حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی باتیں تو گزشتہ چند ماہ سے زیر گردش تھیں، لیکن حکومت کو شاید یقین نہیں تھا کہ کہ حزب اختلاف یہ بھاری پتھر اُٹھانے کی کوشش کی، غالبا انہیں کچھ اعتماد بھی تھا کہ اگر ایسا ہوا وہ بآسانی نمٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اسی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے سے چند دنوں قبل ہی جناب فواد چوہدری حزب اختلاف کو للکار رہے تھے کہ اگر ہمت ہے تو یہ قرارداد پیش کریں، دوسری طرف قرارداد پیش ہونے کے بعد جناب وزیراعظم فخریہ طور پر دعوی کررہے تھے اب حزب اختلاف ان کے پھیلائے ہوئے دام میں آگئی ہے اور وہ تو دعاگو تھے کہ حزب اختلاف یہ حرکت کرے۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
یہ الگ بات ہے کہ بعد میں جب زمین قدموں تلے سرکنے لگی تو قبولیت دعاء کی خوشی اقتدار ہاتھ سے نکلنے کے خوف کی چیخوں میں تبدیل ہوگئی۔ اتحادی پھدکتے مینڈکوں کی پنسیری کی طرح چھلانگیں لگانے لگے اور “وہ” بھی جو سرکس کے رنگ ماسٹر کی طرح تماشے کے جانوروں کو سدھانے کا کام کرتے تھے اچانک ہی جانور (نیوٹرل) بن گئے۔
جہاں تک جانوروں کے سدھانے والوں کے خود جانور (نیؤٹرل) بننے کی بات ہے، یہ کوئی خفیہ بات نہیں ہے کہ اس حکومت کو ملنے والا تخت اور اس کی بقا رنگ ماسٹر کی مرہون منّت تھی، لیکن رنگ ماسٹر کو بھی سرکس چلانا ہے، اگر اس کے سدھائے ہوئے جانور کارکردگی نہیں دکھائیں گے تو تماشائیوں کی ہوٹنگ جانوروں پر نہیں رنگ ماسٹر کی صلاحیتوں پر ہوتی ہے۔ مجبوراً رنگ ماسٹر بھی جان چھڑانے کے راستے ڈھونڈنے لگا۔
جہاں تک امریکی “سازشی تھیوری” کی بات ہے ہمارے وزیراعظم کو سفارتی معاملات سمجھنے سے کوئی دلچسپی نہیں اس کا سادہ الفاظ میں جذبات کے اظہار کا طریقہ اپنے عوام کے لئے مقبول ہو سکتا ہے پر وہی زبان و لہجہ سفارتی دنیا میں شدید ناپسند کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
تاریخی فیصلہ: ایکسٹیشن سمیت تمام مسائل حل ہو چکے
ڈپلومیٹک کیبل: حساس سفارتی مراسلے کیسے لکھے اور بھیجے جاتے ہیں؟
آئین شکنی یا شخصی آمریت: ہم کس کے ساتھ ہیں؟
یہ ناپسندیدگی ہی اس بدنام زمانہ خط کی حقیقی وجہ بن گئی جو کسی سازش سے زیادہ امریکی خواہش کی اطلاع تھی کہ جب تک موجودہ حکومت اقتدار میں ہے امریکہ پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان اندرونی طور پر ایک آئینی بحران کا شکار ہو گیا بلکہ اس کے پاکستان کے بین القوامی تعلقات پر دورس نتائج رونما ہورہے ہیں۔
امریکہ اور موجودہ حکومت کے دوران سرد مہری کی ایک وجہ افغانستان سے امریکی افوج کے انخلاء کے بعد ہماری حکومت نے جس قسم کا دھمال ڈالا، ہمارے وزیر اعظم کی افغانستان کے طالبان کی کامیابی کو فتح عظیم قرار دیکر مسرّت آمیز بیانات بھی امریکہ کے زخموں پر نمک ہی نہیں بلکہ مرچیں چھڑک کر یقیناً ان سے دوستی بڑہانے کی خواہش کا اظہار نہیں تھا۔
خیر صرف سویلین ہی نہیں جنرل فیض حمید نے بھی سرینا ہوٹل کابل جاکر فاتحانہ انداز میں چائے کا کپ پکڑ کی تصویر کھنچوا کر یہی کام کیا تھا لیکن اسوقت کم از کم بھارتی و دیگر بین الاقوامی میڈیا کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ آرمی چیف جنرل باجوہ کی رسمی اجازت کے بغیر کابل پہنچے تھے اور جنرل باجوہ شدید برہم تھے۔
اس صورتحال میں وزیراعظم نے مزید تیل مغرب و امریکہ کی خواہش کے برخلاف یوکرائن کی جنگ کے دوران کا روس کادورہ کرکے خود بطور مغربی مفادات کا مخالف ثابت کرنے کی کوشش کرکے ڈالا ۔
اس کے برعکس جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی حالیہ تقاریر میں بہتر سفارتکارانہ زبان استعمال کرکے نہ صرف پاکستان کے روس و چین سے تعلقات کو بڑھانے کی پالیسی کی حمایت کی اس کے ساتھ ساتھ ہی امریکہ و یورپ کے ساتھ تعلقات کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے متوازن پالیسی پر زور دیا۔
اس سارے کھیل کے جو اصل کھلاڑی جس سے امریکی ہی نہیں بلکہ تقریباً تمام بین الاقوامی کھلاڑیوں کا رابطہ کبھی نہیں ٹوٹا وہ جنرل باجوہ ہی رہے ۔ بیرون ملک کے سفارتکار و پاکستان کادورہ کرنے والے اہم ترین حُکّام جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔ جب قریبی دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب سے معاملات کی مشکلات دور کرنے کے لئے جنرل صاحب بھی بھیجا جاتا رہا تھا۔
سب چونکہ بڑی حدتک ناتجربہ کار و نااہل حکومت نہ صرف سفارتی معاملات میں بلکہ ملک کی داخلی سیاست میں اپنی بقا کے لیے بھی فوجی چھتری (آئی ایس آئی ) کی محتاج رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی بظائر روایتی تبدیلی نے اس مصنوعی ہائی بریڈ نظام کی بنیادوں کو لرزا کر رکھ دیا۔اور ان کے اظہار لاتعلقی یا نیوٹرل ہوتے ہی یہ عمارت لرزنے لگی۔۔
یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے، اس عمارت کی کمزوری کی ذمہ داری وزیراعظم کی اپنی حکومت کو بنانے و سنبھالنے والے “ادارے” سے غیر ذمہ دارانہ جھگڑا مول لینے پر ہے۔ سیاستدانوں نے تو صرف اس صورتحال سے فایدہ اُٹھانے کی کوشش کی جو سیاسی طور پر کسی صورت میں قابل اعتراض امر نہیں ہے۔
جنرل باجوہ کی حالیہ تقریر کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ بیرونی دنیا کے لئے ایک ایٹمی طاقت میں انتہا پسندانہ فاشسٹ سول حکومت جس سے منطقی رد عمل کے توقع کم ہو کی بہ نسبت (نظریہ ضرورت کے تحت ) ایک جانا پہچانا فوجی چہرہ جو معاملات کو منطقی طور پر دیکھنے صلاحیت رکھتا ہو زیادہ قابل قبول بن جائے۔یاد رہے پاکستان سے معاملات میں مغربی ممالک کی اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر اصولوں کی جگہ “نظریہ ضرورت” کو فوقیت دینے کی طویل تاریخ ہے۔
دوسری طرف یہ لازمی نہیں ہے کہ مغربی طاقتوں کے پاس پاکستان میں stability کے نام پر فوجی حکومتوں کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، نواز شریف یا مسلم لیگ ن پاکستان میں تین مرتبہ اقتدار میں آچُکے ہیں، وہ کم از کم ایک متوازن رویہ رکھنے والے رہنما کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔
ویسے بھی موجودہ صورتحال اگر ملک کو آئینی طریقے چلایا جائے تو اس بات کے پورے امکان ہیں اگلی حکومت ان کی ہوگی اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مغربی طاقتیں کسی بھی فوجی ایڈونچر کے لیے جواز تلاش کرنے کی بجائے ملک میں مکمل طور پر آئینی حکومت کی حمایت و حوصلہ افزائی کی جائے۔
اگر اس ملک میں دوبارہ فوجی آمریت آتی بھی ہے تب بھی زمینی ردعمل نہ ہونے کے برابر ہو گا کہ سوشل میڈیا کا شور اپنی جگہ لیکن سیاسی ورکر کبھی لڑنے مرنے کے لیے نہیں نکلے گا۔ امریکی سازش کے شور کے نتیجے میں تحریک انصاف نے 31 مارچ کو اپنے کارکنان کو احتجاج کے لئے نکلنے کی اپیل کی تو چند دنوں قبل پریڈ گراؤنڈ پر لاکھوں کا ہجوم اکٹھا کرنے والی جماعت 31 مارچ کو بمشکل چند سو افراد کسی ایک مقام پر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوسکی ۔
مولانا کے پاس مدارس کے طلبا باآسانی نکالے ضرور جاسکتے ہیں لیکن ان کے مدارس کے مہتممین کے اپنے مسائل ہیں۔ ایک حد سے زیادہ وہ بھی اپنے طلباء کو استعمال کے لئے دینے کے قابل نہیں ہوں گے۔
بہتر ہے جمھوریت کو موقع دیا جائے۔ یہی ہمارے اور دنیا کے مفاد میں ہے۔