تین اپریل کو قومی اسمبلی کے ایوان میں اقتدار و فسطائیت کا جو ننگا ناچ دیکھا گیا ہے اس نے ہماری رہی سہی قانونی و آئینی اخلاقیات کی بھی دہجّیاں بکھیردیں ۔
اختیار کی رعونت میں ایک نام نہاد اصول کہ ایوان کی کاروائی یا اسپیکر کے فیصلوں کی عدالت میں شنوائی نہیں ہو سکتی ۔ جو کہ درحقیقت بذات خود قانون کی غیر قانونی تعبیر ہے کہ اس طرح کوئی بھی جماعت جو اپنی مرضی کا اسپیکر متعین کرسکتی ہو پھر بلاشبہ پورے ملک و ایوان کو یرغمال بنا سکتی ہے۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
شاید ہمارے ہاں اختیارات ہونے کا مطلب فسطائیت کے ننگے ناچ کی آزادی سمجھا جاتا ہے ۔اور اس کا پوری ڈھٹائی سے اظہار بھی کیا جاتا ہے یہ سوچ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں سارے ذہنی طور پر نابالغ اور تھڑدلے معاشروں میں عام ہے ۔
یہ بھی پڑھئے:
آئین شکنی یا شخصی آمریت: ہم کس کے ساتھ ہیں؟
تحریک عدم اعتماد: خدشات و علاج
تحریک عدم اعتماد: ریاست حادثے سے دوچار ہو گئی
ورنہ بالغ معاشروں میں سرکاری افسران سے لیکر اسپیکر و وزیراعظم تک کے صوابدیدی یا غیر صوابدیدی اختیارات پر کم قدغن رکھی جاتی ہے تاکہ وہ غیرضروری سوال و جواب کے خوف سے آزاد ہوکر اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔
ان اختیارات کے استعمال پر کم از کم نگرانی رکھنے کے ساتھ سب سے اہم اصول ہے کہ اسے Good faith یعنی ہم آپ سے اس توقع میں سوال و جواب نہیں کریں گے آپ اپنے اختیارات بغیر کسی لالچ و مفاد کے استعمال کریں گے۔
جس وقت بادی النظر یہ سامنے آنے لگے کہ اختیار دیانتدارانہ انداز کی بجائے ذاتی یا کسی فرد و گروہ کے مفاد کے لئے اس استعمال کیا گیا تو good faith کا اصول ٹوٹ جاتا ہے اس صورت میں بھی جہاں تک ممکن ہو یا تاویل کی گنجائش ہو عدالتیں خود کو ان معاملات سے دور رکھنا پسند کرتی ہیں۔
لیکن جس وقت اس اختیار کو آئین و قانون کی اعلانیہ دھجّیاں بکھرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔ تو اعلی ترین عدالتوں کے لئے خاموش تماشائی بننا ممکن نہیں رہ سکتا۔
اس نام نہاد فلسفے کے تلے ایون ہی نہیں وطن عزیز کی جمھوریت جو کہ پہلے پامال کی جاتی رہی ہے کو سویلین کے ہاتھوں بھی پامال کرنے کا مظاہرہ کیا گیا ۔۔۔کہ روک سکو تو روک سکو۔۔۔کل کے واقعات جسے میں سانحے سے تعبیر کرتا ہوں پر میرے کئی محترم دوستوں نے اپنی فیس بُک پر اس قسم کے پیغامات بھیجے ہیں۔۔
“20۔۔۔20 کروڑ میں بکنے والےاور 20۔۔20 کروڑ میں خریدنے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔۔۔
ماشاء اللہ
کیسی زبردست قوم ہے۔۔”
افسوس اس بات کا ہے کہ میرے دوست میرے احباب قریب ترین لوگ بھی اس سامری کے مسحور ہیں۔ ایک طرف وہ بھی کہتے ہں کہ اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہاں “دونمبری کی ہے” لیکن پھر بھی بغلیں بجاتے ہیں۔
مجھے اس اخلاقیات کے جنازے پر رونا بھی مشکل لگ رہا ہے کہ ۔۔ زیادہ بات کرنے پر اخلاقیات ہی نہیں دوستیوں ، رشتوں و تعلقات کے جنازے پر بھی رونا پڑے گا۔عجب گھٹن کا عالم ہے ۔۔
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
الحمد للّٰہ میں نے کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر سے عشق نہیں کیا پسند ناپسند سے انکار نہیں۔ اس لئے سافٹ کارنر تو نظر آجاتا ہے اندھا عشق و بغض سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
اپنے دوستوں سے کہ آدمی کے ملاقاتی تو ہزاروں ہوتے ہیں لیکن دوست انہی کو بنایاجاتا ہے جن سے کچھ نہ کچھ ذہنی ہم آہنگی ہوتی ہے۔۔ نظریاتی و سوچ کا فرق تو دوستی میں رُکاوٹ نہیں ہوسکتی کہ ایک سوچ و نظریات کے دوسروں کی محفلوں کے کنویں میں مقید شخص روبوٹ بن سکتا ہے لیکن سمجھدار اور سیکھنے سکھانے والا فرد نہیں۔
لیکن بنیادی شرط اقدار کی رہے گی اور رہتی ہے اور دیانتدارانہ مباحثہ ۔۔ دیانت ہی کسی بھی گفتگو و مباحثے کی شرط اوّل ہے۔ ورنہ گفتگو فضول تضیع اوقات سے زیادہ کچھ نہیں۔
ان سے صرف اتنا عرض کرسکتا ہوں کہ یقینا کم از کم آپ سے تو یہ توقع نہیں تھی برادران۔
خواب گاہوں میں ہونے والے زنا کو بُرا سمجھا جاسکتا ہے لیکن چونکہ آنکھوں کے سامنے نہیں ہوتا تو گُمان ہی کیا جاسکتا ہے اعتراض نہیں۔لیکن جب خواب گاہوں کی حرکتیں سڑک پر ہونے لگیں تو شریف ہی نہیں بدمعاش و بے حیا بھی چیخ پڑتا ہے۔
یہ جو بھی سامنے چوراہے پر ہوا ہے ہمارے معاشرے میں اس سے بدتر ہوتا ہے لیکن تھوڑا سا پردہ و شرم بھی رکھی جاتی ہے۔جس وقت وہ بھی ختم ہو جائے تو پھر مکمل تباہی کا انتظار کریں۔
یہ معاشرے کے رہے سہی ضمیر کے قتل کی سازش ہے۔۔ ہم طاقت و اختیار کے ننگے مظاہرے کے سامنے بند باندھنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن کم از کم اپنی نحیف آواز تو اُٹھا سکتے ہیں۔
لیکن جس وقت اس اختیار کو آئین و قانون کی اعلانیہ دھجّیاں بکھرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔ تو اعلی ترین عدالتوں کے لئے خاموش تماشائی بننا ممکن نہیں رہ سکتا۔ کیا وہ آئین کے دفاع میں اپنا کردار انجام دیں گی۔۔ وقت بتائے گا۔
شاید ترے دل میں اتر جائے مری بات