ADVERTISEMENT
پنجاب کے ضمنی انتخابات پی ٹی آئی بڑی آسانی کے ساتھ جیت گئی۔ حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ گئی، اس کے ساتھ ہی وفاقی حکومت بھی دباؤ میں آ گئی۔ مزید کیا ہو گا؟ یہ کچھ ایسا راز نہیں۔
مسلم لیگ ن کی شکست کے اسباب کیا رہے ہیں؟ اس وجوہات بہت سی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ جو بیان کی جا رہی ہے ، یہ ہے کہ یہ عمران خان کے عزم، سخت جانی اور مستقل مزاجی کا نتیجہ ہے۔ ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عوام نے عمران خان کو مظلوم جانا اور ان کے بیانئے کی پزیرائی کی۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ کمر توڑ مہنگائی نے مسلم لیگ ن کو عوام میں غیر مقبول کیا ہے۔ اس تجزیے میں بھی وزن ہوسکتا ہے لیکن سب سے بڑی اور حتمی رائے وہی ہے جسے میاں نواز شریف اور مریم نواز سے منسوب کیا جاتا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
https://www.youtube.com/watch?v=S-UrJilS0hY
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں میاں صاحب اور مریم نواز صاحبہ کی رائے یہ تھی کہ ہمیں یہ بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے۔ اس رائے کے مقابلے میں ایک رائے یہ تھی کہ عمران خان کی حکومت کے نتیجے میں ملک کو جن اقتصادی مسائل کاسامنا کرنا پڑا ہے اور ملک عالمی برادری میں تنہا ہوا ہے، قومی مفاد میں اس صورت حال کی اصلاح کرنے کے بعد انتخابات کی طرف پیش رفت کی جائے۔ اس کے نتیجے میں مستقبل مسلم لیگ کا ہو گا۔ میاں نواز شریف نے اس رائے کا احترام کیا اور اپنی جماعت کے ان قائدین کو یہ موقع دیا کہ وہ یہ تجربہ کر دیکھیں۔ ضمنی انتخابات کے نتیجے میں میاں صاحب کی رائے کی اثابت ثابت ہو گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ آنے والے دنوں میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔
پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں قومی مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ اس سلسلے میں میثاق جمہوریت کی طرح کے ایک معاہدے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ یہ مثبت اور قابل عمل تجویز ہے ۔ اس پر عمل ہو نا چاہیے۔
سب سے اہم سوال یہی ہے کہ اب مسلم لیگ کو کیا کرنا چاہیے ؟ اس سلسلے میں میری کئی مسلم لیگی قائدین سے بات ہوئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پارٹی نے انتخابی مہم چلانے کے لیے مریم نواز کو تنہا چھوڑ دیا تھا ، باقی لوگ حکومت کرتے رہے۔ بدلے ہوئے حالات میں اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ اپنی حکمت عملی تبدیل کرے۔ بدلی ہوئی حکمت عملی کے تحت ضروری ہو گیا ہے کہ وہ سب پارٹی کے سینئر راہنماؤں کو میدان میں لائے جیسے شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف اور بہت سے وہ دوسرے قائدین جو عوام میں اثرات رکھتے ہیں ۔ یہ سب لوگ جب مریم نواز کے ساتھ میدان میں اتریں گے تو اس کے نتیجے میں صورت حال بدل ہو جائے گی اور مسلم لیگ عوام کو متاثر کرنے کامیاب ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد یہ رائے بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ اب فوری طور پر انتخابات کرا دیے جائیں۔ مسلم لیگ ن سے وابستہ کارکنوں کا خیال ہے کہ فوری انتخابات مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجے میں بحران شدید ہو جائے گا۔ بعض غیر جانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت پی ٹی آئی کو انگیج کرے۔ ضروری انتخابی اصلاحات کرے۔ اس دوران حکومت اپنی کارکردگی بہتر بنائے اور عوام کو اقتصادی دباؤ سے نکالنے کی کوشش کرے۔ اس دوران میں وہ کسی مناسب وقت پر انتخابات کا اعلان کردے۔
یہ تجزیے اپنی جگہ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں؟ وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح سنجیدہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں یا پنجاب کا سلطان راہی بن کر جارحانہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ زیادہ تر امکان یہی ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔