سیاسی مہمات میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے، بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں کامیابی میں مرکزی کردار انجام دیا تھا۔
سیاستدانوں کے لئے اس سے بہتر وقت کبھی نہیں آیا بلکہ اس سے بھی زیادہ بہتر وقت سیاستدانوں کے لئے کام کرنے والے مشین انجینئروں کے لئے آیا ہے۔
جدید تاریخ میں اب تک انتخابی اُمیدواروں کے پاس ووٹروں کے مزاج سمجھنے کے لئے محدود زرائع ہوتے تھے، عموماً انہیں مضبوط تجزیوں کی بہ نسبت اندازوں (چھٹی حس ) کی بنیاد پر انتخابی مہم چلانی ہوتی تھی ۔
یہ بھی پڑھئے:
شہباز شریف بلوچستان کے لیے کیا کریں؟
سوشل میڈیا اور عمران خان کا جلوہ
صدر ممنون حسین نے عمران خان سے حلف نہ لینے کا مطالبہ کیوں نہ مانا؟
لیکن اب big data کی مدد سے انتخابی مہم کی اثر پزیری کو زیادہ سے زیادہ کیا جاسکتا ہے اس سے اگلا درجہ آریفیشیل انٹیلیجنس کا انتخابی مہمات اور سیاسی زندگی میں استعمال ہے۔
مشین لرننگ سسٹم اور مشین آلگورتھم کے استعمال کے ذریعے امریکی کانگریس میں پیش کردہ کسی بھی بل کی کامیابی و ناکامی کے بارے (بل کے متن اور دیگر چیزیں مثال کے طور پر اس کے بل کے اسپانسر کتنے ہیں اور سال کے کس وقت کانگریس میں پیش کیا گیا وغیرہ وغیرہ دیکھتے ہوئے) یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔
مشین انٹیلیجنس کے سافٹوئیر محتاط طریقے سے انتخابی مہمات میں ووٹروں سے رابطہ کرنے اور انہیں اہم سیاسی معاملات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے مدد دینے کے لیے بھی استعمال کیا جارہے ہیں۔
کیا آرٹیفیشل انٹیلیجنس ووٹروں کو ووٹ دینے پر مجبور کرتی ہے؟
ٹیکنالوجی کا یہ استعمال اخلاقی سوالات پیدا کرتا ہے، کیونکہ آرٹفیشیل انٹیلیجنس ووٹر کو انفرادی طور پر متاثر کرسکتی ہے۔مثال کے طور پر 2016 کے امریکی انتخابات میں ڈیٹا سائینس کی کمپنی کیمبرج اینالائیٹکس نے بڑے پیمانے پر اشتہاری مہم شروع کی جس کا ہدف آسانی سے متاثر ہوسکنے والے ووٹروں کو ان کی انفرادی نفسیات کے مطابق متاثر کرنا تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ انتخابی نتائج بھی متاثر ہوئے۔
اب تک یہ واضح نہیں کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا برطانیہ کے یوروپین یونین سے نکلنے کے ریفرینڈم میں کیا کردار تھا۔
مشین لرننگ اور Big Data کے زریعے ووٹروں کی کمزوری، جذباتی رجحان اور ان کے قابل قبول دلائل کا تعین کرنے کے بعد انہیں الگ الگ پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ کمزور باآسانی خوفزدہ ہونے والے ووٹروں سے ان کے خوف سے کھیلا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر میسج بھیجے جاتے ہیں جب کہ قدامت پرست رجحان رکھنے والے افراد کو انکی روایات و معاشرے سے متعلق پیغامات بھیجے گئے۔
یہ سب کچھ اس طرح ممکن ہوسکا کہ ووٹروں کا ہمہ وقت ڈیٹا کا حصول ممکن تھا جس میں ان کے شوشل میڈیا کے روئیے، ان کی روزمرہ کی خریداری کی عادت، انکی عائلئ حیثیت۔ ان کے انٹرنیٹ کے استعمال کی عادات وغیرہ کی مدد سے ان کے انفرادی نفسیاتی سوچ و روئیے کا پروفائل تیار کیا گیا۔
اس طریقہ کار میں مسئلہ ٹیکنالوجی نہیں بلکہ خفیہ انداز سے چلائی جانے والی مہم اور منافقانہ انداز میں بھیجے جانے والے سیاسی پیغامات تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا اُمیدوار جس کی مہم لچدار انداز میں چلائی جارہی تھی کے لئے یہ انداز خاصا کار آمد تھا۔
ہر ووٹر کو انفرادی پیغام بھیجا جاتا جس میں ایک ہی معاملے کے مختلف رُخ پر بات کی جاتی تھی، یعنی ہر ووٹر کے لئے مختلف ٹرمپ تھا۔ اس معاملے کی کنجی یہ تھی کہ ووٹر کی انفرادی دکھتی رَگ کو دبایا جائے تاکہ وہ مطلوبہ کاروائی (ووٹ ڈالنا) انجام دے سکے۔
بوٹ (Bots ) کے ذریعے حملہ
برطانیہ کے 2017 میں ہونے والے انتخابات میں شوشل میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر سیاسی bots کے ذریعے فیک نیوز پھیلائی گئی۔ یہی کچھ 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات اور دنیا بھر میں چند اہمُ نتخابات میں استعمال کیا گیا۔ Bots درحقیقت ایسے شوشل میڈیا اکاؤنٹس پروگرام ہوتے ہیں جنہیں برق رفتاری سے یکطرفہ سیاسی پروپیگنڈہ پھیلا کر وسیع عوامی حمایت کا تاثر پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عموما اسے کسی حقیقی انسانی اکاؤنٹ کے بھیس میں چھپا کر کسئ اُمید وار کے بارے میں اس کے ممکنہ ووٹروں میں منفی شوشل میڈیا پیغامات پھیلانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ تاکہ وہ پولنگ کے دن ووٹ دینے کے لیے باہر نہ نکلیں۔
کہا جاتا ہے کہ 2016 کے انتخابات کے دوران ٹرمپ کے حامی bots ہیلری کلنٹن کے حامی ٹوئیٹر ہیش ٹیگ اور فیس بُک پیج پر اپنا پروپیگنڈہ پھیلانے کے لئے داخل ہوگئے تھے۔2017 کے فرانسیسی انتخابات میں بھی ان bots کے زریعے Emmanuel Macron کے ٹیم کے لیک شدہ ای میلز کا سیلاب فیس بُک اور ٹوئیٹر پر جاری کردیا۔ اس سیلاب میں بقول Macron کے مالی معاملات کے بارے میں جھوٹی اطلاعات بھی تھیں۔
اس #MacronLeaks کا مقصد یہ تاثر۔ پیدا کرنا کہ Macron ایک جھوٹا دھوکے باز اوت منافق شخص ہے، جو کہ شوشل میڈیا پر ٹرینڈز میں bots کا عمومی طریقہ واردات ہے۔ (ویسے Macron پھر بھی وہ انتخاب جیت گیا تھا)۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال برائے بہتری
یہ بہت آسان ہے کہ دنیا بھر کی ساری بُرائیوں (بشمول انتخابی شکست) کا الزام آرٹفیشیل انٹیلیجنس کے سر پر منڈھ دیا جائے، درحقیقت یہ ٹیکنالوجی بذات خود نقصان دہ نہیں ہے۔ جو الگورتھمک ٹول غلط اطلاع دینے، کنفیوز کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہی جمھوریت کی مضبوطی کے لیے بھی کام آسکتا ہے۔
اس کے ذریعے بہتر انتخابی مہم زیادہ قانونی طرز سے چلائی جاسکتی ہے۔ ایک اخلاقی و اصولی طریقے سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس ووٹروں کے لئے مثبت طریقے سے معلومات فراہم کرنے کا فریضہ انجام دے سکتی ہے۔ نئی قائم شدہ Factmataاور Avantgarde Analytics جیسی کمپنیاں پہلے ہی اس قسم کے تیکنکی حل فراہم کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ایسے سیاسی bots پروگرام کر سکتے ہیں جو جیسے ہی لوگ ایسا مواد شیئر کریں جس کے بارے میں جھوٹے ہونے کا علم ہو تو خود بخود حرکت میں آجائیں۔
اس صورت میں وہ نہ صرف انتباہ جاری کرسکتے کہ اطلاعات کے جھوٹ ہونے کے شبہات بلکہ اس کی وجوہات بھی بیان کر سکتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ جانے پہچانے جھوٹے پیغامات مثال کے طور پر بدنام زمانہ مضمون جس میں جھوٹا دعوی کیا گیا پوپ فرانسس نے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا ہے کی فوری تردید ہو سکتی ہے۔
ہم آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو عوام کی آواز بہتر انداز میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں کہ ان کی آواز ان کے منتخب نمائندگان تک پہنچ سکے۔ان معلومات کی بنیاد پر مائیکرو ٹارگیٹنگ کی مہمات چلا سکتے ہیں تاکہ ووٹروں کو مختلف سیاسی مسائل کے بارے آگاہی فراہم کی جاسکے تاکہ وہ اپنے فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔
عوام عموماً اخبارات اور ٹیلیویژن پر سیاسی مباحثوں سے ملنے والی بے تحاشہ معلومات تلے دب جاتے ہیں لیکن آرٹیفیشل انٹیلیجنس انہیں ہر اُمیدوار کی اپنے ترجیح کے مطابق معاملات پر سیاسی رائے جاننے میں مدد دے سکتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ماحولیات میں دلچسپی رکھتا ہے تو ہم آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے اسے تمام سیاسی جماعتوں کی ماحولیات کے بارے میں آراء کی معلومات میں مدد کرسکتے دوسرے الفاظ میں ہم اس کی مدد سے جھوٹے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔اہم ترین بات یہ ہے کہ سیاسی اشتہارات ووٹر کے مفاد و ضرورت کے مطابق ہونے چاہیں۔
قانون کی بھول بھلیوں میں گمشدہ
متبادل صورت یہ ہے کہ قانون سازی کے ذریعے جھوٹے پروپیگنڈے پر پابندی لگائی جائے۔ ڈیٹا پروٹیکشن اور الگورتھم کے استعمال پر سخت جوابدہی بھی سیاسی معاملات میں مشین لرننگ کے غلط استعمال کو کم کرسکتی ہے۔ لیکن یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں نئی ایجادات کے لئے رکاوٹ بن سکتی ہے۔
قانون ہمیشہ ٹیکنالوجی کے بہ نسبت سست ہی چلتا ہے، یورپین یونین کے جنرل ڈیٹا پروٹئکشن ریگولیشن تمام یورپین یونین کے شھریوں کو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ جب بھی وہ کسی بھی آٹومیٹڈ فیصلہ سازی کے نظام سے متاثر ہوں تو ان کا حق ہے کہ انہیں (فیصلے کی) وجوہات کی وضاحت کی جائے۔
لیکن اس معاملے میں کافی مغالطے موجود ہیں کہ ایلگوریتھم کی جوابدہی و شفّافیت کی حدود کا تعین کیسے کیا جائے۔ بالخصوص قانون میں ایلگوریتھم کے غلط استعمال کے خلاف صاف زبان اور واضع حفاظتی اقدامات موجود نہیں ہیں۔
مزید یہ بھی کہ قابون نے صرف حق معلومات دیا ہے پر کسئ بھی ڈیٹا آپریشن اور آٹو میٹک فیصلہ سازی کی نظام میں شرکت سے انکار کا حق نہیں دیا گیا ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا سیاسی معاملات میں استعمال جلدی ہی ختم نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ سیاستدانوں کے لئے ان کی انتخابی مہمات کے لئے انتہائی قیمتی اور اہم ہے۔ قانون سازوں کی کوششوں کے ساتھ ساتھ سیاستدان کو چاہیے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو اخلاقی و اصولی حدود کے اندر اندر استعمال کریں تاکہ ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوششوں میں جمھوریت کا نقصان نہ ہو جائے۔ اب یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہمارے سیاسی نظام کا جُز بن چُکا ہے ۔۔آئیں مل کر اسے ہر ایک کے لئے کار آمد بنائیں۔
(اب دلچسپ سوال یہ بھی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ حملہ Macron پر ناکام رہا اور ہیلری کلنٹن پر کامیاب ۔۔ اس پر بلومبرگ کا ایک دلچسپ مضمون جس کا ترجمہ بشرط زندگی پھر کسی وقت ان شاء اللہ ۔
یقیناً ایک سائز کا لباس سب کو فٹ نہیں آسکتا۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس کی مدد سے جو کچھ یوروپ اور امریکہ میں ہوا اس کی جزوی علامات ہمارے ہاں دیکھی شاید ان دونوں مضامین اسی میں ہماری سیاست کے بھی کچھ سوالوں کا جواب موجود ہے۔)