Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
مہدی آذر یزد: ڈاکٹر تحسین فراقی
زمانہ قدیم میں بندروں کا ایک گروہ ہمدان شہر کے قریبی پہاڑوں میں رہتا تھا۔ ان کی تعداد بہت تھی اور ان کا سردار ایک بوڑھا اور تجربہ کار بندر تھا کہ نام اس کا ”روزبِہ“ تھا۔ روزبہ ہمیشہ بندروں کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرتا تھا اور جب بھی انھیں کوئی مشکل پیش آتی تھی، اسے عقل مندی اور تدبیر سے حل کرتا تھا۔ بندر اس کا از حد احترام کرتے تھے۔
ایک دن غروبِ شام کے وقت بندروں کا یہ سردار ایک بلند پہاڑ پر چل پھر رہا تھا اور وہاں سے شہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہے کہ شہر کے گلی کوچوں سے آگ کی لطیف اور باریک سی شاخیں فضا میں بلند ہوتی ہیں اور ان سے تڑاق پڑاق آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ روزبہ حیران ہوا اور کہنے لگا: آخر شہر میں کیا ہورہا ہے؟ پھر اس نے اپنے ایک ملازم کو کہ نام اس کا ”کار آگاہ“ تھا، آواز دی اور کہا: جلدی سے شہر جاؤ اور دیکھو کہ آگ کے یہ تیر سے کیا ہیں اور یہ شور کہاں سے آرہا ہے۔ شہر کی صورتِ حال کیا ہے۔ ہاں ذرا غور سے سن لو؛ ہر چیز کی خوب تحقیق کرکے آنا، اسے اچھی طرح سمجھ لینا تاکہ میں جو کُچھ بھی پوچھوں، اس کا جواب تم لے کر آؤ۔ اب جلدی سے جاؤ اور جلد لوٹو۔ میں تمھارے انتظار میں ہوں۔
یہ بھی پڑھیے:
خود دار اونٹ
ہاتھی کی تربیت
لومڑی کی پیش گوئی
سندباد کی کہانیاں
کارآگاہ فوراً شہر کی جانب روانہ ہوا۔ وہ تاریکی کی اوٹ لے کر قریب سے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ ہر چیز کی تحقیق کرکے اور اس سے آگاہ ہوکر واپس آیا اور روزبہ کو بتایا: شہر کی کوئی خاص خبر نہیں۔ کوئی جنگ نہیں ہورہی۔ ایک اچھی خبر ہے اور وہ یہ کہ کل عید کا دن ہے اور آج رات عید کی رات ہے۔ لوگ جشن منا رہے ہیں، خوش ہورہے ہیں اور بچے آتش بازی کررہے ہیں۔ جو آوازیں آپ نے سنیں وہ آتش بازی کے بارودی سامان کی ہیں۔ آگ کے باریک سے تیر دراصل ایک قسم کی ہوائی ہے۔ ہوائی ایک طرح کا پٹاخہ ہے جو ایک خوب آزمائے ہوئے بارود کو لپیٹ کر باریک نرسل کے سرے پر باندھ دیتے ہیں اور اس کے فتیلے کو آگ دکھاتے ہی وہ فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔ روزبہ نے پوچھا: کیا یہ بارودی سامان اور پٹاخے بچے تیار کرتے ہیں؟ کارآگاہ نے جواب دیا:نہیں، اسے بڑے تیار کرتے ہیں۔ روزبہ نے پوچھا: کیا اس بارود سے کوئی اور کام بھی لیا جاتا ہے؟ کارآگاہ نے کہا: کیوں نہیں، یہ صنعتوں اور جنگ میں کام آتا ہے۔ روزبہ نے پوچھا: کیا یہ آتش بازی بچوں کو مفت میں ملتی ہے؟ کارآگاہ نے کہا:نہیں، بچے پیسے دے کر اسے بڑوں سے خریدتے ہیں۔ روزبہ نے کہا: اچھا، اس شہر کی ایسی نشانیوں سے تو معلوم ہوا کہ وہاں کے بڑوں کی عقل بھی بچوں کی سی ہے کیونکہ کسی مفید کام کے بجائے یہ لوگ پٹاخے اور ہوائیاں تیار کرتے ہیں اور بچے انھیں آگ لگاتے ہیں اور دھوا.
ں بنا کر ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ کارآگاہ بولا:بظاہر تو ایسا ہی ہے۔
روزبہ نے پوچھا: اچھا یہ بتاؤ کہ اگر یہ آگ کسی کے گھر میں جا گرے اور وہاں آگ لگ جائے یا کسی کی آنکھ میں پڑ جائے اور اسے اندھا کر ڈالے یا کسی کے لباس پر گر کر اسے جلا ڈالے تو ایسی صورت میں یہ لوگ کیا کرتے ہیں اور اس نقصان کی ذمہ داری کس پر ڈالتے ہیں؟ کارآگاہ نے جواب دیا:کسی پر نہیں۔ اس کا گناہ بچوں پر ڈالتے ہیں اور کوئی بھی اس نقصان کی تلافی نہیں کرتا۔
روزبہ بولا: یہ کیسے نادان لوگ ہیں کہ ایک ایسی شے کو جسے صنعتوں میں استعمال میں لایا جاتا ہے، ایک بیہودہ کھیل میں صرف کرڈالتے ہیں اور بچوں کے جیب خرچ لے اڑتے ہیں اور بعد کو اگر اس آتش بازی سے کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو اسے بچوں کے سر مَنڈھ دیتے ہیں اور اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کوئی تلافی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بچوں کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں کہ بچے ہیں، ناتجربہ کارہیں مگر بڑے ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کیا کھیل کم پڑ گئے ہیں۔ شاید تفریح اور خوشی کی راہیں بند ہوگئی ہیں۔ کیا ورزشی کھیل نہیں رہے، شاید گھڑ سواری کا مشغلہ باقی نہیں بچا، شاید کتاب نہیں رہی، شاید ناٹک اور تھیٹر نہیں رہے، شاید کوئی پاکیزہ اور مفید تفریح نہیں رہی کہ یہ لوگ خوشی کے وقت آگ سے کھیلتے ہیں اور اپنے روپے پیسے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں۔
کارآگاہ بولا: واللہ میں کیا عرض کروں۔ یقینا ان کی عقل یہ باتیں سمجھنے سے قاصر ہے، واقعی یہ ناسمجھ ہیں۔
روزبہ بولا: ہاں ایسا ہی ہے لیکن کیا ان کے شہر کا کوئی حاکم نہیں جو انھیں اس احمقانہ کام سے روکے؟
کارآگاہ بولا:کیوں نہیں، یقینا ہے لیکن اسے ان کاموں سے کیا بلکہ خود حاکمِ شہر کی طرف سے شہر کے میدان میں آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہاں بھی کئی چیزوں کو دھواں کر ڈالتے ہیں، آگ لگاتے ہیں اور اس کو جشن اور خوشی کا نام دیتے ہیں۔
روز بہ بولا، اللہ اکبر! کہا یہ جاتا ہے کہ انسان بندروں سے زیادہ عقل رکھتے ہیں حال آنکہ ہم بندر کبھی فضول کام نہیں کرتے اور درندے بھی جب تک وہ بھوکے نہ ہوں، شکار نہیں کرتے۔ کتا بھی، جب تک اسے تکلیف نہ پہچائی جائے، کسی کی ٹانگ میں دانت نہیں گاڑتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بعض انسان اس قدر احمق ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی کام بھی عقل اور منطق کی رُو سے درست نہیں ہوتا۔
پھر روزبہ نے نقّارچی کو بلایا کہ سارے کوہستانی علاقے میں اعلان کردے تاکہ سارے سفید ریش، بزرگ اور عقل مند بندر اکٹھے ہو جائیں۔ جب سب آچکے، روزبہ ایک پتھر پر کھڑا ہوگیا اور بندروں سے مخاطب ہوا:بھائیو اور بہنو ! میں تمھارا سردار ہوں اور میں نے اپنے خدا سے عہد کر رکھا ہے کہ ہمیشہ وہ کام کروں گا جس میں تم سب کی بہتری ہے اور تمھارے فائدے کی بات کروں گا۔ میں نے آج ایک عجیب منظر دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارا انسانوں کے قریب رہنا اچھا نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے اچھے برے کی پہچان نہیں اور یہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ طے ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کو نقصان پہنچانے میں بھی تامّل نہیں کرتے۔ سو ان کا ہمسایہ ہونے میں نقصان کا امکان ہے۔ میں تم سب کا بھلا اس میں دیکھتا ہوں کہ ہم سب اس کوہستانی علاقے کو چھوڑ کر کسی دور دراز جگہ جابسیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس پہاڑ سے کُوچ کر جائیں تاکہ انسانوں کے قریب نہ رہیں۔ یہ لوگ نہ خود پر نہ اپنے مال پر نہ اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں اور عین ممکن ہے کسی دن خود تمھیں بھی نقصان پہنچائیں۔ سو جس قدر جلد ممکن ہے یہاں سے چل دیں۔ سب تیار ہو جائیں تاکہ جنگل میں کہیں دُور نکل جائیں اور ان انسانوں اور احمقوں سے دور رہ کر زندگی بسر کریں۔
اس تقریر کے بعد بندر گومگو کاشکار۱ ہوگئے۔ ہر ایک بولا اور آخر کار روزبہ کی تجویز کے جواب میں وہ کہنے لگے:ہمارے خیال میں اگر انسان شہر میں آتش بازی کرتے ہیں تو کیا کریں، ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ ہم ان پہاڑوں میں رہنے کے عادی ہوچکے ہیں اور کسی دوسری جگہ نہیں جائیں گے۔
روزبہ نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں نے اپنا فرض ادا کردیا اور سچی بات کہہ دی۔ اگر میری باتوں پر کان دھرو گے تو خود تمھارے فائدے میں ہے وگرنہ میں اور میرا خاندان یہاں سے جارہے ہیں۔ تم جانو تمھارا کام۔
روزبہ یہ کہتے ہوئے اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر اس پہاڑ سے ایک دوسرے پہاڑ پر جو شہر سے کافی فاصلے پر تھا، جابسا۔
بندر ایک دوسرے سے کہنے لگے: روزبہ بوڑھا، خبطی۱ اور ڈرپوک ہوگیا ہے۔ اسے جانے دیں، جہاں چاہے رہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنے لیے ایک نیا سردار چن لیا۔ وہ اُسی جگہ ایک مدت تک رہے حتّٰی کہ ایک دن ایک سانحہ رونما ہوگیا۔
ہوا یہ کہ عید ہی کی رات تھی اور شہر میں جشن بپا تھا۔ تفریح اور آتش بازی کا زور تھا اور پٹاخے اور ہوائیاں چھوٹ رہی تھیں۔ آتش بازی کا ایک گول پٹاخہ جو فضا میں پوری طرح جلا نہیں تھا، ایک چھت پر آگرا۔ چھت پر لکڑیاں سوکھنے کو رکھی ہوئی تھیں۔ لکڑیوں نے آگ پکڑ لی، چھت لکڑی کی تھی، جل گئی اور آگ سوکھی گھاس کے ڈھیر تک جا پہنچی۔ گھاس کا ڈھیر ہاتھیوں کے طویلے کی ملکیت تھا اور ہاتھی شہر کے حاکم کی ملکیت! فیلستان کے در و دیوار نے جو آگ پکڑی تو ہاتھیوں تک جاپہنچی۔ جب تک لوگ وہاں آگ بجھانے پہنچے، بہت سے ہاتھی جل کر راکھ ہوگئے تھے اور بہت سے زخمی اور مجروح۔
جب یہ خبر حاکمِ شہر تک پہنچی، وہ سخت رنجیدہ ہوا۔ اس نے فوراً فیل بانوں، چوپایوں کے ڈاکٹروں اور بیطاروں کو طلب کیا اور کہا کہ ہاتھیوں کے علاج کی فکر کریں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ جلے ہوئے ہاتھیوں کا علاج ممکن نہیں ہاں البتہ ان ہاتھیوں کا جو زخمی ہیں اور جن کے بدن کی کھال پر آبلے پڑ گئے ہیں، علاج ممکن ہے اور یہ علاج سوائے بندروں کی چربی کے کُچھ نہیں۔ ضروری ہے کہ بندروں کی چربی کافی مقدار میں حاصل کرکے زخمی ہاتھیوں کی جلی ہوئی کھالوں پر ملی جائے تاکہ ان کے زخم آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں۔
حاکمِ شہر نے فوجیوں کو بلایا اور حکم دیا کہ شہر کے نزدیک واقع پہاڑ پر جائیں اور جو کوئی بندر وہاں پائیں اسے تیر، پتھر، جال یا کمند کے ذریعے یا اور جس طرح سے ممکن ہو، پکڑ کر مار ڈالیں اور اس کی چربی حاصل کریں تاکہ ہاتھیوں کا علاج ہوسکے۔
اچانک شہر کے نزدیک کے پہاڑ پر حملے کا آغاز ہوا۔ ہر طرف سے بندر جال میں پھنستے اور شکار ہوتے گئے۔ بہت سے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر داد فریاد کرنے لگے:تم ہماری جان کے لاگو کیوں ہوگئے۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم ایک عرصے سے ان پہاڑوں میں رہ رہے ہیں۔ ہم نے کسی کا مال نہیں کھایا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔
شکاریوں نے جواب میں آتش بازی اور ہاتھیوں کے جلنے کا قصہ کہہ سنایا اور کہا: ممکن ہے تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہاتھی بہت قیمتی ہیں اور جنگل میں بندر فراواں۔
اُس وقت بندروں نے اپنے آپ سے کہا:ہاں ہاں بہت سے بندر جنگل میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہم گناہ گار ہیں کہ ہم نے اپنے سردار اور بزرگ کی نصیحت پر کان نہ دھرے اور نادان انسانوں کے ہمسایے میں رہنا پسند کیا__ ایسے انسان جو اپنی دولت کو خود آگ لگاتے ہیں اور ہوا میں پھینک ڈالتے ہیں۔ جب انھیں نقصان پہنچتا ہے تو اس کا تاوان بندروں سے وصول کرتے ہیں۔
٭٭٭
مہدی آذر یزد: ڈاکٹر تحسین فراقی
زمانہ قدیم میں بندروں کا ایک گروہ ہمدان شہر کے قریبی پہاڑوں میں رہتا تھا۔ ان کی تعداد بہت تھی اور ان کا سردار ایک بوڑھا اور تجربہ کار بندر تھا کہ نام اس کا ”روزبِہ“ تھا۔ روزبہ ہمیشہ بندروں کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرتا تھا اور جب بھی انھیں کوئی مشکل پیش آتی تھی، اسے عقل مندی اور تدبیر سے حل کرتا تھا۔ بندر اس کا از حد احترام کرتے تھے۔
ایک دن غروبِ شام کے وقت بندروں کا یہ سردار ایک بلند پہاڑ پر چل پھر رہا تھا اور وہاں سے شہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہے کہ شہر کے گلی کوچوں سے آگ کی لطیف اور باریک سی شاخیں فضا میں بلند ہوتی ہیں اور ان سے تڑاق پڑاق آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ روزبہ حیران ہوا اور کہنے لگا: آخر شہر میں کیا ہورہا ہے؟ پھر اس نے اپنے ایک ملازم کو کہ نام اس کا ”کار آگاہ“ تھا، آواز دی اور کہا: جلدی سے شہر جاؤ اور دیکھو کہ آگ کے یہ تیر سے کیا ہیں اور یہ شور کہاں سے آرہا ہے۔ شہر کی صورتِ حال کیا ہے۔ ہاں ذرا غور سے سن لو؛ ہر چیز کی خوب تحقیق کرکے آنا، اسے اچھی طرح سمجھ لینا تاکہ میں جو کُچھ بھی پوچھوں، اس کا جواب تم لے کر آؤ۔ اب جلدی سے جاؤ اور جلد لوٹو۔ میں تمھارے انتظار میں ہوں۔
یہ بھی پڑھیے:
خود دار اونٹ
ہاتھی کی تربیت
لومڑی کی پیش گوئی
سندباد کی کہانیاں
کارآگاہ فوراً شہر کی جانب روانہ ہوا۔ وہ تاریکی کی اوٹ لے کر قریب سے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ ہر چیز کی تحقیق کرکے اور اس سے آگاہ ہوکر واپس آیا اور روزبہ کو بتایا: شہر کی کوئی خاص خبر نہیں۔ کوئی جنگ نہیں ہورہی۔ ایک اچھی خبر ہے اور وہ یہ کہ کل عید کا دن ہے اور آج رات عید کی رات ہے۔ لوگ جشن منا رہے ہیں، خوش ہورہے ہیں اور بچے آتش بازی کررہے ہیں۔ جو آوازیں آپ نے سنیں وہ آتش بازی کے بارودی سامان کی ہیں۔ آگ کے باریک سے تیر دراصل ایک قسم کی ہوائی ہے۔ ہوائی ایک طرح کا پٹاخہ ہے جو ایک خوب آزمائے ہوئے بارود کو لپیٹ کر باریک نرسل کے سرے پر باندھ دیتے ہیں اور اس کے فتیلے کو آگ دکھاتے ہی وہ فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔ روزبہ نے پوچھا: کیا یہ بارودی سامان اور پٹاخے بچے تیار کرتے ہیں؟ کارآگاہ نے جواب دیا:نہیں، اسے بڑے تیار کرتے ہیں۔ روزبہ نے پوچھا: کیا اس بارود سے کوئی اور کام بھی لیا جاتا ہے؟ کارآگاہ نے کہا: کیوں نہیں، یہ صنعتوں اور جنگ میں کام آتا ہے۔ روزبہ نے پوچھا: کیا یہ آتش بازی بچوں کو مفت میں ملتی ہے؟ کارآگاہ نے کہا:نہیں، بچے پیسے دے کر اسے بڑوں سے خریدتے ہیں۔ روزبہ نے کہا: اچھا، اس شہر کی ایسی نشانیوں سے تو معلوم ہوا کہ وہاں کے بڑوں کی عقل بھی بچوں کی سی ہے کیونکہ کسی مفید کام کے بجائے یہ لوگ پٹاخے اور ہوائیاں تیار کرتے ہیں اور بچے انھیں آگ لگاتے ہیں اور دھوا.
ں بنا کر ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ کارآگاہ بولا:بظاہر تو ایسا ہی ہے۔
روزبہ نے پوچھا: اچھا یہ بتاؤ کہ اگر یہ آگ کسی کے گھر میں جا گرے اور وہاں آگ لگ جائے یا کسی کی آنکھ میں پڑ جائے اور اسے اندھا کر ڈالے یا کسی کے لباس پر گر کر اسے جلا ڈالے تو ایسی صورت میں یہ لوگ کیا کرتے ہیں اور اس نقصان کی ذمہ داری کس پر ڈالتے ہیں؟ کارآگاہ نے جواب دیا:کسی پر نہیں۔ اس کا گناہ بچوں پر ڈالتے ہیں اور کوئی بھی اس نقصان کی تلافی نہیں کرتا۔
روزبہ بولا: یہ کیسے نادان لوگ ہیں کہ ایک ایسی شے کو جسے صنعتوں میں استعمال میں لایا جاتا ہے، ایک بیہودہ کھیل میں صرف کرڈالتے ہیں اور بچوں کے جیب خرچ لے اڑتے ہیں اور بعد کو اگر اس آتش بازی سے کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو اسے بچوں کے سر مَنڈھ دیتے ہیں اور اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کوئی تلافی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بچوں کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں کہ بچے ہیں، ناتجربہ کارہیں مگر بڑے ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کیا کھیل کم پڑ گئے ہیں۔ شاید تفریح اور خوشی کی راہیں بند ہوگئی ہیں۔ کیا ورزشی کھیل نہیں رہے، شاید گھڑ سواری کا مشغلہ باقی نہیں بچا، شاید کتاب نہیں رہی، شاید ناٹک اور تھیٹر نہیں رہے، شاید کوئی پاکیزہ اور مفید تفریح نہیں رہی کہ یہ لوگ خوشی کے وقت آگ سے کھیلتے ہیں اور اپنے روپے پیسے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں۔
کارآگاہ بولا: واللہ میں کیا عرض کروں۔ یقینا ان کی عقل یہ باتیں سمجھنے سے قاصر ہے، واقعی یہ ناسمجھ ہیں۔
روزبہ بولا: ہاں ایسا ہی ہے لیکن کیا ان کے شہر کا کوئی حاکم نہیں جو انھیں اس احمقانہ کام سے روکے؟
کارآگاہ بولا:کیوں نہیں، یقینا ہے لیکن اسے ان کاموں سے کیا بلکہ خود حاکمِ شہر کی طرف سے شہر کے میدان میں آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہاں بھی کئی چیزوں کو دھواں کر ڈالتے ہیں، آگ لگاتے ہیں اور اس کو جشن اور خوشی کا نام دیتے ہیں۔
روز بہ بولا، اللہ اکبر! کہا یہ جاتا ہے کہ انسان بندروں سے زیادہ عقل رکھتے ہیں حال آنکہ ہم بندر کبھی فضول کام نہیں کرتے اور درندے بھی جب تک وہ بھوکے نہ ہوں، شکار نہیں کرتے۔ کتا بھی، جب تک اسے تکلیف نہ پہچائی جائے، کسی کی ٹانگ میں دانت نہیں گاڑتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بعض انسان اس قدر احمق ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی کام بھی عقل اور منطق کی رُو سے درست نہیں ہوتا۔
پھر روزبہ نے نقّارچی کو بلایا کہ سارے کوہستانی علاقے میں اعلان کردے تاکہ سارے سفید ریش، بزرگ اور عقل مند بندر اکٹھے ہو جائیں۔ جب سب آچکے، روزبہ ایک پتھر پر کھڑا ہوگیا اور بندروں سے مخاطب ہوا:بھائیو اور بہنو ! میں تمھارا سردار ہوں اور میں نے اپنے خدا سے عہد کر رکھا ہے کہ ہمیشہ وہ کام کروں گا جس میں تم سب کی بہتری ہے اور تمھارے فائدے کی بات کروں گا۔ میں نے آج ایک عجیب منظر دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارا انسانوں کے قریب رہنا اچھا نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے اچھے برے کی پہچان نہیں اور یہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ طے ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کو نقصان پہنچانے میں بھی تامّل نہیں کرتے۔ سو ان کا ہمسایہ ہونے میں نقصان کا امکان ہے۔ میں تم سب کا بھلا اس میں دیکھتا ہوں کہ ہم سب اس کوہستانی علاقے کو چھوڑ کر کسی دور دراز جگہ جابسیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس پہاڑ سے کُوچ کر جائیں تاکہ انسانوں کے قریب نہ رہیں۔ یہ لوگ نہ خود پر نہ اپنے مال پر نہ اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں اور عین ممکن ہے کسی دن خود تمھیں بھی نقصان پہنچائیں۔ سو جس قدر جلد ممکن ہے یہاں سے چل دیں۔ سب تیار ہو جائیں تاکہ جنگل میں کہیں دُور نکل جائیں اور ان انسانوں اور احمقوں سے دور رہ کر زندگی بسر کریں۔
اس تقریر کے بعد بندر گومگو کاشکار۱ ہوگئے۔ ہر ایک بولا اور آخر کار روزبہ کی تجویز کے جواب میں وہ کہنے لگے:ہمارے خیال میں اگر انسان شہر میں آتش بازی کرتے ہیں تو کیا کریں، ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ ہم ان پہاڑوں میں رہنے کے عادی ہوچکے ہیں اور کسی دوسری جگہ نہیں جائیں گے۔
روزبہ نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں نے اپنا فرض ادا کردیا اور سچی بات کہہ دی۔ اگر میری باتوں پر کان دھرو گے تو خود تمھارے فائدے میں ہے وگرنہ میں اور میرا خاندان یہاں سے جارہے ہیں۔ تم جانو تمھارا کام۔
روزبہ یہ کہتے ہوئے اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر اس پہاڑ سے ایک دوسرے پہاڑ پر جو شہر سے کافی فاصلے پر تھا، جابسا۔
بندر ایک دوسرے سے کہنے لگے: روزبہ بوڑھا، خبطی۱ اور ڈرپوک ہوگیا ہے۔ اسے جانے دیں، جہاں چاہے رہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنے لیے ایک نیا سردار چن لیا۔ وہ اُسی جگہ ایک مدت تک رہے حتّٰی کہ ایک دن ایک سانحہ رونما ہوگیا۔
ہوا یہ کہ عید ہی کی رات تھی اور شہر میں جشن بپا تھا۔ تفریح اور آتش بازی کا زور تھا اور پٹاخے اور ہوائیاں چھوٹ رہی تھیں۔ آتش بازی کا ایک گول پٹاخہ جو فضا میں پوری طرح جلا نہیں تھا، ایک چھت پر آگرا۔ چھت پر لکڑیاں سوکھنے کو رکھی ہوئی تھیں۔ لکڑیوں نے آگ پکڑ لی، چھت لکڑی کی تھی، جل گئی اور آگ سوکھی گھاس کے ڈھیر تک جا پہنچی۔ گھاس کا ڈھیر ہاتھیوں کے طویلے کی ملکیت تھا اور ہاتھی شہر کے حاکم کی ملکیت! فیلستان کے در و دیوار نے جو آگ پکڑی تو ہاتھیوں تک جاپہنچی۔ جب تک لوگ وہاں آگ بجھانے پہنچے، بہت سے ہاتھی جل کر راکھ ہوگئے تھے اور بہت سے زخمی اور مجروح۔
جب یہ خبر حاکمِ شہر تک پہنچی، وہ سخت رنجیدہ ہوا۔ اس نے فوراً فیل بانوں، چوپایوں کے ڈاکٹروں اور بیطاروں کو طلب کیا اور کہا کہ ہاتھیوں کے علاج کی فکر کریں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ جلے ہوئے ہاتھیوں کا علاج ممکن نہیں ہاں البتہ ان ہاتھیوں کا جو زخمی ہیں اور جن کے بدن کی کھال پر آبلے پڑ گئے ہیں، علاج ممکن ہے اور یہ علاج سوائے بندروں کی چربی کے کُچھ نہیں۔ ضروری ہے کہ بندروں کی چربی کافی مقدار میں حاصل کرکے زخمی ہاتھیوں کی جلی ہوئی کھالوں پر ملی جائے تاکہ ان کے زخم آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں۔
حاکمِ شہر نے فوجیوں کو بلایا اور حکم دیا کہ شہر کے نزدیک واقع پہاڑ پر جائیں اور جو کوئی بندر وہاں پائیں اسے تیر، پتھر، جال یا کمند کے ذریعے یا اور جس طرح سے ممکن ہو، پکڑ کر مار ڈالیں اور اس کی چربی حاصل کریں تاکہ ہاتھیوں کا علاج ہوسکے۔
اچانک شہر کے نزدیک کے پہاڑ پر حملے کا آغاز ہوا۔ ہر طرف سے بندر جال میں پھنستے اور شکار ہوتے گئے۔ بہت سے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر داد فریاد کرنے لگے:تم ہماری جان کے لاگو کیوں ہوگئے۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم ایک عرصے سے ان پہاڑوں میں رہ رہے ہیں۔ ہم نے کسی کا مال نہیں کھایا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔
شکاریوں نے جواب میں آتش بازی اور ہاتھیوں کے جلنے کا قصہ کہہ سنایا اور کہا: ممکن ہے تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہاتھی بہت قیمتی ہیں اور جنگل میں بندر فراواں۔
اُس وقت بندروں نے اپنے آپ سے کہا:ہاں ہاں بہت سے بندر جنگل میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہم گناہ گار ہیں کہ ہم نے اپنے سردار اور بزرگ کی نصیحت پر کان نہ دھرے اور نادان انسانوں کے ہمسایے میں رہنا پسند کیا__ ایسے انسان جو اپنی دولت کو خود آگ لگاتے ہیں اور ہوا میں پھینک ڈالتے ہیں۔ جب انھیں نقصان پہنچتا ہے تو اس کا تاوان بندروں سے وصول کرتے ہیں۔
٭٭٭
مہدی آذر یزد: ڈاکٹر تحسین فراقی
زمانہ قدیم میں بندروں کا ایک گروہ ہمدان شہر کے قریبی پہاڑوں میں رہتا تھا۔ ان کی تعداد بہت تھی اور ان کا سردار ایک بوڑھا اور تجربہ کار بندر تھا کہ نام اس کا ”روزبِہ“ تھا۔ روزبہ ہمیشہ بندروں کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرتا تھا اور جب بھی انھیں کوئی مشکل پیش آتی تھی، اسے عقل مندی اور تدبیر سے حل کرتا تھا۔ بندر اس کا از حد احترام کرتے تھے۔
ایک دن غروبِ شام کے وقت بندروں کا یہ سردار ایک بلند پہاڑ پر چل پھر رہا تھا اور وہاں سے شہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہے کہ شہر کے گلی کوچوں سے آگ کی لطیف اور باریک سی شاخیں فضا میں بلند ہوتی ہیں اور ان سے تڑاق پڑاق آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ روزبہ حیران ہوا اور کہنے لگا: آخر شہر میں کیا ہورہا ہے؟ پھر اس نے اپنے ایک ملازم کو کہ نام اس کا ”کار آگاہ“ تھا، آواز دی اور کہا: جلدی سے شہر جاؤ اور دیکھو کہ آگ کے یہ تیر سے کیا ہیں اور یہ شور کہاں سے آرہا ہے۔ شہر کی صورتِ حال کیا ہے۔ ہاں ذرا غور سے سن لو؛ ہر چیز کی خوب تحقیق کرکے آنا، اسے اچھی طرح سمجھ لینا تاکہ میں جو کُچھ بھی پوچھوں، اس کا جواب تم لے کر آؤ۔ اب جلدی سے جاؤ اور جلد لوٹو۔ میں تمھارے انتظار میں ہوں۔
یہ بھی پڑھیے:
خود دار اونٹ
ہاتھی کی تربیت
لومڑی کی پیش گوئی
سندباد کی کہانیاں
کارآگاہ فوراً شہر کی جانب روانہ ہوا۔ وہ تاریکی کی اوٹ لے کر قریب سے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ ہر چیز کی تحقیق کرکے اور اس سے آگاہ ہوکر واپس آیا اور روزبہ کو بتایا: شہر کی کوئی خاص خبر نہیں۔ کوئی جنگ نہیں ہورہی۔ ایک اچھی خبر ہے اور وہ یہ کہ کل عید کا دن ہے اور آج رات عید کی رات ہے۔ لوگ جشن منا رہے ہیں، خوش ہورہے ہیں اور بچے آتش بازی کررہے ہیں۔ جو آوازیں آپ نے سنیں وہ آتش بازی کے بارودی سامان کی ہیں۔ آگ کے باریک سے تیر دراصل ایک قسم کی ہوائی ہے۔ ہوائی ایک طرح کا پٹاخہ ہے جو ایک خوب آزمائے ہوئے بارود کو لپیٹ کر باریک نرسل کے سرے پر باندھ دیتے ہیں اور اس کے فتیلے کو آگ دکھاتے ہی وہ فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔ روزبہ نے پوچھا: کیا یہ بارودی سامان اور پٹاخے بچے تیار کرتے ہیں؟ کارآگاہ نے جواب دیا:نہیں، اسے بڑے تیار کرتے ہیں۔ روزبہ نے پوچھا: کیا اس بارود سے کوئی اور کام بھی لیا جاتا ہے؟ کارآگاہ نے کہا: کیوں نہیں، یہ صنعتوں اور جنگ میں کام آتا ہے۔ روزبہ نے پوچھا: کیا یہ آتش بازی بچوں کو مفت میں ملتی ہے؟ کارآگاہ نے کہا:نہیں، بچے پیسے دے کر اسے بڑوں سے خریدتے ہیں۔ روزبہ نے کہا: اچھا، اس شہر کی ایسی نشانیوں سے تو معلوم ہوا کہ وہاں کے بڑوں کی عقل بھی بچوں کی سی ہے کیونکہ کسی مفید کام کے بجائے یہ لوگ پٹاخے اور ہوائیاں تیار کرتے ہیں اور بچے انھیں آگ لگاتے ہیں اور دھوا.
ں بنا کر ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ کارآگاہ بولا:بظاہر تو ایسا ہی ہے۔
روزبہ نے پوچھا: اچھا یہ بتاؤ کہ اگر یہ آگ کسی کے گھر میں جا گرے اور وہاں آگ لگ جائے یا کسی کی آنکھ میں پڑ جائے اور اسے اندھا کر ڈالے یا کسی کے لباس پر گر کر اسے جلا ڈالے تو ایسی صورت میں یہ لوگ کیا کرتے ہیں اور اس نقصان کی ذمہ داری کس پر ڈالتے ہیں؟ کارآگاہ نے جواب دیا:کسی پر نہیں۔ اس کا گناہ بچوں پر ڈالتے ہیں اور کوئی بھی اس نقصان کی تلافی نہیں کرتا۔
روزبہ بولا: یہ کیسے نادان لوگ ہیں کہ ایک ایسی شے کو جسے صنعتوں میں استعمال میں لایا جاتا ہے، ایک بیہودہ کھیل میں صرف کرڈالتے ہیں اور بچوں کے جیب خرچ لے اڑتے ہیں اور بعد کو اگر اس آتش بازی سے کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو اسے بچوں کے سر مَنڈھ دیتے ہیں اور اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کوئی تلافی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بچوں کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں کہ بچے ہیں، ناتجربہ کارہیں مگر بڑے ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کیا کھیل کم پڑ گئے ہیں۔ شاید تفریح اور خوشی کی راہیں بند ہوگئی ہیں۔ کیا ورزشی کھیل نہیں رہے، شاید گھڑ سواری کا مشغلہ باقی نہیں بچا، شاید کتاب نہیں رہی، شاید ناٹک اور تھیٹر نہیں رہے، شاید کوئی پاکیزہ اور مفید تفریح نہیں رہی کہ یہ لوگ خوشی کے وقت آگ سے کھیلتے ہیں اور اپنے روپے پیسے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں۔
کارآگاہ بولا: واللہ میں کیا عرض کروں۔ یقینا ان کی عقل یہ باتیں سمجھنے سے قاصر ہے، واقعی یہ ناسمجھ ہیں۔
روزبہ بولا: ہاں ایسا ہی ہے لیکن کیا ان کے شہر کا کوئی حاکم نہیں جو انھیں اس احمقانہ کام سے روکے؟
کارآگاہ بولا:کیوں نہیں، یقینا ہے لیکن اسے ان کاموں سے کیا بلکہ خود حاکمِ شہر کی طرف سے شہر کے میدان میں آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہاں بھی کئی چیزوں کو دھواں کر ڈالتے ہیں، آگ لگاتے ہیں اور اس کو جشن اور خوشی کا نام دیتے ہیں۔
روز بہ بولا، اللہ اکبر! کہا یہ جاتا ہے کہ انسان بندروں سے زیادہ عقل رکھتے ہیں حال آنکہ ہم بندر کبھی فضول کام نہیں کرتے اور درندے بھی جب تک وہ بھوکے نہ ہوں، شکار نہیں کرتے۔ کتا بھی، جب تک اسے تکلیف نہ پہچائی جائے، کسی کی ٹانگ میں دانت نہیں گاڑتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بعض انسان اس قدر احمق ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی کام بھی عقل اور منطق کی رُو سے درست نہیں ہوتا۔
پھر روزبہ نے نقّارچی کو بلایا کہ سارے کوہستانی علاقے میں اعلان کردے تاکہ سارے سفید ریش، بزرگ اور عقل مند بندر اکٹھے ہو جائیں۔ جب سب آچکے، روزبہ ایک پتھر پر کھڑا ہوگیا اور بندروں سے مخاطب ہوا:بھائیو اور بہنو ! میں تمھارا سردار ہوں اور میں نے اپنے خدا سے عہد کر رکھا ہے کہ ہمیشہ وہ کام کروں گا جس میں تم سب کی بہتری ہے اور تمھارے فائدے کی بات کروں گا۔ میں نے آج ایک عجیب منظر دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارا انسانوں کے قریب رہنا اچھا نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے اچھے برے کی پہچان نہیں اور یہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ طے ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کو نقصان پہنچانے میں بھی تامّل نہیں کرتے۔ سو ان کا ہمسایہ ہونے میں نقصان کا امکان ہے۔ میں تم سب کا بھلا اس میں دیکھتا ہوں کہ ہم سب اس کوہستانی علاقے کو چھوڑ کر کسی دور دراز جگہ جابسیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس پہاڑ سے کُوچ کر جائیں تاکہ انسانوں کے قریب نہ رہیں۔ یہ لوگ نہ خود پر نہ اپنے مال پر نہ اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں اور عین ممکن ہے کسی دن خود تمھیں بھی نقصان پہنچائیں۔ سو جس قدر جلد ممکن ہے یہاں سے چل دیں۔ سب تیار ہو جائیں تاکہ جنگل میں کہیں دُور نکل جائیں اور ان انسانوں اور احمقوں سے دور رہ کر زندگی بسر کریں۔
اس تقریر کے بعد بندر گومگو کاشکار۱ ہوگئے۔ ہر ایک بولا اور آخر کار روزبہ کی تجویز کے جواب میں وہ کہنے لگے:ہمارے خیال میں اگر انسان شہر میں آتش بازی کرتے ہیں تو کیا کریں، ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ ہم ان پہاڑوں میں رہنے کے عادی ہوچکے ہیں اور کسی دوسری جگہ نہیں جائیں گے۔
روزبہ نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں نے اپنا فرض ادا کردیا اور سچی بات کہہ دی۔ اگر میری باتوں پر کان دھرو گے تو خود تمھارے فائدے میں ہے وگرنہ میں اور میرا خاندان یہاں سے جارہے ہیں۔ تم جانو تمھارا کام۔
روزبہ یہ کہتے ہوئے اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر اس پہاڑ سے ایک دوسرے پہاڑ پر جو شہر سے کافی فاصلے پر تھا، جابسا۔
بندر ایک دوسرے سے کہنے لگے: روزبہ بوڑھا، خبطی۱ اور ڈرپوک ہوگیا ہے۔ اسے جانے دیں، جہاں چاہے رہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنے لیے ایک نیا سردار چن لیا۔ وہ اُسی جگہ ایک مدت تک رہے حتّٰی کہ ایک دن ایک سانحہ رونما ہوگیا۔
ہوا یہ کہ عید ہی کی رات تھی اور شہر میں جشن بپا تھا۔ تفریح اور آتش بازی کا زور تھا اور پٹاخے اور ہوائیاں چھوٹ رہی تھیں۔ آتش بازی کا ایک گول پٹاخہ جو فضا میں پوری طرح جلا نہیں تھا، ایک چھت پر آگرا۔ چھت پر لکڑیاں سوکھنے کو رکھی ہوئی تھیں۔ لکڑیوں نے آگ پکڑ لی، چھت لکڑی کی تھی، جل گئی اور آگ سوکھی گھاس کے ڈھیر تک جا پہنچی۔ گھاس کا ڈھیر ہاتھیوں کے طویلے کی ملکیت تھا اور ہاتھی شہر کے حاکم کی ملکیت! فیلستان کے در و دیوار نے جو آگ پکڑی تو ہاتھیوں تک جاپہنچی۔ جب تک لوگ وہاں آگ بجھانے پہنچے، بہت سے ہاتھی جل کر راکھ ہوگئے تھے اور بہت سے زخمی اور مجروح۔
جب یہ خبر حاکمِ شہر تک پہنچی، وہ سخت رنجیدہ ہوا۔ اس نے فوراً فیل بانوں، چوپایوں کے ڈاکٹروں اور بیطاروں کو طلب کیا اور کہا کہ ہاتھیوں کے علاج کی فکر کریں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ جلے ہوئے ہاتھیوں کا علاج ممکن نہیں ہاں البتہ ان ہاتھیوں کا جو زخمی ہیں اور جن کے بدن کی کھال پر آبلے پڑ گئے ہیں، علاج ممکن ہے اور یہ علاج سوائے بندروں کی چربی کے کُچھ نہیں۔ ضروری ہے کہ بندروں کی چربی کافی مقدار میں حاصل کرکے زخمی ہاتھیوں کی جلی ہوئی کھالوں پر ملی جائے تاکہ ان کے زخم آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں۔
حاکمِ شہر نے فوجیوں کو بلایا اور حکم دیا کہ شہر کے نزدیک واقع پہاڑ پر جائیں اور جو کوئی بندر وہاں پائیں اسے تیر، پتھر، جال یا کمند کے ذریعے یا اور جس طرح سے ممکن ہو، پکڑ کر مار ڈالیں اور اس کی چربی حاصل کریں تاکہ ہاتھیوں کا علاج ہوسکے۔
اچانک شہر کے نزدیک کے پہاڑ پر حملے کا آغاز ہوا۔ ہر طرف سے بندر جال میں پھنستے اور شکار ہوتے گئے۔ بہت سے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر داد فریاد کرنے لگے:تم ہماری جان کے لاگو کیوں ہوگئے۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم ایک عرصے سے ان پہاڑوں میں رہ رہے ہیں۔ ہم نے کسی کا مال نہیں کھایا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔
شکاریوں نے جواب میں آتش بازی اور ہاتھیوں کے جلنے کا قصہ کہہ سنایا اور کہا: ممکن ہے تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہاتھی بہت قیمتی ہیں اور جنگل میں بندر فراواں۔
اُس وقت بندروں نے اپنے آپ سے کہا:ہاں ہاں بہت سے بندر جنگل میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہم گناہ گار ہیں کہ ہم نے اپنے سردار اور بزرگ کی نصیحت پر کان نہ دھرے اور نادان انسانوں کے ہمسایے میں رہنا پسند کیا__ ایسے انسان جو اپنی دولت کو خود آگ لگاتے ہیں اور ہوا میں پھینک ڈالتے ہیں۔ جب انھیں نقصان پہنچتا ہے تو اس کا تاوان بندروں سے وصول کرتے ہیں۔
٭٭٭
مہدی آذر یزد: ڈاکٹر تحسین فراقی
زمانہ قدیم میں بندروں کا ایک گروہ ہمدان شہر کے قریبی پہاڑوں میں رہتا تھا۔ ان کی تعداد بہت تھی اور ان کا سردار ایک بوڑھا اور تجربہ کار بندر تھا کہ نام اس کا ”روزبِہ“ تھا۔ روزبہ ہمیشہ بندروں کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرتا تھا اور جب بھی انھیں کوئی مشکل پیش آتی تھی، اسے عقل مندی اور تدبیر سے حل کرتا تھا۔ بندر اس کا از حد احترام کرتے تھے۔
ایک دن غروبِ شام کے وقت بندروں کا یہ سردار ایک بلند پہاڑ پر چل پھر رہا تھا اور وہاں سے شہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہے کہ شہر کے گلی کوچوں سے آگ کی لطیف اور باریک سی شاخیں فضا میں بلند ہوتی ہیں اور ان سے تڑاق پڑاق آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ روزبہ حیران ہوا اور کہنے لگا: آخر شہر میں کیا ہورہا ہے؟ پھر اس نے اپنے ایک ملازم کو کہ نام اس کا ”کار آگاہ“ تھا، آواز دی اور کہا: جلدی سے شہر جاؤ اور دیکھو کہ آگ کے یہ تیر سے کیا ہیں اور یہ شور کہاں سے آرہا ہے۔ شہر کی صورتِ حال کیا ہے۔ ہاں ذرا غور سے سن لو؛ ہر چیز کی خوب تحقیق کرکے آنا، اسے اچھی طرح سمجھ لینا تاکہ میں جو کُچھ بھی پوچھوں، اس کا جواب تم لے کر آؤ۔ اب جلدی سے جاؤ اور جلد لوٹو۔ میں تمھارے انتظار میں ہوں۔
یہ بھی پڑھیے:
خود دار اونٹ
ہاتھی کی تربیت
لومڑی کی پیش گوئی
سندباد کی کہانیاں
کارآگاہ فوراً شہر کی جانب روانہ ہوا۔ وہ تاریکی کی اوٹ لے کر قریب سے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ ہر چیز کی تحقیق کرکے اور اس سے آگاہ ہوکر واپس آیا اور روزبہ کو بتایا: شہر کی کوئی خاص خبر نہیں۔ کوئی جنگ نہیں ہورہی۔ ایک اچھی خبر ہے اور وہ یہ کہ کل عید کا دن ہے اور آج رات عید کی رات ہے۔ لوگ جشن منا رہے ہیں، خوش ہورہے ہیں اور بچے آتش بازی کررہے ہیں۔ جو آوازیں آپ نے سنیں وہ آتش بازی کے بارودی سامان کی ہیں۔ آگ کے باریک سے تیر دراصل ایک قسم کی ہوائی ہے۔ ہوائی ایک طرح کا پٹاخہ ہے جو ایک خوب آزمائے ہوئے بارود کو لپیٹ کر باریک نرسل کے سرے پر باندھ دیتے ہیں اور اس کے فتیلے کو آگ دکھاتے ہی وہ فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔ روزبہ نے پوچھا: کیا یہ بارودی سامان اور پٹاخے بچے تیار کرتے ہیں؟ کارآگاہ نے جواب دیا:نہیں، اسے بڑے تیار کرتے ہیں۔ روزبہ نے پوچھا: کیا اس بارود سے کوئی اور کام بھی لیا جاتا ہے؟ کارآگاہ نے کہا: کیوں نہیں، یہ صنعتوں اور جنگ میں کام آتا ہے۔ روزبہ نے پوچھا: کیا یہ آتش بازی بچوں کو مفت میں ملتی ہے؟ کارآگاہ نے کہا:نہیں، بچے پیسے دے کر اسے بڑوں سے خریدتے ہیں۔ روزبہ نے کہا: اچھا، اس شہر کی ایسی نشانیوں سے تو معلوم ہوا کہ وہاں کے بڑوں کی عقل بھی بچوں کی سی ہے کیونکہ کسی مفید کام کے بجائے یہ لوگ پٹاخے اور ہوائیاں تیار کرتے ہیں اور بچے انھیں آگ لگاتے ہیں اور دھوا.
ں بنا کر ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ کارآگاہ بولا:بظاہر تو ایسا ہی ہے۔
روزبہ نے پوچھا: اچھا یہ بتاؤ کہ اگر یہ آگ کسی کے گھر میں جا گرے اور وہاں آگ لگ جائے یا کسی کی آنکھ میں پڑ جائے اور اسے اندھا کر ڈالے یا کسی کے لباس پر گر کر اسے جلا ڈالے تو ایسی صورت میں یہ لوگ کیا کرتے ہیں اور اس نقصان کی ذمہ داری کس پر ڈالتے ہیں؟ کارآگاہ نے جواب دیا:کسی پر نہیں۔ اس کا گناہ بچوں پر ڈالتے ہیں اور کوئی بھی اس نقصان کی تلافی نہیں کرتا۔
روزبہ بولا: یہ کیسے نادان لوگ ہیں کہ ایک ایسی شے کو جسے صنعتوں میں استعمال میں لایا جاتا ہے، ایک بیہودہ کھیل میں صرف کرڈالتے ہیں اور بچوں کے جیب خرچ لے اڑتے ہیں اور بعد کو اگر اس آتش بازی سے کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو اسے بچوں کے سر مَنڈھ دیتے ہیں اور اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کوئی تلافی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بچوں کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں کہ بچے ہیں، ناتجربہ کارہیں مگر بڑے ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کیا کھیل کم پڑ گئے ہیں۔ شاید تفریح اور خوشی کی راہیں بند ہوگئی ہیں۔ کیا ورزشی کھیل نہیں رہے، شاید گھڑ سواری کا مشغلہ باقی نہیں بچا، شاید کتاب نہیں رہی، شاید ناٹک اور تھیٹر نہیں رہے، شاید کوئی پاکیزہ اور مفید تفریح نہیں رہی کہ یہ لوگ خوشی کے وقت آگ سے کھیلتے ہیں اور اپنے روپے پیسے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں۔
کارآگاہ بولا: واللہ میں کیا عرض کروں۔ یقینا ان کی عقل یہ باتیں سمجھنے سے قاصر ہے، واقعی یہ ناسمجھ ہیں۔
روزبہ بولا: ہاں ایسا ہی ہے لیکن کیا ان کے شہر کا کوئی حاکم نہیں جو انھیں اس احمقانہ کام سے روکے؟
کارآگاہ بولا:کیوں نہیں، یقینا ہے لیکن اسے ان کاموں سے کیا بلکہ خود حاکمِ شہر کی طرف سے شہر کے میدان میں آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہاں بھی کئی چیزوں کو دھواں کر ڈالتے ہیں، آگ لگاتے ہیں اور اس کو جشن اور خوشی کا نام دیتے ہیں۔
روز بہ بولا، اللہ اکبر! کہا یہ جاتا ہے کہ انسان بندروں سے زیادہ عقل رکھتے ہیں حال آنکہ ہم بندر کبھی فضول کام نہیں کرتے اور درندے بھی جب تک وہ بھوکے نہ ہوں، شکار نہیں کرتے۔ کتا بھی، جب تک اسے تکلیف نہ پہچائی جائے، کسی کی ٹانگ میں دانت نہیں گاڑتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بعض انسان اس قدر احمق ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی کام بھی عقل اور منطق کی رُو سے درست نہیں ہوتا۔
پھر روزبہ نے نقّارچی کو بلایا کہ سارے کوہستانی علاقے میں اعلان کردے تاکہ سارے سفید ریش، بزرگ اور عقل مند بندر اکٹھے ہو جائیں۔ جب سب آچکے، روزبہ ایک پتھر پر کھڑا ہوگیا اور بندروں سے مخاطب ہوا:بھائیو اور بہنو ! میں تمھارا سردار ہوں اور میں نے اپنے خدا سے عہد کر رکھا ہے کہ ہمیشہ وہ کام کروں گا جس میں تم سب کی بہتری ہے اور تمھارے فائدے کی بات کروں گا۔ میں نے آج ایک عجیب منظر دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارا انسانوں کے قریب رہنا اچھا نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے اچھے برے کی پہچان نہیں اور یہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ طے ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کو نقصان پہنچانے میں بھی تامّل نہیں کرتے۔ سو ان کا ہمسایہ ہونے میں نقصان کا امکان ہے۔ میں تم سب کا بھلا اس میں دیکھتا ہوں کہ ہم سب اس کوہستانی علاقے کو چھوڑ کر کسی دور دراز جگہ جابسیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس پہاڑ سے کُوچ کر جائیں تاکہ انسانوں کے قریب نہ رہیں۔ یہ لوگ نہ خود پر نہ اپنے مال پر نہ اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں اور عین ممکن ہے کسی دن خود تمھیں بھی نقصان پہنچائیں۔ سو جس قدر جلد ممکن ہے یہاں سے چل دیں۔ سب تیار ہو جائیں تاکہ جنگل میں کہیں دُور نکل جائیں اور ان انسانوں اور احمقوں سے دور رہ کر زندگی بسر کریں۔
اس تقریر کے بعد بندر گومگو کاشکار۱ ہوگئے۔ ہر ایک بولا اور آخر کار روزبہ کی تجویز کے جواب میں وہ کہنے لگے:ہمارے خیال میں اگر انسان شہر میں آتش بازی کرتے ہیں تو کیا کریں، ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ ہم ان پہاڑوں میں رہنے کے عادی ہوچکے ہیں اور کسی دوسری جگہ نہیں جائیں گے۔
روزبہ نے کہا: ٹھیک ہے۔ میں نے اپنا فرض ادا کردیا اور سچی بات کہہ دی۔ اگر میری باتوں پر کان دھرو گے تو خود تمھارے فائدے میں ہے وگرنہ میں اور میرا خاندان یہاں سے جارہے ہیں۔ تم جانو تمھارا کام۔
روزبہ یہ کہتے ہوئے اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر اس پہاڑ سے ایک دوسرے پہاڑ پر جو شہر سے کافی فاصلے پر تھا، جابسا۔
بندر ایک دوسرے سے کہنے لگے: روزبہ بوڑھا، خبطی۱ اور ڈرپوک ہوگیا ہے۔ اسے جانے دیں، جہاں چاہے رہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنے لیے ایک نیا سردار چن لیا۔ وہ اُسی جگہ ایک مدت تک رہے حتّٰی کہ ایک دن ایک سانحہ رونما ہوگیا۔
ہوا یہ کہ عید ہی کی رات تھی اور شہر میں جشن بپا تھا۔ تفریح اور آتش بازی کا زور تھا اور پٹاخے اور ہوائیاں چھوٹ رہی تھیں۔ آتش بازی کا ایک گول پٹاخہ جو فضا میں پوری طرح جلا نہیں تھا، ایک چھت پر آگرا۔ چھت پر لکڑیاں سوکھنے کو رکھی ہوئی تھیں۔ لکڑیوں نے آگ پکڑ لی، چھت لکڑی کی تھی، جل گئی اور آگ سوکھی گھاس کے ڈھیر تک جا پہنچی۔ گھاس کا ڈھیر ہاتھیوں کے طویلے کی ملکیت تھا اور ہاتھی شہر کے حاکم کی ملکیت! فیلستان کے در و دیوار نے جو آگ پکڑی تو ہاتھیوں تک جاپہنچی۔ جب تک لوگ وہاں آگ بجھانے پہنچے، بہت سے ہاتھی جل کر راکھ ہوگئے تھے اور بہت سے زخمی اور مجروح۔
جب یہ خبر حاکمِ شہر تک پہنچی، وہ سخت رنجیدہ ہوا۔ اس نے فوراً فیل بانوں، چوپایوں کے ڈاکٹروں اور بیطاروں کو طلب کیا اور کہا کہ ہاتھیوں کے علاج کی فکر کریں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ جلے ہوئے ہاتھیوں کا علاج ممکن نہیں ہاں البتہ ان ہاتھیوں کا جو زخمی ہیں اور جن کے بدن کی کھال پر آبلے پڑ گئے ہیں، علاج ممکن ہے اور یہ علاج سوائے بندروں کی چربی کے کُچھ نہیں۔ ضروری ہے کہ بندروں کی چربی کافی مقدار میں حاصل کرکے زخمی ہاتھیوں کی جلی ہوئی کھالوں پر ملی جائے تاکہ ان کے زخم آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں۔
حاکمِ شہر نے فوجیوں کو بلایا اور حکم دیا کہ شہر کے نزدیک واقع پہاڑ پر جائیں اور جو کوئی بندر وہاں پائیں اسے تیر، پتھر، جال یا کمند کے ذریعے یا اور جس طرح سے ممکن ہو، پکڑ کر مار ڈالیں اور اس کی چربی حاصل کریں تاکہ ہاتھیوں کا علاج ہوسکے۔
اچانک شہر کے نزدیک کے پہاڑ پر حملے کا آغاز ہوا۔ ہر طرف سے بندر جال میں پھنستے اور شکار ہوتے گئے۔ بہت سے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر داد فریاد کرنے لگے:تم ہماری جان کے لاگو کیوں ہوگئے۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم ایک عرصے سے ان پہاڑوں میں رہ رہے ہیں۔ ہم نے کسی کا مال نہیں کھایا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔
شکاریوں نے جواب میں آتش بازی اور ہاتھیوں کے جلنے کا قصہ کہہ سنایا اور کہا: ممکن ہے تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہاتھی بہت قیمتی ہیں اور جنگل میں بندر فراواں۔
اُس وقت بندروں نے اپنے آپ سے کہا:ہاں ہاں بہت سے بندر جنگل میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہم گناہ گار ہیں کہ ہم نے اپنے سردار اور بزرگ کی نصیحت پر کان نہ دھرے اور نادان انسانوں کے ہمسایے میں رہنا پسند کیا__ ایسے انسان جو اپنی دولت کو خود آگ لگاتے ہیں اور ہوا میں پھینک ڈالتے ہیں۔ جب انھیں نقصان پہنچتا ہے تو اس کا تاوان بندروں سے وصول کرتے ہیں۔
٭٭٭