل ضیا نے اس شاطرانہ چال کو روک لیا ۔
گرچہ پنجاب میں برادری ازم کا پرابلم پرانا ہےلیکن اس کو سرپرستی جنرل ضیا کے دور میں ملی ، غیر جماعتی بنادوں پر الیکشن کروائے گئے اور آزاد میدواروں کو ترغیب دی گئی کہ اپنی اپنی برادری کی بنیاد پر الیکشن لڑیں اس طرح غیر دانش مند لوگوں کو آرائیں ، جاٹ اور گجر برادری وغیرہ کے نام پر لڑوایا گیا۔
جنرل ضیا کے دورمیں پورے پنجاب کو منشیات کا گڑھ بنادیا گیا ، افغان جہاد کو فنانس کرنے کے لئے ہیروئیں فیکٹریاں فاٹا کے ایریا میں سرکاری سرپرستی میں چل رہی تھیں۔ پورا پنجاب ہیروئن کے شکنجے میں تھا ، پنجاب کو زہنی طورپراپاہج کیاجارہا تھا ۔
جنرل ضیا کے دور میں لاہور میں ایک اسکول بھی نہیں کھلا تو باقی علاقوں کا کیا حال ہوگا، کوئی انڈسٹری نہیں لگی ، ایوب خان دور کے پاور پروجیکٹ اور کچھ بھٹو دور کے اور بس ، کوئی نیا بجلی گھر نہیں لگایا، ڈیمانڈ بڑھ رہی تھی اور بجلی نہ ہونے سے ملک اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔
ٹی وی پر اپنے چمچوں کو بٹھادیا اور بعض دانش ور پوری قوم کو کوڈے شاہ کا چوہا بنانے پر لگادئیے گئے جو قوم کو ملا اور خانقاہ کادرس دے کر جدوجہد کا راستہ ترک کرنے کا درس دیتا، ساری قوم نشے میں ڈوب گئی۔ اس سلسلے میں اشفاق احمد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
کرکٹ کو پوری قوم کا نشہ بنادیاگیا، ٹی وی پر سارا سارا دن کرکٹ میچز ، لوگوں کو کتاب اور سیاست سے دور کردیا گیا ، لوگوں کو ذہنی عیاشی میں لگادیا ، کرکت جیسا بے کار کھیل قوم کی جڑوں میں بیٹھ گیا ورنہ پاکستان کا فیورٹ کھیل ہاکی ہوتا تھا ۔ اب قوم سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر وقت ضائع کرتی رہتی ،
جنرل ضیا نے مذہب کا بے دریغ سیاسی استعمال کیا ، ملاؤں کو طاقت دی ، اسلام کی من مانی تعبیر کی گئی اور اسلام کو صرف ظاہری عبادت تک محدود کرنے کی سازش کی گئی ، عمرے اور حج کے ذریعے فراڈئے اور شوباز اپنے محلوں میں شریف لوگوں کو دبانے لگے ، جھوٹ ، چوری ، فراڈ کرنے پر فخر اور ساتھ ہی عبادت کا چلن ، یہ جنرل ضیا کی وہ چال تھی کہ آج پاکستان اسلام پر ہے نہ ویسٹرن کلچر پر ، عجیب جاہلانہ ماحول ہے ۔
جنرل ضیا کے دور میں پہلی بار فراڈ سکیموں کا آغاز کیاگیا، جعلی فنانس سکیموں کے ذریعے لوگوں سے اربوں روپے لوٹے گئے ، اس دور میں صرف فوجی افسران خوشحال ہوئے ، بڑے بڑے صرف انھیں عہدے دئے گیے کہ وہ جنرل ضیا کے ذاتی وفادار رہیں حالانکہ وہ فوجی افسر تھے اور پاکستان کے ملازم نہ کہ ایک ارمی چیف کے ملازم ، انڈسٹری بند ہوئی اور پنجاب کے خلاف دوسرے صوبوں میں شدید نفرت پیدا ہوئی ، اور صرف ایک جاہل شخص جنرل ضیا کی وجہ سے
شہزاد ناصر
5 جولائی ، وہ دن جب پاکستان میں طویل ترین تاریک شب کا آغازہوا، آسیب کے سائے اتنے گہرے کہ چالیس سال بعد بھی ووٹ چوری ہورہا ہے اور ملک کا پرایم منسٹر جھوٹے الزامات پر جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔ چالیس سال پہلے بھی ملک کا پرائم منسٹر بھٹو کوٹ لکھپت جیل میں بند تھا اور پارٹی پرمطلق العاننیت ایک قہر بن کرٹوٹ رہی تھی ،چالیس سال پہلے بھی سیاسی لیڈرزاور کارکنوں کوجھوٹے الزامات پر گرفتاربندکرکے جیلوں میں بندکیاجارہا تھا اورآج بھی نوازشریف کےخلاف کرپشن کا لچ تلاجارہا ہے ، ترقیاتی کاموں کی مخالفت کرکے پاکستان کو پسماندہ رکھنے کی سازش کی جارہی ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش اورانڈیا سے پیچھے تو چلاہی گیا، افغانستان اور نیپال سے بھی پیچھے چلا جائے کیونکہ ایک پسماندہ قوم اور ملک میں نظریاتی چورن بیچنا اور اسے قابومیں رکھنا آسان ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیا کے طویل دور اقتدار میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے اور اج بھی ترقیاتی کاموں ہی کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے چینلزپر ایسے لوگ بٹھا دیے جاتے ہیں جو ہرگھڑی جھوٹے اعدادوشمار سے قوم کی انکھوں میں مرچیں ڈالتے رہتے ہیں ۔
پانچ دس سال اس سوچ میں رہا کہ پانچ جولائی کو جنرل ضیا پر آرٹیکل لکھوں یا ناں ، کچھ دوست منع کردیتے کہ تم پنجابی نیشنلسٹ ہواور کچھ پنجابی بدقسمتی سے جنرل ضیا کو پسندبھی کرتےہیں تو قلم رک جاتا ،پھر سوچا کہ آخرکب تک؟ اگر کچھ پنجابیوں کو غلط فہمی ہے تو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ اگر جنرل ضیا نے سب سے زیادہ کسی کو تقصان پہنچایا تووہ پنجاب تھا ۔ ہوسکتاہے کچھ پنجابی قوم پرست دوستوں کو صدمہ پہنچے لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ جنرل ضیا پنجابی نیشنلسٹ نہیں تھا ، وہ صرف ذاتی مفاد دیکھتا تھا اورمفاد کے لئےکچھ بھی کرگزرتا جیسے کوئی چھوٹے ذہن کا شخص اپنے مفاد کے لئے ماں باپ بہن بھایئیوں کو بھی قتل کرگذرتا ہے تو جنرل ضیا بھی ایسا ہی تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر آج لٹکایا گیا
یوں تو پاکستان اور انسانیت کے خلاف جنرل ضیا کے جرایم کی فہرست طویل ہے ، (شاید اسے چلی کے جنرل پنوشے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے) لیکن اختصارکی وجہ سے پنجاب تک محدود رہوں گا کیونکہ پنجابی نیشنلسٹ ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ جنرل ضیا نے پنجاب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پنجابی اس حقیقت کا ادراک کریں کیونکہ لاہور میں بیٹھے فیک پنجابی نیشنلسٹوں کا کوئی مینٹل ائی کیو نہیں ، نہ ہی سٹڈی ، ان کے نزدیک پنجابی نیشنلزم صرف پنجابی میلہ کروانے کا نام ہے،
ایسے میں جن لوگوں کو پنجابی قومیت کو درپیش سنجیدہ چیلنجوں کاادراک ہے تو ان کی تاریخی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ خاموش نہ رہیں ،قوم کواپنے تجزیات سے اگاہ کریں ۔لہٰذا یہ ارٹیکل پنجاب تک ہی محدود رہے گا کہ وسیع تر کینوس میں بات سنبھالنا ممکن نہیں ۔
میرے نزدیک پنجاب کے خلاف جنرل ضیا کا بڑا جرم پنجاب کو توڑنا تھا اور وہ بھی صرف سادہ حکومتی حکم سے نہیں بلکہ پنجاب میں لسانی اور قومیتی تفریق پیدا کر کے۔ یہ تفریق پنجابی نیشنلزم پیداکرکے نہیں یا پنجابی بمقابلہ سندھی بلوچ پشتون تعصب کے ذریعے نہیں بلکہ پنجابی کو پنجابی کے خلاف کھڑا کرکے کی گئی ۔ اس مقصد کے لئے سرائکی تحریک چلوائی گئی جو اب تک صرف شعرا اور ادئبوں تک محدود تھی ، عام ادمی سے کوئی تعلق نہیں تھا ،ڈیرہ کا عام ادمی خود کو جاٹکی اور ملتان کا ملتانی کہتا، پنجابی کا لہجہ مانتا لیکن جنرل ضیا کے دور میں پہلی بار ایک ادبی اور شاعرانہ اختلا ف کو قومیت میں بدل کرسیاسی طاقت دی گئی۔ بڑا ثبوت یہ کہ جنرل ضیا نے سرائیکی کو مردم شماری میں الگ زبان کا درجہ دیا جوہسٹری میں کھبی الگ زبان شمار نہیں ہوئی ،نہ سرکاری طور پرمانی گئی۔ برٹش یا مغل دور یا قیام پاکستان کے بعد یا خود بھٹو دور تک ان علاقوں کو سرکاری طور پر پنجابی زبان ہی تسلیم کیاجاتا رہا ، سرائیکی کو الگ زبان منوانے کے لئے کوئی ہڑتال ہوئی نہ ہنگامے نہ کسی بڑی سیاسی پارٹی نے ڈیمانڈ کی لیکن تاج محمد لنگاہ کے کہنے پر اسے مان لیا گیا جو خود کوئی الیکشن نہ جیت سکا، دراصل جنرل ضیا لسانی بنیاد پر قوم میں تفریق پیدا کرنے کے کامیاب تجربات سندھ میں کرچکا تھا۔ اب وہی فارمولا ہوشیاری سے پنجاب میں ازمارہا تھا کیونکہ کراچی میں ایم کیوایم کو ریاستی سرپرستی میں بڑی پارٹی بنادیاگیا تاکہ کراچی سے جماعت اسلامی اور نورانی میاں کا ووٹ بنک ختم کردیا جائے۔ اس لئے کہ کراچی سے ہمشہ ملک گیرسیاسی تحریک کااغاز ہوتا تھا جس میں لاہور، پنڈی اورملتان بعد میں شامل ہوجاتے جو ہر حکومت کے لئے خطرہ ہوتا ، کراچی میں ایم کیوایم کی کامیابی کے بعد کسی بھی ملک گیرسیاسی تحریک کا خطرہ ٹل گیا ، کراچی والا فارمولا سندھ اور جنوبی پنجاب میں بھی استعمال کیاگیا ، سندھی قوم پرستوں کوفل سپورٹ دی گئی ، جی ایم سید سے ملاقاتیں تو کھلے عام تھیں ہی لیکن باقی سندھی قوم پرست تنظیموں کے بارے میں بھی صحافتی حلقے خوب جانتے تھے کہ ان کے پیچھے اصل طاقت کون ہے کہ سندھو دیش کی باتیں ہورہی ہیں ، ریلیاں نکل رہی تھیں ، اسلحہ عام تھا اور ان لوگوں کوکوریج دلوائی جارہی تھی ، مقصد صرف یہ تھا کہ کراچی فارمولے کی طرح سندھ میں بھی نیشنلسٹ کامیاب ہوجائیں تو پی پی کی جڑیں کٹ جائیں لیکن بے نظیر بھٹو ہوشیار سیاستدان تھیں اس لئے سندھ کی سطح پر پی پی نے خود ہی سندھی نیشنلزم کا جھنڈا اٹھا کرسندھی نیشنلسٹوں کاایجنڈا ناکام کردیا۔
یہی فارمولا سرائکی تحریک کواٹھانےکےلئے استعمال کیاگیا۔ تخت لہور کے قیدی نامی نظم جنرل ضیا کے دور میں لکھی گئی، سیاسی حلقے الزام لگاتے تھے کہ سرائیکی تنظیموں اور رہنماؤں کو خفیہ فنڈز دئیے جاتھے تھے ، اخبارات اور ٹی وی میں سرائیکی کا غلغلہ تھا۔ پنجاب کو صرف لاہور تک محدود کیا جارہا تھا ، بڑا گیم ہورہا تھا ، پنجاب چونکہ ایک بڑا صوبہ ہے اور دورافتادہ علاقے بھی اس لئے کراچی کی طرح فوری ری ایکشن نہ پیدا کیا جاسکے کیونکہ زبان بہرحال ایک تھی اور کلاسیک بھی ایک اس لئے جنرل ضیا کا سرایئکی چورن کوئی بڑی تحریک بننے میں کامیاب نہ ہوسکا لیکن طاقت ور حلقے سرائیکی کو پنجابی سیاستدانوں کو ناکام بنانے کے لئے ایک کارڈ کے طور پر استمعال کرتی رہے جس کا عملی مظاہرہ پچھلے الیکشن میں ہوا کہ پراسرار طاقتوں نے اچانک جنوبی پنجاب صوبہ محاز بناکرعمران خان کا اتحادی بنادیا ۔
دوسرا ناکام تجربہ۔
کراچی میں جنرل ضیا ایم کیوایم سے پہلے فرقہ ورانہ تقسیم کا عملی تجربہ کرچکا تھا جس کے تحت کراچی میں خوفناک شیعہ سنی فسادات کروائے گئے ، شیعہ سنی رہنما کھلم ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے اوروہ اخبارات میں چھپتے ، جلسے ہوتے ریلیاں نکلتی ، قابل غور بات یہ کہ اگر کوئی سیاسی پارٹی جلسہ کرتی یا کوئی سیاسی رہنما ضیا مخالف بیان دیتا تو اول تو چھپتا نہ اور اگر چھپ جاتا تو فوری گرفتاری ،کراچی چونکہ فرقہ پرست پارٹیوں کا سیاسی مرکز نہ بن سکا تو ایم کیوایم کوسرپرستی دی گئ اور سرائکی تحریک کو بھی۔

وسطی پنجاب میں فرقہ واریت کی اگ خوب بھڑکائی گئی اور پنجاب کو بھی شعیہ سنی لائن پر تقسیم کرکے پی پی کو ختم کرنے کے لئے فرقہ پرست تنظیموں کو آگے کیاگیا تاکہ جنرل ضیا کے اقتدار کو چینلج کرنے والی کوئی طاقت پاکستان میں زندہ نہ رہے ۔
جنرل ضیا نے انصاری کمیشن تشکیل دیا کہ پاکستان کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم کردیا جائے ، اس سے عام آدمی تو یہی سمجھے گا کہ ارے وہ صوبائیت کے خلاف تھا ، نہیں ہرگز نہیں ، دراصل میڈیا کے ذریعے فیک اشوز اٹھائے جاتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے ، جنرل ضیا نے صوبوں پر بحث چھیڑ دی اور آج بھی اسی فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے ڈویژن کو صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل قومی اور معاشی مسائل سے ہٹائی جاسکے ۔
انصاری کمیشن کی خوفناک تجویز یہ تھی کہ پنجاب کا نام ہی ختم کردیا جائے ، یعنی لاہور اور وسط پنجاب کے نام کا رچنا صوبہ بنایا جائے ، باقی پوٹھوار اور سرائیکی صوبہ ، اسی طرح سندھ ، بلوچستان اور سرحد کو بھی تقسیم کرنا تھا ، پیرپگاڑا نے اس احمقانہ تجویز کی مخالفت کی کہ اس پر عمل درامد سے ہر ضلع میں صوبائیت پیدا ہوجائے گی اور پاکستان نسلی قومیتی وار میں چلا جائے گا جس کو سنبھالنے کے لئے دس لاکھ فوج بھی ناکافی ہوگی تو جنرل ضیا نے اس شاطرانہ چال کو روک لیا ۔
گرچہ پنجاب میں برادری ازم کا پرابلم پرانا ہےلیکن اس کو سرپرستی جنرل ضیا کے دور میں ملی ، غیر جماعتی بنادوں پر الیکشن کروائے گئے اور آزاد میدواروں کو ترغیب دی گئی کہ اپنی اپنی برادری کی بنیاد پر الیکشن لڑیں اس طرح غیر دانش مند لوگوں کو آرائیں ، جاٹ اور گجر برادری وغیرہ کے نام پر لڑوایا گیا۔
جنرل ضیا کے دورمیں پورے پنجاب کو منشیات کا گڑھ بنادیا گیا ، افغان جہاد کو فنانس کرنے کے لئے ہیروئیں فیکٹریاں فاٹا کے ایریا میں سرکاری سرپرستی میں چل رہی تھیں۔ پورا پنجاب ہیروئن کے شکنجے میں تھا ، پنجاب کو زہنی طورپراپاہج کیاجارہا تھا ۔
جنرل ضیا کے دور میں لاہور میں ایک اسکول بھی نہیں کھلا تو باقی علاقوں کا کیا حال ہوگا، کوئی انڈسٹری نہیں لگی ، ایوب خان دور کے پاور پروجیکٹ اور کچھ بھٹو دور کے اور بس ، کوئی نیا بجلی گھر نہیں لگایا، ڈیمانڈ بڑھ رہی تھی اور بجلی نہ ہونے سے ملک اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔
ٹی وی پر اپنے چمچوں کو بٹھادیا اور بعض دانش ور پوری قوم کو کوڈے شاہ کا چوہا بنانے پر لگادئیے گئے جو قوم کو ملا اور خانقاہ کادرس دے کر جدوجہد کا راستہ ترک کرنے کا درس دیتا، ساری قوم نشے میں ڈوب گئی۔ اس سلسلے میں اشفاق احمد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
کرکٹ کو پوری قوم کا نشہ بنادیاگیا، ٹی وی پر سارا سارا دن کرکٹ میچز ، لوگوں کو کتاب اور سیاست سے دور کردیا گیا ، لوگوں کو ذہنی عیاشی میں لگادیا ، کرکت جیسا بے کار کھیل قوم کی جڑوں میں بیٹھ گیا ورنہ پاکستان کا فیورٹ کھیل ہاکی ہوتا تھا ۔ اب قوم سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر وقت ضائع کرتی رہتی ،
جنرل ضیا نے مذہب کا بے دریغ سیاسی استعمال کیا ، ملاؤں کو طاقت دی ، اسلام کی من مانی تعبیر کی گئی اور اسلام کو صرف ظاہری عبادت تک محدود کرنے کی سازش کی گئی ، عمرے اور حج کے ذریعے فراڈئے اور شوباز اپنے محلوں میں شریف لوگوں کو دبانے لگے ، جھوٹ ، چوری ، فراڈ کرنے پر فخر اور ساتھ ہی عبادت کا چلن ، یہ جنرل ضیا کی وہ چال تھی کہ آج پاکستان اسلام پر ہے نہ ویسٹرن کلچر پر ، عجیب جاہلانہ ماحول ہے ۔
جنرل ضیا کے دور میں پہلی بار فراڈ سکیموں کا آغاز کیاگیا، جعلی فنانس سکیموں کے ذریعے لوگوں سے اربوں روپے لوٹے گئے ، اس دور میں صرف فوجی افسران خوشحال ہوئے ، بڑے بڑے صرف انھیں عہدے دئے گیے کہ وہ جنرل ضیا کے ذاتی وفادار رہیں حالانکہ وہ فوجی افسر تھے اور پاکستان کے ملازم نہ کہ ایک ارمی چیف کے ملازم ، انڈسٹری بند ہوئی اور پنجاب کے خلاف دوسرے صوبوں میں شدید نفرت پیدا ہوئی ، اور صرف ایک جاہل شخص جنرل ضیا کی وجہ سے
شہزاد ناصر
5 جولائی ، وہ دن جب پاکستان میں طویل ترین تاریک شب کا آغازہوا، آسیب کے سائے اتنے گہرے کہ چالیس سال بعد بھی ووٹ چوری ہورہا ہے اور ملک کا پرایم منسٹر جھوٹے الزامات پر جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔ چالیس سال پہلے بھی ملک کا پرائم منسٹر بھٹو کوٹ لکھپت جیل میں بند تھا اور پارٹی پرمطلق العاننیت ایک قہر بن کرٹوٹ رہی تھی ،چالیس سال پہلے بھی سیاسی لیڈرزاور کارکنوں کوجھوٹے الزامات پر گرفتاربندکرکے جیلوں میں بندکیاجارہا تھا اورآج بھی نوازشریف کےخلاف کرپشن کا لچ تلاجارہا ہے ، ترقیاتی کاموں کی مخالفت کرکے پاکستان کو پسماندہ رکھنے کی سازش کی جارہی ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش اورانڈیا سے پیچھے تو چلاہی گیا، افغانستان اور نیپال سے بھی پیچھے چلا جائے کیونکہ ایک پسماندہ قوم اور ملک میں نظریاتی چورن بیچنا اور اسے قابومیں رکھنا آسان ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیا کے طویل دور اقتدار میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے اور اج بھی ترقیاتی کاموں ہی کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے چینلزپر ایسے لوگ بٹھا دیے جاتے ہیں جو ہرگھڑی جھوٹے اعدادوشمار سے قوم کی انکھوں میں مرچیں ڈالتے رہتے ہیں ۔
پانچ دس سال اس سوچ میں رہا کہ پانچ جولائی کو جنرل ضیا پر آرٹیکل لکھوں یا ناں ، کچھ دوست منع کردیتے کہ تم پنجابی نیشنلسٹ ہواور کچھ پنجابی بدقسمتی سے جنرل ضیا کو پسندبھی کرتےہیں تو قلم رک جاتا ،پھر سوچا کہ آخرکب تک؟ اگر کچھ پنجابیوں کو غلط فہمی ہے تو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ اگر جنرل ضیا نے سب سے زیادہ کسی کو تقصان پہنچایا تووہ پنجاب تھا ۔ ہوسکتاہے کچھ پنجابی قوم پرست دوستوں کو صدمہ پہنچے لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ جنرل ضیا پنجابی نیشنلسٹ نہیں تھا ، وہ صرف ذاتی مفاد دیکھتا تھا اورمفاد کے لئےکچھ بھی کرگزرتا جیسے کوئی چھوٹے ذہن کا شخص اپنے مفاد کے لئے ماں باپ بہن بھایئیوں کو بھی قتل کرگذرتا ہے تو جنرل ضیا بھی ایسا ہی تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر آج لٹکایا گیا
یوں تو پاکستان اور انسانیت کے خلاف جنرل ضیا کے جرایم کی فہرست طویل ہے ، (شاید اسے چلی کے جنرل پنوشے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے) لیکن اختصارکی وجہ سے پنجاب تک محدود رہوں گا کیونکہ پنجابی نیشنلسٹ ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ جنرل ضیا نے پنجاب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پنجابی اس حقیقت کا ادراک کریں کیونکہ لاہور میں بیٹھے فیک پنجابی نیشنلسٹوں کا کوئی مینٹل ائی کیو نہیں ، نہ ہی سٹڈی ، ان کے نزدیک پنجابی نیشنلزم صرف پنجابی میلہ کروانے کا نام ہے،
ایسے میں جن لوگوں کو پنجابی قومیت کو درپیش سنجیدہ چیلنجوں کاادراک ہے تو ان کی تاریخی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ خاموش نہ رہیں ،قوم کواپنے تجزیات سے اگاہ کریں ۔لہٰذا یہ ارٹیکل پنجاب تک ہی محدود رہے گا کہ وسیع تر کینوس میں بات سنبھالنا ممکن نہیں ۔
میرے نزدیک پنجاب کے خلاف جنرل ضیا کا بڑا جرم پنجاب کو توڑنا تھا اور وہ بھی صرف سادہ حکومتی حکم سے نہیں بلکہ پنجاب میں لسانی اور قومیتی تفریق پیدا کر کے۔ یہ تفریق پنجابی نیشنلزم پیداکرکے نہیں یا پنجابی بمقابلہ سندھی بلوچ پشتون تعصب کے ذریعے نہیں بلکہ پنجابی کو پنجابی کے خلاف کھڑا کرکے کی گئی ۔ اس مقصد کے لئے سرائکی تحریک چلوائی گئی جو اب تک صرف شعرا اور ادئبوں تک محدود تھی ، عام ادمی سے کوئی تعلق نہیں تھا ،ڈیرہ کا عام ادمی خود کو جاٹکی اور ملتان کا ملتانی کہتا، پنجابی کا لہجہ مانتا لیکن جنرل ضیا کے دور میں پہلی بار ایک ادبی اور شاعرانہ اختلا ف کو قومیت میں بدل کرسیاسی طاقت دی گئی۔ بڑا ثبوت یہ کہ جنرل ضیا نے سرائیکی کو مردم شماری میں الگ زبان کا درجہ دیا جوہسٹری میں کھبی الگ زبان شمار نہیں ہوئی ،نہ سرکاری طور پرمانی گئی۔ برٹش یا مغل دور یا قیام پاکستان کے بعد یا خود بھٹو دور تک ان علاقوں کو سرکاری طور پر پنجابی زبان ہی تسلیم کیاجاتا رہا ، سرائیکی کو الگ زبان منوانے کے لئے کوئی ہڑتال ہوئی نہ ہنگامے نہ کسی بڑی سیاسی پارٹی نے ڈیمانڈ کی لیکن تاج محمد لنگاہ کے کہنے پر اسے مان لیا گیا جو خود کوئی الیکشن نہ جیت سکا، دراصل جنرل ضیا لسانی بنیاد پر قوم میں تفریق پیدا کرنے کے کامیاب تجربات سندھ میں کرچکا تھا۔ اب وہی فارمولا ہوشیاری سے پنجاب میں ازمارہا تھا کیونکہ کراچی میں ایم کیوایم کو ریاستی سرپرستی میں بڑی پارٹی بنادیاگیا تاکہ کراچی سے جماعت اسلامی اور نورانی میاں کا ووٹ بنک ختم کردیا جائے۔ اس لئے کہ کراچی سے ہمشہ ملک گیرسیاسی تحریک کااغاز ہوتا تھا جس میں لاہور، پنڈی اورملتان بعد میں شامل ہوجاتے جو ہر حکومت کے لئے خطرہ ہوتا ، کراچی میں ایم کیوایم کی کامیابی کے بعد کسی بھی ملک گیرسیاسی تحریک کا خطرہ ٹل گیا ، کراچی والا فارمولا سندھ اور جنوبی پنجاب میں بھی استعمال کیاگیا ، سندھی قوم پرستوں کوفل سپورٹ دی گئی ، جی ایم سید سے ملاقاتیں تو کھلے عام تھیں ہی لیکن باقی سندھی قوم پرست تنظیموں کے بارے میں بھی صحافتی حلقے خوب جانتے تھے کہ ان کے پیچھے اصل طاقت کون ہے کہ سندھو دیش کی باتیں ہورہی ہیں ، ریلیاں نکل رہی تھیں ، اسلحہ عام تھا اور ان لوگوں کوکوریج دلوائی جارہی تھی ، مقصد صرف یہ تھا کہ کراچی فارمولے کی طرح سندھ میں بھی نیشنلسٹ کامیاب ہوجائیں تو پی پی کی جڑیں کٹ جائیں لیکن بے نظیر بھٹو ہوشیار سیاستدان تھیں اس لئے سندھ کی سطح پر پی پی نے خود ہی سندھی نیشنلزم کا جھنڈا اٹھا کرسندھی نیشنلسٹوں کاایجنڈا ناکام کردیا۔
یہی فارمولا سرائکی تحریک کواٹھانےکےلئے استعمال کیاگیا۔ تخت لہور کے قیدی نامی نظم جنرل ضیا کے دور میں لکھی گئی، سیاسی حلقے الزام لگاتے تھے کہ سرائیکی تنظیموں اور رہنماؤں کو خفیہ فنڈز دئیے جاتھے تھے ، اخبارات اور ٹی وی میں سرائیکی کا غلغلہ تھا۔ پنجاب کو صرف لاہور تک محدود کیا جارہا تھا ، بڑا گیم ہورہا تھا ، پنجاب چونکہ ایک بڑا صوبہ ہے اور دورافتادہ علاقے بھی اس لئے کراچی کی طرح فوری ری ایکشن نہ پیدا کیا جاسکے کیونکہ زبان بہرحال ایک تھی اور کلاسیک بھی ایک اس لئے جنرل ضیا کا سرایئکی چورن کوئی بڑی تحریک بننے میں کامیاب نہ ہوسکا لیکن طاقت ور حلقے سرائیکی کو پنجابی سیاستدانوں کو ناکام بنانے کے لئے ایک کارڈ کے طور پر استمعال کرتی رہے جس کا عملی مظاہرہ پچھلے الیکشن میں ہوا کہ پراسرار طاقتوں نے اچانک جنوبی پنجاب صوبہ محاز بناکرعمران خان کا اتحادی بنادیا ۔
دوسرا ناکام تجربہ۔
کراچی میں جنرل ضیا ایم کیوایم سے پہلے فرقہ ورانہ تقسیم کا عملی تجربہ کرچکا تھا جس کے تحت کراچی میں خوفناک شیعہ سنی فسادات کروائے گئے ، شیعہ سنی رہنما کھلم ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے اوروہ اخبارات میں چھپتے ، جلسے ہوتے ریلیاں نکلتی ، قابل غور بات یہ کہ اگر کوئی سیاسی پارٹی جلسہ کرتی یا کوئی سیاسی رہنما ضیا مخالف بیان دیتا تو اول تو چھپتا نہ اور اگر چھپ جاتا تو فوری گرفتاری ،کراچی چونکہ فرقہ پرست پارٹیوں کا سیاسی مرکز نہ بن سکا تو ایم کیوایم کوسرپرستی دی گئ اور سرائکی تحریک کو بھی۔

وسطی پنجاب میں فرقہ واریت کی اگ خوب بھڑکائی گئی اور پنجاب کو بھی شعیہ سنی لائن پر تقسیم کرکے پی پی کو ختم کرنے کے لئے فرقہ پرست تنظیموں کو آگے کیاگیا تاکہ جنرل ضیا کے اقتدار کو چینلج کرنے والی کوئی طاقت پاکستان میں زندہ نہ رہے ۔
جنرل ضیا نے انصاری کمیشن تشکیل دیا کہ پاکستان کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم کردیا جائے ، اس سے عام آدمی تو یہی سمجھے گا کہ ارے وہ صوبائیت کے خلاف تھا ، نہیں ہرگز نہیں ، دراصل میڈیا کے ذریعے فیک اشوز اٹھائے جاتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے ، جنرل ضیا نے صوبوں پر بحث چھیڑ دی اور آج بھی اسی فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے ڈویژن کو صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل قومی اور معاشی مسائل سے ہٹائی جاسکے ۔
انصاری کمیشن کی خوفناک تجویز یہ تھی کہ پنجاب کا نام ہی ختم کردیا جائے ، یعنی لاہور اور وسط پنجاب کے نام کا رچنا صوبہ بنایا جائے ، باقی پوٹھوار اور سرائیکی صوبہ ، اسی طرح سندھ ، بلوچستان اور سرحد کو بھی تقسیم کرنا تھا ، پیرپگاڑا نے اس احمقانہ تجویز کی مخالفت کی کہ اس پر عمل درامد سے ہر ضلع میں صوبائیت پیدا ہوجائے گی اور پاکستان نسلی قومیتی وار میں چلا جائے گا جس کو سنبھالنے کے لئے دس لاکھ فوج بھی ناکافی ہوگی تو جنرل ضیا نے اس شاطرانہ چال کو روک لیا ۔
گرچہ پنجاب میں برادری ازم کا پرابلم پرانا ہےلیکن اس کو سرپرستی جنرل ضیا کے دور میں ملی ، غیر جماعتی بنادوں پر الیکشن کروائے گئے اور آزاد میدواروں کو ترغیب دی گئی کہ اپنی اپنی برادری کی بنیاد پر الیکشن لڑیں اس طرح غیر دانش مند لوگوں کو آرائیں ، جاٹ اور گجر برادری وغیرہ کے نام پر لڑوایا گیا۔
جنرل ضیا کے دورمیں پورے پنجاب کو منشیات کا گڑھ بنادیا گیا ، افغان جہاد کو فنانس کرنے کے لئے ہیروئیں فیکٹریاں فاٹا کے ایریا میں سرکاری سرپرستی میں چل رہی تھیں۔ پورا پنجاب ہیروئن کے شکنجے میں تھا ، پنجاب کو زہنی طورپراپاہج کیاجارہا تھا ۔
جنرل ضیا کے دور میں لاہور میں ایک اسکول بھی نہیں کھلا تو باقی علاقوں کا کیا حال ہوگا، کوئی انڈسٹری نہیں لگی ، ایوب خان دور کے پاور پروجیکٹ اور کچھ بھٹو دور کے اور بس ، کوئی نیا بجلی گھر نہیں لگایا، ڈیمانڈ بڑھ رہی تھی اور بجلی نہ ہونے سے ملک اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔
ٹی وی پر اپنے چمچوں کو بٹھادیا اور بعض دانش ور پوری قوم کو کوڈے شاہ کا چوہا بنانے پر لگادئیے گئے جو قوم کو ملا اور خانقاہ کادرس دے کر جدوجہد کا راستہ ترک کرنے کا درس دیتا، ساری قوم نشے میں ڈوب گئی۔ اس سلسلے میں اشفاق احمد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
کرکٹ کو پوری قوم کا نشہ بنادیاگیا، ٹی وی پر سارا سارا دن کرکٹ میچز ، لوگوں کو کتاب اور سیاست سے دور کردیا گیا ، لوگوں کو ذہنی عیاشی میں لگادیا ، کرکت جیسا بے کار کھیل قوم کی جڑوں میں بیٹھ گیا ورنہ پاکستان کا فیورٹ کھیل ہاکی ہوتا تھا ۔ اب قوم سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر وقت ضائع کرتی رہتی ،
جنرل ضیا نے مذہب کا بے دریغ سیاسی استعمال کیا ، ملاؤں کو طاقت دی ، اسلام کی من مانی تعبیر کی گئی اور اسلام کو صرف ظاہری عبادت تک محدود کرنے کی سازش کی گئی ، عمرے اور حج کے ذریعے فراڈئے اور شوباز اپنے محلوں میں شریف لوگوں کو دبانے لگے ، جھوٹ ، چوری ، فراڈ کرنے پر فخر اور ساتھ ہی عبادت کا چلن ، یہ جنرل ضیا کی وہ چال تھی کہ آج پاکستان اسلام پر ہے نہ ویسٹرن کلچر پر ، عجیب جاہلانہ ماحول ہے ۔
جنرل ضیا کے دور میں پہلی بار فراڈ سکیموں کا آغاز کیاگیا، جعلی فنانس سکیموں کے ذریعے لوگوں سے اربوں روپے لوٹے گئے ، اس دور میں صرف فوجی افسران خوشحال ہوئے ، بڑے بڑے صرف انھیں عہدے دئے گیے کہ وہ جنرل ضیا کے ذاتی وفادار رہیں حالانکہ وہ فوجی افسر تھے اور پاکستان کے ملازم نہ کہ ایک ارمی چیف کے ملازم ، انڈسٹری بند ہوئی اور پنجاب کے خلاف دوسرے صوبوں میں شدید نفرت پیدا ہوئی ، اور صرف ایک جاہل شخص جنرل ضیا کی وجہ سے