محمد اظہر حفیظ
ھمارے گاؤں میں میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا، جس سے چاچا حیدر اور پاءجی منشاء گھر گھر مشکیزہ سے پانی ڈالتے تھے۔ گاوں والے ان کو ماشکی یا پھر بہشتی کہتے تھے، گاؤں کے حالات بس مناسب ھی تھے زیادہ تر سفید پوش لوگ ھی رھائشی تھے انکی خواتین شام کو سب گھروں سے بدلے میں روٹیاں لے جاتی تھیں، پانی ڈالنے کے علاوہ یہ بکرے بکریاں پالتے تھے اور زندگی کا نظام چل رھا تھا، کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہ تھی۔ پھر بھائی عبدالقیوم نے گاؤں میں نلکوں کے پاس سرکاری امداد سے ٹینکی بنوادی اور گھر گھر پانی پہنچ گیا، پائپ ڈل گئے اور میٹھا پانی گھر گھر پہنچ گیا،
ورنہ پانی بہت نمکین تھا زیادہ لوگ کنوئے کا پانی پیتے تھے اور کچھ گھر کھا لے کا پانی پیتے تھے وہ کنوئے کے پانی کے مقابلے میں خوش ذائقہ تھا پر گدلا پانی ھوتا تھا گھڑا بھر کر رکھ دیں تو چند گھنٹوں میں مٹی بیٹھ جاتی تھی اور پانی پینے کے قابل ھوجاتا تھا، میرا کبھی کبھی دل کرتا تو ماما جی حاجی طفیل صاحب کے گھر سے جاکر پی لیتا تھا۔
پھر ھم راولپنڈی آگئے مریڑ چوک کے علاقے میں تو بہشتی والا نظام ھی چلتا تھا پر نیوکٹاریاں اور سیٹلائٹ ٹاون میں سرکاری نلکے گھروں میں پانی سپلائی دیتے تھے۔
1997 میں چینل سیون کیلئے ایک ڈوکومینٹری “پانی زندگی ھے” کرنے تلہ گنگ کے پاس ایک گاوں ڈھبہ جانا ھوا جہاں کے مقامی نوجوانوں کی تنظیم نے اپنی مدد آپ کے تحت کنوئیں سے موٹر اور پلاسٹک کے پائپوں کی مدد سے پانی گھر گھر پہنچادیا تھا، صبح اور شام کی شفٹوں میں آدھے آدھے گاوں کو پانی مہیا ھوتا تھا اور گاوں کی زندگی بدل چکی تھی گاوں کی ساری لڑکیاں اور عورتیں فارغ ھوچکی تھیں کیونکہ انکی سب سے بڑی مصروفیت پانی لانا ھی تھی۔ پانی وافر مقدار میں آنے سے اب گلیوں میں استعمال شدہ پانی کھڑا ھونا شروع ھوگیا، اس کیلئے نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پختہ نالیاں بنائیں، گلیاں پختہ کی، اور ساتھ والے گاوں پنجند میں لڑکیوں کے سکول میں بچیوں کے داخلے کروائے دو گاڑیاں خریدیں اور وہ بچیوں کو لیکر سکول جاتیں اور آتیں تھیں، گاوں بدل چکا تھا۔ کچھ نوجوانوں کی کوشش سے گاوں میں کمیونٹی سنٹر بنایا گیا جو بچوں اور بچیوں کیلئے فری ٹیوشن کی ایک جگہ بھی تھی۔
سنتے تھے کہ چولستان میں لوگ میلوں دور سے پانی لاتے ھیں اور ان کی عورتوں کی یہ ھی مصروفیت ھے، اور کچھ جگہوں پر تو جانور اور انسان ایک ھی جگہ پر پانی پیتے ھیں، 2012 میں روھی ٹی وی کے ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں چولستان جانا ھوا اور اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھے اور دل حیران و پریشان ھوگیا، کہ وھیں سے اونٹ، بھیڑیں پانی پی رھی ھیں اور عورتیں گھروں کیلئے پانی بھر رھی ھیں،
زندگی کے ساتھ ساتھ منظر بدلتے گئے اسلام آباد میں جگہ جگہ پانی کے فلٹر لگ گئے اور لوگوں کو ایک نئی مصروفیت مل گئی پانی لانا ھے، پہلے پانی ابال کر پیتے تھے یہ نسبتا آسان کام تھا،
اسلام آباد رہ کر باقی پاکستان کے مسائل کو سمجھنا بہت مشکل ھے اور اس مقصد کیلئے قومی اسمبلی بنائی گئی اور اس میں ھر علاقے کے منتخب نمائندوں کو لایا گیا تاکہ وہ اپنے اپنے علاقے کے مسائل کو اجاگر کریں۔
پر جن کو لایا گیا ان سفید کپڑوں میں ملبوس ایئرکنڈیشن گاڑیوں میں بیٹھنے والوں کو کیا اندازہ مسائل کیا ھوتے ھیں، شاید ھم نے ھمیشہ سے ھی غلط لوگ چنے اور تو اور کئی علاقوں میں ھم نے مقامی نمائندوں کی بجائے درآمد شدہ نمائندے چن لئے جو الیکشن کے بعد الیکشن میں ھی نظر آئے۔
پچھلے کچھ دن سے اسلام آباد میں لاک ڈاون کی وجہ سے سارے پانی مہیا کرنے کے پوائنٹ مکمل بند ھیں ۔
اور ان پر پولیس تعینات ھے کہ بے شک کوئی پیاسا مر جائے پر کرونا سے نہیں مرنا چاھیئے، کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس ٹوٹیوں والا ٹینکر نہیں ھے دوسرے ٹینکر سے پانی بہت ضائع ھوگا اس لئے جیسے ھی ٹینکر کا بندوبست ھوتا ھے پانی دے دیں گے ویسے ٹیوب ویل بھی کچھ دن میں ٹھیک ھوجائے گا ۔لاک ڈاون صرف پندرہ دن کا ھے۔ علاقے کے چیئرمین، ناظم، متعلقہ افسران، اور سیاسی قیادت سب کے علم میں اپنے طور پر لایا کہ پچاس جھگیاں ھیں پانی مہیا کردیں پر ابھی تک کچھ نہیں ھوا سوچا جاکر دیکھتا ھوں کیا مدد کی جاسکتی ھے۔
وھاں پہنچا تو دو طرح کے برتن اٹھائے بچے باھر نکلے کہ شاید پانی آگیا ھے، عمریں تین سے پانچ سال کچھ نے رنگ والی خالی بالٹیاں اٹھائی ھوئیں تھیں اور کچھ نے پانی لانےوالے کین،
زندگی عجیب خوشحال دکھائی دی جن بچوں کے پاس رنگ والی بالٹیاں تھیں وہ کپڑے پہنے ھوئے تھے اور پانی والے کین لیکر آنے والے سب بچے الف ننگے تھے۔ شاید انکے کپڑوں کی جگہ ماں باپ نے پانی کا کین خرید لیا تھا اسکی ضرورت زیادہ تھی۔
انکے حالات دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔اگر یہ بچے میری آنکھیں دیکھ لیتے تو شاید ویسے ھاتھ بنا لیتے جیسے دعا مانگنے یا پانی پینے کیلئے بنائے جاتے ھیں۔ چاچا اے آنسو مینوں دے دیئو شاید میری پیاس بجھ جائے۔
مجھے الیکشن کے بعد انیس جون دوھزار بیس کو جمعہ والے دن موٹروے پر سوار ھوتے میرے خوبصورت، سمارٹ، نوجوان، دراز قد، خوش لباس، سابقہ سی ای او اینگرو، ممبر قومی اسمبلی اسد عمر صاحب نظر آئے تھے انکے ساتھ دو پروٹوکول کی گاڑیاں تھیں وہ انکو موٹروے پر پہنچا کر واپس چلیں گئیں اور انکی کار اکیلے موٹروے پر سفر کر رھی تھی ایک دفعہ تو سوچا روک لوں اور پاوں پڑ جاوں سرکار سانوں معاف کردیو ووٹ دین دی غلطی ھوگئی،
ھور کجھ نہیں بس پانی دے دیئو۔
میری دارلحکومت کے حکام بالا سے درخواست ھے 49 ارب کے اسلام آباد کے نئے بجٹ20-21 میں ایک ٹوٹیوں والا ٹینکر اور چند ننگے بچوں کے کپڑے ضرور خریدئے گا۔ باقی جہاں مرضی خرچ کرلینا۔ شکریہ