آج غزل کے بے تاج بادشاہ مہدی حسن خان کا یوم پیدائش ہے۔ وہ کئی سال سے فالج میں مبتلا رہنے کے بعد وہ پچاسی سال کی عمر میں 13 جون 2012 کو کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے تهے۔
مہدی حسن کا اس افراتفری اور شور شرابے کی دنیا سے رخصت ہونا دراصل پاک و ہند سے شاعری اور سنگیت کی ایک روایت کے ختم ہونے کے برابر ہے۔ سنگیت کی دنیا میں کئی دہائیوں تک راج کرنے والے مہدی حسن اٹھارہ جولائی انیس سو ستائیس کو راجستھان کے علاقے لُونا میں پیدا ہوئے۔
یہ بھی دیکھئے:
ان کا تعلق موسیقی کے کلاونت گھرانے کی سولہویں نسل سے تھا۔آپ کے والد استاد عظیم خان اور چچا استاد اسماعیل خان معروف دُھرپد گائک تھے۔مہدی حسن نے سُر اور تال کے ابتدائی رموز اپنے والد اور چچا ہی سے سیکھے۔ پہلی مرتبہ بچپن میں ہی میں دھُرپد میں پرفارم کیا۔
مہدی حسن بیس برس کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ ہجرت کے بعد شدید مالی مشکلات کی وجہ سے کلاسیکی موسیقی کےاس ممتاز گھرانے کے چشم و چراغ کو سائیکل مرمت کرنے کی ایک دکان میں مزدوری کرنا پری۔بعد میں کام سیکھتے سیکھتے مہدی حسن کار مکینک اور ٹریکٹر مکینک بن گئے۔
یہ بھی پڑھئے:
پیٹرول کے نرخوں میں کمی، مفتاح اسماعیل کا بڑا کارنامہ
بلوچستان میں مون سون کی تباہ کاری
اسکے باوجود مہدی حسن خان نے پہلوانی کا شوق اور سنگیت کی خاندانی روایت کو نہ چھوڑا اور روزانہ ریاض کرتے رہے۔ خان صاحب نے پاکستان میں گلوکاری کا باقاعدہ آغاز انیس سو باون میں ریڈیو پاکستان کے کراچی اسٹوڈیو سےکیا اور انیس سو ستاؤن میں ریڈیو پاکستان ہی سے گائی ایک ٹھمری نشر ہونے کے بعد موسیقار حلقوں کی توجہ حاصل کی۔
اس دور میں مہدی حسن کلاسیکی موسیقی ہی سےکل وقتی طور پر وابستہ تھےالبتہ فارغ اوقات میں غزل گائیکی کا شوق بھی پورا کرلیا کرتےلیکن جلد ہی ان کی آواز فلمی حلقوں میں کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جانے لگی۔
کئی دہائیوں پر محیط اس سفر میں انہوں نے پچیس ہزار سے زائد فلمی وغیرفلمی گیت، نغمے اور غزلوں میں آواز کا جادو جگا کر انہیں امر کردیا اور دنیا بھر میں بے مثال شہرت اور عزت پائی۔
مہدی حسن کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی، تمغہ امتیازاور ہلال امتیازسے نوازا گیا۔ بھارت میں انہیں سہگل ایوارڈ جبکہ حکومت نیپال نے مہدی حسن کو گورکھا دکشنا بہو کا اعزاز دیا۔
ان کی موت نے اس جہاں سے ان کا جسمانی ناتا تو توڑ دیا ہے لیکن ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت انہیں ہمیشہ چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رکھیں گے۔
ان کی آواز کے بارے میں شاید ہی برصغیر کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر سے بہتر کسی نے کچھ کہا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ان کے گلے میں بھگوان بولتا ہے