کورونا وبا کو اگر کچھ وقت کے لئے اُستاد سمجھ لیا جائے تو بہت سے اٗسباق سیکھے جا سکتے ہیں۔ قدرت ہر آزمائش میں انسانوں کے سیکھنے کا اہتمام کرتی ہے، مگر کون سیکھتا ہے؟ اِس کا اِنحصار ہر شخص کی اپنی ذات پر ہے۔
اہلِ عقل کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، جس سے وہ سیکھ کر زندگی آسان بنا لیتے ہیں۔ جو نہیں سیکھتے وہ روز و شب کی غلامی میں رہتے ہیں۔
سب سے پہلا سبق تو “زندگی” کے عارضی ہونے کا ہے۔ چیزوں کی معیاد تو ہم دیکھتے ہیں مگر “زندگی” کی نہ معیاد ہے اور نہ کوئی گارنٹی میسر ہے۔ گویا ایک عارضی چیز کو نہ چاہنا ہی حاصلِ کرونا ہے۔
“شخصی نمو” کی کلاس میں عام طور پر ایک فرضی صورتِ حال دی جا تی ہے کہ جیسے آپ کو زندگی کو پھر سے شروع کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ اب فیصلہ کیجئے کہ:
مقصدِ زندگی کیا ہوگا؟ تاکہ باقی سب کام پھر اِس کے تا بع ہوں۔
کیا نہیں کرنا کہ وقت برباد نہ ہو اور کم وقت میں پیداواری صلاحیت زیادہ ہو۔
میری زندگی کی ترجیحات کیا ہیں؟ اِن میں توازن کیسے پیدا ہو؟
کون سے دو یا تین کام ہیں جو اپنی ذات، خاندان یا اپنے پیشے کے لئے لازمی کرنا ہیں تاکہ دنیا اور آخرت میں سرخروئی ہو۔
اب اگر میں لِکھ رہا ہوں اور آپ پڑھ رہے ہیں تو مطلب یہ ہوا کہ ہمیں نئی زندگی مل چُکی ہے ورنہ کوروٰنا اگلے جہاں پہنچا چکا ہوتا۔ کیا اب یہ وقت نہیں کہ ہم نئی زندگی شروع کریں، مقصدِزندگی اور ترجیحاتِ زندگی کا نئے سِرے سے تعین کریں۔ بھیڑچال اور “معمول” کی بھیڑ سےنِکل کر صبحءنو کے ساتھ حیاتِ نو کا آغاز کریں۔ مگر صرف اہلِ علم اور اہلِ عقل ہی سیکھ پائیں گے۔
ہماری زندگی کا مِحور ہماری “معاشی خوشحالی” ہے۔ جوانی اور بڑھاپا اِس کی نظر ہو جا تا ہے۔ گھر، گھرداری، اور اولاد کو سیٹ کرتے زندگی ختم ہوتی ہے۔ کروٗنا نے بتایا ہے کہ زندگی میں بہت کچھ غیر ضروری ہے۔ اِس کے بغیر بھی زندگی ممکن ہے جیسے کہ؛
بازار صرف ایک دفعہ جائیں، بار بار نہیں وہ بھی خریداری کی لسٹ کے ساتھ۔
صرف ضروری کام کے لئے گھر سے نِکلیں اور پٹرول خرچ بچائیں۔
باہر کا کھانا صرف مجبوری سے کھائیں اور بچت اور صحت دونوں پائیں۔
محض وقت گُزاری کے لئے رِشتہ داروں سے نہ مِلیں اور سوشل میڈیا مُتبادل کے طور پر اِستعمال کریں۔
نا گہانی وقت کے لئے بچت کریں اور زندگی کو سادہ رکھیں۔
اِن باتوں پر عمل کرکے ہم 30 سے 35 فیصد خرچ کم کرسکتے ہیں اور موجودہ وسائل اور آمدن میں رہتے ہوئے زندگی خوشحال ہوسکتی ہے۔
کروٗنا نے ہمیں بتایا ہے کہ گھومنے پھرنے کی آزادی ایک نعمت ہے، اِس آزادی کو صحت مند رہ کر اور دُوسروں کا خیال رکھ کر محفوظ کیجیئے۔ بازاروں، تفریح گاہوں اور سڑکوں پر غیر ضروری نقل و حمل نعمت کا ضیاع ہے اور ہجوم بنانے سے سب کی زندگی مُشکل میں آجاتی ہے۔
گھر سے کام کرنے کی مجبوری نے سیکھایا ہے کہ اگر اِرادہ اور احساسِ ذمہ داری ہو تو کم وقت میں بھی دفتری کام یا کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ اِس کو اپنی ذات پر سوار نہ کریں۔ وقت کو مُستعدی، منصوبہ بندی اور بہتر ہنر مندی کے ساتھ اِستعمال کرکے پیداور بڑھائی جا سکتی ہے۔
ٹیکنالوجی اب زندگی کا ناگُزیر حصَہ ہے، یہ کورونا کا ایک اہم سبق ہے۔ اِس کا اِستعمال اب روز مرَہ کام کاج میں جاری رکھیں تاکہ وسائل اور وقت کی بچت ہو۔ گھریلو کام ہوں، دفتر یا پھر کاروباری، ٹیکنالوجی اِس کو آسان اور فوری نتیجہ خیز بناتی ہے۔ اِسی طرح آن لائن کورسِز یا تعلیم کم خرچ میں مُمکن ہے۔
کورونا نے بتایا ہے کہ زندگی کوئی اکیلےنہیں گزار سکتا ہے۔ بند رہ کر زندگی بے مزہ ہو جاتی ہے۔ گویا دُوسروں کے ساتھ کی قدر کریں اور اُن کے لئے آسانی کا سبب بنیں۔ مِل کر ہم بہت بہتر زندگی گُزار سکتے ہیں مگر ہجوم بن کر نہیں۔ یہ بھی سیکھا کہ کوئی مُلک ترقی یافتہ ہو یا غیر ترقی یافتہ، مُشکل میں تنہا نہیں رہ سکتا ہے۔ اِنسانوں کو مِل کر ہی زندگی کو ممکن بنانا ہوگا۔
کورونا نے بتایا ہے کہ اٰقوام کو بقاء کے لئے قومی مفاد کے ساتھ “اِنسانی مفادِ عامہ” کو بھی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔
باہمی تعاون سے سب کے لئے جگہ پیدا کرنی ہوگی ورنہ ایک وبا ہر مُلک کی سرحدیں بند کروا سکتی ہے، معیشت ختم اور موت وارد کروا سکتی ہے۔
کاروبار کو اب منافع کے ساتھ اِنسان، اِنسانی اقدار، اور انسانیت کو اہمیت دینا ہوگی۔ اب زندگی کا چلن یہی ہوگا۔ کوروٰنا نے بتایا ہے کہ اِنتظامی مہارت کے ساتھ اب مذہب کو بھی شامل کرنا ہے تاکہ اِخلاقی قدریں مضبوط سہارا فراہم کرسکیں۔
کروٰنا نے بتایا ہے کہ دولت، وسائل، سائنس اور ترقی کسی کو موت سے نہیں بچا سکتی ہے۔ اگر کوروٰنا ہوجائے تو ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ مُلک میں رہنا بھی ایک جیساہوجاتا ہے اور حقیقت صرف “موت” ہی ہوتی ہے۔ البتہ اِخلاقِ حسئنہ، خُدا خوفی، اور خُدا ترسی موت کو آسان اور لواحقین کو آسوداء کر سکتی ہے۔