فیصلہ آگیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا فیصلہ ہے جس میں پاکستان کا آئین اور عوام فتح یاب ہوئے۔ اس فیصلے پر پاکستان کے عوام، سپریم کورٹ اور ہر وہ شخص جو اس ملک میں آئین کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے، مبارک باد کا مستحق ہے۔
قومی تاریخ کے اس شاندار اور تاریخی مرحلے پر تین امور بہر صورت پیش نظر رکھنی چاہئیں۔
تاریخی فیصلے کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
1- اس ملک میں ریاست اور نظام کو ہموار طریقے سے چلنے نہیں دیا گیا اور اس ملک میں سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے نااہل، غیر ذمہ دار اور غیر سنجیدہ حکومت کو مسلط کر دیا گیا۔ اس غیر سنجیدہ قیادت نے دو دھاری تلوار ہاتھ میں لے کر کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ حزب اختلاف سے جینے کا حق چھین لیا۔ اداروں کو کام نہیں کرنے دیا اور اپنی نااہلی سے عوام
کی زندگی مشکل بنا دی۔
یہ فیصلہ سبق دیتا ہے اگر ہمیں اس ملک سے محبت ہے تو آئیندہ ایسے نہ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھئے:
سات اپریل: آج مشہور سارنگی نواز استاد نتھو خان کی برسی ہے۔
ڈپلومیٹک کیبل: حساس سفارتی مراسلے کیسے لکھے اور بھیجے جاتے ہیں؟
اقتدار و فسطائیت کا ننگا ناچ
2- اس معاملے کا دوسرا پہلو مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔ پاکستان کی قومی قیادت میں مولانا فضل الرحمٰن وہ واحد شخصیت ہیں جنھوں نے اس آئینی اور قانونی فیصلے کے حق میں راہ ہموار کی۔ اس فیصلے کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ پی ٹی آئی کی شکل میں حائل تھی۔ سپریم کورٹ کی طرف سے نوٹس لیے جانے کے بعد عمران خان نے مظاہروں کے لیے کہہ دیا تھا۔ فواد چودھری نے سپریم کورٹ کو دھمکی دی تھی کہ اگر فیصلہ انتخابات کی طرف نہ گیا تو سڑکوں پر لڑائی ہوگی۔ یہ براہ راست سپریم کورٹ کو دھمکی تھی۔ پی ٹی آئی کے اس طرز عمل سے فیصلے کاراستہ رک سکتا تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن بروقت متحرک ہوئے اور انھوں نے جمعے کو یوم تحفظ آئین منانے کا اعلان کر کے واضح کر دیا آئین یتیم نہیں ہے۔ پوری قوم آئین کے ساتھ کھڑی ہے اور سپریم کورٹ کو بلیک میل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
3- اس فیصلے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہموار سیاسی عمل کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں۔ ایکسٹینشن کا معاملہ جسے ایک بڑے مسئلے کے طور پر تصور کیا جاتا تھا، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو چکا ہے۔
یہ تاریخی فیصلہ آنے کے بعد مستقبل میں قوم چند مزید فیصلے دیکھے گی۔ یہ فیصلے عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر دیں گے۔